US documents leak: Security challenges in the Middle East

امریکی دستاویزات لیک:مشرقِ وسطیٰ میں سلامتی کے چیلنجز

:Share

ایران نے یکم اکتوبرکواسرائیل پرتقریباً200بیلسٹک میزائل داغے تھے۔اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے زیادہ ترفضامیں ہی تباہ کردیئے گئے تھے لیکن یقیناًکچھ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔فی الحال اسرائیل اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کومیڈیاسے چھپارہاہے۔یادرہے کہ اس سے قبل رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پراسرائیلی حملے کے بعدایران نے اسرائیل کی جانب ڈرونزاور میزائل داغے تھے جس کے بعداسرائیل کومزیدمحفوظ کرنے کیلئے امریکانے ہنگامی بنیادوں پرکام شروع کررکھاہے۔خطے میں مسلسل مزیدکسی خوفناک جنگ کے بادل ابھی تک منڈلارہے ہیں۔

چند دن قبل انہی خطرات کی نشاندہی ایک ٹیلی گرام چینل”مڈل ایسٹ سپیکٹیٹر”نے کچھ مبینہ خفیہ امریکی دستاویزات کوشائع کرکے خطے میں جاری خطرات سے آگاہ کیاہے کہ کس طرح امریکا کی جانب سے ایران پرحملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کاجائزہ لیاگیاتھا۔چینل کا دعویٰ ہے کہ یہ دستاویزات امریکی انٹیلیجنس سے وابستہ ایک اہلکارنے انہیں فراہم کی ہیں۔امریکی ایوانِ نمائندگان کے سپیکرمائیک جانسن نے عالمی میڈیاسےبات کرتے ہوئے کہاہے کہ انہیں اس بارے میں بریفنگ دی گئی ہے جس کی تفصیلات وہ فی الحال شییر نہیں کرسکتے، تاہم انھوں نے تصدیق کی ہے کہ اس ضمن میں تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ خفیہ امریکی دستاویزات کیسے لیک ہوئیں۔اِن دستاویزات کا لیک ہونا”انتہائی پریشان کُن”ہے۔

اس سے قبل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی)نے تین نامعلوم امریکی اہلکاروں کےحوالے سے بتایاتھاکہ امریکااس بات کی تحقیقات کر رہاہے کہ ایران پرممکنہ اسرائیلی حملے سے متعلق واشنگٹن کے جائزے پرمبنی دوخفیہ دستاویزات کیسے لیک ہوئیں۔ایک اورامریکی اہلکارنے اے پی کو بتایاکہ یہ دستاویزات اصلی معلوم ہوتی ہیں۔ان دستاویزات پر”ٹاپ سیکرٹ”لکھاہے اور تاریخ 15اور16اکتوبردرج ہے۔مذکورہ ٹیلی گرام چینل تہران سے چلایاجارہاہے اوریہ”مزاحمت کے محور”کی خبروں کوکورکرتا ہے۔ماضی میں اس چینل نے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ سیدعلی خامنہ ای کے حوالے سے میمزبھی شائع کی تھیں۔

سیٹلائٹ امیجزکے ذریعے ایران پرحملہ کرنے کی اسرائیلی تیاریوں کے حوالے سے مرتب کردہ یہ جائزہ دستاویزات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیل اب بھی اپنے فوجی سازو سامان کوایران پرحملے کیلئے نزدیکی اڈوں پرمنتقل کررہاہے اوراس نے حال ہی میں ایک بڑی فوجی مشق بھی کی ہے۔ امریکی سپیس انٹیلیجنس ایجنسی اورامریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے تیارکردہ یہ دستاویزات’فائیوآئیز‘یعنی امریکا،برطانیہ،کینیڈا، آسٹریلیا اورنیوزی لینڈکے پانچ ملکی انٹیلیجنس اتحادکے ساتھ شئیرکی جانی تھیں۔

ٹیلی گرام کے بعدامریکی چینل نے بھی اس حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے کہ امریکا تحقیقات کررہاہے کہ یہ دستاویزات کیسے لیک ہوئیں؟کیاکسی نے جان بوجھ کرانہیں لیک کیایایہ دستاویزات ہیکنگ جیسے دیگرطریقوں سے حاصل کی گئیں۔ایسے معاملات کی تفتیش عام طورپرامریکن فیڈرل پولیس (ایف بی اے)،وزارت دفاع اوردیگرامریکی سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔تاہم ایف بی آئی نے فی الحال اس پرکوئی تبصرہ نہیں کیاہے تاہم “اے پی”کے مطابق ان دستاویزات میں سے ایک اس دستاویزسے ملتی جلتی ہے جوتقریباً7ماہ قبل امریکی سپیس انٹیلیجنس ایجنسی کے ذریعے لیک ہوئی تھی اورامریکی ایئرنیشنل گارڈکے ایک اہلکار نے اسے لیک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔پینٹاگون نے اِن دستاویزات کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس کانوٹس تولیا ہے لیکن مزیدکوئی تبصرہ کرنے سے انکارکیاہے۔اس کے علاوہ اسرائیلی فوج(آئی ڈی ایف)نے بھی اے پی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کاجواب نہیں دیاہے۔

یادرہے کہ ایران کے حالیہ میزائل حملے کے بعداسرائیل نے کہاہے کہ وہ مناسب وقت پراوراپنے”قومی مفادات”کی بنیادپراس کا جواب دے گا۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ نیتن یاہوایران کی جوہری اورفوجی تنصیبات کی بجائے صرف فوجی مراکزکونشانہ بنائیں گے۔اسرائیل کے وزیردفاع یوو گیلنٹ نے بھی حال ہی میں اس عزم کااظہارکیاہے کہ جب اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائے گی تویہ”باقاعدہ ہدف بناکرکی جائے گی اورمہلک”ہوگی اوریہ بھی کہ ایران اس کااندازہ نہیں لگا پائے گاجس کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے ایران پرکسی بھی حملے کو”ریڈلائن”قراردیتے ہوئے خبردارکیا ہے کہ تہران اس کامناسب جواب دے گا۔

ایران کے وزیرخارجہ نے ترکی کے این ٹی وی چینل کوبتایاکہ اسرائیل پرایران کے میزائل حملے میں صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایاگیاتھااوراس کے بیلسٹک میزائل حملے اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ اورحماس کے سیاسی رہنمااسماعیل ہنیہ کے قتل کاجواب تھےمگراب ہم نے اسرائیل میں اپنے تمام اہداف کی نشاندہی کرلی ہے اوران پربھی ایساہی حملہ کیاجائے گا”۔اس کے ساتھ ہی ایران نے خلیجی عرب ریاستوں کو،جن میں سے بعض کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، خبردارکیاہے کہ وہ اپنی فضائی حدود کو اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے کیلئے استعمال نہ ہونے دیں کیونکہ جوبھی ملک ایران پر حملہ کرنے میں اسرائیل کی مددکرے گااسے کسی بھی ایرانی ردعمل کاہدف سمجھاجائے گا۔

یادرہے حماس کے رہنمایحییٰ سنوارکی شہادت کے بعدامریکا اسرائیل پرزوردے رہاہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی جانب بڑھے۔ امریکانے اسرائیل کوخبردارکیاہے کہ وہ لبنان کے شمال میں فوجی کارروائیوں کومزیدوسعت نہ دے اوروسیع ترعلاقائی جنگ کا خطرہ مول نہ لے تاہم اسرائیل کی قیادت نے بارہااس بات پرزوردیاہے کہ وہ ایران کے میزائل حملے کاجواب ضرور دے گا۔امریکی صدربائیڈن نے برلن میں صحافیوں کے اس سوال کہ اسرائیل کب اورکیسے ایران کے میزائل حملوں کاجواب دے گا،کاجواب دیتے ہوئے صرف”ہاں”کہامگرانہوں نے مزیدوضاحت نہیں کی۔

اہم بات یہ ہے کہ امریکامیں صدارتی انتخاب میں بھی کم وقت بچاہے اورایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایرانی تیل کی تنصیبات پرکسی بھی ایسے حملے کاخیرمقدم نہیں کرے گاجس کااثر تیل کی قیمتوں پرپڑسکتاہے اورنہ ہی وہ مشرق وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں گھسیٹاجاناچاہے گالیکن ٹیلی گرام چینل پرلیک ہونے والی دستاویزات پرنیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جون کربی کاکہناتھاکہ”دستاویزات لیک ہونے کے معاملے پرجوبائیڈن”گہری تشویش”کاشکارہیں”۔امریکی حکام اس بات کاتعین تاحال نہیں کر سکے ہیں کہ یہ دستاویزات جان بوجھ کرلیک کیے گئے ہیں یاانہیں حاصل کرنے کیلئے ہیکنگ کاسہارالیاگیاہے۔

عسکری تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ دستاویزات میں استعمال کی گئی ہیڈنگز(شہ سرخیاں)مستندنظرآتی ہیں اوراسی طرح کے الفاظ کااستعمال ماضی میں سامنے آنی والی دیگرخفیہ دستاویزات میں بھی کیاگیاہے۔ان پر”ٹاپ سیکرٹ”کے ساتھ ساتھ”ایف جی آئی” یعنی”فارن گورنمنٹ انٹیلی جنس”بھی لکھاہے۔بظاہریہ دستاویزات”فائیو آئیز”یعنی امریکا،برطانیہ،کینیڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈکے پانچ ملکی انٹیلی جنس اتحادکے ساتھ شئیرکی جانی تھیں۔ ان دستاویزات میں”ٹی کے”یعنی”ٹیلنٹ کی ہول”جیسے کوڈورڈبھی استعمال کیے گئے ہیں جس کا مطلب سیٹلائیٹ بیسڈسگنلز انٹیلی جنس اینڈامیجری انٹیلی جنس ہے۔

ان دستاویزات کے مطابق پتہ چلتاہے کہ اسرائیل ایران میں کہاں کہاں اہداف کونشانہ بنانے کی تیاریاں کررہاہے۔اس جائزہ رپورٹ کی بنیاد14اور 15اکتوبرکوامریکی جی وسپیشل انٹیلیجنس ایجنسی کی جانب سے اکھٹی کی گئی معلومات کاتجزیہ ہے۔اس جائزہ رپورٹ میں دوایئرلانچڈبیلسٹک میزائلوں “گولڈن ہوریزون”اور”راکس”کاذکرباربارآیاہے۔”راکس”ایک لانگ رینج (دور تک مار کرنے والا)میزائل سسٹم ہے جوکہ اسرائیلی کمپنی رافئل نے بنایاہے اوراس کے ذریعے زمین کے اوپراورزیرِزمین اہداف کونشانہ بنایاجاسکتاہے۔”گولڈن ہوریزون”سے مراد اسرائیل کابلیوسپیرومیزائل سسٹم ہے جس کی رینج تقریباًدوہزارکلومیٹرہے۔اس سے یہ عندیہ ملتاہے کہ اسرائیلی فضائیہ رواں برس یکم اپریل کی ہی طرزپرایران پرایک اورحملے کی منصوبہ بندی کررہی ہے لیکن یہ حملہ پچھلے حملے کے مقابلے میں وسیع ترہوگا۔اس مرتبہ وہ اپنے اِن دورتک مارکرنے والے ہتھیاروں کااستعمال کرنے کیلئے ایران کی ممکنہ دہمکی کی بناءپراردن کی فضائی حدودکوبھی استعمال نہیں کرے گاکیونکہ ایران پہلے ہی خبردارکرچکاہے کہ ممکنہ اسرائیلی حملے میں جن ممالک کی فضائی حدودیااڈے استعمال ہوئے انہیں ایران کاٹارگٹ سمجھاجائے گا۔

ان لیک ہونے والے دستاویزات سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ اسرائیل ایران کومزیدحملوں سے بازرکھنے کیلئے کسی بھی قسم کے جوہری آپشن کی تیاری نہیں کررہا۔اسرائیل کی درخواست پرامریکی حکومتوں نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیاکہ اس کے قریب ترین اتحادی یعنی اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ایسے میں ان دستاویزات میں جوہری ہتھیارکاذکرآناامریکاکیلئے شرمندگی کاباعث بن رہاہے۔ان دستاویزات میں اس بات کا ذکرنہیں کہ اسرائیل کب اورکون سے ایرانی اہداف کونشانہ بنائے گا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکانے اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات اور تیل کی تنصیبات کونشانہ بنانے کی مخالفت کی ہےتواس کے بعدپاسدارانِ انقلاب کے عسکری اڈے،اس سے جُڑی شخصیات اوربسیج فورس بچتے ہیں جوکہ ایران کے اندراورباہراپنے ملک کے خلاف مزاحمت کوختم کرنے کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

جہاں تک ایران پراسرائیلی حملے کاتعلق ہے توبہت سی شخصیات کاماننا ہے کہ انہیں توقع تھی کہ اسرائیل اب تک یہ کرگزرے گا لیکن رواں برس اپریل میں ایران نے بھی اسرائیل پرجوابی حملہ کرنے کیلئے 12دن انتظار کیاتھا۔خیال رہے اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایک ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنایاتھاجس میں پاسدارانِ انقلاب کے سات اراکین بھی ہلاک ہوئے تھے۔ایران پر اسرائیلی حملے میں تاخیرکی ایک وجہ امریکی خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔امریکانہیں چاہتاکہ اُن کے ملک میں صدارتی انتخاب سے پہلے خطے میں مزیدتناؤبڑھے تاہم دونوں صدارتی امیدواروں نے جس طرح اپنی انتخابی مہم میں اسرائیل کی کھلم کھلاحمائت کی ہے اوریحییٰ سنوارکی شہادت پرجس خوشی کااظہارکیاہے،اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسرائیل امریکی انتخابات سے قبل ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گالیکن نیتن یاہوکاسابقہ کرداراس سے بالکل مختلف ہے۔

ممکنہ طورپر یہ دستاویزات کسی ایسے شخص نے افشاں کی ہیں جوایران پرحملے کے اسرائیلی منصوبے کوناکام بناناچاہتاتھا۔ ایران سائبروارفیئرکے شعبے میں بھی وسیع صلاحیتیں رکھتاہے، اسی سبب یہ تحقیقات بھِی جاری ہیں کہ کہیں دستاویزات کی یہ لیک ہیکنگ کانتیجہ تونہیں ہے۔اگریہ دستاویزات اصلی ہیں تواس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قریب ترین دفاعی اتحادی ہونے کے باوجودبھی امریکااسرائیل کی جاسوسی کرتاہے۔ان دستاویزات کے جائزے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اسرائیلی فضائیہ ایران کے خلاف کوئی لانگ رینج حملہ کرنے کاارادہ رکھتی ہے اوران کی جانب سے کسی بھی متوقع ایرانی حملے کوروکنے کیلئےبھی تیاریاں کی جارہی ہیں۔مختصراًیہ سمجھ لیجیے کہ جب اسرائیل اپنے منصوبے پرعمل کرے گاتب ایک بارپھر مشرقِ وسطیٰ میں شدید تناؤ کی کیفیت طاری ہوجائے گی اورکیا اس تناؤ کے ردعمل کودنیابرداشت کرپائے گی۔

ادھرتہران اورماسکوکے درمیان عسکری اورتکنیکی تعاون جو2002میں یوکرین کی جنگ سے جاری ہے،اب اس کاتعلق ایران اسرائیل جنگ میں بھی نظرآرہاہے۔ایران اس سے قبل روس کوجنگی ڈرون اورہتھیاروں کی دیگرچھوٹی چھوٹی کھیپیں دے چکاہے جنہیں روسی فوج یوکرین پرحملے کیلئے استعمال کررہی ہے لیکن خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعدفوجی اورتکنیکی تعاون کواعلیٰ سطح تک بڑھایاجاسکتاہے۔روس ایران کو کچھ سوخوئی35 (فلانکر) لڑاکاطیارے فروخت کرسکتاہے۔یہ طیارہ اصل میں مصرکوفروخت کیلئےبنایاگیاتھالیکن ان دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پرکبھی عمل درآمدنہیں ہوسکا۔ایران نے ان جنگی طیاروں کوخریدنے میں اپنی دلچسپی ظاہرکی ہے۔

اگرایران کویہ لڑاکاطیارے مل گئے توایران کے خلاف کسی بھی ملک کی فضائی کارروائیاں مزیدمشکل ہوجائیں گی۔اس وقت ایرانی فضائیہ کے پاس صرف چنددرجن جنگی طیارے ہیں،جن میں سے زیادہ ترپرانے روسی اورامریکی ماڈلزہیں جواسلامی انقلاب1979سے پہلے کے دورکے ہیں۔70 فٹ سے زیادہ لمبااوردوانجن والاسوخوئی ایس یو-35روسی فضائیہ کاجدید ترین بھاری بھرکم سپرسونک لڑاکاطیارہ ہے اوراس کاایک انجن31ہزار پاؤنڈز جتنی طاقت فراہم کرسکتاہے۔بھاری بھرکم ہونے کے باوجود یہ جہاز پلک جھکتے ہی اپنی سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگرچہ2023 کے موسم بہارمیں ایرانی ریڈیو نے اقوام متحدہ میں ایران کے وفد میں شامل نامعلوم رکن کاحوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی تھی کہ جنگی طیاروں کامعاہدہ ہوگیاہے لیکن ایران کی جانب سے طیاروں کی فراہمی کے متعلق کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔

اس کے جواب میں روس ایران کومختصرفاصلے تک مارکرنے والے میزائل سسٹم”پنتسیر۔ایس ون”جیسے فضائی دفاعی نظام بھی فراہم کرسکتاہے۔یہ نظام طویل فاصلے تک مارکرنے والے دفاعی نظام اوردیگراہم اہداف کواسرائیلی میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے میں مددگارثابت ہوں گے۔خفیہ امریکی دستاویزات کے مطابق2023میں روسی کرائے کے جنگجوویگنرگروپ کی جانب سے اس نظام کوحزب اللہ یاایران کومنتقل کرنے کامنصوبہ تھا ۔ اس وقت امریکاکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اعلان کیاتھا کہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں امریکا”روسی افراد اوراداروں کے خلاف انسداد دہشت گردی پابندیاں لگانے کیلئےتیارہے” تاہم ابھی تک اس منصوبے پرعمل درآمدکے بارے میں کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔

دوسری طرف ایران،روس کوآپریشنل ٹیکٹیکل یاکم فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل بھیج سکتاہے۔روسی فوجی ہتھیاروں میں ایسے میزائلوں کااضافہ یوکرین میں جنگ کی موجودہ حالت پرخاصااثرڈالے گا۔اسرائیل کے ساتھ جنگ کی صورت میں ایران جواس ملک سے تقریباًایک ہزارکلو میٹر دورہے،کودرمیانے فاصلے تک مارکرنے والے میزائلوں کی ضرورت ہوگی۔دوسری جانب روس کو500کلومیٹرسے کم رینج والے ٹیکٹیکل یاکم فاصلے تک مارکرنے والے میزائلوں کی ضرورت ہے۔اس لیے روس کو ایسے آلات کی منتقلی سے ایران کی اسرائیل پرحملہ کرنے کی صلاحیت متاثرنہیں ہو گی

یہ مسئلہ اتناسنگین ہے کہ اس نے ماسکواورواشنگٹن کے درمیان مزیدسفارتی تناؤپیداکردیاہے۔گزشتہ ماہ ستمبرکے اوائل میں جو بائیڈن نے یوکرین کو روسی سرزمین پراہداف کے خلاف امریکی میزائل استعمال کرنے کی اجازت دینے پرغورکیا۔اس وقت امریکا، فرانس،جرمنی اوربرطانیہ نے سرکاری طورپرایران پرروس کوبیلسٹک میزائل فراہم کرنے کاالزام لگایاتھا۔میڈیا میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ میزائل پہلے ہی روس پہنچ چکے تھے لیکن دنیااس منافقت سے بے خبرنہیں کہ یہ تمام ممالک اس سے کہیں زیادہ خطرناک اسلحہ اسرائیل کوفراہم کررہے ہیں۔

اگرچہ کیئوکوروس کے اندراہداف پرحملہ کرنے کیلئےمغربی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہیں ملی ہے لیکن ماسکو نے یوکرین میں ایرانی میزائل استعمال کرنے سے بھی انکارکیاہے۔ایران نے سرکاری طورپران میزائلوں کوروس بھیجنے کی تردیدکی ہے۔لڑاکاطیاروں اوربیلسٹک میزائلوں کی ممکنہ فروخت ہتھیاروں کے سب سے بڑے سودے ہیں جومیڈیاکولیک ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک ان پریقین کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتاہے لیکن اس طرح کی مساوات کاامکان ایران اورروس کے درمیان فوجی اور تکنیکی تعاون کی اعلیٰ صلاحیت کوظاہرکرتاہے جوکہ خطے کے حالات کومتاثرکرتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ تعاون اسرائیل کے مفادات کومتاثرکرتاہے۔اگرچہ روس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اتنے کم اورکشیدہ نہیں ہیں جتنے ان کے دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن یہ اتنے قریبی بھی نہیں ہیں۔یوکرین خاص طورپراسرائیل کے موثر فضائی دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم میں دلچسپی رکھتاہے۔گویامستقبل میں مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے ساتھ ساتھ یوکرین کامسئلہ بھی امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے انتہائی خوفناک خواب بنتادکھائی دے رہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں