ڈونلڈٹرمپ نے47ویں امریکی صدرکی حیثیت سے حلف اٹھانے کے فوری بعد فوری اپنے اختیارات کابھرپوراستعمال کرتے ہوئے کئی اہم ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدرکی جانب سے منصب صدارت سنبھالنے کے پہلے ہی روزجاری کردہ حکمناموں کی یہ سب سے بڑی تعدادہے۔ان احکامات میں امیگریشن،ماحولیات،اورسوشل میڈیاپلیٹ فارمز جیسے موضوعات پراہم فیصلے شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے سابق صدرجوبائڈن کے دورِحکومت میں جاری کیے گئے78 صدارتی حکمنامے منسوخ کردیے۔ان فیصلوں کے اثرات صرف امریکاتک محدود نہیں رہیں گے بلکہ دنیابھرمیں ان کے سیاسی، اقتصادی،اورسماجی پہلوؤں پرگہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکامیں کسی بھی نئے صدرکی جانب سے عہدہ سنبھالتے ہی ایگزیکٹیوحکم ناموں پردستخط کرناعام سی بات ہے لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ حکم ناموں کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ ایگزیکٹیوآرڈرہوتاکیاہے اورانہیں کیوں جاری کیاجاتاہے؟
امریکی آئین کاآرٹیکل2صدرکوایگزیکیٹیوآرڈرجاری کرنے کااختیاردیتاہے۔امریکی صدراُس وقت بھی حکم دے سکتاہے جب کانگریس کومخصوص فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ وقت لگ رہاہویاجب انہیں کسی نئے قانون کی تفصیلات سامنے لانے کی ضرورت پیش آرہی ہو۔ایگزیکیٹوآرڈریاصدارتی حکمنامہ امریکی صدرکی طرف سے وفاقی حکومت کوایک تحریری حکم ہوتاہے جس کیلئےکانگریس کی اجازت نہیں چاہیے ہوتی۔یہ بڑی پالیسی میں تبدیلی بھی ہوسکتی ہے جیسے صدرٹرمپ نے2017میں دو متنازع آئل پائپ لائنوں کی تعمیرکی اجازت دے دی تھی یاچھوٹی بات بھی ہوسکتی ہے جیسے2015 میں صدراوبامانے کرسمس ایوکے موقع پرآدھے دن کی چھٹی دے دی تھی۔
کبھی کبھاراس نوعیت کے احکامات اندرونی بحران سے بچنے کیلئےیاجنگی صورتحال میں جاری کیے جاتے ہیں۔مثال کے طوردوسری عالمی جنگ کے تناظر میں فروری1942میں صدر فرینکلن ڈی روساویلٹ نے ایک ایگزیکٹیوآرڈرکے ذریعے ایک لاکھ 20ہزارجاپانی نژادامریکیوں کیلئےحراستی مراکزبنانے کاحکم دیاتھا۔ اس کے علاوہ1952میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے ہڑتال سے بچنے کیلئےصدرہیری ٹرومین نے سٹیل انڈسٹری کوحکومتی کنٹرول میں دے دیاتھا۔
اوول آفس(امریکی صدرکادفتر)میں،ٹرمپ نے امریکاکی جنوبی سرحد(میکسیکوسرحد)پرقومی ایمرجنسی نافذکرنے کے حکمنامے پردستخط کرتے ہوئے یہ الفاظ اداکیے”یہ بہت بڑاہے”۔انہوں نے چندمجرمانہ گروہوں کودہشتگردتنظیم نامزدقراردیاہے اورملک میں غیرقانونی طورپرمقیم تارکین وطن کے امریکامیں پیداہونے والے بچوں کوحاصل شہریت کے حق سے متعلق حکمنامے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ٹرمپ نے ایک ایسے حکمنامے پربھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت چارماہ کیلئےامریکی پناہ گزینوں کی آبادکاری کے پروگرام کومعطل کیاگیاہے،اس فیصلے کی تفصیلات فی الحال واضح نہیں ہیں۔ایک اورایگزیکٹیوآرڈرمیں امریکی فوج کوملک کی”سرحدیں سیل کرنے”کاحکم دیاہے۔یہ حکمنامہ جاری کرنے کیلئےمنشیات کی ترسیل،انسانی سمگلنگ اور سرحدی علاقوں میں جرائم کاحوالہ دیاگیاہے۔
صدرنے ایک ایسے حکمنامے پربھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت بین الاقوامی منشیات فروش اورجرائم پیشہ گروہوں کوغیر ملکی دہشتگردتنظیموں کے طورپرنامزدکیاگیاہے۔سلواڈورکے پناہ گزینوں پرمشتمل گینگ”ایم ایس13″اوروینزویلاکے گینگ ’Tren de Aragua‘کودہشتگردتنظیموں کی اُس فہرست میں شامل کیاگیاہے جس میں القاعدہ،نام نہاددولت اسلامیہ اورحماس کو عسکریت پسنداوردہشتگردتنظیمیں قراردیاگیاہے۔جنوبی سرحدپر اپنے ہنگامی اعلان کے ایک حصے کے طورپرٹرمپ نے قانون نافذکرنے والی ایجنسیوں کے سربراہان کوہدایت کی ہے کہ وہ امریکاکی”جنوبی سرحدکے ساتھ اضافی رکاوٹیں تعمیرکرنے”کی کوششوں کادوبارہ آغازکریں۔یہ ہدایت کسی ایگزیکٹوآرڈرکے تحت جاری نہیں کی گئی اوریہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس کام کیلئے فنڈنگ کہاں سے حاصل کی جائے گی۔یاد رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورصدارت میں دیوارکی تعمیرکیلئےدرکارفنڈزکاحصول ہی اس کام کو مکمل کرنے میں اہم رکاوٹ تھا۔ جب ٹرمپ 2016میں پہلی بارصدرمنتخب ہوئے تھے توانہوں نے جنوبی سرحدپردیوارتعمیرکرنے سے متعلق ایگزیکٹیوآرڈرپر دستخط کیے تھے۔اگرچہ اس دیوارکے کچھ حصے تعمیرکیے گئے تھے لیکن زیادہ ترکام اب بھی نامکمل ہے۔
صدرٹرمپ نے چینی ملکیت والے سوشل میڈیاپلیٹ فارم”ٹک ٹاک”پرپابندی کے قانون کے نفاذکوآئندہ75دنوں کیلئےملتوی کرنے کے ہدایت نامے پربھی دستخط کیے ہیں۔ٹک ٹاک انتظامیہ نے ٹرمپ کے اس اقدام کاخیرمقدم کیاہے۔یادرہے کہ ٹرمپ کے عہدے کاحلف اٹھانے سے کچھ دیرقبل ٹک ٹاک نے کچھ وقت کیلئےامریکامیں اپنی سروسزکوبندکردیاتھا تاہم یقین دہانی کے بعدسروسز کوبحال کردیاگیاتھا۔ٹرمپ نے کہاتھاکہ ان کے اس اقدام سے ٹک ٹاک انتظامیہ کوامریکامیں اپناپارٹنرتلاش کرنے کیلئےمزیدوقت ملے گاتاہم فی الحال جس ہدایت نامے پرٹرمپ نے دستخط کیے ہیں، اس کی مزیدتفصیلات واضح نہیں ہیں۔یادرہے کہ ٹرمپ ماضی میں ٹک ٹاک پرپابندی کے حامی تھے تاہم اس سوشل میڈیاپلیٹ فارم پراپنی انتخابی مہم کے دوران ملنے والی بڑی مقبولیت کے بعدانہوں نے اپنافیصلہ تبدیل کیاہے۔
ٹرمپ نے ایک ایسے ہدایت نامے پردستخط کیے ہیں جس کے تحت”ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشیئنسی”تخلیق کیاجائے گا۔اس ادارے کامقصد حکومت کی کارکردگی کوبہتراورمؤثربنانا ہے اورتوقع کی جارہی ہے کہ اس کی قیادت ایلون مسک کریں گے۔ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایلون مسک کواس نئی ایجنسی کے قیام کے بعدتقریباً20ملازمین اورنیادفترملے گا۔اسی طرح ٹرمپ نے وفاقی سطح پرنئی سرکاری بھرتیوں کوروکنے سے متعلق ہدایت نامے پردستخط کیے ہیں اوراس پابندی کا اطلاق اس وقت تک رہے گا جب تک ٹرمپ انتظامیہ حکومت پرمکمل کنٹرول حاصل نہ کرلے تاہم امریکی فوج میں بھرتیوں کو اس سے استثنی ہوگا۔اس طرح ٹرمپ نے ایک اوردستاویزپردستخط کیے ہیں جس کے تحت وفاقی حکومت کے ملازمین کوورک فرام ہوم یعنی گھروں سے کام کرنے کی بجائے آفس آکرکام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ٹرمپ نے”آزادی اظہارکی بحالی اورحکومتی سنسرشپ کوروکنے کیلئے بھی ایک حکمنامہ جاری کیاہے۔حکمنامے میں اٹارنی جنرل کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ گزشتہ انتظامیہ کے دورمیں محکمہ انصاف،سکیورٹیزاینڈایکسچینج کمیشن اورفیڈرل ٹریڈکمیشن جیسی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی سرگرمیوں کی چھان بین کرے ۔ نئے امریکی صدرکی جانب سے ایک ہدایت نامے پردستخط کیے گئے ہیں جس کامقصد”سیاسی مخالفین کے خلاف حکومت کو بطورہتھیار استعمال “روکنے کی کوشش ہے۔فوری طورپران دونوں ہدایت ناموں کے متعلق تفصیلات دستیاب نہیں۔
ٹرمپ نے امریکاکے عالمی ادارہ صحت(ڈبلیوایچ او)سے علیحدہ ہونے کاعمل شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔اس دستاویز پردستخط کرتے ہوئے بھی ٹرمپ نے کہا:اوہ،یہ بہت بڑاہے”۔ٹرمپ کی امریکاکوعالمی ادارہ صحت سے الگ کرنے کی دوسری کوشش ہے۔ٹرمپ کوویڈ19کے دوران عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے ناقدرہے ہیں۔وبائی امراض کے دوران بھی انہوں نے امریکاکے ڈبلیو ایچ اوچھوڑنے کااعلان کیا تھاتاہم ان کے بعدآنے والے صدرجوبائیڈن نے اس فیصلے کوواپس لے لیاتھا۔
ایک اورہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے تمام وفاقی ایجنسیوں کوٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حکومت کامکمل کنٹرول حاصل کرنے تک کوئی بھی نئے ضوابط جاری کرنے سے روک دیا ہے۔ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیوآرڈرجاری کرتے ہوئے اعلان کیاہے کہ امریکا صرف دوجنسوں مرداورعورت کوتسلیم کرے گا۔اس ہدایت نامے سے حکومتی مواصلات،شہری حقوق کے تحفظات اوروفاقی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ جیلوں کے حوالے سے ٹرانس جینڈر پالیسیاں متاثرہوں گی۔اس سے پاسپورٹ اورویزاجیسی سرکاری دستاویزات پربھی اثرپڑے گا۔اسی حکمنامے میں ٹرمپ نے ان تمام سرکاری پروگراموں ،پالیسیوں،بیانات اورمواصلات کوختم کرنے کاحکم دیاہے جو”جنسی نظریہ”کوفروغ دیتی ہیں یااس کی حمایت کرتی ہیں۔ایک علیحدہ ایگزیکٹیو آرڈرکے ذریعے ٹرمپ نے وفاقی حکومت کے تحت تمام ڈی ای آئی پروگراموں کوروکنے کاحکم دیاہے۔ڈی ای آئی ایسے پروگرام ہیں جن کے تحت کام کی جگہوں پرشفافیت،عزت اورسب کی شمولیت جیسے عوامل کوفروغ دیاجاتاہے۔
ٹرمپ کے ابتدائی حکمناموں میں سے ایک کے ذریعے خلیجِ میکسیکوکانام تبدیل کرکے خلیجِ امریکاکردیاگیاہے۔اسی حکمنامے کے تحت25ویں امریکی صدرولیم مکنلی کی خدمات کوخراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے الاسکاکے ماؤنٹ دینالی کانام ماؤنٹ مکنلی رکھنے کاحکم دیاہے۔صدرٹرمپ،مکنلی کی ٹیرف پالیسیوں سے بہت متاثرہیں۔سابق امریکی صدربراک اوبامانے اس پہاڑکانام ماؤنٹ مکنلی کانام تبدیل کرکے ماؤنٹ دینالی رکھاتھا۔ایک حکم نامے کے ذریعے صدرنے تمام وفاقی اداروں اورایجنسیوں کوحکم دیاہے کہ وہ عام امریکی شہریوں کی”کاسٹ آف لیونگ”یعنی گزربسرکیلئے درکاراخراجات کوکم کرنے کی کوششیں کریں۔یہ واضح نہیں ہے کہ اس ضمن میں کس ادارے یا ایجنسی کوکیاکام تفویض کیاگیاہے۔
دوسری مرتبہ عہدہ صدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ کی جانب سے پے درپے ایگزیکٹیوحکمناموں کااجراپہلے سے رائج نظام پرایک حملے کے مترادف ہے۔ صدرٹرمپ تمام اصول دوبارہ سے لکھ رہے ہیں۔ان کے اقدامات سے ظاہر ہوتاہے کہ ٹرمپ بطورصدر اپنے اختیارات کابھرپوراستعمال کرتے ہوئے امریکامیں اس بنیادی تبدیلی کولانے کی کوشش کریں گے جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے لیکن وہ محض اپنے دستخط کے ذریعے یہ سب نہیں کرسکتے ۔مثال کے طورپرانہوں نے ایک ایگزیکٹیوحکم نامے کے ذریعے امریکامیں پیدائش کے ساتھ ہی شہریت دیے جانے کے150سال پرانے حق کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس حکم کویقیناًعدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔اسی طرح ان کے کئی دوسرے احکامات پرعملدرآمدکیلئے قانون سازی کی ضرورت بھی پڑے گی لیکن اپنے قلم کی ایک جنبش سے انہوں نے امریکاکوپیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبردار کردیا ، عالمی ادارہ صحت سے الگ کرلیا اور میکسیکوکے ساتھ سرحدپرقومی ایمرجنسی نافذکردی۔
ٹرمپ نے اپنے منصب کے پہلے دن جوایگزیکٹیوآرڈرزجاری کیے ہیں،ان کے یہ اقدامات ان کی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی طرف پہلاقدم ہیں۔ان احکامات کادائرہ کارکئی اہم شعبوں تک پھیلاہواہے۔انہوں نے اپنے حمائتیوں کیلئے ایگزیکٹیو حکم بھی جاری کرتے ہوئے4سال قبل امریکی کیپیٹل ہل میں ہونے والے فسادات میں ملوث تقریباً 1600افرادکیلئےمعافی اورسزامیں کمی کردی ہے۔جنوری2021میں ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے2020کے صدارتی انتخاب کے نتائج مستردکرتے ہوئے امریکی قانون سازاسمبلی پر دھاوابول کرتوڑپھوڑکی تھی۔مزیدبراں ٹرمپ نے محکمہ انصاف کو کیپیٹل ہل فسادات میں ملوث مشتبہ افرادکے خلاف تمام زیرالتوامقدمات ختم کرنے کاحکم جاری کیاہے۔ٹرمپ کی جانب سے جن افرادکومعافی دی گئی ہے ان میں اوتھ کیپرگروہ کے رہنما سٹیورٹ رہوڈزشامل ہیں جنہیں2023میں18سال قیدکی سزاسنائی گئی تھی۔ پراؤڈبوائزکے سابق رہنما ہنری ٹیریو جنہیں بغاوت کی سازش کے الزام میں22سال قیدکی سزاسنائی گئی تھی۔ان کے وکیل کاکہناہے کہ ان کے مؤکل کی بھی رہائی کی امید ہے۔
ٹرمپ نے غیرقانونی امیگریشن کے خلاف سخت رویہ اختیارکرتے ہوئے نئے قوانین متعارف کروائے ہیں۔امریکی سرحدوں پر نگرانی کومزیدسخت کرنااورغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہے۔پناہ گزینوں کی تعدادمحدودکرنے کے علاوہ ان ممالک کی فہرست کوبھی توسیع دی ہے جن پرسفری پابندیاں عائدہیں۔2021کے اعدادوشمارکے مطابق،امریکانے پناہ گزینوں کے داخلے میں85فیصدکمی کی تھی،اورٹرمپ کی پالیسیوں کے دوبارہ نفاذسے یہ کمی مزیدبڑھ سکتی ہے۔
سابقہ حکومت کی ماحول دوست پالیسیوں کومستردکرتے ہوئے،ٹرمپ نے ماحولیات سے متعلق کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکاکوعلیحدہ کرنے کے اپنے پہلے دورکے فیصلے کوبحال کیااورماحولیاتی تحفظ کے کئی قوانین کونرم کرنے کاعندیہ دیاہے۔2020تک امریکاعالمی سطح پرکاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج میں15فیصد کے قریب حصہ دارتھا،اور نئی پالیسیوں سے یہ تناسب مزیدبڑھ سکتاہے۔اس سے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی کوششوں کوشدیددھچکالگنے کاامکان ہے۔ٹک ٹاک اوردیگرچینی ایپلیکیشنزپرپابندی کے فیصلے کودوبارہ نافذکرنے کے ساتھ ساتھ،ٹرمپ نے امریکی ٹیکنالوجی سیکٹرکو مضبوط کرنے پرزور دیاہے۔ان کے مطابق یہ فیصلے قومی سلامتی کے تحفظ کیلئےضروری ہیں۔چین اور امریکاکے درمیان2023 میں ٹیکنالوجی کی درآمدات اوربرآمدات کی مالیت600بلین ڈالرتھی،اوران پابندیوں سے اس میں واضح کمی کاامکان ہے۔
ٹرمپ نے سابقہ حکومت کی کووڈ-19ویکسینیشن اورصحت کی پالیسیوں کوتبدیل کرنے کے اشارے دیے ہیں۔انہوں نے ماسک مینڈیٹ اوروفاقی سطح پرویکسین کیلئےدیے گئے قوانین کو ختم کردیاہے۔امریکامیں2021میں ویکسینیشن کی شرح70فیصدتک پہنچ چکی تھی لیکن نئی پالیسیوں سے صحت کے شعبے میں بے یقینی پیداہوسکتی ہے۔ٹرمپ کے پہلے دورِصدارت میں،انہوں نے روس کے ساتھ بہترتعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔تاہم،یوکرین پرروسی جارحیت کے معاملے پران کی پوزیشن غیرواضح رہی۔دوبارہ اقتدارسنبھالنے کے بعد،ان کی پالیسی روس کی حمایت میں جھکاؤاور یوکرین کودی جانے والی امریکی امدادمیں ممکنہ کمی کااشارہ دیتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ اگرمیں اقتدارمیں ہوتاتویوکرین میں کبھی جنگ نہ ہوتی ۔انہوں نے پیوٹن سے دوستی کاہاتھ بڑھانے کا عندیہ بھی دیاہے۔یہ اقدامات نیٹواوریورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیداکرسکتے ہیں۔
ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی”ابراہام معاہدے”کے گردگھومتی رہی ہے،جس کے تحت اسرائیل اورمتعددعرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پرآئے۔انہوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیارکی تھی اورپابندیوں کوسخت کیاتھا۔ان کی ممکنہ واپسی مشرقِ وسطیٰ میں ایران-سعودی تعلقات پرمنفی اثرڈال سکتی ہے اورخطے میں کشیدگی کوبڑھا سکتی ہے۔یادرہے کہ یمن میں جنگ ختم کرانے میں چین نے اہم کردارادا کیا ہے جس سے امریکی اسلحہ سازکمپنیوں کے کاروبارمیں واضح کمی آئی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پران کی یکطرفہ حمایت اسرائیل کے حق میں رہی،جوخطے میں امن عمل کیلئےمزیدرکاوٹ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں موجودہ جنگوں کوختم کرنے اورمزیدجنگوں سے گریزکاوعدہ کیاتھا۔ان کامؤقف تھاکہ امریکاکو عالمی تنازعات سے دور رہناچاہیے اوراپنے وسائل اندرونی ترقی پرخرچ کرنے چاہئیں۔تاہم،ان کے جارحانہ بیانات اوراقدامات اس وعدے کی نفی کرتے نظرآتے ہیں۔ مثال کے طورپرٹرمپ نے گرین لینڈکوخریدنے کی تجویز پیش کی تھی،جس سے انکارپرٹرمپ نے قبضہ کاعندیہ دیا ہے جوڈنمارک اوربین الاقوامی برادری میں تنازعے کاباعث بنی ہے۔یورپی یونین نے ڈنمارک کی مکمل حمائت کااعلان بھی کردیاہے۔انہوں نے پانامااورکینیڈاکے ساتھ تجارتی اور سفارتی معاملات پرسخت بیانات دیے،جوان ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کاسبب بن گئے ہیں۔کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے ٹرمپ دہمکی کے بعدنہ صرف اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاہے بلکہ عملیسیاست سے الگ ہونے کااعلان بھی کردیاہے۔ٹرمپ کی جانب سے میکسیکوکے خلاف دیوارتعمیر کرنے کے اعلانات اورغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت رویے نے امریکااورمیکسیکوکے تعلقات کومزیدپیچیدہ کردیاہے۔
ان بیانات اوراقدامات نے نہ صرف امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پرمنفی اثرڈالابلکہ یہ بھی ظاہرکیاکہ ٹرمپ کی”جنگوں سے گریز”کی پالیسی محدودمقاصد کے تحت تھی،جس میں اقتصادی اورسیاسی مفادات کوترجیح دی گئی۔یادرہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کے اثرات دنیابھرمیں یقیناً محسوس کیے جائیں گے۔مثلاًامیگریشن پالیسیوں کی سختی سے امریکامیں سستی لیبرکی قلت ہوسکتی ہے،جومختلف صنعتوں کومتاثرکرے گی۔اس کے ساتھ ہی،چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی میں اضافے سے عالمی سپلائی متاثرہوسکتی ہے۔ترقی پذیرممالک جوامریکاکے ساتھ تجارتی تعلقات پرانحصارکرتے ہیں، انہیں شدیدنقصان کاسامناہوسکتاہے۔
ٹرمپ کے دورمیں عالمی سیاست میں قوم پرستی اورتحفظ پسندی کے رجحانات کوفروغ مل سکتاہے۔پیرس معاہدے سے علیحدگی جیسے اقدامات سے امریکا کی عالمی قائدانہ حیثیت پرسوالیہ نشان لگ سکتاہے،اوردیگرممالک کواپنی ماحولیاتی پالیسیاں ترتیب دینے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔روس اوریوکرین تنازعہ پران کے مؤقف سے یورپ میں امریکی اثرورسوخ کم ہوسکتا ہے۔امیگریشن قوانین میں سختی اورمسلم اکثریتی ممالک پرسفری پابندیوں سے دنیا بھرمیں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑک سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، تارکین وطن کی تعدادمیں کمی سے امریکامیں موجودمختلف کمیونٹیزکوسماجی او ر اقتصادی مسائل کاسامناکرنا پڑسکتاہے۔
“امریکاسب سے پہلے”کے نعرے پر مبنی وہ چاہتے ہیں کہ امریکی معیشت اورصنعتیں عالمی مسابقت میں سب سے آگے ہوں۔ تاہم،یہ حکمت عملی دنیاکے دیگرممالک کے ساتھ تنازعات کوجنم دے سکتی ہے۔ان کی قوم پرستی پرمبنی پالیسیزترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پربھی اثراندازہوں گی۔ٹرمپ کے اقدامات کے طویل المدتی اثرات کا اندازہ لگاناابھی مشکل ہے، لیکن ان کے ابتدائی فیصلے ظاہرکرتے ہیں کہ وہ ایک جارحانہ اورغیرروایتی حکمت عملی اپنانے کاارادہ رکھتے ہیں۔اس بات میں اب کسی کوشک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی صدارت کی مدت کاایک بھی لمحہ ضائع نہیں کریں گے۔وہ اپنی پہچان ایک ایسے صدر کے طورپربناناچاہتے ہیں جوتبدیلی کی علامت سمجھاجائے اورانہوں نے اس جانب کام شروع کردیاہے۔
ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں:
امریکاکی اندرونی سیاست میں مزید تقسیم پیداہوسکتی ہے۔
چین کے ساتھ تجارتی جنگ شدت اختیارکرسکتی ہے۔
عالمی سطح پرماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات میں کمی آسکتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کی شدت بڑھ سکتی ہے۔
یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیداہوسکتی ہے۔
ٹرمپ کے ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صدارتی حکمت عملی ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، جو عالمی نظام پر دیرپا اثر ڈالے گی۔