The threat of possible division in Syria and the Israeli role

شام میں ممکنہ تقسیم کاخطرہ اوراسرائیلی کردار

:Share

جونہی بشارالاسد خاندان کا53سال سے زائدمحیط ظلم وجبراوراستبدادکادورختم ہوا،اسرائیل نے فوری طورپران حالات کافائدہ اٹھاتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں پرقائم ایک غیرفوجی بفرزون سمیت شام کی سرحدی حدودمیں موجودچنداہم پوزیشنزپرقبضہ کرلیاہے۔اسرائیل شام میں”عسکری اہداف” پراب تک سینکڑوں حملے کرچکاہے۔اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اسرائیل اورشام کے درمیان واقع گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم غیرفوجی زون یابفرزون پربھی قبضہ کر لیاہے۔

اسرائیل کاکہناہے کہ فوجی کاروائیوں کامقصداسرائیلی شہریوں کے تحفظ کویقینی بناناہے تاہم کچھ ماہرین کادعویٰ ہے کہ اسرائیل اپنے ایک دیرینہ دشمن(شام)کوکمزورکرنے کیلئے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہاہے اسرائیل کی جانب سے شام کے بحری بیڑے پربھی ایک بڑے حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔اسرائیلی دفاعی افواج(آئی ڈی ایف)نے ایک بیان میں کہاہے کہ اُس کے جنگی طیاروں نے پیرکی رات البیضااوراللاذقيہ کی بندرگاہوں کونشانہ بنایاجہاں شامی بحریہ کے15بحری جہازلنگراندازتھے توایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل شام پرمسلسل حملے کیوں کررہاہے؟
نیتن یاہونے پھرہرزوہ سرائی کرتے ہوئے کہاہے کہ اس نے اسرائیلی ڈیفنس فورسزکوگولان کے پہاڑیوں میں واقع بفرزون اور دیگرنزدیکی کمانڈنگ پوزیشنزمیں داخل ہونےکاحکم دیاہے۔اسرائیل کوباغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئےیہ اسرائیل کی جانب سے اٹھایاگیاایک عارضی اقدام ہے تاہم سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے اس نوعیت کے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی ہے۔

ہیئت التحریرکی جانب سے دمشق کاکنٹرول سنبھالنے کے بعدسے اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے دمشق میں موجودشامی فوج کی تنصیبات اورہیئت التحریرکے اہداف حلب،حماہ،دمشق ،لتاکیا،طرطوس اوردیگرمقامات پر350فضائی حملے کیے ہیں۔دراصل اسرائیلی حملوں کامقصدشام کی فوج کی لڑنے کی صلاحیت کوختم کرناہے۔شام کی سرحدی اورفضائی حدودکی مسلسل پامالی کی جارہی ہے جبکہ اسرائیل نے دنیاکودھوکہ دینے کیلئے دعویٰ کیاہے کہ اس کے حملوں کامقصداس بات کویقینی بناناہے کہ شام میں موجودکیمیائی ہتھیارشدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگیں۔

اسرائیل کے مطابق سابق بشارالاسدکے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کاذخیرہ اب کس کے پاس جائے گا،اس کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں کہ شام میں کہاں اورکتنے کیمیائی ہتھیارموجودہیں لیکن سوال یہ ہے کہ خوداسرائیل کے پاس جومہلک ہتھیارہیں،کیا ان کوتباہ کرنے کیلئے بھی اسرائیل پر حملہ کرناجائزتصورکیاجائے گا؟چنددن پہلے اقوامِ متحدہ کے ہتھیاروں کے ادارے نے شامی حکام کومتنبہ کیاتھاکہ اگراُن کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں توانہیں محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

شام کی فوج پرالزام ہے کہ انہوں نے ملک کے دیگرعلاقوں میں بھی سیرین گیس اورکلورین گیس سے بنے کیمیائی ہتھیاراستعمال کیے تھے۔بشارالاسد کی فوج نے2013میں دمشق کے مضافاتی علاقے غوطہ میں ایک حملے میں سیرین گیس استعمال کی تھی اور اس حملے میں ایک ہزارسے زائدافرادکے مارے جانے کی اطلاعات تھیں۔ان کاکہناہے کہ بشارالاسدنے یہ ہتھیاراس لیے رکھے تھے تاکہ اسرائیل کے ساتھ تنازع میں کسی حدتک طاقت کاتوازن پیدا ہوسکے لیکن وہ ان ہتھیاروں کو(اسرائیل کے خلاف)استعمال کرنے میں کبھی پہل نہیں کرنے کے خواہاں تھے لیکن اب شام میں ایک بالکل ہی مختلف حکومت ہے۔اسرائیلی مؤقف یہ بھی ہے کہ ہیئت التحریر کے پاس بھی کیمیائی ہتھیارموجود ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنے مخالفین پرکیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھےلیکن سوال یہ ہے کہ گولان کی پہاڑیوں میں توکہیں بھی کیمیائی ہتھیاروں کاذخیرہ موجودنہیں توپھراقوام متحدہ کی طرف سے قائم کردہ بفرزون پرقبضہ کرنے کاکیامقصدہے؟

گولان کی پہاڑیاں شام کاوہ علاقہ ہے جس پراسرائیل نے1967سے قبضہ کررکھاہے۔گولان کی پہاڑیاں1200مربع کلومیٹرپرپھیلی ہوئی ہیں۔یہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباً60 کلو میٹرجنوب مغرب میں واقع ہیں۔1967کی جنگ کے دوران شام نے گولان کی پہاڑیوں سے اسرائیل پر حملہ کیاتاہم اسرائیل یہ حملہ پسپاکرنے میں کامیاب رہااوراس حملے کے ردعمل میں اسرائیل نے1200 کلومیٹرکے علاقے پرقبضہ کرلیا۔شام نے 1973کی مشرق وسطیٰ جنگ(یوم کپور)کے دوران گولان کی پہاڑیوں کاقبضہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہاتھا۔بعدازاں1974میں شام اوراسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے پردستخط کیے اورتب سے اقوامِ متحدہ کی نگران فوج وہاں تعینات ہے۔

بعدازاں1974میں شام اوراسرائیل نے ایک جنگ بندی کے معاہدے پردستخط کیے جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج کوگولان کی80کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کے دونوں اطراف سے انخلاکی ضرورت تھی اوراس علاقے کو”ایریاآف سپریشن”قراردیاگیااور اس کے بعدسے اقوام متحدہ کا”ڈس انگیجمنٹ آبزرورفورس”نامی یونٹ اس معاہدے کی تعمیل کی نگرانی کے سلسلے میں وہاں موجودہے۔تاہم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے1981میں اس علاقے کواسرائیل نے یکطرفہ طورپراپناعلاقہ قراردے دیاتھا تاہم اسرائیل کے اس اقدام کوعالمی سطح پرت سلیم نہیں کیاگیا اور اسے سخت تنقیدکانشانہ بنایاگیاتاہم2019میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس ضمن میں سابقہ امریکی پالیسی کوترک کرتے ہوئے اس علاقے پراسرائیل کاحق تسلیم کرلیا۔شام کے مطابق وہ آئندہ اسرائیل سے اُس وقت تک کوئی امن معاہدہ نہیں کرے گاجب تک وہ گولان کے پورے خطے سے انخلانہیں کرتا۔نومبر2024میں شام نے اقوام متحدہ سے شکایات کی تھیں کہ اسرائیل بفرزون کے قریب اوربعض مقامات پراس کے اندرخندقیں کھودرہاہے۔

جب گولان پہاڑیوں پرشام کاکنٹرول تھاتو1948سے1967تک وہ پورے شمالی اسرائیل پرگولہ باری کرنے کیلئے باقاعدگی سے توپ خانے کا استعمال کرتاتھا۔دمشق ان پہاڑیوں سے تقریباً 60کلومیٹرشمال میں واقع ہے اوران پہاڑیوں کی بلندی سے دمشق سمیت جنوبی شام کے زیادہ ترحصے واضح دکھائی دیتے ہیں,اس جغرافیے کی وجہ سے اسرائیل کویہ مقام شامی فوج کی نقل وحرکت پر نظررکھنے کیلئےایک بہترین مقام فراہم کرتاہے۔ان پہاڑیوں پر کنٹرول اسرائیل کوشام کی جانب سے کسی بھی ممکنہ فوجی حملے کے خلاف قدرتی بفرفراہم کرتاہے (جیسا کہ 1973کی جنگ کے دوران ہواتھا )۔

دوسری جانب گولان کی پہاڑیاں اس خطے میں،جوزیادہ تربنجرزمین پرمشتمل ہے،پانی کی فراہمی کاایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔ان پہاڑیوں کی بلندیوں سے بہہ کرنیچے آنے والابارش کاپانی دریائے اردن میں داخل ہوتاہے،جس کی بدولت اس دریاکے اِردگردکی زمین اتنی زرخیزہے کہ یہاں انگوراوردیگر پھلوں کے باغات پنپتے ہیں جبکہ یہ زمین مویشیوں کیلئےچراگاہیں بھی فراہم کرتی ہے۔ ماضی میں شام اوراسرائیل کے درمیان کسی بھی امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شام کایہ مطالبہ رہاہے کہ اسرائیل 1967سے پہلے کی پوزیشن پرواپس جائے اورقبضہ کیے گئے علاقے کومکمل خالی کرے۔

تاہم اگرایساہوتاہے توشام کو بحیرہ طبریا کے مشرقی ساحل کا کنٹرول مل جائے گا اور اسرائیل تازہ پانی کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہو جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد مزید جانب مشرق ہونی چاہیے تاکہ خطے کے اہم ذرائع اور وسائل سے محروم نہ ہو سکے۔ اسرائیل میں رائے عامہ یہی ہے کہ اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ حکمت عملی کے لحاظ سے یہ بہت اہم ہے کہ اسے واپس نہ کیا جائے۔

گولان کی پہاڑیوں پر ماضی میں آباد زیادہ تر شامی عرب باشندے 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20 ہزارافراد رہائش پذیر ہیں۔ اسرائیلیوں نے 1967 کے تنازعے کے اختتام کے فوراً بعد اس علاقے میں آبادیاں بنانی شروع کر دیں تھیں تاہم یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں

یہ یہودی آباد کار یہاں بسنے والے تقریباً 20 ہزار شامیوں کے ساتھ رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دروز فرقے سے ہے اور جو گولان پر اسرائیلی قبضے کے دوران یہاں سے نکلے نہیں تھے۔ شام کا کہنا ہے کہ یہ سرزمین (گولان کی پہاڑیاں) ہمیشہ سے اس کی ملکیت ہیں اور وہ بارہا اس علاقے کو واپس لینے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے دفاع کیلئےبہت اہم ہیں اور ان کا کنٹرول ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

اس علاقے سے شامی فوج اس وقت نکل گئی تھی جب باغی گروہوں کے دستے دمشق کی جانب بڑھ رہے تھے اور بشار الاسد کا اقتدار ختم ہو رہا تھا اور اسی موقع پر اسرائیلی کی دفاعی افواج نے گولان کی پہاڑیوں پر غیر فوجی بفر زون کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ نتن یاہو ایک مرتبہ پھراقوام عالم کو گمراہ کرنے کیلئے کہہ رہاہے کہ اُس کی خواہش ہے کہ شام میں آنے والی حکومت کے ساتھ پُرامن اور ہمسایوں والے تعلقات قائم کر سکیں۔ تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسرائیلی ریاست اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔اسرائیل میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ شام کی جانب سے فورسز گولان میں داخل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ مستقبل میں ہیئت التحریر گولان پہاڑیوں سے اسرائیل کے اند داخل نہ ہو سکے ، اس لئے اسرائیلی فوج سرحد میں مزید اندر تک داخل ہو گئی ہے لیکن اس بیانئے پر یقین کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔

اسرائیلی فوج یہ بھی تسلیم کر رہی ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں میں غیر فوجی بفر زون سے باہر کے علاقے میں بھی موجود ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت آگے نہیں گئے ہیں۔ ان کی افواج ’عارضی دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہیں اور یہ عارضی بندوبست اس وقت تک کیلئےہے جب تک کوئی مناسب انتظام نہیں ہو جاتا۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ شام میں ابھرنے والی نئی قوتوں کے ساتھ پرامن اور ہمسائیگی پر مبنی تعلقات رکھیں لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم اسرائیل کی ریاست اور اسرائیل کی سرحد کے دفاع کیلئےجو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کریں گے۔

شام سے سامنے آنے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں سے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق سے 25 کلومیٹر کی دوری تک پہنچ گیا ہے لیکن اسرائیلی فوجی ذرائع نے اس بات کی تردید کی اور کہا ہے کہ فوج بفر زون سے آگے بڑھی ہے مگر اس حد تک نہیں۔ کئی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے شام میں حالیہ اقدامات کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ نے اسے ’شام کی سرزمین پر قبضہ اور 1974 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

نیتن یاہو نے کہا کہ “اس نے یہ اقدامات اسرائیل کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئےاٹھائے ہیں کیونکہ شام پر باغی گروہوں کے قبضے کے بعد 1974 کا معاہدہ ’فعال‘ نہیں رہا” بہت سے تجزیہ کار اسرائیل کے اس اقدام کے حوالے سے دیے گئے جواز کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور نیتن یاہو کے مؤقف کو کوئی بھی تسلیم کرنے کا تیار نہیں کہ وہ شام کی جانب سے حماس کے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے جیسے کسی بھی حملے کو روکنا چاہتا ہے۔شام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا، اور اسرائیل کی جانب سے ان اقدامات کواپنی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئےکیا گیا پیشگی اقدام قرار دیکر غیر فوجی بفر زون میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کا کوئی جواز نہیں بلکہ کھلی جارحیت ہے۔

شام کے باغی گروپوں کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل سے قبضہ چھڑانے کے امکانات مستقبل قریب میں انتہائی کم ہیں۔ ہیئت التحریر ملک کے اندرونی معاملات میں اس حد تک مصروف ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک نیا تنازع پیدا کرنے کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے شام کے علاقوں میں موجودگی شام میں آنے والی مستقبل کی حکومتوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو خراب کرے گی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا ہے کہ اُن کی فوج شام کے فوجی اڈوں پر فضائی حملے صرف اور صرف اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل سٹریٹجک ہتھیاروں کے نظام پر حملہ کرتا ہے جیسے باقی ماندہ کیمیائی ہتھیار یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور راکٹ تاکہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ شام میں بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق وہ صرف دو یا تین مقامات پر ہیں لیکن 250 سے زائد فضائی حملے کر کے آپ ملک (شام) کو بہت زیادہ کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی ایسا ہی لغو الزام عراقی صدر صدام حسین پر لگا کر عراق کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کے ساتھ کئی ملین عراقیوں کو شہید کردیا گیا تھا اور اب تک اس کے پٹرول پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اسرائیل احتیاطی تدابیر کے طور پر بدترین حالات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ سب بے سود ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلق استور کرنے کا طریقہ نہیں۔ہیئت تحریر الشام‘ کی قیادت میں اسد خاندان کی سفاکانہ کہلائی جانے والی اور دہائیوں پر محیط حکمرانی کے خاتمے کے بعد اب شام کے مستقبل کے بارے میں کئی اہم سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے اہنے بیانات میں شام کو متحد کرنے کا عہد کیا ہے تاہم یہ بات غیر یقینی ہے کہ آیا وہ اس مقصد کو حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ اقوام متحدہ نے شام میں تمام گروہوں کے درمیان تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر شام کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ تاہم ماہرین نے ملک کے مستقبل کے تین ممکنہ منظرناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ شام کے حق میں سب سے بہتر تو یہ ہو گا کہ ہیئت تحریر الشام ملک میں موجود دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرے اور ذمہ داری کے ساتھ حکومت کرے۔ جنگ کے بعد شام میں اب قومی مفاہمت کے ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہ بدلہ لینے اور لوٹ مار کی اس روایت کو توڑنے کا موقع ہے جس کی مثال پڑوسی ریاستوں میں ملتی ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔

اپنے ابتدائی بیانات میں جولانی نے شام کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد اور باہمی احترام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ شام میں موجود متعدد گروہوں کے ایجنڈے ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔ تاہم اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ لیبیا کی طرح شام بھی مختلف متحارب دھڑوں میں تقسیم کردیا جائے اور کوئی ایسا دھڑا برسرِاقتدار نہ آ جائے جو اسرائیل سے دشمنی رکھتا ہو۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی یقیناً شام میں موجود دھڑوں میں نفاق پیدا کرکے خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اس خانہ جنگی کی آڑ میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کے دیگر ممالک جن کو فی الحال نیتن یاہو نے اقوام متحدہ مین اپنی تقریر کے دوران سبز رنگ میں دکھا یا ہے، ان کو کب اس خوش گمانی سے نجات ملے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں