اسلام آباد کی احتساب عدالت نے3جولائی کوشریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کافیصلہ محفوظ کیاتھاجسے سنانے کیلئے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔تاہم گزشتہ روزنواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ظافرخان کے توسط سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنے کیلئے باضابطہ یہ مؤقف اختیار کیاکہ وہ اس ٹرائل کاحصہ رہے ہیں اور مسلسل عدالت آتے رہے لیکن اچانک ان کی اہلیہ کلثوم نوازکی طبعیت شدیدخراب ہونے سے صورتحال تبدیل ہوگئی اورڈاکٹرز نے کلثوم نوازکی طبعیت میں بہتری تک واپس نہ جانے کامشورہ دیاہے۔جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبعیت بہترہوگی وہ پاکستان آئیں گے،لہذا کچھ دن کیلئے فیصلہ مؤخرکیا جائے لیکن عدالت نے مزیدوقت دینے کی استدعامسترد کرتے ہوئے بالآخرفیصلہ سنا دیاجس میں نیب کی جانب سے ایون فیلڈ(لندن فلیٹس)ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف،ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز،بیٹی مریم نوازاورداماد کیپٹن ریٹائرڈمحمدصفدرکوملزم ٹھہرادیاگیا۔ فیصلہ سنانے کے وقت سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کی بیٹی مریم نوازلندن میں جبکہ مانسہرہ میں موجودگی کی وجہ سے عدالت نہیں آئے تھے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے ایون فیلڈریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو10سال، ان کی صاحبزادی مریم نوازکو7سال اورکیپٹن (ر)صفدرکوایک سال قیدکی سزااورنوازشریف کو80 لاکھ پانڈ اورمریم نوازکو20لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیاہے جب کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کوسرکاری تحویل میں لینے کابھی حکم دیا ہے۔مریم نوازکوجھوٹی دستاویزجمع کرانے پربھی ایک سال مزید قید کی سزاسنائی گئی ہے تاہم استغاثہ ان پرکوئی کرپشن ثابت نہیں کرسکا۔میاں نوازشریف پریہ الزام ہے کہ وہ برطانیہ میں واقع ایون فیلڈ کے چارفلیٹوں میں سرمایہ کاری ان کے ذرائع آمدن سے زائد ہے اورجس وقت یہ فلیٹس ان کے بچوں کی ملکیت بنے،اس وقت وہ عمرکے لحاظ سے اس قابل نہیں تھے کہ خودخریدسکیں اس لئے ان فلیٹس کی خریداری میں میاں نوازشریف نے سرمایہ کاری کی تھی جبکہ انہوں نے یہ دعویٰ کیاکہ یہ فلیٹس بچوں کوان کے”دادا”نے تحفہ میں دیئے ہیں لیکن نیب کی احتساب عدالت نے ان کایہ مؤقف ماننے سے انکارکردیاکہ بچوں کی کفالت باپ کے ذمے ہوتی ہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایسی ہزاروں مثالیں موجودہیں کہ”دادا”اپنے پوتوں اورپوتیوں کو اپنی جائیدادمیں سے حصہ دینے پرقادرہے اورکوئی قانون اس کواس حق سے محروم نہیں کرسکتا تاہم شریف خاندان اپنے اس مؤقف کوبھی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکااوراس مقدمے میں قطری شہزادے کاکردارمؤثرطورپرثابت نہیں ہو سکا۔
نیب پراسیکیوٹر نے ملزمان کے فیصلوں سے متعلق میڈیا کو آگاہ کیا کہ حسین نواز اور حسن نواز عدالت میں پیش نہیں ہوئے،ان سے متعلق سزا نہیں سنائی گئی۔مریم نوازلاہورکے حلقہ این اے127 اور پی پی137،جبکہ ان کے شوہرصفدراین اے 14مانسہرہ سے امیدوارتھے جواب الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔ترجمان الیکشن کمیشن کاکہنا ہے کہ مریم نوازکے سزایافتہ ہونے سے الیکشن پرفرق نہیں پڑے گا،سزایافتہ ہونے کی وجہ سے بیلٹ پیپرزسے مریم نوازاوران کے شوہر صفدرکا نام نکال دیا گیاہے۔ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طورپر18گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے،جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا بھی شامل تھے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10جون کوسماعت کے دوران احتساب عدالت کوشریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسزپرایک ماہ میں فیصلہ سنانے کاحکم دیا تھاجس میں دودفعہ مدت بڑھائی گئی۔نیب پراسیکیوٹرنے مزیدبتایاکہ نیب آرڈیننس میں سزاکے خلاف اپیل کیلئے 10دن رکھے گئے ہیں اس لیے ملزمان کوسزاکے خلاف 10دن میں اپیل کاحق حاصل ہے۔اس فیصلے کے بعد نوازشریف نے اپنی اسی فلیٹ میں پریس کانفرنس کے ذریعے اپناردّ ِعمل ظاہرکرتے ہوئے واپس پاکستان کاعندیہ تودیالیکن اسے اپنی شدیدترین اہلیہ کلثوم نوازکے ہوش میں آنے سے مشروط کردیاہے تاہم نوازشریف نے پاکستان میں اپنے وکلاء کواس فیصلے کے خلاف کاروائی اوراپنی ضمانت دائر کرنے کی ہدایات بھی دے دی ہیں لیکن اہم ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ نوازشریف 25جولائی سے کچھ دن قبل پاکستان پہنچ جائیں گے تاکہ نہ صرف انتخابات میں اپنی جماعت کی سیاسی ساکھ کوضعف پہنچانے سے بچا سکیں بلکہ سیاسی ہمدردی کاووٹ بھی حاصل کرسکیں۔
ورلڈبینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت دنیاکے 216غریب ممالک میں173 نمبرپرہے جس کے زرمبادلہ کے ذخائرتاریخ کی کم ترین سطح پرپہنچ گئے ہیں اوراب ہمیں اپنے قرضوں کے سودکی ادائیگی کیلئے بھی آئی ایم ایف کے پاس جاناہوگا۔یہ وہی کشکول ہے جس کے بارے میں سابق وزراعظم نوازشریف کئی بارتوڑنے کادعویٰ کرچکے ہیں۔اس ضمن میں حیران کن امریہ ہے کہ جب ریاست اتنی غریب ہے کہ ملک چلانے کیلئے آئی ایم ایف اوردیگر مالیاتی اداروں سے قرض لیکررموزمملکت چلاتے ہیں توپھرہمارے سیاستدانون کے پاس اتنی دولت کہاں سے آ گئی؟یہاں مسئلہ نگران وزیراعظم ہی کانہیں بلکہ قریباًتمام سیاستدانوں کاہے جن میں نواز شریف اور ان کاخاندان بھی شامل ہے۔مریم نوازجن کاکہناتھا:بیرون ملک توکیا،اندرون ملک بھی میری کوئی جائیدادنہیں،میں تواپنے والدکے ساتھ رہتی ہوں تواب الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گوشواروں میں خود انہیوں نے اپنی جائیدادکااظہارکرکے اپنے ہی سابقہ بیان کی نفی کردی۔یادرہے کہ پنجاب کے ایک بہت ہی سنیئربیوروکریٹ احدچیمہ بھی کرپشن کے سلسلے میں پچھلے کئی ماہ سے نیب کی حراست میں ہیں اوراس کے ساتھ ہی نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن کوبھی حراست میں لے لیاگیاہے اوراس کے گھرمیں چھاپہ مارکراہم دستاویزات کوبھی قبضہ میں لے لیاگیاہے۔یہ خبریں بھی میڈیامیں گرم ہیں کہ موصوف کونوازشریف کے خلاف کرپشن میں سلطانی گواہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔
اسی طرح آصف علی زرداری کے جنہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنے گوشواروں میں کروڑوں روپے نقد،اربوں روپے مالیت کی جائیدادکااظہارکیا ہے اوران کے نوجوان بیٹے بلاول زرداری اوران کی بیٹیوں کے نام کروڑوں روپے کی نقدی اور اربوں روپے کی جائیدادکاالیکشن کمیشن میں اظہارپریہ سوال بھی سامنے آتاہے کہ ان کی ذرائع آمدنی کیاہیں، کیایہ بھی نوازشریف کی اولاد کی طرح تحقیق طلب مسئلہ نہیں؟کیاتحقیقاتی ادارے آصف زرداری اوران کی اولاد سے ذرائع آمدنی کب دریافت کریں گے؟شنیدہے کہ نیب نے زرداری کے بہت ہی قریبی ساتھی عبدالمجید اور مشہورزمانہ بینکرلوائی کو گرفتارکرلیاہے جس کے ذریعے پاکستان سے باہرغیرملکوں میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کاالزام ہے۔نیز انتخابات میں حصہ لینے والے دیگرامیدواروں کے اثاثوں کی فہرست کی مالیت پڑھ کرکیاان کے امین وصادق ہونے پرسوال نہیں اٹھتا ؟اربوں روپے کی جائیدادکوبڑی آسانی کے ساتھ لاکھوں کابتا کربالآخرکس کوبیوقوف بنایاجارہاہے؟انتخاب میں حصہ لینے والوں سے ٹیکس کی مدمیں ملک کوکیااداکررہے ہیں،اس کی بابت کون تحقیق کرے گا؟
انتخابی معرکہ لڑنے سے قبل الیکش کمیشن کے گوشواروں میں آصف زرداری اوران کے اولادنے ملک کے خزانے میں کتناٹیکس اداکیاہے،اس کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے آناضروری ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اوران کی جماعت کے دیگررہنماء بشمول شاہ محمود قریشی،علیم خان کے گوشواروں کی نامکمل تفصیلات اورملکی خزانے میں ٹیکس کی ادائیگی کے بعدقوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان رہنماؤں کا کاروبار زندگی اورشاہانہ زندگی کے اخراجات کون برداشت کررہاہے جبکہ یہ ہمہ وقت سیاست کررہے ہیں وگرنہ احتساب کا عمل یک طرفہ سمجھ کر کوئی یقین نہیں کرے گا۔اثاثوں کی تفاصیل سامنے آئی ہیں توبعض سیاستدان اربوں سے بھی آگے کھربوں کے دائرے میں ثابت ہوگئے لیکن حد یہ ہے کہ انہوں نے ایک پائی بھی سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی۔اثاثوں کے اظہارسے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ نیب اوراس نوع کے احتسابی عمل میں مشغول دیگرادارے اس جانب دھیان دیتے ہیں یانہیں مگر یہ حقیقت زیادہ تلخ ہے کہ غرباءمیں کروڑوں،اربوں اورکھربوں کے” کنگلے”ہرسطح پراورہر شعبہ زندگی میں موجودپائے جاتے ہیں۔
اطلاعات مظہرہیں کہ نگران وزیراعظم ناصرالملک سنگاپور،برطانیہ میں بھی کروڑوں کی املاک رکھتے ہیں،اسلام آبادمیں تین پلاٹ ،ڈپلومیٹک انکلیومیں ایک اپارٹمنٹ،سوات میں 45دوکانیں، فلور مل،سی این جی اسٹیشنزمیں شئیرزاوردس کروڑروپے کے بینک بیلنس کے مالک ہیں۔یہ تفصیل الیکشن کمیشن نے جاری کی ہیں۔ چیف جسٹس کی تنخواہ یقیناًاتنی ہوتی ہو گی کہ اتنی جائیدادبنائی جاسکے،اب یہ نہیں معلوم کہ سابق چیف جسٹس صاحبان کے پاس کیاکچھ ہوگا۔ یہ پاکستانیوں کیلئے کوئی قابل فخربات نہیں کہ ان کاوزیراعظم ارب پتی ہے کیونکہ خودپاکستانی عوام کی کیاحالت ہے؟ یہ سب کے سامنے ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستانی عوام کی مالی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ عوام کی کثیرتعدادروٹی کھانے سے قاصراورفاقوں پرمجبورہے۔ ہمارے بچوں کی نصف سے زائد تعدادضرورت کے مطابق غذانہ ملنے کے باعث کمزوررہ جاتی ہےاورجسمانی لحاظ سے عمر کے مطابق طاقت سے محروم رہتے ہیں۔جسمانی نشوؤنمابھی پوری نہیں ہوسکتی۔
یہ غربت ہی ہے جس کی بناء پرہمارے بچوں کی کثیرتعداداسکول کی شکل بھی دیکھ نہیں پاتی اور چائلڈ لیبرپرمجبورہوتی ہے تاکہ ان کے گھروں کا چولہاجل سکے۔اب اتنے غریب ملک کے حکم رانوں اورسیاستدانوں کے پاس اگردولت کے اتنے بھاری بھرکم خزانے موجودہوں توذہنوں میں سوال تو اٹھتاہے۔بہرغنیمت ہے کہ ہمارے نگران وزیراعظم کے پاس شوگرملیں نہیں ہیں۔شوگرملوں کی کثیرتعدادزرداری اورمیاں نوازشریف کے پاس ہے اور اس کے بعدجہانگیرترین کانام آتاہے جنہوں نے اپناکیریئرایک کالج کے لیکچررسے شروع کیاتھا۔یادرہے کہ آصف زرداری کے ایک سابق جگری دوست ذوالفقارمرزاتوآج یہ شکوہ بھی کرتے نظرآرہے ہیں کہ آصف زرداری نے ان کی کئی شوگرملوں پرقبضہ کررکھا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مرزاذوالفقارکے پاس اتنی شوگرملیں اورجائیدادکہاں سے آئیں وہ تونہ ملک کے صدراورنہ ہی وزیراعظم، صرف تھوڑے عرصہ کیلئے صوبائی وزیرداخلہ ضروربنے تھے اورہزاروں کی تعدادمیں اپنے حامیوں میں آتشیں اسلحے کے لائسنس تقسیم کرنے کااعتراف بھی کیاتھا؟بس ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزاقومی اسمبلی کی اسپیکر تھیں جنہوں نے اپناعہدہ ختم ہونے سے قبل اس غریب قوم کے خزانے سے ساری عمرکیلئے کئی بیش بہا مراعات کاقانون منظور کروایاتھا۔آج کل یہ محاورہ توہرکسی کی زبان پرہے کہ حق حلال کی کمائی سے کوئی ارب پتی نہیں بن سکتا ۔کسی سرکاری ملازم کی تنخواہ کتنی ہی کیوں نہ ہووہ دوچارکروڑسے زیادہ جمع نہیں کرسکتالیکن یہ ممکن نہیں کہ وہ اندرون وبیرون ملک اربوں کے اثاثوں کے مالک بن جائے۔
جہاں تک نگران وزیراعظم کے اثانوں کاسوال ہے توچونکہ سابقہ چیف جسٹس ناصرالملک بحیثیت ایک جج بھی اچھی شہرت کے مالک ہیں اوران کا ماضی بھی بے داغ ہے،اس لئے توقع تویہی ہے کہ ان کے پاس جوجائیداداورنقدرقم ہے ،وہ رزق، حلال ہی سے حاصل ہوئی ہے،اس کی وضاحت تووہ خودہی دے سکتے ہیں۔عوام توصرف اندازے ہی قائم کر سکتے ہیں اورسابقہ شہرت کودیکھ کریہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اثاثے حلال کمائی سے ہی بنائے گئے ہوں گے۔ہمارے حکمران اورخاص طورپروزرائے خارجہ وتجارت اورہمارے دیگرحکمران وقتاً فوقتاًغیرملکی دوروں کے دوران میں اکثر بیرونی سرمایہ کاروں اورکمپنیوں کواپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں توانہیں اب یہ اکثرجواب ملتاہے کہ پہلے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرلیں اوربیرونی ملکوں کے بینکوں میں رکھے ہوئے اپنے اربوں ڈالراورپاؤنڈزملک میں لے آئیں لیکن اپنے آنے والی نسلوں کی خاطرایساکرنے سے گریزکیاجاتاہے۔
عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اکثروبیشترہمارے حکمرانوں کاتعلق ایلیٹ کلاس سے ہوتاہے جن کوغربت کے معنی بھی نہیں آتے اورنہ ہی یہ علم ہوتاہے کہ غربت کے مسائل کیاکیاہیں اوریہ کہ غریب خاندان کس طرح زندگی بسرکرتے ہیں۔کیاکھاتے ہیں،کیاپیتے ہیں، کیا پہنتے ہیں اورکس طرح اپنی معصوم خواہشات کاگلاگھونٹتے ہیں۔جب ایک شخص غربت کے بارے میں جانتاہی نہیں کہ یہ بھی دنیامیں کوئی شئے ہے اس وقت تک اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ غربت سے پیداہونے والے مسائل ختم کردے گا،دیوانے کاخواب ہی قراردیاجاسکتاہے۔