Thirsty For Revenge

بدلے کے پیاسے

:Share

عالمی میڈیامیں یہ چیختی چھنگاڑتی خبرکوئی پہلی مرتبہ توشائع نہیں ہوئی جودنیاکی سپرپاورکی جمہوری اورانسانی حقوق کی پامالی پرنوحہ کناں تھی بلکہ اس سے قبل بھی ایسے سانحات پرنہ توکوئی انسانی حقوق کی تنظیم نے احتجاج کیااورنہ ہے کمزور اورغلام مسلم ممالک کی تنظیم اوآئی سی نے کوئی بیان جاری کیا۔گوانتانا موبے میں 19سال گزارنے کے بعدپاکستانی سیف اللہ پراچہ کواس حال میں رہائی ملی کہ جس پرنہ توکوئی معذرت کی گئی اورنہ ہی کسی ادارے نے اس غیر انسانی سلوک پررتی بھرتاسف کااظہارکیا۔میں اس پیش رفت کوایک اشتعال انگیزانجام سمجھتاہوں جس میں ایک پرخوف زندگی کوایک عجیب وغریب تجسس میں محدودکردیاگیاہے۔یہ سب کچھ پاکستان سے تعلق رکھنے والے75سالہ تاجرسیف اللہ پراچہ کے ساتھ ہواہے جنہیں اسی سال اکتوبر میں امریکا کی سرپرستی میں چلنے والے قیدخانےگوانتاناموبے سے خاموشی کے ساتھ رہاکردیاگیاہے۔

پراچہ کی رہائی کے بعدمتعدد اخباری تنظیموں نے مشاہدہ کیاکہ وہ ایسے معمرترین بے گناہ قیدی تھے جنہیں قیدمیں ایک لمحہ بھی نہیں گزارناچاہئے تھا کیونکہ امریکی حکام ان کے بارے میں کوئی ایک ایساثبوت تلاش نہ کرسکے جوانہیں مجرم ثابت کرنے کیلئےجوازفراہم کرتا۔سیف اللہ پراچہ کو19سال ایسے قید خانے میں رکھا گیاجسے”سی فرنٹ کمپائونڈ”کہاجاتاہے۔وحشت انگیزروایتی خاردارآہنی باڑیں،رکھوالی پرمامورکتے اورمسلح امریکی فوجیوں سے لیس پوسٹیں ہوتی ہیں،یہ قیدخانہ سیاحوں کیلئے ایک ایسی پُرکشش تفریح گاہ کامنظرپیش کرتاہے جہاں غروب ہوتاسورج سمندرکابوسہ لیتادکھائی دیتاہے۔ سیف اللہ پراچہ کی رہائی کوجوچیز خبریت فراہم کرتی ہے،وہ گوانتاناموبے میں موجودان کے بارے میں بے ضابطگی کاروّیہ ہے کیونکہ وہاں زیادہ ترایسے قیدی ہیں جوان سے بہت کم عمرہیں۔

یہ نہ صرف ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیف اللہ پراچہ کے قریباً20سال ایک ایسے قیدخانے میں ضائع کردیئے گئے جواغواءکاری کے گھنا ؤ نے کام کی وجہ سے بدنام زمانہ ہے بلکہ اس طویل عرصے میں امریکی اغواءکاروں اورجیلروں نے انہیں کسی جرم کا مرتکب بھی قرارنہ ٹھہرایا۔اس خوفزدہ صورتحال کی ذمہ داری اس عرصے میں قصرسفیدکے ان تمام فراعین پر یکساں طورپر عائدہوتی ہے جنہوں نے اس کمزورمعمرترین شخص اوراس کے خاندان کے ساتھ ایک لمحے کیلئے بھی افسوس کااظہارنہیں کیا۔سیف اللہ پراچہ پریہ الزام تھاکہ وہ نہ صرف القاعدہ کے ہمدردبلکہ انہیں مالی مددبھی فراہم کرتے ہیں۔جھوٹ پرمبنی یہ دومشہور الفاظ یا موقف یعنی”القاعدہ سے تعلق اورمالی مددکی فراہمی”استعمال میں لائے گئے جنہیں سرکارِ امریکا کسی فردکوملوث قرار دینے کیلئے استعمال کرتی رہی۔ان الفاظ کے علاوہ ایک اورلفظ دہشتگردی ہے جوبلاثبوت بہ کثرت استعمال میں لایاگیا۔

جولائی2002ء میں ایف بی آئی کے ایک جاسوس نے سیف اللہ پراچہ کوتھائی لینڈکاسفراختیارکرنے پرکامیابی سے آمادہ کیاجہاں ان کواغواءکرکے افغانستان لے جایاگیاجوعالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔انہیں بلگرام میں موجودایک امریکی قیدخانے میں رکھاگیاجہاں ان کاکسی سے رابطہ نہ رہا۔اس دوران انہیں پہلی مرتبہ دل کادورہ پڑنے کاسامناکرناپڑا۔القاعدہ کومالی مددفراہم کرنے یاااس کےمفادات کی ترجمانی کرنے جیسے الزامات کے بارے میں ثبوت فراہم کئے بغیر14 مہینے ان کے چہرے کوڈھانپ کر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اورپاؤں میں بیڑیاں ڈال کرانہیں گونتاناموبے لے جایاگیا۔

2005ء میں سیف اللہ پراچہ کے نیویارک میں رہائش پذیربیٹے عذیرکوگرفتارکیاگیااورتیس سال قیدکی سزااس جرم کے ارتکاب میں دی گئی کہ عذیر نے دہشتگردی کیلئے مادی مددفراہم کی تھی۔13سال بعد2018ءمیں امریکی فیڈرل کورٹ کے جج نےعدم ثبوت کی بناء پران کی رہائی کاحکم دیا۔امریکی صدورنہ صرف احتساب سے محفوظ ہیں بلکہ شرم سے بھی عاری ہیں۔میرانہیں خیال کہ بش جونئیر،بارک اوبامااورٹرمپ،سیف اللہ پراچہ کوجانتے تھے اوران کے ساتھ برتاؤسے بھی باخبر تھےکیونکہ امریکاکے کمانڈر انچیف بننے کاپہلا اصول یہ ہے کہ قومی مفادکے دفاع میں امریکی فوج کومخالف افرادکوتہہ تیغ کرنے کیلئے بھیجاجائے۔

اس عرصے میں سیف اللہ پراچہ ان افرادکی قیدمیں رہے،جواپنے صدارتی کتب خانوں کی وجہ سے مشہورہیں جبکہ سیف اللہ پراچہ کے بارے میں خاص طورپربارک اوباماکا روّیہ زیادہ شرمناک رہا۔2010ءمیں امریکی صدرکے حکم کے مطابق ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جس نے صدرکوبتایاکہ گوانتانا موبے میں موجودکچھ قیدیوں کے بارے میں ثبوت حاصل نہیں ہوسکے ہیں لیکن ان قیدیوں کورہاکیاگیاتویہ بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔2013ء میں یہ معلومات سامنے آئیں کہ سیف اللہ پراچہ کاشماران17قیدیوں میں ہوتا ہے جن کے خلاف کسی جرم کے شواہدموجودنہیں۔اس موقع پرایک بارپھر دیانت پر سیاست غالب آگئی۔اوبامانے رہائی کی بجائے ایک ایسے بیمارفردکوقیدمیں رکھنے کوترجیح دی جس کاخاندان پاکستان میں ان کی رہائی کامنتظرہے۔

سیف اللہ پراچہ کی اس طویل قیدکے حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ وہ بطورتاجرامریکامیں1970ءسے رہنے اورکام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے۔قیدکے اس تلخ تجربے نے ہرموقع پرنہ صرف ان کی بے گناہی کوثابت کیابلکہ ان کے اس نئے ملک سے پیاراوراحسان مندی کوبھی عیاں کیاہے۔ بدلے کے پیاسے اورمتشددکالم نگاروں نے امریکاکواکسایاتھاکہ وہ عراقیوں پر حملے کرے اورانہی کالم نگاروں نے کابل،بغداد اوردیگر جگہوں پر”دہشتگردوں”کے تعاقب کیلئے بھی امریکاکواکسایا۔

سیف اللہ پراچہ کی گرفتاری اس بات کااظہارہے کہ ری پبلکن اورڈیموکریٹ دونوں مستقبل میں اپنے وطن کومحفوظ رکھنے کیلئے کتنے ظالم ہوسکتے ہیں۔اس حوالے سے نہ کوئی قانون کی عملداری کوپوچھتاہے نہ بین الاقوامی قوانین کو،نہ ہی امریکی آئین میں فراہم کئے گئے حقوق اورنہ شفافیت کو،اورظاہرہے کہ نہ ہی سیف اللہ پراچہ کو۔ان کی زندگی کے بہترین اورقیمتی ترین برسوں کی کوئی اہمیت نہیں۔بحیثیت شوہر،والد،بھائی اوربیٹا،ان کی کوئی اہمیت نہیں۔اس صورتحال میں اگر سیف اللہ پراچہ اوران کے خاندان کے مصائب کی کچھ تلافی ہوسکتی ہے تووہ غیرمنصفانہ قیدکیلئے معافی نامہ ہے۔امریکی اداروں کی جانب سے معافی نامہ جاری ہوناچاہئےلیکن ان فراعین کاتکبراس راستے میں مانع ہے۔امریکی صدورسیف اللہ پراچہ جیسے فردسے معافی نہیں مانگیں گے کیونکہ اس سے ان صدوراور دفتر صدر کارتبہ کم ہوتاہے۔یہ بات اہم ہے،سیف اللہ پراچہ قطعاًاہم نہیں۔

سیف اللہ پراچہ کی حالیہ دنوں کی ایک تصویرظاہرکرتی ہے کہ وہ اب بھی انسانیت کیلئے پُرعزم ہیں اورشائدان کی حسن مزاح بھی برقرارہے۔اس تصویر میں وہ ہاتھ باندھے،سفیدٹی شرٹ میں ملبوس،طنزیہ مسکراہٹ لئے کراچی کے ایک میکڈونلڈریسٹورنٹ میں بیٹھے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ سیف اللہ پراچہ کورہائی کے بعدجو توجہ ملی ہے،اس کے بعدوہ گمنامی میں چلے جائیں گے اوراپنی صحت بحال رکھنے کی مقدوربھرکوشش کریں گے۔غروب ہوتے سورج سے لطف اندوزہوں گے ۔یہ سب کچھ وہ اس طرزِ احساس کے ساتھ کریں گے کہ وہ ان خوش فہم صدورسے زیادہ اچھے ہیں جن کے دامن انسانیت کے خلاف مظالم سے داغدارہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں