اب توسیاسی پنڈت،عالمی مخبر،بین البراعظمی تجزیہ نگاراورمقا می دانشوربھی وحشت ناک موسموں کی داستانیں بیان کررہے ہیں۔دنیاکے کسی بڑے اخبار یارسالے کواٹھالیں،کسی عالمی حالات حاضرہ کے ماہرکامضمون پڑھ لیں،یاپھرکسی ملکی تجزیہ نگار کی گفتگوملاحظہ کر یں،یہ سب ایک آنے وا لے خوف اور گھروں پردستک دینے والی آفت کی نشاندہی کرتے نہیں تھکتے۔وہ جو کل تک اس مملکت خدادادپا کستان کے مطلق العنان حکمرانوں کوامریکاکاساتھ دینے پرشاباش دیاکرتے تھے ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں کو سراہاکرتے تھے،آج ان کی زبانیں بھی ایک لفظ بولتی پھرتی ہیں”ہم عالمی طاقتوں کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حلیف بن کرپچھتارہے ہیں”۔یہ غلط فہمی ہمیں اپنے دماغ سے نکال دینی چا ہئے بلکہ اب ہم اس دہشتگردی کی جنگ میں عالمی طاقتوں کا”ٹارگٹ” ہیں۔ہماری معاشی برتری پرعالمی ایجنسی نے بھی اپنی مہرثبت کردی ہے کہ کیاایٹمی قوت دیوالیہ ہونے پردنیاکیلئے کس قدرخطرناک ہوسکتی ہے،اس کامداوابھی عالمی طاقتوں کوکرناہوگا”کئی قسم کے پروگرام طشت از بام ہورہے ہیں کہ اس سلسلے میں مشرقی سرحدوں پر ہندوستان کوکوئی کردارسونپاجاچکاہے اورافغانستان سے دہشتگردی کابڑھتا ہواعفریت بھی منہ کھولے یلغارکیلئے آخری تیاریوں میں ہے۔یہ بحث نئی نہیں.
یہ سیاسی پشین گوئیاں کوئی آج شروع نہیں ہوئیں۔مغرب کودیکھاجائے تومدتوں بڑے بڑے انسٹیوٹ اورتھنک ٹینک حکومتی پیسوں اورخصوصی ما لی امداد سے میرے ملک کے مستقبل کے با رے میں اپنی ترجیحات بناتے رہے،منصوبہ بندیاں کرتے رہے اور موٹی موٹی رپورٹیں مرتب کرتے رہے۔ کوئی2015، کوئی2020اورکوئی2025تک اس نازک اندام مملکت کامستقبل دیکھتارہاتو کسی نے خوبصورت نقشوں میں رنگ بھرکراس ملک کا جغرافیہ مرتب کرکے گوگل پرشائع بھی کردیا۔اسے نقشے پراپنی مرضی سے ایسے تقسیم کیا جیسے سالگرہ کاکیک کاٹاجاتاہے۔اپنے منصوبہ کواپنی خواہشوں اوراپنے خوابوں کوعملی صورت دینے کا وقت آیاتوجوان منصوبوں اورسکرپٹ میں مرکزی کردارتھے،انہوں نے ریہرسل کے طورپراپنی اپنی لائنیں د ہراناشروع کردیں۔ کسی نے جغرا فیہ تبدیل ہونے کی دہمکی دی،توکسی نے اس دہمکی پراپنی جوابی تقریرمیں سردھنا،کھل کرداددی۔لیکن وہ جنہیں آنے وا لے دنوں کی سنگینی کااندازہ تھاان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ان کی راتیں اضطراب اوردن بے چینی سے گزرنے لگے اورآج بھی یہی کیفیت ہے
سیاسی تبصرہ نگارتوآج مشرقی اورمغربی سرحدوں کی جا نب سے حملے کی پشین گوئیاں کررہے ہیں لیکن وہ کہ جن کے بارے میں میرے رسول مخبرصادق ﷺ نے فرمایاتھاکہ”مومن کی فراست سے ڈرو،اس لئے کہ وہ اللہ کے نورسے دیکھ رہاہوتاہے”انہوں نے مہینوں پہلے اس سانحے سے آگاہ کردیاتھا لیکن انہیں ایک بات کایقین تھاکہ سب کچھ ہماری بہتری کیلئے ہونے والاہے۔لیکن زندگی سے محبت اورموت کاخوف رکھنے وا لے مجھ پرٹوٹ پڑے جب میں نے اس مرد درویش کی بات کھول دی۔لیکن کیاکوئی سیدالانبیا کی اس حد یث کوجھٹلاسکتاہے۔آپ ﷺ نے فرمایا”ایساہوگاکہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کیلئے اکٹھی ہوجا ئیں گی اورایک دوسرے کوایسے بلا ئیں گی جیسابھوکے ایک دوسرے کوکھانے پربلا تے ہیں”۔ایک شخص نے عرض کیاکہ یہ اس لئے ہوگاکہ ہم تعدادمیں کم ہوں گے اوردشمن زیادہ؟فرمایا”نہیں،مسلمان تواس وقت بہت ہوں گے مگرایسے ہوجائیں گے جیسے دریاکے بہاؤ پرپڑاہوا کوڑا کرکٹ،دریاجدھربہتاہے ادھرہی بہہ جائے،تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اورتم”وہن”کاشکارہوجاؤگے” ۔کسی نے پوچھا”وہن کیاہوتاہے؟آپ ﷺ نے فرمایاکہ”دنیاکاعشق اورراہ حق میں موت کوناخوش جاننااور اس سے بھاگنا”۔
میرے رسول مخبرصادق ﷺ کی صداقت پرایمان کی حدتک یقین کرنے والے جانتے ہیں کہ ہم اس بیماری کاشکارہیں۔وہ خوف جس کوہم برسوں پہلے اپنی غیرت،حمیت،وقاراور عزت وناموس بیچ کرنکلے تھے کہ ہماراتورابورانہ بن جائے،آج اس خوف سے بچنے کی مہلت ختم ہورہی ہے توہمارے ماتھےپر پسینہ آ رہاہے کہ دشمن نے اپنی ساری شکست کاملبہ ہم پرڈال کربغیرجنگ کئے تسخیرکرنے کاپلان تیارکرلیاہے۔ہم نے قصرسفیدکی برسوں خدمت کرکے جس مہلت میں کا میا بیوں کے ڈنکے بجائے،اس کی بنیادوں میں کتنے بے گناہوں کاخون تھاہمیں شایدیادتک نہ ہو؟لیکن وہ آج بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پرچڑھ دوڑنے کاارادہ رکھتے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ کسی عسکری مداخلت کی غلطی نہیں کریں گے،اپنے مضمونوں میں،اپنی رپورٹوں اورتبصروں میں ہمارامقدمہ کھول کھول کربیان کرتے پھرتے ہیں۔
ہمیں آج بھی اس طرح یادکیاجاتاہے کہ ایک ہی فون کال پرڈھیرہونے والے کمانڈو کی یہ وہ سرزمیں ہے جہاں سے57ہزارپروازیں ہوئیں اورافغانستان کے بے گناہ اورمظلوم مسلمانوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیئے گئے۔چھ سو سے زیا دہ” خطرناک” افرادپکڑکردشمنوں کے حوالے کئے گئے۔اپنی افواج سے مغربی سرحدکو محفوظ بنایاگیاتا کہ عالمی طاقتیں کھل کرمسلمان افغان بھائیوں کے گلے کاٹ سکیں۔لیکن اس ساری مہلت میں جومیرے ملک پر گزری اس کی داستان کوئی بیان نہیں کرتا؟جامعہ حفضہ اورلال مسجد پرکیا گزری ؟ واناوزیرستان سے لیکرسوات تک اورکراچی سے لیکر بلوچستان تک گرتی تڑپتی لا شوں کاکوئی تذکرہ نہیں کرتا؟لاکھوں بے گناہ بے گھرقبائلیوں کاکوئی ذکرکسی انسانی حقوق کی رپورٹ میں موجودنہیں۔وہ جوایک کال پربزدل کمانڈو کے سرنڈرہونے کے عوض اپنی جان سے گئے، بے گھرہوئے،دربدرہوئے،وہ جن کے گھر بموں کی زدمیں رہے،جن کے پیارے لاپتہ ہوگئے،وہ ڈومہ ڈولہ کے مد رسہ میں قرآن پڑھنے والے معصوم اوربیشتر یتیم بچے جن کاتورابورابنادیاگیاان کیلئے کسی مغربی انسا نی حقوق کی تنظیموں کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی،ان کیلئے امریکی افواج بھی آ جا تیں تواس سے زیادہ کیابرا کرتیں۔
لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز39برس پاک فوج کا حصہ رہے، یہ تین نسلوں سے فوجی ہیں، یہ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے تھری سٹار جنرل تک پاک فوج کے پورے کمانڈسسٹم کاحصہ رہے۔اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ”یہ خاموشی کہاں تک” کے نام سے اپنی بائیوگرافی لکھی جوخاصی متنازعہ تھی۔یہ کتاب ایک دھڑکتے دل اورقوم سے شرمندہ ایک ایسے جنرل کی آپ بیتی ہے جس نے مکمل جرأت کے ساتھ اپنی،اپنے ادارے اوراپنے ساتھیوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کااعتراف کیا۔جنرل شاہد نے فوج، حکومت اورسیاستدانوں کی کشتیوں میں موجود ان تمام سوراخوں کی بھی کھل کرنشاندہی کی جن کوہم کبھی صابن،کبھی گونداور کبھی کاغذلگاکربندکرتے ہیں اور کبھی قالین،دری یاجائے نمازکے نیچے چھپادیتے ہیں مگرانہیں مستقل بند کرنے سے قاصرہوتے ہیں۔
یہ کتاب منافقت پرمبنی نظام کا جہاں مکمل تجزیہ بھی ہے اور ایک ایسے شخص کا اعتراف جرم بھی۔ہم ان کے خیالات اورانکشافات سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ہم انہیں یکسرمستردنہیں کرسکتے کیونکہ جب دھواں اور آگ دونوں موجودہوں توپھرزیادہ سے زیادہ یہ بحث کی جاسکتی ہے،یہ آگ لگائی کس نے تھی یااسے بجھانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے لیکن آگ اوردھوئیں کے وجودسے انکارنہیں کیاجاسکتااوریہ حقیقت ہے،سیاستدان ہوں،حکومت ہویاپھرفوج ہو،ملک کے تمام اداروں میں دھواں بھی ہے اورآگ بھی۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ فوج،حکومت اور سیاستدان اگرآج اس کتاب کو سسٹم کے بارے میں تحقیقاتی مکالمہ سمجھ کر پڑھ کر75سال سے جاری غلطیوں کی اصلاح کرلیں توکم ازکم ڈھلوان پرجاری سفرضرور رک سکتاہے،ہم مزید پھسلنے سے ضروربچ سکتے ہیں۔
شاہدعزیزکی پوری کتاب انکشافات کاخزانہ ہے لیکن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پرویزمشرف کے کردارسے متعلق حصہ چشم کشاہے،ہم اگرخطے میں امریکا کے ظالمانہ کردارکو سمجھناچاہتے ہیں توہمیں”یہ خاموشی کہاں تک” کے وہ حصے ضرورپڑھنے چاہئیں۔جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا،جنرل مشرف امریکاکے ساتھ معاملات کوانتہائی خفیہ رکھتے تھے ،جنرل شاہدعزیزاس وقت چیف آف جنرل سٹاف تھے اورجنرل یوسف وائس چیف،یہ دونوں فوج کے مکمل کرتادھرتاتھے لیکن یہ دونوں بھی زیادہ ترمعاملات سے ناواقف ہوتے تھے،یہ ریٹائرمنٹ کے بعد2005میں گوادرگئے توانہیں وہاں معلوم ہوا، امریکانے نومبر2001میں گوادراور جیوانی میں اپنی نیوی بھی اتاری تھی،بھاری ہتھیاربھی اورجوان بھی ۔امریکی فوج بعد ازاں بلوچستان کے راستے افغانستان گئی۔ گوادرمیں2005میں بھی امریکی مورچے موجودتھے۔میں2001میں سی جی ایس تھا،مجھے اس کارروائی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا،میں نے جنرل یوسف سے رابطہ کرکے پوچھا،وہ بھی ناواقف تھے گویایہ کارروائی فوج کے دونوں اعلی ترین عہدے داروں سے خفیہ رکھی گئی تھی۔
جنرل مشرف نے جیکب آباد،شمسی،ژوب اوردالبندین کے ہوائی اڈے بھی چپ چاپ امریکاکے حوالے کردیئے اوران معاملات میں بھی فوج سے غلط بیانی کی گئی،پاک فوج کے دستے جب سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے ان ہوائی اڈوں پرگئے توامریکی فوجیوں نے انہیں اندرداخل نہیں ہونے دیا،ان اڈوں پر امریکی سی آئی اے قابض ہوچکی تھی۔ شاہدعزیزنے انکشاف کیا،امریکی سازوسامان این ایل سی کے ٹرالرزکے ذریعے بھی افغانستان پہنچایاگیا،جنرل شاہد نے انکشاف کیا،امریکا نے ایک گہری سازش کے ذریعے پاک فوج اور مجاہدین کوآپس میں لڑایا،امریکی افغانستان کی جنگ کوپاکستان تک پھیلاناچاہتے تھے ،امریکانے پہلے افغانستان کے مختلف حصوں میں موجود طالبان کوپاکستانی سرحدکے قریب تورابورامیں جمع کیااورپھربمباری شروع کردی،یہ لوگ بھاگ کرپاکستان گئے،پاکستان کے ساتھ ان کاکوئی اختلاف نہیں تھا،یہ لوگ جب پاکستان میں داخل ہوئے تومیں نے جنرل یوسف کے آفس میں سیٹ کام کے چیف جنرل ٹونی فرینکس سے پوچھا: آپ جب طالبان کوپاکستانی سرحدکے قریب اکٹھاکررہے تھے توآپ نے ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا،جنرل کاجواب تھا”یہ ہماری کوتاہی ہے”لیکن یہ کوتاہی نہیں تھی، امریکانے جان بوجھ کراپنے دشمنوں کوپاکستان میں پھیلادیاتاکہ پاکستان بھی مکمل طورپرافغان جنگ کا حصہ بن جائے
امریکانے اس کے بعدہم پرفاٹامیں فوج بھجوانے کیلئے دباؤڈالنا شروع کردیا،ہمیں غیرملکی مجاہدین کوگرفتارکرنے کاٹاسک بھی دیا گیا،ہم نے کوہاٹ کی جیل خالی کی اور80عرب باشندوں کووہاں بندکردیا،کابل پرقبضے کے بعدامریکانے بھارت کیلئے دروازے کھول دیئے،انڈیانے وہاں اپنے مضبوط ٹھکانے بنالئے،امریکیوں نے110پاکستانی بھی انڈیا کے حوالے کردیئے،یہ لوگ انہیں انڈیا لے گئے اوراس کے بعدان کی کوئی خبرنہیں آئی،امریکانے گیارہ سو پاکستانی ہمارے حوالے کئے اورہم نے انہیں232غیرملکی مجاہدین دیئے ۔شاہدعزیزنے انکشاف کیا،26جنوری2002کو50جوانوں کی ایک پلٹن نے چارامریکیوں کے ساتھ قبائلی علاقے میں غیرملکی مجاہدین کی تلاش میں ایک گھرکے دروازے پر دستک دی،گھرکامالک باہرنکلاتواسے بتایاگیا،تمہارے گھرکی تلاشی ہوگی،وہ گھر کی خواتین کوپردہ کرانے کیلئے اندرگیالیکن واپس نہ آیا،جوان اندرداخل ہوئے توگھرمیں مجاہدین موجودتھے،مجاہدین نے فائرنگ شروع کردی،کارروائی میں شامل ایک افسرنے اس آپریشن کی باقاعدہ فلم بنائی،رات دس بجے تک فائرنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ لوگ جوانوں کاگھیرا توڑکرفرارہوگئے،یہ فائرنگ پاکستان میں فوج اورمجاہدین کی پہلی لڑائی تھی،یہ لڑائی پھراس کے بعد رکی نہیں،پاکستان اس کے بعدمیدان جنگ بن گیا۔
شاہدعزیزنے انکشاف کیا،پرویزمشرف12اکتوبر1999سے قبل میاں نوازشریف کی حکومت کوفارغ کرنے کافیصلہ کرچکے تھے، جنرل شاہدعزیزاس وقت ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنزتھے،مشرف نے سری لنکاجانے سے قبل10کورکمانڈرزجنرل محمود،سی جی ایس جنرل عزیزخان اورڈی جی ایم اویعنی انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی تھی،ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق اورڈی جی آئی ایس پی آربریگیڈیئرراشدقریشی بھی اس آپریشن کاحصہ تھے۔ مشرف کواس معاملے میں کورکمانڈرپشاورجنرل سعیدالظفرپراعتماد نہیں تھا،میاں نواز شریف کوبرطرف کرنے،پی ٹی وی اسلام آبادپرقبضے اورمشرف کوکراچی میں بحفاظت اتارنے کے پورے آپریشن کی نگرانی جنرل شاہدعزیزنے خودکی،شاہدعزیزنے اعتراف کیا،ہم اسے انقلاب سمجھ رہے تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیاہم سب کادل ٹوٹتاگیا،یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیاجب وہ فوجی وردی جوقوم کاپرائیڈتھی،وہ صرف دفتروں میں پہنی جانے لگی،افسرگھرسے سادہ کپڑوں میں نکلتے اوردفترمیں وردی پہن لیتے تھے۔
شاہدعزیزنے انکشاف کیا،فوج چودھریوں کے خلاف تھی،یہ ان کامشرف سے گٹھ جوڑنہیں چاہتی تھی لیکن مشرف نے فوج کی بات نہیں مانی،مشرف نے 31جنوری2002کوکور کمانڈرزکی میٹنگ میں اعلان کیا،ہم پاکستان مسلم لیگ ق کی مدداورپیپلزپارٹی کوتوڑیں گے اورن لیگ کوکمزور کریں گے۔ مشرف نے2002 کے الیکشنزمیں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ کیا،ووٹرزتک کی عمر21سال سے18سال کردی گئی۔ جنرل شاہدنے انکشاف کیاکہ مشرف سیاسی فیصلوں میں فوج کواعتمادمیں نہیں لیتے تھے،فوج میاں برادران کے جلاوطنی کے معاہدے تک سے واقف نہیں تھی۔
مجھے جب چیئرمین نیب بنایاگیاتومشرف نے مجھے کہا،تم فیصل صالح حیات کے مقدموں کونہ چھیڑنا،مجھے حکومت کی سیاسی مجبوریاں بتاکردوسرے سیاست دانوں کی فائلیں کھولنے سے بھی روک دیاگیا۔2007میں طارق عزیزنے بلاکرمشرف کاحکم سنایا”بے نظیربھٹوکے تمام مقدمات بندکردیئے جائیں ” میں نے تعاون نہ کیاتوچیئرمین کے اختیارات دوڈپٹی چیئرمینوں میجرجنرل محمدصدیق اورحسن وسیم افضل میں بانٹ دیئے گئے،بے نظیراور آصف علی زرداری کے مقدمات حسن وسیم افضل کے حوالے کر دیئے گئے،میں نے فیڈبیک جاری رکھاتوحسن وسیم افضل کے دفترکولاہورشفٹ کر دیا گیا ۔
جنرل شاہدعزیز نے انکشاف کیا،میں نے کورکمانڈرلاہورکی حیثیت سے ڈی ایچ اے لاہورکے معاملات پرکمیشن بنایا،کمیشن کی رپورٹ صدرکوبھجوائی لیکن صدرنے اربوں روپے کی کرپشن دبادی،میں چیئرمین نیب تھاتومیں نے پٹرول کی درآمدمیں81ارب روپے کی کرپشن پکڑی لیکن وزیراعظم شوکت عزیزاورصدرمشرف نے یہ معاملہ بھی دبادیا،صدراور وزیراعظم چینی مافیا کے خلاف بھی کارروائی نہیں کرنے دیتے تھے،میں نے جب اپنی کوششیں جاری رکھیں تومجھے استعفٰی دینے کا مشورہ دیاگیا۔
مجھے جنرل شاہدعزیزکی کتاب پڑھ کراندازہ ہوا،دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں تھی،یہ امریکااورپرویزمشرف کی جنگ تھی اورایک طویل عمل کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ بنادیاگیا۔یہ پرائی جنگ اب تک ہمارے71ہزارسویلین اور9ہزار سے زائدجوانوں کونگل چکی ہے۔یہ جنگ روز ہمارے کسی نہ کسی افسراورجوان کاخون پیتی ہے۔ ضرب عضب اورردّالفسادآپریشنزمیں جان ومال کی ان گنت اورانمول قربانیوں کے بعداورافغان بارڈر پرسیکورٹی باڑ اورافغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد قوم نے سکھ کاسانس لیاتھالیکن ہم اپنے ملک میں سیاسی ومعاشی ابتری کی ایک دوسرے پرذمہ داری ڈالتے ہوئے بھول گئے کہ مکاردشمن ہماری ان کمزوریوں سے بھرپورفائدہ اٹھانے میں لمحہ بھرسستی نہ کرے گا۔
یہی ہوا،اوراس نے ہمارے سیاستدانوں کی آپس میں سرپھٹول اورہماری معاشی ابتری کافائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھرمنظم دہشتگردی کاسلسلہ شروع کرنے کیلئے پولیس کے ادارے کونشانہ بناکرملک کی اہم فورس کوکمزور کرنے کیلئے پہلے پشاورپولیس لائن اوراب کراچی پولیس آفس کاانتخاب کرکے اوچھاوارکیااورہم اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اب بھی ملکی انتشارمیں کمی کی بجائے اس میں اضافہ کررہے ہیں۔اب تک تقریباًصرف افغانستان میں طویل تنازعہ کی وجہ سے پاکستان کو152بلین ڈالرسے زیادہ کانقصان ہوا ۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان اورفغانستان میں423,000افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجودآج تک اس جنگ کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی،کسی نے کوئی مقالہ نہیں لکھا،کیوں؟اتنی خاموشی کیوں ہے؟یہ سناٹا کب تک چلےگا؟ یہ خاموشی کب تک،آخر کب تک۔
میں نہیں جانتاکہ مورخ ان تمام واقعات کوکب لکھے گالیکن تین نسلوں سے ایک فوجی”شاہدعزیز”نے اپنے ہی لہومیں انگلیاں ڈبو کرجن خوفناک واقعات کاذکر کیاہے،اس کوپڑھ کریقین ہوگیاہے کہ یقینایہ ایک معجزاتی ریاست ہے جس نے اب تک یہ بوجھ اٹھالیا وگرنہ امریکاجیساملک بھی اس کی تاب نہیں لاسکتا۔لیکن اب توان ظا لموں کی مہلت ختم ہواچاہتی ہے اورکچھ تواپنے ان سیاہ اعمال کے ساتھ حاضربھی ہوچکے اوروہ تمام مشیرجو اس بات پرخوش تھے کہ ہماری دانشمندی نے ہمارے مال اسباب،شان وشوکت اورعیش و عشرت کوبچا لیا۔اپنی عزت وعصمت کے جودام وصول کئے تھے اورملکی کرپشن سے جومال سمیٹاتھا،ان کوفوری طورپریورپ وامریکاکی تجوریوں میں محفوظ کرکے اپنی سات پشتوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خوشیاں منارہے تھے،اب جہاں موت کا خوف اورزندگی سے محبت انہیں چین سے جینے نہیں دے رہی وہاں تجوریوں میں محفوط دولت کے بارے میں نئے قوانین کی تلوار لٹکتی بھی دیکھ رہے ہیں لیکن صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ انہیں علم ہے کہ اس قوم کے دل سے مو ت کاخوف نکالنااورراہ حق میں جا ن دینے کی محبت ہی ان کاعلاج ہے۔
آج سے ایک سال پہلے کوئی کہتاکہ ہم کمزورہیں،امریکاطاقتورہے تومیں یقین کرلیتا۔ لیکن میرے اللہ پریقین اورموت سے محبت کی داستان صرف ایک سال پہلے رقم ہوچکی جس نے سیاسی اورجنگی پنڈتو ں کے تمام اندازے ملیامیٹ کردیئے جبکہ چندبرس قبل بھی وہ اپنی دہشت سے پھٹی آنکھوں سے نہ صرف وہ دیکھ چکے تھے بلکہ بھگت چکے تھے۔جس طرح ہماری بہادرفوج نے اپنی جانوں کی قربانیوں کانذرانہ دیکر”ضرب عضب”اورردّالفساد”میں اس دہشتگردی کاخاتمہ کیا ہے،ان قوتوں کویقین ہوگیاہے کہ جوجنگ ہم اپنے جدید ترین اسلحے اور 34 ممالک کی اتحادی افواج کے ساتھ جیت نہ سکے ،پاکستانی افواج نے اس پرکیسے قابوپا لیا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی جنگ حکمت عملی تبدیل کرکے ہمارےاندرایسے غدارڈحونڈھ لئے جنہوں نے ہمیں معاشی طورپرمفلوج کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اورآج ہم عالمی مالیاتی اداروں کے تلوے چاٹنے پرمجبورہوگئے ہیں اوران سے اپنی سلامتی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔اب ضرورت اس امرکی ہے ملک میں فی الفورمعاشی ایمرجنسی کانفاذ کریں توکم ازکم ہم بچت کے اس راستے کواپنانے کے بعدغلامی کی زنجیروں سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ حکمران اشرافیہ،ارکان پارلیمنٹ،ججز،جرنیل،سویلین اورملٹری افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جو سہولتیں ،مراعات اور دیگرتعیشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں،ان کوفوری طورپرمناسب حدپرلایاجائے۔
یقین کریں کہ صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ اس قوم سے موت کاخوف اترنے کے دن آرہے ہیں اورجنہیں ز ندگی سے محبت ہے ان کاانجام بھی قریب۔ جب ایساوقت اورایسی کیفیت کسی قوم پراترتی ہے تووہ بڑی سے بڑی عا لمی طاغوتی طاقتوں کاقبرستان بن جاتی ہے۔میرے رسول اکرم محمد ﷺ کواسی لئے تواس خطے سے ٹھنڈی ہواآیاکرتی تھی۔
سجنو!میرے اللہ کی طاقتوں کاکوئی شریک نہیں۔ایک یقین کی توبات ہے جوبھی بڑھ کراس یقین کی لا ٹھی کوپکڑلے،اسی کیلئے عصائے کلیمی ہے۔
دیرسے آنکھوں پراترا نہیں اشکوں کاعذاب
ا پنے ذمہ ہے تیراقرض نجانے کب سے