The Fire Of Remorse

پچھتاوے کی آگ

:Share

تازہ نیوزسننے کیلئے ریموٹ کنٹرول دبایاہی تھاکہ سکرین پرمختلف ٹی وی چینل کے درجنوں کیمرے کسی کاانتظارکرتے نظر آئے،گمان گزراکہ کوئی بڑی اہم شخصیت آرہی ہے۔اچا نک ایک کھلبلی سی مچ گئی اورسب ہی کیمروں نے ایک پتلی دھان پان کی لڑکی کواپنے گھیرے میں لے لیا۔وہ پولیس کی محفوظ تحویل اوراس الیکٹرانک میڈیاکے نرغے میں ان کے سوالات کابڑے پرجوش طریقے سے جواب دے رہی تھی۔یوں معاملے کی تفصیلات سے پتہ چلا کہ یہ دعازہراہے جواپنے نام کی نسبت سے زمین آسمان کے فرق پردکھائی دے رہی تھی۔درجنوں کیمرے اس پرمرکوزتھے جیسے اس نے تاریخ انسانی کابڑامعرکہ سرکیا ہو۔وہ پولیس کی تحویل میں اپنے لہجے میں کمال کاعزم لئے جوش وخروش کی تصویربنی باغیانہ تمکنت کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کررہی تھی۔گردش دوراں اس کے سامنے تھم سی گئی تھی اور زمانہ اس کے قدموں سے لپٹا جا رہا تھا۔وہ”محبت”کا معرکہ لڑ رہی تھی۔ایسا معرکہ کہ لڑنے والوں کا جنوں جب خود سری کی معراج کو پہنچتاہے تو انہیں اپنا گردو پیش بڑا ہی حقیر دکھائی دینے لگتاہے اور مقدس تریں رشتے بھی ان کیلئے کانچ کے کھلونے بن کررہ جاتے ہیں۔

ٹی وی چینل پریہی لیڈسٹوری خوب ریٹنگ حاصل کررہی ہے اوراس جیسی لاکھوں بچیاں بھی اپنے ٹی وی سکرین پربغاوت کے اس سارےکھیل کااپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہی ہوں گی اوران بچیوں کے ماں باپ بھی یقیناً اپنی بچیوں کے اس مستقبل کے تماشے سے لرزاں وترساں ہوں گے۔اس کہانی میں دعازہراکایہ بیان بھی اہمیت اختیارکرتاجا رہاہے کہ اس نے یہ فیصلہ بغیرکسی دباؤکے اپنی مرضی سے کیاہے اوراس نے یہ خدشہ بھی ظاہرکیاکہ اس نے اپنی محبت کی شادی اس لئے کی ہے کہ اسے خدشہ تھاکہ اس کے ماں باپ اس کی محبت کوقبول کرنے کی بجائے کسی اورسے اس کی شادی کردیں گے ۔ “دعا زہرااپنے وکیل کے ساتھ بڑے فا تحانہ ا ندازمیں کھڑی اپنی روشن خیالی کااظہارکررہی تھی اورمیں اس سوچ میں گم تھاکہ ممکن ہےاس وکیل کی بھی کوئی “دعا زہرا”جیسی بیٹی گھرمیں ٹی وی پریہ پروگرام دیکھ رہی ہواورکل کلاں اس نے اگریہ فیصلہ کرلیاتویہ وکیل اس مکافات عمل کاکیسے سامنا کرے گا-یہ بچی اپنے والدین پرمتعددالزامات بھی عا ئدکررہی تھی اورسا تھ ہی لاہورہائی کورٹ کے بروقت اقدام کاشکریہ بھی اداکررہی تھی کہ اس نے دودلوں کوملا نے اورایک دوسرے کاجیون ساتھی بننے میں ان کی بھرپورمدد کی۔وہ اپنے ہونے والے جیون ساتھی کابازوتھامے،بے خودی میں مسلسل اپنے ماں باپ کی معاشرتی تنگ نظری جیسے ظلم کابرملااظہارکررہی تھی،یہ جانے بغیرکہ اس کی یہ برملابغاوت کااس کی ہم عمرلاکھوں بچیوں پرکیااثرپڑ رہا ہے۔

کراچی پولیس کے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے مطابق پولیس اب سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے اوردعازہرہ کی جانب سے دیگر تفتیشی مراحل میں دیے گئے بیانات کی روشنی میں ان کے والدین کی جانب سے دعازہرہ کے اغواکے مقدمے کوخارج کردے گی۔سندھ پولیس کے مطابق دعازہرہ کے مقدمے میں اغوا اورانسانی سمگلنگ کی دفعات عائدتھیں۔ہائی کورٹ اورپولیس کی تفتیش میں دیے گئے بیانات کے بعداب ان دفعات کے تحت مقدمہ جاری رکھنابظاہر ممکن نظرنہیں آتا۔پنجاب لاہورہائی کورٹ کےفیصلے کے بعدپنجاب پولیس نے بھی دعازہرہ کواپنی مرضی سے اپنے سسرال اورخاوند ظہیر احمدکے ہمراہ جانے کی اجازت دے دی ہے۔

لاہورہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پولیس کوظہیراحمدکے رشتے داروں کوہراساں نہ کرنے کاحکم بھی سنایاہے جبکہ دعا کے والدین کی جانب سے اپنی بچی کے مبینہ اغواکامقدمہ درج کروایاگیاتھاجس پرہونے والی قانونی کاروائی اوردعاکی مبینہ پسندکی شادی نے کئی سوالات کوجنم دیاہے۔ وکلاءکے مطابق سندھ ہائی کورٹ اورلاہورہائی کورٹ کے فیصلوں کے بعدان کے موکلوں پرمقدمات تقریباًختم ہوچکے ہیں۔عدالت کی جانب سے دعازہرہ کواپنی مرضی سے جانے کی اجازت دینے کے بعداغوا کی دفعہ توختم ہوچکی ہے جس وجہ سے ظہیراحمدکے قریبی رشتے داروں کوچھوڑدیاگیاجبکہ نکاح خواں اور گواہ کوجوڈیشل ریمانڈپرجیل بھیجاگیا ہے لیکن اب لاہورہائی کورٹ نے اورسندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کے بعدامیدہے کہ نکاح خواں اورگواہ کی بھی جلدضمانت ہوجائے گی۔

مجھے کہانی کی جزئیات اورتفصیلات سے زیادہ دلچسپی نہیں،میرے لئے یہ سوال بھی بے محل ہے کہ دعازہرااوراس کے والدین میں سے کس کامؤقف درست ہے۔میں تویہ سوچ رہاہوں کہ حالات وواقعات کی کون سی کروٹ نے اس نحوست بھری ساعت کوجنم دیاجب ایک بیٹی بغاوت پرآمادہ ہوگئی ۔ جب برسوں اپنی اولادکونازونعم سے پالنے،اسے تعلیم دلوانے اوراس کے حسیں مستقبل کے خواب دیکھنے والے والدین ایک مقدّمے کے مدعی بن کر اپنے ہی جگرگوشے کے سا منے کھڑے ہوں گے۔میں اس”سرشاری”کے تصوّرکااحاطہ کرنے کی کوشش کررہاہوں جس نے ایک بیٹی کی رگ وپے میں ایسابارود بھر دیا۔

میں اس کرب کی شدت جاننے کی سعی کررہاہوں جس سے دعازہراکے ماں باپ گزررہے ہوں گے۔دعازہرااسلامی ملک کی مسلمان قوم کی بیٹی ہے اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں،وہ میری بیٹی بھی ہے۔اسے اسلام نے یہ حق دیاہے کہ اس کاشریک سفراس کی پسند کے مطابق ہو۔ اگروہ اپنے ماں باپ کوقائل نہیں کرسکی یااس کے انتخاب میں کوئی کجی تھی یاوہ معقول طریقہ کاراختیارنہیں کرسکی تویہ اس کی بدنصیبی تھی۔اسلام جبرکے خلاف ہے اور بیٹیوں کوبھیڑ بکریوں کی طرح کسی کوتھمادینے کے سخت خلاف ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام اپنی پسندکوسلیقے اورقرینے کی نفیس حدوں کے اندر رکھنے کی تلقین بھی کرتاہے۔دنیاکاکوئی شخص کسی کواتنی محبت اورخیرخواہی نہیں دے سکتاجتنی محبت اورخیرخواہی والدین کواپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ اگرماں باپ اولادکے کسی جذبۂ بے اختیارشوق کے سا منے حکمت کاکوئی بندنہ باندھ سکیں اورمعاملے کودانشمندی سے سلجھانے کی بجاے ٔ پیکارپرتل جا ئیں تواسے بھی کم نصیبی ہی کہناچاہئے۔ساری مخلوق پرانسان کی فضیلت وبرتری کابنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اپنی منہ زورخواہشات کونکیل ڈالنے اوراپنے اندرکے جذباتی ہیجان کومعاشرتی اقدار،تہذیبی روایات اوراخلاقی قرینوں کے اندررکھنے کاسلیقہ جانتاہے۔

اسلام اسی نفس کشی کی تربیت دیتاہے۔اقداروروایات کامقام بلندحاصل کرنے والے معاشرتی رویے اپنے دامن میں مصلحت، حکمت اوردانش کابیش بہاخزانہ رکھتے ہیں۔بہت سی قدغنیں اورپابندیاں،جوبظاہرناگوارلگتی ہیں دراصل ہما رے تحفظ کاحصار ہوتی ہیں جسے توڑڈالنے سے ہم خوداپنے آپ کونامہرباں موسموں کے حوالے کرد یتے ہیں۔مغرب میں چیچک اورطاعون کی طرح پھوٹ پڑنے والی معاشرتی برائیوں کابنیادی سبب یہ ہے کہ بے جاآزادی، خود مختاری اورذاتی مرضی ومنشا،والدین،اساتذہ اوربزرگوں کی تلقین،نصیحت اوررہنمائی پرحاوی ہوگئی ہیں۔جوانیاں منہ زورہوچلی ہیں اور”طفلان خود معاملہ”نے شیرازیہ معا شرت درہم برہم کردیاہے۔صرف برطانیہ میں طلاق کا تناسب دنیامیں امریکاکے بعددوسرا،بغیرشادی کے ازدواجی زندگی گزارنے کاتناسب خطرناک حد تک بڑھ گیاہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اب اس کو کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا۔گھریلو ناچاقیاں عروج پر ہیں، عائلی زندگی زبردست انتشار کا شکار ہے اور عورت اپنی تکریم سے محروم ہو کراخلاق باختہ موسموں کا چارہ بن کر رہ گئی ہے۔ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ نے د نیاکے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذّب کہلوانے والے معاشرے کوایک خود رو جنگل میں بدل دیاہے جو نفسانی خواہشات کی برسات سے گھنا ہوتا جا رہاہ ے۔اب تویہاں کے دانشوربھی چیخ اٹھے ہیں اوراس بڑھتی ہوئی معاشرتی بے راہ روی کے سا منے بندھ باندھنے کی دہائی دے رہے ہیں۔

میری اکثریہاں کے سیاسی زعماءسے ملاقات رہتی ہے۔پچھلے دنوں برسوں کے بعدایک انگریزدوست کی شادی میں شرکت کا موقع ملا(ایسے تہوار بمشکل آتا ہے )۔ٹاؤن ہال میں رجسٹرارنے بھرے ہال میں مسکراتے ہوئے یوں ہی پوچھ لیا کہ یہاں جوطلاق یافتہ ہیں وہ ذراہاتھ توکھڑاکریں جواب میں لوگوں کے ہاتھ دیکھ کرجہاں وہ جھینپ گیاوہاں اسے اپنے سوال پرمعذرت کرناپڑی، لیکن ان حالات وواقعات کے نتائج کودیکھتے ہوئے بھی پاکستانی معاشرہ بگٹٹ اس تباہی کی طرف بھاگ رہاہے اوررہی سہی کسرہمارے ٹی وی ڈراموں نے پوری کردی ہے جہاں ایک ہی گھرمیں نوجوان بچوں اوربچیوں کوایک دوسرے پربری طرح فیفتہ دکھایاجارہاہے،بلکہ یہاں تک کہ نہ صرف بیوی اپنے شوہر اور مرد اپنی بیوی کے ساتھ بے وفائی کے مرتکب ہوتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ اپنے اس مکروہ فعل کیلئے اپنے ماں باپ اور معاشرے کوذمہ دارقراردیتے ہوئے ناظرین کی ہمدردیاں سمیٹتے نظر آتے ہیں۔

آج سے45سال قبل میری ایک کلاس فیلونے والدین سے بغاوت کرکے محبت کی شادی کاراستہ اختیارکیا۔پچھلے دنوں اس سے اچانک ملاقات ہوگئی ۔ اس کے دوجوان بیٹے اورایک جوان بیٹی اس کے ساتھ تھے۔حال احوال پوچھنے پرپھٹ پڑی اورروتے ہوئے بولی”میں توکہوں گی ماں باپ کسی جانور کے کھونٹے سے بھی باندھ دیں توبغاوت نہیں کرنی چاہئے وہ توپہلے پانچ سالوں میں میری گودمیں تین بچوں کابوجھ ڈال کرمجھ سے الگ ہوگیاتھا۔ ” تجربے کی بھٹی سے گزرنے کے بعد دل ودماغ میں جاگ اٹھنے والی صداقتیں بڑی ٹھوس ہوتی ہیں لیکن میری کلاس فیلوکاردعمل اتناہی غیرحقیقی اور جذباتی تھاجتنابرسوں پہلے اس کا ”عمل”۔اسلام توازن واعتدال کادین ہے۔وہ کسی طوربھی والدین کویہ اجازت نہیں دیتاکہ اپنی پسنداپنی اولادپر ٹھونسیں اوراولادکو بھی اپنی پسندناپسند کااختیاردینے کے باوجودیہی تلقین کی گئی ہے وہ اسے بزوراپنے والدین پرنہ ٹھونسیں اورخودسری کاراستہ اختیار نہ کریں۔

کسی حادثے سے لذّتیں سمیٹنے اوراقدارشکنی سے روشن خیالی کاعرق کشیدکرکے معرکہ”حق وباطل”کا رنگ پیش نہ کریں۔خود ہی سوچیں کیاہم اپنی بیٹیوں کودعا زہرا کے نقش قدم پرچلتے ہوئے دیکھناچاہتے ہیں؟کیایہ ہم چا ہتے ہیں کہ قوم کی ہربیٹی گھرکی فصیل توڑکروالدین کے خلاف علم بغاوت لہراتے ہوے ٔ اپنی من پسندراہوں پرچل نکلے؟ذرائغ ابلاغ کاکام اجلے راستے تراشنااور ان قرینوں کاتحفظ کرناہے جوہماری تہذیب کاحسن اورہماری معاشرت کااعزازہیں۔ اگردعا زہراکے والدین کارویہ مثالی نہیں توتمام ترہمدردیوں کے باوجوددعازہراکاکرداربھی کوئی مثالی نمونہ تقلیدنہیں ہے۔ محبت کی منہ زوری میں معرکہ آرائی کاتفاخراور باغیانہ آسودگی کاسرورہوتاہے لیکن ایک”محبت”کیلئے ازلی وابدی محبتوں کے سدابہارگلستاں اور زمزمے ا جاڑپھینکنے کے اثرات کچھ عرصے بعدسامنے آتے ہیں۔جب آتش فشاں ٹھنڈاپڑجاتاہے تودور دیس میکے سے آنے والی ہواؤں کی آرزوبڑابے کل رکھتی ہے۔آنکھیں روٹھی بستی کے مسافروں کی راہ دیکھنے کیلئے دہلیزپرجمی رہتی ہیں۔کان مانوس آوازوں کوترس جاتے ہیں ،دن بڑے کڑے اورراتیں بہت لمبی ہوجاتی ہیں۔

ما ں باپ کے گھرسے سہیلیوں کے جھر مٹ میں رخصت ہونے والی بیٹیاں بڑی خوش قسمت اورخوش بخت ہوتی ہیں۔وہ صرف جہیزلے کرہی نہیں جاتیں ،ان کے ساتھ لافانی شفقتوں،محبتوں،عنائتوں،نوازشوں اوردعاؤں کی سوغات بھی ساتھ ہوتی ہے۔کڑی دھوپ میں دعاؤں کی ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تنی رہنے والی چھتریوں سے محرومی کوئی معمولی زیاں نہیں لیکن اس کااندازہ تب ہوتاہے جب آشفتہ سری کاخماراترجاتاہے اورآنکھیں گردوپیش کامنظر دیکھنے لگتی ہیں۔ ایسا وقت آنے میں کچھ دیربھی نہیں لگتی لیکن اس وقت تک بہت دیرہوچکی ہوتی ہے۔

تاہم11سے15سال عمر کا حصہ انتہائی حساس ہوتاہے اوریہ وہ عمرہوتی ہے جس میں اگر بچے سے مناسب اندازمیں پیش نہ آیاجائے اوررہنمائی نہ کی جائے تووہ بہت کچھ کرگزرتاہے۔یہی وہ عمرہے جس میں آسانی کے ساتھ کسی کوبھی گمراہ کیاجا سکتاہے۔عمر کے اسی حصے میں بچوں کے اندربلوغت پیداہورہی ہوتی ہے، ہارمونزمیں تبدیلی سے جسمانی ساخت تبدیل ہوتی ہے،عمرکے اس حصے میں چاہے لڑکاہویا لڑکی،اسے توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس میں لڑکیوں کوزیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کوگھرسے باہرنکل کرتوجہ حاصل کرنے کاموقع کم ملتاہے۔اس وقت ضرورت یہ ہوتی ہے کہ بچیوں کی ماں ان کی دوست ہواوران کوسمجھاسکے تاکہ بچیوں کوجذباتی اورجسمانی طورپر سہارافراہم کیاجائے ورنہ عموماًخدشہ ہوتا ہے کہ منفی ردِّعمل خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔اگرگھرمیں ہروقت ایک ہی بات ہورہی ہوکہ کوئی بھی کام کرناہے توشادی کے بعدکرنا،توپھراس عمرمیں بچی سوچتی ہے کہ اگرشادی ہی کرنی ہے تومیں خودکرلوں کیونکہ گھروالے اتنی جلدی مجھے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

دعازہرامسلمان بیٹی ہے وہ میری بیٹی بھی ہے۔اس کے نام سے ظاہرہوتاہے کہ اس کے والدین نے میرے آقارسول اکرمﷺکی سب سے محبوب بیٹی فاطمہ زہراکی محبت میں اپنی بیٹی کوبھی بنت رسولﷺکی دعاکانتیجہ قراردیتے ہوئے نام دیاہوگالیکن بدقسمتی سے دعازہرااپنے اس عمل سےاس نام کی برکات سے ہی محروم ہو گئی۔اللہ کرے اسے اپنے شوہر کی محبت کے ساتھ ساتھ والدین کی محبت کی وہ گم گشتہ بھی واپس مل جائے جس کو اس نے اپنی خود سری سے ٹھکرا دیاہے۔مجھے یقین ہے کہ جب اس کی گودمیں ننھی سی ”دعازہرا” کھیلنے لگے گی تو وہ اور اس کا شوہر دونوں اللہ کے حضور التجا کریں گے کہ ان کی بیٹی ان کی کہانی نہ دہرائے لیکن اس پچھتاوے سے بچنے کیلئے”دعازہرا” کو دوبارہ اپنے والدین کی اشد ضرورت پڑے گی! کیا یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوسکے گاکہ وہ اس مکافاتِ عمل سے بچ سکے؟میری دعاہے کہ مسلما نوں کی کوئی بیٹی ”دعازہرا”کے اس راستے کاانتخاب نہ کرے!ثم آمین
نامکمل ہی پہن لوکپڑے
کچھ نہیں توثقافت ہی سہی

اپنا تبصرہ بھیجیں