امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اوراس کے پھیلاؤکے خطرات کے پیش نظرایگزیکٹوآرڈر کے تحت چارپاکستانی اداروں پرپابندیاں عائدکردی گئی ہیں جن میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنے والا ایک سرکاری ادارہ بھی شامل ہے۔پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلقہ اداروں اورسپلائزرپرامریکی پابندیوں کاسلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا اوراس سال تیسری مرتبہ بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی معاونت کے الزام میں پابندیاں عائدکی گئی ہیں۔
امریکی الزام ہے کہ اسلام آبادمیں واقع نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس(این ڈی سی)نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کی تیاری کیلئےمختلف آلات حاصل کیے ہیں جن میں خاص قسم کے وہیکل چیسیز شامل ہیں جومیزائل لانچنگ کے معاون آلات اورٹیسٹنگ کیلئےاستعمال ہوتے ہیں۔این ڈی سی شاہین سیریزکے میزائلوں سمیت پاکستان کے دیگر بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں ملوث ہے۔بیان کے مطابق کراچی میں واقع اختراینڈسنزپرائیویٹ لمیٹڈنے این ڈی سی کیلئےپاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے مختلف آلات فراہم کیے ہیں۔اس کے علاوہ کراچی میں واقع فیلیئٹس انٹرنیشنل پرالزام ہے کہ اس نے بیلسٹک میزائل پرورگرام میں مددکی غرض سے این ڈی سی اوردیگر اداروں کیلئےمیزائل سازی میں مطلوب سامان کی خریداری میں سہولت کاری کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ یہ پابندیاں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس(این ڈی سی)سمیت تین فرموں پرعائد کی جا رہی ہیں جوبڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اوران کیلئےآلات کی ترسیل میں ملوث ہیں۔ امریکی تھنک ٹینگ کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جوبائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیرجان فائنرکاکہناہے کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اورایسے دیگرہتھیاربنالیے ہیں جواسے بڑی راکٹ موٹرزکے(ذریعے)تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔اگریہ سلسلہ جاری رہتا ہے توپاکستان کے پاس جنوبی ایشیاسے باہرامریکاکوبھی اپنے اہداف کونشانہ بنانے کی صلاحیت آجائے گی،اوراس چیزسے پاکستان کے ارادوں پرحقیقی سوالات اُٹھتے ہیں۔
“ایسے امریکامخالف ممالک کی فہرست جن میں روس،شمالی کوریااورچین جوجوہری ہتھیاربھی رکھتے ہیں،ان کے پاس براہِ راست امریکاکونشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہے۔ہمارے لیے یہ مشکل ہوگاکہ ہم پاکستان کے اقدامات کوامریکا کیلئےخطرے کی حیثیت سے نہ دیکھیں۔ مجھ سمیت ہماری انتظامیہ کے سینیئررہنماؤں نے متعددباران خدشات کااظہارپاکستان سے کیاہے۔پاکستان طویل عرصے سے امریکاکاپارٹنررہاہے اوروہ مشترکہ مفادات پرپاکستان کے ساتھ مزید کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سوال بھی اُٹھتاہے کہ پاکستان ایسی صلاحیت کیوں حاصل کررہاہے جو ہمارے خلاف استعمال ہوسکے؟ بدقسمتی سے ہمیں لگتاہے کہ پاکستان ہمارے اوربین الااقوامی برادری کے خدشات کوسنجیدگی سے لینے میں ناکام ہوا ہے “۔
دراصل امریکی حکام کاحالیہ الزام تکنیکی حقائق کے خلاف ہے۔پہلی وجہ تکنیکی،دوسری تزویراتی یاسٹریٹیجیکل اورتیسری وجہ معاشی یاپولیٹیکل ہے۔ تکنیکی طورپرایساممکن نہیں کیونکہ پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں میں جدت لانے کامقصدانڈیاکے علاوہ کسی دوردرازکے ملک کونشانہ بنانانہیں بلکہ انڈیا کے تیزی سے ترقی پذیرمیزائل ڈیفینس نظام کاسدباب کرنایاناکام بناناہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن جتنابھی جدید ڈیفینس سسٹم بنالے،آپ کا بیلیسٹک یاکروزمیزائل اسے ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتاہواور اس کارینج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسرائیل کے پانچ تہوں پرمشتمل ڈیفینس سسٹم کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں ایرواور آئرن ڈوم سے لیکرڈیوڈزسلنگ،انٹرسیپٹراوراینٹی ائیرکرافٹ گنزبھی شامل ہیں۔اگرکوئی میزائل پانچ تہوں سے نکل کراپنے ہدف کو نشانہ بناکراسے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے تواس کاایم آئی آرویزسے لیس ہوناضروری ہوتاہے جیساکہ پاکستانی میزائل ابابیل ہے۔
ایم آئی آرویز کامطلب ایک ایسامیزائل ہے جوبیک وقت کئی وارہیڈزلیجاسکتاہے جوآزادانہ طورپرپروگرامڈہوتے ہیں اوران وار ہیڈزکی تعدادتین سے آٹھ اوراس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے اورروس کے کیس میں12تک بھی ہے۔یہ میزائل آزادانہ طورپراپنے اپنے ہدف کی جانب جاتے ہیں اورہرایک کاہدف کی جانب سفرکاراستہ مختلف ہوتاہے۔اس کامقصدیہی ہوتاہے کہ آپ ایک میزائل کے ذریعے سے جب اسے لانچ کرتے ہیں اورجب اس کی ری انٹری وہیکل دوبارہ فضا میں داخل ہوتی ہیں تووہ(ری انٹری وہیکل )مختلف سمتوں میں پھیل کراپنے اپنے ہدف کونشانہ بناتی ہیں۔اس کی مثال فائٹر طیاروں کی فارمیشن جیسی ہے جو ہدف پرپہنچنے سے پہلے،وہاں پہنچ کر،حملے کے دوران اوربعدمیں مختلف ہوتی ہے۔فائٹرطیارے کسی ٹارگٹ پرپہنچ کر سرفیس،ائیرمیزائل اوراینٹی ائیرکرافٹ گن سے بچنے کیلئےاس اندازمیں ادھرادھرپھیل جاتے ہیں کہ وہ سب دشمن کی فائرنگ کی زدمیں آئے بغیر مختلف سمتوں سےٹارگٹ کونشانہ بناسکیں۔امریکاکے پاس ایسامیزائل Minuteman IIIہے اورانڈیانے حال ہی میں اس ٹیکنالوجی میں جدت لانی شروع کی ہے۔
پاکستان اگراسی کوبہتربنارہاہے تواس کامقصدانڈیاکے علاوہ کسی اورملک کوہدف بنانابالکل نہیں مگرانڈیاکے سسٹم میں آنے والی جدت(چاہے وہ ایس 400کے حوالے سے یاکسی اورسے )کوناکام بناکران کی ٹارگٹ تک پہنچنے کی صلاحیتوں کاسدباب ہے۔ پاکستان کسی ایسی ٹیکنالوجی پرکام نہیں کررہا جو پہلے سے انڈیاکے پاس نہیں ہے اورانڈیانہ صرف آئی سی بی ایم(بین البراعظمی بیلسٹک میزائل)بنارہاہے بلکہ انہیں ٹیسٹ بھی کرچکاہے جن کی رینج5000 کلومیٹرسے زیادہ ہے جس کامطلب ہے کہ ان کاٹارگٹ پاکستان یاچین نہیں ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان نے اس رینج کے کسی میزائل کاآج تک تجربہ نہیں کیا۔
پھرپاکستان پریہ الزام تکنیکی حقائق کے بھی خلاف ہے۔جب تک ایک سسٹم(میزائل)ایک رینج پرٹیسٹ نہیں ہوجاتاتب تک یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اس ملک نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے اورپاکستان نے اب تک ایسا کوئی میزائل ٹیسٹ نہیں کیاجس کی رینج انڈیا سے باہرہو۔انڈیاایس ایس بی این (نیوکلیئرڈپاورڈبیلسٹک میزائل سب میرین)یابیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی آبدوزیں بھی بنارہاہے۔میزائلوں کی بحث میں زمین سے زمین پرمارکرنے والے میزائلوں کوتوبہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے مگر سمندرکی سطح کے نیچے یاجوہری آبدوزیں رکھنے والے صلاحیتوں کے حامل ممالک سے صرفِ نظرکیاجاتاہے جن میں رینج کا چکرہی نہیں ہوتاکیونکہ کسی بھی ملک کے قریب آبدوزلے جاکروہاں سے یہ میزائل فائرکیے جاسکتے ہیں۔اس کی مثال انڈیاکی “اریہنت”اور”اریگاتھ”ایٹمی آبدوزیں ہیں جواب انڈیاکے بحری بیڑے کاحصہ ہیں۔یادرہے امریکا،برطانیہ،فرانس،روس اورچین کے پاس بھی ایٹمی آبدوزیں موجودہیں یعنی یہ پانچ ممالک دنیاکے کسی بھی ملک پرجوہری حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دوایٹمی آبدوزوں کواپنے بحری بیڑے میں شامل کرنے کے بعدانڈیانے بھی یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے یعنی وہ ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیاہے جوامریکاسمیت دنیاکے کسی بھی ملک پرایٹمی حملہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔صرف زمین کی سطح سے زمین تک مارکرنے والے میزائلوں پربحث انتہائی اہم تزویراتی حقائق سے پہلوتہی ہے۔
یاد رہے اس سے قبل رواں سال ستمبرمیں امریکانے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اورکئی کمپنیوں پرپابندیاں عائدکیں تھیں جن کے بارے میں ان کادعویٰ تھاکہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئےآلات اورٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ اسی برس اپریل میں چین کی تین اوربیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر 2023 میں پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اورسامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزیدکمپنیوں پراسی طرح کی پابندیاں عائدکی تھیں۔اس کے علاوہ دسمبر2021میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمددفراہم کرنے کے الزام میں 13پاکستانی کمپنیوں پرپابندیاں عائدکی تھیں۔تاہم پاکستان نے اس امریکی اقدام کو”مایوس کن”قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ حالیہ امریکی پابندیوں کامقصدخطے میں عسکری عدم توازن کوبڑھاوادیناہے۔اس سلسلے میں میرا6/اکتوبر24ء کاکالم”امریکی پابندیوں کا اثر:چین اورپاکستان کاجوابی رد عمل”اور 14/نومبر24ءکو”ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کااصل چیلنج”بھی شائع ہو چکے ہیں۔
تاہم حالیہ امریکی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ70کی دہائی سے جاری ہے جب انڈیاکے میزائل پروگرام(جس کیلئےوہ روسی اورکئی دوسرے ذرائع سے مددحاصل کررہاتھا) کے جواب میں پاکستان نے اپنامیزائل پروگرام شروع کیااورہمیشہ سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رہے۔چین اورپاکستان کی کمپنیوں اورافرادپرلگائی گئی ان پابندیوں کادونوں ملکوں پرکوئی فرق نہیں پڑے گاکیونکہ پاکستانی ادارے اورنیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس میزائل ٹیکنالوجیزکیلئے مغرب پرانحصارنہیں کرتے لہذاکسی پربھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
شمالی کوریاپرکتنی پابندیاں لگیں مگران پرکوئی اثرنہیں ہوا۔پاکستان کامیزائل پروگرام مکمل طورپرمقامی ہے،اس کاانحصارمقامی وسائل اورمہارت پر ہے اوریہ امریکی پابندیوں سے متاثرنہیں ہوگاتاہم اس طرح کے اقدامات افسوسناک ہیں اورسب سے اہم بات یہ کہ یہ علاقائی تزویراتی حقائق سے جدا ہیں جیسے کہ ملک کی حفاظت وسکیورٹی اورانڈین میزائلوں کی بڑھتی ہوئی بین البراعظمی حدودجوعلاقائی اورعالمی امن،سلامتی اوراستحکام کیلئےبڑھتے ہوئے خطرات ہیں لیکن امریکاکی گودمیں پناہ لینے والے یہودو ہنودان پابندیوں سے ماوراءہیں۔
دراصل امریکاکے یکطرفہ اقدام عالمی امن کیلئےبدقسمتی اورتعصب پرمبنی ہیں۔ پاکستان کی سٹریٹیجک صلاحیتوں کامقصدملک کی خودمختاری کادفاع اور جنوبی ایشیامیں امن قائم رکھناہے۔حالیہ امریکی پابندیوں کامقصدخطے میں فوجی عدم تعاون کوبڑھاوا دیناہے جس سے امن اورسلامتی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گاپھرنجی کاروباری اداروں پراس طرح کی پابندیاں مایوس کن ہیں۔ ماضی میں ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤکے دعوؤں کے باوجوددوسرے ممالک کیلئےجدیدفوجی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئےدرکار لائسنس کی شرط ختم کی گئی اورایسے دوہرے معیاراورامتیازی سلوک سے نہ صرف عدم پھیلاؤکے مقصدکوٹھیس پہنچے گی بلکہ خطے اورعالمی امن وسلامتی کوبھی نقصان پہنچنے کاخطرہ ہے۔
اس سے قبل رواں برس ستمبرمیں امریکانے آرمزایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ اورایکسپورٹ کنٹرول ریفارم ایکٹ کے تحت چین کے تین اداروں،ایک چینی شخصیت اورایک پاکستانی ادارے پربیلسٹک میزائل کے پھیلاؤکی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پابندیاں عائدکی تھیں۔امریکاکا الزام تھاکہ بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فارمشین بلڈنگ انڈسٹری بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اوران کی ترسیل میں ملوث ہے اوراس نے شاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹمزاورممکنہ طورپراس سے بھی بڑے سسٹمزکیلئےراکٹ موٹرزکی جانچ کیلئےآلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس کے ساتھ مل کرکام کیاہے۔
امریکی بیان میں یہ الزام بھی عائدکیاگیاکہ یہ ادارہ بڑے سسٹمز کیلئےآلات خریدنے میں بھی ملوث ہے۔اس وقت جن دیگرکمپنیوں پرپابندی عائدکی گئیں ان میں چین کی ہوبئی ہواچانگدا انٹیلیجنٹ ایکوپمنٹ،یونیورسل انٹرپرائز،ژیان لونگدے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ اور پاکستانی کمپنی انوویٹیو ایکوئپمنٹ بھی شامل ہیں جبکہ امریکی پابندیوں کی زدمیں آنے والے چینی شخص کانام لووڈونگمی تھا۔
اس وقت امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہاتھاکہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکا کے خدشات کئی سالوں سے”واضح اور مستقل”ہیں اورپاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مخالفت امریکی پالیسی کاحصہ رہی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ امریکانے رواں برس اپریل میں چین کی تین اوربیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر2023میں پاکستان کوبیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اورسامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزیدکمپنیوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائدکی تھیں۔اس کے علاوہ دسمبر2021میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمددفراہم کرنے کے الزام میں13پاکستانی کمپنیوں پرپابندیاں عائدکی تھیں۔
دراصل یہ جانناضروری ہے کہ پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جوحالیہ امریکی پابندیوں کانشانہ بن رہاہے،وہ کیاہے؟اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اور امریکاکوان سے کیاخدشات ہیں؟اورامریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کوکیسے متاثرکرسکتی ہیں؟پاکستان کاوہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ ستمبر2024میں امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیاگیاتھااس میں میڈیم رینج یادرمیانی فاصلے تک مارکرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری اور ابابیل شامل ہیں جوملٹیپل ری انٹروہیکل یاایم آروی میزائل کہلاتے ہیں۔ ماہرین کامانناہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل ہیں۔ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق پاکستان نے2017میں ابابیل میزائل کا پہلا تجربہ کرنے کے بعدگزشتہ برس18اکتوبر2023 کوبھی زمین سے زمین پردرمیانی فاصلے تک مارکرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کاتجربہ کیاتھاجس کے بعدرواں برس 23مارچ کو پاکستان ڈے پریڈکے موقع پرپہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
سٹریٹیجک اورڈیفینس سٹڈیزکے ماہرین کے مطابق یہ جنوبی ایشیامیں پہلاایسامیزائل ہے جو2200کلومیٹرکے فاصلے تک متعدد وارہیڈزیاجوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اور مختلف اہداف کونشانہ بناسکتاہے۔ماہرین کااندازہ ہے کہ ابابیل میزائل تین یااس سے زائدنیوکلیئروارہیڈزیاجوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ان کے مطابق یہ ایم آروی میزائل سسٹم ہے جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈکوشکست دینے اوربے اثرکرنے کیلئےڈیزائن کیاگیاہے۔اس میزائل میں موجودہروارہیڈایک سے زیادہ اہداف کونشانہ بناسکتا ہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میزائل ایسے ہائی ویلیو اہداف،جوبیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈسےمحفوظ بنائے گئے ہوں،کے خلاف پہلی یادوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتاہے۔
ایم آروی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہدف کے قریب پہنچنے پران کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈیا بیلسٹک میزائل سسٹم موجودہوتووہ انہیں کنفیوژکر سکتے ہیں۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک فاسٹ بالرگیندکوسوئنگ کرتاہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کوتوڑنے کیلئے اپنی رفتارکے ساتھ سوئنگ اورسیم پربھی انحصارکرتاہے۔ایم آئی آرویز میزائل میں کئی وارہیڈزہوتے ہیں جوآزادانہ طورپرپروگرامڈہوتے ہیں اور آزادانہ طورپرہی اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اورہرایک کا فلائٹ پاتھ یعنی فضائی راستہ مختلف ہوتاہے۔
انڈیاتقریباًایک دہائی سے بھی زائدعرصے سے بلیسٹک میزائل سسٹم پرکام کررہاہے اوروہ نہ صرف اس کے تجربات کرتے رہتے ہیں بلکہ عوامی سطح پرایسے بیانات بھی دیتے ہیں۔انڈیا نے حال ہی میں پہلے ایم آروی میزائل اگنی فائیو کاایک سے زائدوارہیڈز کے ساتھ تجربہ کیاہے۔یہ انٹرکونٹینینٹل بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج کم ازکم5000-8000کلومیٹرہے،اس کے مقابلے میں ابابیل کی رینج محض2200کلومیٹرہے اوریہ پوری دنیامیں سب سے کم رینج تک مارکرنے والاایم آروی ہے۔ایسی غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ انڈیاکا”اگنی پی”بھی ایم آروی ہے جس کی رینج2000کلومیٹرتک ہے۔
ابابیل صرف اورصرف انڈیاکامقابلہ کرنے کیلئےڈیزائن کیاگیاہے لیکن امریکاکو2021سے جس میزائل پرتشویش ہورہی ہے وہ شاہین تھری میزائل ہے جس کی رینج2740کلومیٹرہے۔دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔شاہین تھری کے تجربے کے وقت نیشنل کمانڈاتھارٹی کے مشیرلیفٹیننٹ جنرل(ر)خالداحمد قدوائی نے ایک بیان میں کہاتھا کہ “یہ میزائل صرف اور صرف انڈیاکامقابلہ کرنے کیلئےبنایاگیاہے اوراس کامقصد انڈیا میں اہم سٹریٹجک اہداف(خاص طورپرانڈمان اورنیکوبارجزیروں اور مشرق میں وہ مقامات جہاں ان کی نیوکلئیر سب میرین بیسزتعمیرکی جارہی ہیں)کونشانہ بناناہے تاکہ انڈیاکوچھپنے کیلئےکوئی جگہ نہ مل سکے اوریہ غلط فہمی نہ رہے کہ انڈیامیں ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ کاؤنٹریاپہلی سٹرائیک کیلئے اپنے سسٹمزچھپاسکتے ہیں اورپاکستان ان مقامات کونشانہ نہیں بناسکتا۔”
یادرہے کہ انڈیاکے وزیردفاع رجنات سنگھ سمیت انڈین عہدیدارکئی مواقع پرایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن میں یہ اشارہ دیاگیاہے کہ”انڈیانے ایسی صلاحیتیں حاصل کرلی ہیں جواسے پاکستان کے خلاف قبل ازوقت حملہ کرنے کے قابل بناتی ہیں”۔وہ سپرسونک براہموس میزائل کی مثال دیتے ہیں جو روایتی کے ساتھ نیوکلئیرہتھیاربھی ہے اوراس کے علاوہ انڈیابہت سے ایسے سسٹمزبنارہا ہے جوپہلی سٹرائیک کیلئےزمین،فضااورسمندرسے بھی لانچ ہو سکتے ہیں۔
اگرآپ کویادہوتو2022میں ایک براہموس میزائل پاکستان میں آگراتھاجس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہاگیاتھا کہ پاکستان کی حدودمیں گرنے والابراہموس میزائل حادثاتی طورپرانڈیاسے فائرہواتھا۔انڈیابراہموس کوپاکستانی سٹریٹجک فورسز اورکمانڈاینڈکنٹرول کے خلاف روایتی کاؤنٹرفورس(پہلی)سٹرائیک کیلئے استعمال کرسکتاہے اورپھرانڈیایہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہم نے تومحض روایتی حملہ کیاہے لیکن اس طرح کی روایتی سٹرائیک کوپاکستان کی طرف سے پہلاجوہری حملہ تصورکیاجائے گا۔ یہ وہ ساری صورتحال ہیں جن میں کسی بھی حملے کو روکنے کیلئےپاکستان کوتیاررہناہے اوریہ اسی صورت ممکن ہے اگر پاکستان دشمن کودکھانے کیلئےاپنی صلاحتیوں کااظہارکرتارہے اوراسی مقصدسے پاکستان نے شاہین تھری اورابابیل جیسے نیوکلئیروارہیڈزبنائے ہیں اوران کی نمائش کی ہے۔انڈیاکے مقابلے میں پاکستان نے اپنے دفاع کاحق استعمال کرتے ہوئے یہ تمام تیاری کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکاکو ان میزائلوں پرکیاتشویش ہے؟
امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں الزام عائدکیاگیاہے کہ”آرآئی اے ایم بی نے شاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹمزاور”ممکنہ طورپراس سے بھی بڑے سسٹمز”کیلئےڈائیامیٹرراکٹ موٹرزکے ٹیسٹ اورآلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کام کیاہے۔ممکنہ طورپراس سے بھی بڑے سسٹمز کامطلب یہ ہوسکتاہے کہ اسی میزائل کی اگلی جنریشن پرکام ہورہاہے”۔
ابابیل کاپہلاٹیسٹ جنوری2017میں ہواتھااوراس کے بعدابابیل کادوسراتجربہ چھ سال بعدگزشتہ برس اکتوبر2023میں ہوا،اوران چھ سالوں کے دوران این ڈی سی میں اس ٹیکنالوجی پر مسلسل کام ہوتارہاہے۔امریکاکاکہناہے کہ شاہین تھری توپہلے سے آپریشنل تھا لیکن ابابیل کے دوسرے تجربے کے بعدجب مارچ میں اسے پریڈمیں دکھایاگیاتواس کے بعدشاہین تھری اورابابیل زیادہ نظروں میں آئے کیونکہ اس نمائش کامطلب تھاکہ پاکستان اس مرحلے تک پہنچ چکاہے جہاں اس پرریسرچ اورڈویلپمنٹ مکمل ہوچکی ہے اور ابابیل اب آپریشنل ہے”۔یہ ہے امریکی تشویش کی اصل وجہ!امریکاکو خدشہ ہے پاکستان اس کے زیادہ سے زیادہ صلاحتیوں والے ورژن پرکام کررہا ہے۔
امریکی تشویش کی ایک اوروجہ یہ ہے کہ ابابیل تھری سٹیج میزائل سسٹمز ہیں اورموبائل لانچروالاسسٹم ایک بہت اہم صلاحیت ہے کیونکہ کسی بھی سرپرائز حملے کی صورت میں یہ سسٹم ناصرف بڑی آسانی سے مختلف مقامات پرکیموفلاج کیے جاسکتے ہیں بلکہ انہیں باآسانی ایسی جگہ بھی لے جایاجا سکتا ہے جہاں دشمن ان کاپتانہ چلاسکے۔ماہرین کامانناہے کہ کوئی بھی تھری سٹیج میزائل سسٹم،زیادہ رینج والے سسٹم کی بنیادبن سکتاہےلیکن ابابیل کے پہلے اوردوسرے ٹیسٹ کے بیچ چھ سال کاوقفہ اس بات کاثبوت ہے کہ پاکستان اب مقامی طورپراس ٹیکنالوجی پر کام کررہاہے۔ اگر چین سے ہی ساری ٹیکنالوجی لے رہے ہوتے توچھ سال کاانتظارکیوں کرتے؟تاہم یقیناًاس سسٹم میں کوئی ایسی نئی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے جس نے امریکی تشویش میں اضافہ کیاہے کہ شایدپاکستان مزیدصلاحیتیں حاصل کررہاہے اورمستقبل میں ان نیو کلئیرصلاحتیوں والے میزائلوں کے بہترورژن زیادہ بڑے وارہیڈزلے جاسکتے ہیں اورابابیل شایدتین سے زیادہ وارہیڈزلے جانے کی صلاحیت حاصل کرلے۔
یادرہے اپریل میں ان سسٹمزکے موبائل لانچرزپرپابندیاں لگائی گئی تھیں۔امریکاکی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں کہاگیاتھا کہ بیلاروس میں قائم مِنسک وہیل ٹریکٹرپلانٹ نے پاکستان کوبیلسٹِک میزائل پروگرام کیلئے خصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں اوربیلاروس کے صدرکے ساتھ اعلیٰ سطحی وفدکے پاکستانی دورے کوبھی معنی خیزاندازسے دیکھاجارہاہے جبکہ خود امریکااس سے کہیں خطرناک ٹیکنالوجی انڈیااوراسرائیل کومہیاکرچکا ہے، پاکستان نے کبھی اس پراعتراض نہیں کیا۔
امریکی پابندیوں میں پاورفل راکٹ موٹرزکابھی تذکرہ ہے۔امریکاکوابابیل کی طویل رینج کے علاوہ پاکستان کے سپیس پروگرام پر بھی تشویش ہے۔یاد رہے اپریل کی فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈپرالزام عائدکیاگیاتھاکہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے سپارکوکے ساتھ مل کر راکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے اور مزیدیہ بھی الزام لگایاگیاتھاکہ یہی کمپنی پاکستان کوبڑی راکٹ موٹرزآزمانے کیلئےپرزے فراہم کرتی رہی ہے۔
امریکا،اسرائیل اورانڈیا(ٹرائیکا)کوفکرہے کہ پاکستان اپنامقامی سپیس لانچ وہیکل نہ بنالے اورپاکستان پہلے سے2047سپیس پروگرام کاوژن رکھتاہے ۔ نیوکلئیرڈیٹیرنس کیلئےسپیس پروگرام میں صلاحیتیں حاصل کرنابہت اہم ہیں جوآپ کو ہدف کودرست نشانہ بنانے اوردفاعی نگرانی وغیرہ کے قابل بناتا ہے۔امریکاکوخدشہ ہے کہ پاکستان فوجی اورسویلین مقاصدکیلئےاپناسپیس وہیکل لانچ کرسکتاہے جس سے اس کے پاس انٹرکونٹینٹل بیلسٹک میزائل فائرکرنے کی صلاحیت آجائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم کابھی ذکرہے۔یہ میزائل ٹیکنالوجی کی برآمدپرکنٹرول رکھنے والے ممالک کاگروپ ہے۔پاکستان اورچین دونوں نے ایم ٹی سی آرپردستخط نہیں کیے مگراس کے بغیربھی چین اورپاکستان دونوں اس کاپاس کرتے ہیں اورکوئی ایساسسٹم برآمدنہیں کیاگیاجس کی رینج 300کلومیٹرسے زیادہ ہومگراس اقدام کی تعریف کرنے کی بجائے یہ کہاجاتاہے کہ پاکستان اورچین آپس میں تعاون کر رہے ہیں۔اگرمسئلہ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہے تودوسری طرف انڈیاکاسارامیزائل پروگرام روس کے تعاون اورمددسے بناہے اوراب امریکا نے اسے سول جوہری کلب کارکن بناکرہرقسم کی پابندیوں سے آزادکررکھا ہے۔اس کی مثال انڈیاکابراہموس میزائل ہے،جب ابتدامیں روس سے یہ ٹیکنالوجی لی گئی تواس کی رینج290کلومیٹرتھی مگراب انڈیااسے800کلومیٹرتک لے جاچکاہے اوراس کے ہائپرسانک ورژن پربھی کام ہورہاہے مگر یہاں ایم ٹی سی آرکی بات نہیں کی جاتی۔یادرہے کہ ایم ٹی سی آرمیں300کلومیٹرسے زیادہ رینج والے میزائل کی برآمدپرپابندی ہے اور500کلوسے زیادہ کے وارہیڈزکی بھی اجازت نہیں ہے۔انڈیاکااگنی فائیوکی مثال آپ کے سامنے ہے جس کی رینج5000-8000کلومیٹرہے اوریہ تین سے پانچ اور شایداس سے بھی زیادہ وارہیڈزلے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اورانڈیاایٹمی آبدوزوں پرلگانے کیلئے بھی اس کے ورژن تیار کررہاہے۔
جبکہ پاکستان کے پاس تو کوئی ایٹمی آبدوز نہیں ہے۔پاکستان کے تحمل کی تعریف تونہیں کی جاتی مگریہ یادرکھناچاہیے کہ پاکستان کی کوششیں جنوبی ایشیامیں سٹریٹیجک استحکام برقراررکھنے کیلئے ہیں۔انڈیاکے جواب میں تیارکی گئیں ٹیکنالوجیزسے مسئلہ تونہیں ہوناچاہیے۔اصل بات یہ ہے کہ امریکاکے نزدیک انڈیا کواڈ کاسب سے اہم رکن ہے۔اس کے علاوہ انڈیاکی سافٹ پاور، معاشی طاقت پاکستان سے بہت زیادہ اورمغربی ممالک کے ہرتھنک ٹینک میں انڈینزکاغلبہ ہے جوعوام اورحکومتوں کی رائے عامہ بنانے پربہت اثررکھتے ہیں۔یادرہے کواڈچار ممالک کاگروپ ہے جس میں انڈیا،آسٹریلیا،جاپان اورامریکاشامل ہیں۔
امریکاکی مختلف بین الاقوامی مقامات پرجیوسٹریٹیجک دلچسپیاں ہیں جیسے یوکرین روس،مشرقِ وسطیٰ اورتائیوان چین وغیرہ کی صورتحال ہے اوراسی باعث اس نے مختلف جگہوں پران ملکوں سے مختلف وعدے کررکھے ہیں اورجنوبی ایشیاکے خطے میں چین کے اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئے کواڈبنایاہے ۔ چین کے ساتھ کشیدگی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام پرپابندی کی ایک وجہ ہے۔امریکی پابندیوں کامحوربنیادی طورپرپاکستان کے بجائے چینی کمپنیاں ہیں،تاکہ بیجنگ کومجبورکرکے معاشی دباؤڈالاجائے۔
اس لئے معاشی وسیاسی حوالے سےیہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان امریکاکو نشانہ بنانے کا سوچے،کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ (تقریباً ً6 ارب ڈالر)امریکاہے اوروہاں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعدادملک میں رقوم بھیجتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان اپنے معاشی مسائل کے حل(آئی ایم ایف )کیلئےامریکاکے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات برقراررکھنااپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کااہم ہدف سمجھتاہے۔
تاہم ایساممکن ہے کہ پاکستان(این ڈی سی)ابابیل میزائل سسٹم کازیادہ جدت والاورژن تیارکررہاہوجوکسی بھی انڈین بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈکو شکست دے سکتاہے اورایک سے زیادہ وارہیڈزکابھاری پے لوڈلے جاسکتاہوتاہم اس کیلئےزیادہ طاقتورراکٹوں کی ضرورت ہوگی اورامریکی حکام این ڈی سی پراسی کی تیاری کاالزام لگارہے ہیں لیکن یہ انڈیا کیلئےبنائے گئے مخصوص میزائل سسٹم کوآئی سی بی ایم(بین البراعظمی بیلسٹک میزائل)میں تبدیل نہیں کرسکتااوراس کیلئےبالکل نیامیزائل سسٹم چاہیے ہوگا۔
امریکاکے پالیسی سازحلقوں میں انڈیاکے بڑھتے اثرورسوخ کےنتیجہ میں بائیڈن انتظامیہ نے یہ قدم اٹھایاہےاور پاکستانی کی دفاعی صلاحیتوں میں کمی لانے کیلئےانڈیااب امریکاکاکندھااور دباؤاستعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر تنقیداورشکوک وشبہات کااظہارکرنااس بات کاثبوت ہے واشنگٹن میں انڈین لابی بائیڈن کے آخری دنوں میں ان کی کمزوری کافائدہ اٹھاناچاہتی ہے۔مستقبل میں بھی ایساممکن نہیں ہے کہ پاکستان امریکاپرحملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے کیونکہ پاکستان کا میزائل واٹامک پروگرام انڈیاکیلئےمخصوص ہے پاکستان کسی قسم کی ہتھیاروں کی دوڑمیں شامل نہیں ہے۔