ایک عزیزدوست نے کہاتھا،مدارس میں منطق کی تدریس پرپابندی ہونی چاہئے،تب یہ خیال خام لگاتھا لیکن اب حضرت مولانا فضل الرحمن کی تازہ سیاسی چال نے چودہ طبق روشن کردئیے ہیں کہ”ہم ایسے ہی اسلام آبادنہیں گئے تھے اورنہ ہی ایسے اٹھ کر آئے ہیں”۔ اقبال نے کہاتھا:محشرمیں ان کاجنون فارغ نہ بیٹھے گا۔جنون توشاید کبھی فراغت پاسکے مگردانش نہیں پاتی۔ذہانت کوقرارنہیں ہے۔وہ خوداضطراب میں رہتی ہے اورگردوپیش کیلئےبے چینی تخلیق کیاکرتی ہے۔فضائی آلودگی بلکہ ایٹمی تابکاری کی طرح اس بے چینی کا کوئی کنارہ نہیں۔بڑھتی اورپھیلتی چلی جاتی ہے،دلوں اور دماغوں کیلئے وسوسے جنم دیتی ہے اور آدمی کوژولید گی کاشکاربناکربیکارمحض بنادیتی ہے۔ منطق بگھارتی اس ذہانت کے ہزاررنگ اور ہزار روپ ہیں۔
عقل عیارہے سوبھیس بدل لیتی ہے۔
عشق بیچارہ نہ زاہدہے نہ ملانہ حکیم۔
مولاناامین احسن اصلاحی مرحوم،اللہ ان کے درجات بلند کرے،حیرت سے کہاکرتے کہ اقبال کوکیاسوجھی۔وہ فردکوناپسندکیوں کرنے لگے۔خیر،انہیں تواوربہت سی چیزوں پہ الجھن تھی اورورثے میں یہ الجھن اپنے شاگردوں کیلئےچھوڑگئے۔ان میں سے ہر ایک علامہ ہے۔دعویٰ بلند،ادعابہت انکسارسے چڑاورالفاظ کے دریا۔لچھے دارگفتگواورمفہوم ومعانی اکثرندارد۔مثال کے طور پر یہ کہ تصوف کیابلاہے،اسلام سے اس کاکیا واسطہ؟گویاخواجہ حسن بصری سے لے کرخواجہ مہرعلی شاہ تک اقبال نے جن سے شاگردانہ تعلق کی آرزو کی تھی،مسلم تاریخ کے ان گنت ابواب حذف ہی کرناہوں گے۔بیچ میں سیدالطائفہ جنیدبغدادی ہیں۔شیخ عبدالقادرجیلانی ہیں،امام ابن تیمیہ نے کمال کیف سے جن کوخراج تحسین پیش کیاتھا۔امام شاذلی،مشرق وسطیٰ کا مغرب آج بھی جن کے سحرمیں جیتاتھا۔
راہ سلوک کے مسافر،معاشرے سے الگ تھلگ ہوئے جاتے تھے،امام شاذلی نے کہا:صوفی کوکیا ہوا،وہ بیوی کو اپنے ساتھ لے کرنہیں چلتا۔ صوفی کو کیاہواکہ بازارمیں سوداسلف نہیں خریدتا۔اس اندیشے میں لوگ کہیں گے کہ صوفی ادنیٰ چیزوں میں مبتلا ہے۔
فقط یہاں برصغیرمیں دیکھئے حضرت علی بن عثمان ہجویری ہیں۔ہزاربرس ہونے کوآئے اوران کی تصنیف کشف المحجوب وہ اعلیٰ ترین متن ہے کہ آج بھی الجھے ہوئے ذہنوں کی گرہ سلجھاتی ہے۔خواجہ معین الدین چشتی ہیں۔ فریدالدین شکرگنج ہیں۔شاہ رکن عالم،بہاؤالدین ذکریا،شیخ شہاب الدین سہروردی ، مشرق کے شاعرنے جنہیں دانائے رازکہا۔ مسلم ممالک کے درمیان تنازعات طے کرنے والے بلندفکر،پھرخواجہ نظام الدین اولیاء۔گویا ایک کہکشاں ہے۔یہاں سے وہاں تک نورکی رداہے اورہرعہد کی تاریکیوں میں جلتے ہوئے چراغ گمراہوں کیلئےروشنی اوراہل علم کیلئےمراتب بلند کرنے کی سیڑھیاں۔
کوئی پھول بن گیا ہے،کوئی چاند کوئی تارہ
جو چراغ بجھ گئے ہیں تری انجمن میں جل کے
حافظ ایک تک بندشاعرکے سواکیا تھالیکن صوفی کی صحبت نے فکروخیال کوایسامہمیزکیا کہ مثال ہوگئے۔
گدائے میکدہ ام لیک وقت مستی بیں
قدم بر فلک وحکم بر ستارہ کنم
(میکدے کاگداہوں لیکن وقت مستی میں آسمان پہ قدم رکھنااورستاروں کوحکم دیتاہوں)
خسروکوخواجہ نظام الدین اولیاء کی صحبت نے امیرخسرو بنایااورہمیشہ کیلئےزندہ کردیا۔بلھے شاہ ایک ایسے شاعر کے سوا کیا بنتے،زمانہ جلد ہی جسے فراموش کردیتالیکن پھرشاہ عنایت کی صحبت نصیب ہوئی۔
عرش منوربانگاں ملیاں سنیاں تخت لہور
شاہ عنایت کنڈیاں لائیاں لک چھپ کھچدااے ڈور
(عرش منورکی اذانیں شہرلاہورمیں سنی گئیں۔شاہ عنایت ماہی گیر کی طرح کنڈی لگائے بیٹھاہے۔ پتہ ہی نہیں چلتااور آدمی اس کااسیرہوجاتاہے)طالب علم کااحساس یہ ہے کہ جہاں شاعروں کی سانس ٹوٹنے لگتی ہے،بلھے شاہ وہاں سے آغاز فکرکرتا ہے۔ اپنے حیرت زدہ اورمبہوت قاری کے ساتھ وہ ستاروں کی خبرلاتاہے اورایسی رفعتوں سے زندگی کودیکھتاہے کہ اس کے سب رگ وریشے آشکار ہوجاتے ہیں۔
زمین دورسے تارہ دکھائی دیتی ہے
اورچاندہے اس پہ چشم نیلگوں کی طرح
سب سے بڑی مثال مولانا روم کی ہے۔مولاناجلال الدین رومی،جنہیں شاہ شمس تبریزکی ہمسائیگی عطاہوئی۔ایسی طبع موزوں ملی کہ ابدلآ بادتک حسن،خیراورجمال کالہکتا ہوااستعارہ ہوگئے۔خودکہا
مولوی ہرگز نہ شدمولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
(مولوی ہرگزمولائے روم نہ ہوتا،اگرشمس تبریزکی غلامی نہ کرتا)
عدالتی آزادیوں کے خلاف حضرت مولانافضل الرحمن کی مورچہ بندی کاخیال تھا۔تصورکامعاملہ عجیب کہ بھٹکتاہے توگاہے تاریخ کے اجالوں کوجالیتا ہے۔عقل،فریب دینے والی عقل،حضرت مولاناجس کے سحرمیں مبتلاہیں جس چیزکواپنی متاع گردانتے ہیں،کیاوہی ان کاخسارہ نہیں؟الیکشن وہ ہارگئے تھے اورالیکشن ہی نہیں نیک نامی بھی لیکن ذہانت ایسی پائی ہے کہ قومی اسمبلی کے چندارکان کی بنیاد پراب بھی ایک بڑے کھلاڑی بن کرسامنے آئے ہیں۔انسان خطا کے مرتکب ہوتے ہیں توبہ کرتے ہیں اورپھرتوبہ کرنے والوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ مہتاب بن کردمکتے ہیں۔کیااس عظیم صوفی فضیل بن عیاض سے جوکبھی راہزن تھے،ڈاکوؤں کاسامعاملہ کیا جائے؟حضرت مولانامفتی محمودنے فیلڈمارشل ایوب خاں کے ایماءپر ایک آئینی ترمیم کی حمایت کی تھی۔کیاان کاشمارآمریت کے کارندوں میں کیاجا سکتاہے؟ظاہرہے کہ ہرگزنہیں۔ 1970ءکی دہائی کی انتخابی مہم میں جمعیت علمائے اسلام خم ٹھونک کرمذہبی جماعتوں کے خلاف میدان میں اتری اور پیپلزپارٹی کی مددکی لیکن 1977ء میں انہیں اپوزیشن کے متحدہ محاذ کی سربراہی سونپی گئی۔
مولانافضل الرحمن خوب جانتے ہیں کہ کسی بھی عظیم کشمکش میں آدمی کے حالیہ کرداراورموقف کودیکھاجاتاہے اور ماہیت قلب کے بعدماضی کوہرگز نہیں ۔وہ اب سمجھتے ہیں کہ عوامی بیداری کی تازہ لہربن کراقتدارکے اس منصب تک پہنچ سکتے ہیں جس کی آرزوانہوں نے قصرسفیدکے نمائندے کے سامنے کی تھی۔پنجابی کامحاورہ یہ ہے کہ سونے والے کو جگایاجاسکتاہے مگر جاگتے کوکون جگائے۔میرے ایک دوست نے کہاتھا:
مدارس میں منطق پڑھانے پرپابندی ہونی چاہئے کہ آخرکوخوف خدارہتا ہے اور نہ درد مندی،فقط منطق رہ جاتی ہے اوردریوزہ گری۔تب یہ خیال خام لگا،آج اندازہ ہواکہ وہ سچ کہتے تھے۔ منطق نہیں، آدمی کواخلاص چاہئے ،ورنہ عقل وہ فریب دینے والی عقل ہے کہ سامری کابچھڑامیدان میں لانے پراکساتی رہتی ہے۔