”خاموش چیخ”

:Share

خاموشی کی زبان آپ سمجھتے ہیں؟نہیں……..تو اس میں میرا کیا قصور!خاموشی میں ایک چیخ پوشیدہ ہوتی ہے،ایک احتجاج،ایک طوفان،اور جب خاموشی بول پڑے تو گھمسان کا رن پڑتا ہے ،پھر کوئی نہیں بچتا……جی،کوئی بھی نہیں۔وہ جو محلات میں آسودہ ہیں اور وہ جو کھولیوں اور جھونپڑیوں میں تڑپ رہے ہیں سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔بس دیکھو ایک انتظار کے بعد کیا ہو تا ہے، حادثہ ایک دم تو نہیں ہوتاناں!برسوں وقت اس کی پرورش کرتا ہے،پالتا پوستا ہے،پھر ایک دن لاوا پھٹ پڑتاہے،پھر وہ دہکتی آگ کچھ نہیں دیکھتی….مال و منال،عزت و آبرو،ذلت و رسوائی،زردار اور بے زرکچھ بھی نہیں۔یہ خط پڑھنا چاہیں گے آپ؟مرضی ہے آپ کی۔آئینے تو بکھرے پڑے ہیں اور وہ ہمیں شکل دکھانے سے باز نہیں آتے ۔آئینے کی لاکھ کرچیاں کر دیں،وہ کبھی اپنا کام نہیں چھوڑتے۔ میں اس خط کے کچھ ایسے مندرجات حذف کر رہا ہوں جویقیناایک دکھی دل کی فریادتو ضرورہیں لیکن مقتدر حلقے اسے برداشت نہ کر پائیں گے!
بھائی ملک صاحب! السلام و علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
رب آپ کو اپنی عافیتوں کے سائے میں رکھے(آمین)
بعض اوقات آپ کے کالم پڑھ کر کئی خدشات اور وسوسے پیداہوجاتے ہیں اوردل سے فوری دعانکلتی ہے کہ اللہ آپ کوگوانتانا”سے محفوظ رکھے ۔آپ کاقلم دنیاجہاں کے مسائل پر تو بڑی روانی کے ساتھ لکھتاہے لیکن گھرمیں جوآگ لگی ہوئی ہے اورخلقِ خداکودن دیہاڑے کندچھری سے جوذبح کیاجارہاہے اس پرآج تک آپ نے کوئی توجہ نہیں فرمائی۔ بھائی!آپ جو اہلِ دانش ہیں،اپنے درد اور کرب کو لفظوں میں پرونے کا فن بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے ،حساس بھی ہیں اور محب وطن بھی۔آپ کے لفظوں کی سچائی ،یہ کہ لوگ آپ کی تحریریں پڑھتے ہیں،ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں لیکن مجھ جیسا ایک عام انسان اپنے درد اور کرب کو وہ لفظ بھی عطا نہیں کر سکتا،حالانکہ برسہابرس سے صحافت کی صحرانوردی میں عمرگزری ہے۔ بیان کا سلیقہ بھی موجوداور میڈیا سے بھی پرانارشتہ ہے لیکن کیاکروں…….. درد تو درد ہے ناں بھائی جو ہر انسان کے دل اور سینے میں ہوتا ہے پھر وہ یہ درد لیکر کہا ں جائے کس سے بیان کرے،کس کو دکھائے یہ زخم؟میں آپ سے جو بات کروں گا آپ کہیں گے نیا کیا ہے اس میں؟لیکن بھائی!ہر درد دوسرے سے جدا ہے،ہر ایک اپنے غم میں تنہا ہے۔سنا ہے کہ درد بانٹنے سے کم ہو جاتے ہیں اور چھوٹے بھائی تو اپنے دکھ درد اپنے بڑے بھائی سے! شیئرکرتے ہیں ہے ناں
آپ جانتے ہیں کہ مجھے سبق سکھانے کیلئے میرے جواں سال چھوٹے بھائی فیصل کونادیدہ قوتوں نے محض اس لئے بہیمانہ اندازمیں قتل کردیاکہ میرے ساتھ وہ بھی صحافت کے میدان میں قوم کووطن دشمن افرادکے منصوبوں سے بروقت آگاہ کرکے ان کے راستے کا ایک بڑاپتھربناہواتھا۔ اس حادثے نے میرے سارے وجودکو ریزہ ریزہ کردیالیکن اس کے باوجود انصاف کے حصول کیلئے میں نے ملک کے ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہم سب کی صدائیں بازگشت بن کرہمارے ہی منہ پر مار دی گئیں اورآج تک ان قاتل قوتوں کاسراغ نہیں لگایاجاسکا۔اس ناقابل برداشت زخم کے باوجودمیرے قلم نے جب ہارنہیں مانی تو انہی قوتوں نے ایک اورایساکاری وارکیاجس کے بعد میں سوچتاہوں کہ کیاواقعی وطن سے محبت کرنا ایساناقابل تلافی جرم ہے جس کی سزامجھے ہرقدم پرچکانی پڑے گی اورہرلمحہ مجھے ناکردہ گناہوں کے عذاب سے دوچارہوناپڑے گا؟
پچھلے کئی مہینے میں نے بہت کرب میں گزارے ہیں۔یوں لگتاہے کہ اب میرے قلم میں بھی اتنی طاقت نہیں رہی اس کا سہارا لے کر یہ بوجھ ہلکا کر لوں۔اب تو ہر روزپاکستانی ٹی وی پر ایسے دل دہلادینے والے مناظردیکھنے کوملتے ہیں کہ سوچتاہوں کہ اگررب کے محبوب پیغمبر ۖکی دعاؤں کا سہارانہ ہوتاتویقیناہماری قوم کایہ مخصوص گروہ ہرروزطوفانِ نوح اورپتھروں کی بارش کاشکاررہتامگرمجھ جیسے ہزاروںیہ سوچنے پرمجبورہیں کہ یہ سلسلہ کب تک یونہی چلے گا؟رزقِ حلال کی پائی پائی جمع کرکے سر چھپانے کیلئے ایک چھوٹاساگھربنایاتھاجہاں چھوٹابھائی فیصل مقیم تھا،اس کے ناگہانی قتل کے بعدمناسب یہ سمجھاگیاکہ اسے کرایہ پراٹھادیاجائے۔تمام قانونی کاروائی کے بعد ایک قانون کے محافظ کی توسط سے یہ کاروائی سرانجام پائی لیکن کیا پتہ تھاکہ قانون کے محافظ ہی ان دنوں قبضہ مافیاکی شکل اختیارکرچکے ہیں۔اس گھرکی تمام قانونی دستاویزات کے باوجود میرے بچوں کے سرکی چھت چھین لی گئی ہے اورمیں یہ سوچنے پر مجبورہوں کہ تپتی جھلسا دینے والی دھوپ میں ملک کے یک کونے سے دوسرے کونے تک اپنے لاپتہ پیاروں کی بڑی بڑی تصاویر اٹھائے درجن سے زائدعورتیں ،معصوم بچے اوران کے لواحقین مارچ کرنے بعداب اقوام متحدہ کواس معاملے میں ملوث کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں کہ انہیں اب یہاں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں توکیامیں بھی ان سینکڑوں تارکین وطن جن کی جائیدادوں پرقبضہ مافیااپنے خونی پنجے گاڑچکاہے ،کوجمع کرکے اقوام متحدہ کے دروازہ پرنوحہ سنانے کیلئے پہنچ جائوں۔

میں سوچا کرتاتھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا صدمہ کیسے برداشت کیا ہو گا اہل وطن نے۔اتنا بڑا صدمہ سہہ کر بھی وہ زندہ بچ گئے،کیسے کیسے مر مر کے جئے ہوں گے وہ،میں تو ان کے حوصلوں کو ہمیشہ رشک کی نظر سے دیکھا کرتاتھا۔مشرقی پاکستان کے بنگالی بھی توہم کوقبضہ مافیاکانام دیتے تھے ۔بھائی !اب تک رہ رہ کر سینے میں جو درد اٹھتا ہے تو سوچتا ہوں کہ ۷۱ء میں یہی درد محسوس کیا ہو گااہل وطن نے۔یہ کسک ،یہ چبھن یہ ڈپریشن،مرمر کر جینا کہیں گے اسے آپ یاجی جی کے مرنا۔آپ اسے جو بھی کہہ لیں۔ہم تو زندہ ہیں ،ہمیں تو اپنے حصے کا قرض چکانا ہے۔اس پاکستان کو بچا لیں بھائی!اپنے قلم سے بچا لیں،اپنے حوصلوں سے بچا لیں۔تاریخ گواہ ہے کہ اہل قلم بھی قوموں کی تقدیر کا رخ بدل دیتے ہیں ،سیلابوں کے آگے بندھ باندھ دیتے ہیں وگرنہ ہم جیسے تارکین وطن نے احتجاج کے طورپرصرف زرمبادلہ بھیجنے سے ہاتھ روک لیاتوپھرکیاہوگا؟
بھائی اٹھئے !آگ کے شعلے بہت تیزی سے بلند ہورہے ہیں۔خطرے سے آگاہ کرنا تو خطرے سے بچنے کی تیاری کرنا ہے ناں۔آپ کو اس قوم کو ان خطرات سے آگاہ کرنا ہوگاکہ یہ قبضہ مافیا جو مختلف عہدوں پربراجمان مقتدرلوگوں کی ملی بھگت سے تارکین وطن کولوٹ رہاہے ،یہ پاکستانی طالبان ،بلوچستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث وطن دشمن افراد،اجرتی قاتلوں اوربھتہ خوروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں جنہوں نے ملک کے ہرادارے کواپنے گھرکی لونڈی بنارکھاہے۔ اٹھئے خدارا،اپنے پاکستان کو مزیدتباہی سے بچا لیں،بس آپ کی ذمہ داری اورصرف آپ کی ذمہ داری ہے۔
آپ کابھائی ڈاکٹرشاہدقریشی
پڑھ لیا آپ نے یہ قیامت نامہ’آپ اسے کیا سمجھتے ہیں؟چیخ نہیں تو اور کیا ہے یہ،میرے بھائی نے مجھ سے کیسی توقعات وابستہ کر لی ہیں،اسے کیاپتہ کہ میں خودبھی ایسے قبضہ مافیا کا شکارہوں ۔میں ذاتی طورپرگورنرپنجاب چوہدری سرورصاحب کوان تمام واقعات سے آگاہ کرچکاہوں،پاکستان کے عزت مآب جناب شہبازشریف صاحب ، آئی جی پنجاب کوبھی تحریری طورپرآگاہ کرچکاہوں۔بہت ہی مہربان بھائی لارڈ نذیراحمدصاحب نے ذاتی دلچسپی لیکر ان سارے واقعہ کی تحریری تفصیلات جناب شہباز شریف صاحب تک بھی پہنچائی لیکن ابھی تک کہیں شنوائی نہیں ہوئی بلکہ قبضہ مافیامجھے طعنہ دے رہاہے کہ تم نے زورلگاکرہماراکیابگاڑلیا؟کیامحترم وزیراعلیٰ کواس بات کاعلم ہے جب وہ امریکاکے ایک ہسپتال میں انتہائی نازک حالت میں دنیاومافیہاسے بے خبراپنے رب سے یہ عہدکررہے تھے کہ ”اگرمجھے اللہ نے زندگی دی تو میں پاکستان میں حق داروں کی دادرسی کیلئے اپنی جان تک قربان کردوں گا”۔
محترم شہبازشریف صاحب!ان خیالات کا اظہارآپ نے ایک پاکستانی فورم کے پینل میں لارڈ نذیر احمد، پہلے مسلمان کیوسی بیرسٹر صبغت اللہ قادری، موجودہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سروراورسینکڑوں پاکستانیوںکی موجودگی میں کیاتھاکہ ”اوورسیز پاکستانی ملکوں کو اربوں ڈالر کا سرمایہ بھیجتے ہیں اور بیرون ممالک میں یہ پاکستان کے سفیر ہیں۔برطانوی پاکستانیوں کی زمینوں و جائیدادوں پر لینڈ اور قبضہ مافیاسے نجات دلانے کیلئے باقاعدہ ایک سسٹم بنانا ضروری ہے اورمیں وعدہ کرتاہوں کہ واپس جاتے ہی اس مسئلے کواولیت دوں گا”۔گورنرپنجاب چوہدری محمدسرورصاحب نے تو سیاست کے سارے آداب برطانیہ میں سیکھے،کیاوہ بھی نمک کی کان میں جاکرنمک بن گئے ہیں؟
جناب شہبازشریف صاحب، جناب گورنرپنجاب اور جناب چیف جسٹس صاحب ہماری ان خاموش چیخوں پرتوجہ دیں گے یاپھریہ معاملہ روزِ جزاپر چھوڑدیاجائے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں