sick mind

ذہنی مریض

:Share

اللہ نے وطن اورگھرکی محبت انسان ہی نہیں درندوں اورپرندوں کے دل میں بھی پیدافرمائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ درندے اپنی غار اورپرندے اپنے گھونسلے کے ایک ایک تنکے کی حفاظت کرتے ہیں اورہرجاندارشام کواپنے ٹھکانے کی طرف پلٹتاہے۔کوئی جانداراپنے گھراوروطن کوچھوڑنے کیلئےتیار نہیں ہوتالیکن جب کسی کواس قدرستایاجائے کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑجائیں تو وہ ہرچیزچھوڑنے کیلئےتیارہوجاتاہے۔بس یہی ایک عمل ہے کہ دیارِغیرمیں جب وطن کی یادبہت ستاتی ہے تواپنی اس فرقت کاغم دورکرنےکیلئے کوئی ایساکندھاتلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سررکھ کراپنے دل کابوجھ ہلکاکرسکیں۔اسی سلسلے میں کچھ دوستوں نے”ایکس سپیس”پروطن کویادکرنے کاایک بہت ہی خوبصورت اہتمام کرتے ہوئے فیصلہ کیاکہ سوشل میڈیاکاٹرینڈ بدلتے ہوئے ارضِ وطن کے متعلق مستندتاریخی شواہدکے ساتھ نوجوان نسل کوان حقائق سے ضرورآگاہ کیاجائے تاکہ علم ہوسکے کہ دوقومی نظریہ کیاہے،پاکستان کس لئے معرضِ وجود میں آیا،اگرپاکستان نہ بنتاتو،قیامِ پاکستان کے وقت اغیارکی سازشیں،مشاہیرانِ پاکستان کاکردار،قیامِ پاکستان کے وقت اس صدی کی ہجرت اورلازوال قربانیوں کے پیچھے پنہاں بے مثال دکھ اوردرد اوراپنے رب سے کئے گئے اوفوبالعہدکی عہدشکنی پر آج مبتلامصائب پربے لاگ گفتگوکرنے کیلئے اگست کاپورامہینہ وقف کر دیا گیااوراس منفردپروگرام کے انعقادکیلئے جناب ڈاکٹرفریداخترکی اس منفرد تجویزپرایک دن مجھے اچانک برادرم شاکرقریشی نے نے اسپیس پرلیکچرز دینے کیلئےاصرارکرناشروع کردیا ۔میں نے نہ صرف ان کومبارکباددی بلکہ خودکوبھی اس کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش شروع کردی۔

جب پروگرام کاسلسلہ شروع ہواتودلچسپی کایہ عالم ہوگیاکہ ہمدردوبیدارذہن اورپڑھے لکھےدوستوں کے سوال وجواب سے کئی نئے عنوانات جنم لیتے گئے اوریہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔اس پروگرام میں نصف درجن سے زائدممالک میں بسنے والے کثیردوستوں کی رات گئے تک شرکت اس بات کی گواہی دینے لگی کہ:
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہوتویہ مٹی بہت زرخیزہے ساقی
کینیڈاسے دردِ دل رکھنے والے محترم نعیم صاحب،نجیب بٹ صاحب،امریکاسے جناب مرزاصاحب،سعودی عرب اوریواے ای سے احسن یعقوب صاحب اورمضبوط دلائل کے ساتھ جناب نویداحدصاحب نے اس میں بھرپورحصہ لیتے ہوئے اشتیاق کاایسا منظر باندھاکہ اسپیس کے بارے میں کئی اہل علم اورمختلف اداروں نے مجھ سے یہ سلسلہ جاری رکھنے کی فرمائش کردی اورابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے الحمداللہ۔

تاریخ اس کی گواہ ہے کہ دوقومی نظریہ کی بنیادپرارضِ پاکستان کے حصول کیلئے مشاہیرانِ پاکستان نے جودرست فیصلہ کیا، آج وقت ان کے صحیح اوربروقت فیصلے کی نہ صرف گواہی دے رہاہے بلکہ پاکستان میں بسنے والے تمام افرادان کے گراں قدر احسانات کے ممنون بھی ہیں۔

جب ہندوستان میں انگریزکورخصت کرنے کاوقت آیاتومسلمانوں نے کیونکہ ہندوستان میں کئی سوسال حکومت کی تھی،انگریزکی غلامی توایک سازش کے تحت قبول کرنی پڑی لیکن انگریزاورہندوکی مشترکہ دوستی اورمسلم دشمنی کوہمارے اکابرین نے وقت سے پہلے بھانپ لیااوریہی وجہ ہے کہ مشاہیرانِ پاکستان نے ایک الگ وطن کامطالبہ دوقومی نظریہ کی بنیادپراس لئے رکھاکہ انگریزکے جانے کے بعدہمیں اس ہندوقوم سے واسطہ پڑنے والاتھاجن کے خودساختہ مذہب نے انسانوں کے درمیان بھی تقسیم پیدا کررکھی تھی اورانہوں نے اللہ کے بندوں کوکم ازکم چارمختلف قوموں میں اس طرح بانٹ رکھاتھاجس سے ہرروزانسانیت کی تذلیل ہوتی ہے۔

بھارت میں ذات پات پر مبنی نظام سے ہم سبھی واقف ہیں۔یہ نظام ہندوسماج میں طبقاتی تضاد کوظاہرکرتاہے۔ذات پات کایہ رواج آریااپنے ساتھ لے کرآئے،جووقت کے ساتھ مختلف شکلوں میں تشکیل پاتارہا۔یہ نظام نام نہاداونچی ذاتوں( برہمن،کھشتری اورویش) کے ارکان کے حق کومزیدمضبوط کرتاہے جبکہ نچلی ذاتوں( شودر،دلت)کے ساتھ تذلیل پرمبنی سلوک کوجائزقراردیتے ہوئے ان کیلئےنیچ اورکم اہمیت کے حامل پیشوں کو مخصوص کرتا ہے۔

جدیددورمیں بھی اس نظام کی تعریف کے مطابق ہندووں کوچارمختلف طبقات میں تقسیم کیاگیاہے جن میں سب سے اونچادرجہ برہمنوں کودیاگیاہے ۔ تنزلی کے اعتبارسے کھشتری(جنگجواور حکمران)دوسرے،ویش(کسان اورتجارت)تیسرے جب کہ شودر (مزدور)چوتھے درجے پرہیں۔یہ تعریفیں ہندووں کی مقدس کتابوں خاص طورپر”منوسمرتی”سے لی گئی ہیں۔”شودریا اچھوت “ اوراب نیانام”دلت”جوسب سے نچلی ذات ہے اوران کے ساتھ نہایت غیرانسانی سلوک روارکھاجاتاہے۔آج یہ20 کروڑکی آبادی کے ساتھ ایسی اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں جسے مختلف طریقوں سے تعصب کا سامنا اوران کی سماجی ترقی کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی جہاں اپنی ملکی تاریخ کومسخ کرنے کے درپے ہے وہیں ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ہرروزان نیچ ذات(دلت)کے افرادکوتشددکانشانہ بنایاجاتاہے۔

دلت کوغلیظ ترین کاموں میں الجھاکرانہیں ہرطرح سے کمزوررکھنے کی ملکی پالیسی، تاکہ یہ کبھی طاقتوربن کرنہ ابھرسکیں۔ قانوناً پابندی کے باوجوددلتوں کوانسانوں کے فضلہ کونالوں،سیوریج یا سیپٹک ٹینکوں سے نکالاہاتھ سے صاف کرنے پرمجبورکیاجاتاہے جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ان کی بستیاں شہرسے الگ بنی ہعئی ہیں۔حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جولوگ غلاظت اٹھانےکا کام کرنے سے منع کرتے ہیں انہیں اعلٰی ذات کےلوگوں کی طرف سے دھمکی اورزیادتی کابھی سامناکرنا پڑتاہے۔

مزیدبرآں ان نچلی ذات کے لوگوں کی کسی سیاسی جماعت میں نمائندگی نہیں،اس لئے ان کے مسائل کی کہیں بھی شنوائی نہیں۔ان کے ساتھ کھانا، شادیاں کرنامذہبی طورپرغلط ماناجاتاہے ۔اس اقلیت کواعلی تعلیم کا کوئی حق حاصل نہیں ہے،اس وجہ سےان کو اعلی عہدوں تک رسائی نہیں ملتی۔ اگرکبھی کوئی ایسی جرات بھی کرے توہندوانتہاپسنداس پرظلم وستم کی انتہاءکر دیتے ہیں۔ظلم کی انتہاء تویہ ہے کہ آج بھی ہندوستان میں کئی مقامات پراگرکسی شودرکے کان میں ہندوؤں کی مقدس کتاب کے اشلوک(الفاظ)سنائی دیں تواس کے کانوں میں پگھلاہوا سیسہ ڈال دیاجاتاہے اوران کی عورتوں کی عصمت دری یہ کہہ کرجائزقراردی جاتی ہے کہ یہ “ناری”عورت خوش نصیب ہے کہ ایک برہمن کے جسم کوچھونے کاموقع مل گیا۔آج بھی ہندوستان کے کئی علاقوں میں شودرکو پاؤں میں جوتااورنیاکپڑاپہننے کی اجازت نہیں۔

ہندوانتہاپسندوں کی درندگی سے تنگ یہ لوگ یاتودیگرممالک میں ہجرت کرنے پرمجبورہیں یاپھراپنے بچاؤ کیلئےاپنا مذہب تبدیل کرنے کوترجیح دیتے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی ریاست گجرات کے قصبے اوناکے نواحی گاؤں سمادھیالہ میں ذات پات کی بنیادپرتفریق اورتشددسے تنگ ومجبورتقریباً300دلت خاندان اپنے مذہب کوخیربادکہہ کربدھ مذہب میں داخل ہو گئے ہیں۔

2020میں بھارتی ریاست اترپردیش میں ایک دلت عورت کے ریپ اور قتل نے بھارتی معاشرے میں ذات پات کی تقسیم کی حدوں کو مزیدنمایاں کردیاہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق مودی کی بی جے پی کے تحت اترپردیش بھارت کی”ریپ ریاست”بن چکی ہے۔ہندو انتہاپسند تنظیمیں اس نچلی ذات کے لوگوں اورباقی اقلیتوں سے غیرانسانی سلوک روارکھے ہوئے ہیں،بھارت کی سرکاری پالیسیاں اوراقدامات مسلمانوں،عیسائیوں،بدھ متوں اوردلتوں کوبربریت کانشانہ بنارہے ہیں۔ان اقلیتوں سے منظم طورپرامتیازی سلوک برتاجا رہاہے اوراس ظلم وستم کااختیاریہ ذات پات کانظام ہی سونپتاہے۔اس ذات پات کے نظام نے بھارتی سماج کوایک معاشرتی ونفسیاتی بیماربنادیاہے جہاں کسی کارآمدسوچ کے جنم لینے کے امکان دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ایک معاشرے کے پھلنے پھولنے کی امید کم ہوتی جارہی ہے۔وہ عورتیں جن کے ساتھ جنسی زیادتی اس لیے جائزقراردے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتی ہیں وہ جس نفسیاتی ڈپریشن سے گزرتی ہیں وہ کیسی اولادکوجنم دیں گی؟وہ بچے جنہیں دلت ہونے کی بناپرتعلیم کے حق سے محروم رکھاجاتاہے،ان سے غلاظتیں صاف کروائی جاتی ہیں،وہ بڑے ہوکرکیسے ایک مفید شہری بن سکتے ہیں؟

ان کی ذہنی نشوونماکوپنپنے سے پہلے ہی روک دیاجاتاہے۔وہ دلت،شودراوراچھوت کےلفظ کواپنے ساتھ بڑے ہوتے دیکھااورصرف لاشیں اٹھانے،سڑکیں صاف کرنے،نالیاں اورگٹر کھولنے،برہمنوں کی چاکری کرنے میں زندگی گزاری ہووہ کیسے محب وطن ہو سکتے ہیں؟ان سے بغاوت کاگلہ کیسے کیاجاسکتاہے،جب ان کوجائزاوربنیادی حقوق سے محروم رکھاگیاہو؟یہ تمام غیرانسانی کھیل حکومتی جماعت کی ناک تلے کھیلاجاتاہے اورہندوپسند تحریکیں اس کھیل کواپنے انتہاپسندانہ عمل اورنعروں سے اورہوادے رہی ہیں۔

انسان کی تکریم کوسب سے بڑانقصان اورسب سے بڑی رکاوٹ جوہندوؤں کے ذات پات کاطبقاتی نظام ہے۔ہندوانہ نظام میں انسانوں کو پیدائش کی بنیادپراعلیٰ وادنیٰ قراردینے میں ان کی مذہبی کتاب”منوشاستر”میں انسان کی تخلیق کے بارے میں جس طرح کی من گھڑت روایات بیان کی گئی ہیں،وہ انسان کی خودتذلیل کررہی ہیں جس کااندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایاجاسکتاہے۔
“ابتدا میں ایک ہی روح تھی یہ روح جب اپنے اردگر دیکھتی ہے تواسے اپنے سواکچھ نظرنہ آتا۔یہ روح پکارتی یہاں میں ہوں تب اس لمحے”مس”کا تصورقائم ہوا،وہ روح ایک ساتھی کی خواہشمندتھی۔اس نے ایک مرداورعورت کومربوط صورت میں بنایاپھر انہیں دوحصوں میں الگ کیا۔مرد شوہر بن گیااورعورت بیوی یعنی ابتداءمیں مرداورعورت ایک ہی جسم تھے۔پھر ازدواجی تعلقات پیدا ہوئے جن کے نتیجےمیں مخلوق پیداہوئی۔پھراس نے خیال کیاکہ ایک روح سے پیدا ہوتے ہوئے ازدواجی تعلقات کوقائم کرناغلط بات ہے۔اس لیے خودکوچھپالیا اور گائے بن گئی۔اس کاخاوندبیل بن گیا پھر صحبت سے گائے اوربیل پیداہوئے،پھروہ گھوڑی بن گئی اوروہ گھوڑا،اوران کے اختلاط سے گھوڑے پیداہوئے۔اسی طرح تمام زندہ مخلوق پیدا ہوئی یہاں تک کے تمام کیڑے مکوڑوں کی بھی ایسے پیدائش ہوئی”۔یہ عقیدہ یاسوچ انسانی تذلیل کیلئےکافی ہے۔

اللہ تعالیٰ جوکائنات ارضی کاخالق ومالک ہے،اس نے اپنی مملکت میں حضرت انسان کو اپناخلیفہ بنایا۔اسلام کہتاہےکہ:
بے شک ہم نے آدمی کوسب سے اچھی صورت میں پیداکیا۔(التین:4).انسان ربِ تعالیٰ کی خصوصی تخلیق ہےاسے بہترین صورت میں پیداکیابلکہ اس میں اپنی روح پھونکی جیساکہ قرآن میں ہے کہ: جب میں اسے پورے طورپربنالوں،اس میں اپنی روح پھونک دوں تواس کے آگے سجدے میں گرجاؤ(ص:72)۔یعنی آدم کوتعظیمی سجدہ کرواکرانسانی عظمت کووقارکی دولت بخشتے ہوئے اشرف المخلوقات بنا دیاجبکہ اس کے برعکس ہندو مذہب کے مطابق روح حواکی تھی،وہ تنہائی میں ڈر گئی توپھراس کی دلجوئی کی خاطرایک مرد کو اس کیلئےپیدا کیایعنی ایک جسم سے مرداور عورت پیدا ہوئےجبکہ قرآن اس کے بارے میں ہماری رہنمائی ایسے کرتا ہے:
“لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے(الحجرات:13)۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کودیگرمخلوقات سے معززومکرم بنایا،چنانچہ قرآنِ پاک میں فرمایا:
بیشک ہم نےاولادِآدم کوعزت دی اورانہیں خشکی اورتری میں سوارکیااوران کوستھری چیزوں سے رزق دیااورانہیں اپنی بہت سی مخلوق پربہت سی برتری دی۔(بنی اسرائیل:70)

اسلام کی نظرمیں بطورانسان کسی کوبھی کسی پرفضلیت حاصل نہیں ہےجبکہ ہندومذہب میں ذات پات کے طبقاتی نظام نےاعلیٰ اورادنیٰ کامعیارقائم ہے ۔اسلام نے عزت وقاراوربہتر ہونے کی وجہ تقوی کوقراردیاہے جبکہ ہندومذہب میں عزت وقاراس شخص کےحصے میں آتاہے جوبرہمن کے ہاں پیدا ہو جبکہ شودرکے ہاں پیداہوناہی ذلت ورسوائی کی علامت سمجھاجاتا ہے۔مسلمانوں کوتو اب بھی ملیچھ سمجھ کردلتوں سے بھی بدترسلوک کامستحق سمجھا جاتا ہے۔ہندوستان کی تقسیم کو77برس گزرگئے ہیں اورآج بھی جہاں انسانی تفریق کایہ حال ہے توخوددلت کو ہندومذہب کاایک حصہ سمجھتے ہوئے ان سے یہ سلوک روارکھاجارہاہے تواگرخاکم بدہن دوقومی نظریہ کی بنیادپرپاکستان کی تخلیق نہ ہوتی تومسلمانوں کاکیاحال ہوتا۔ہمارے ہاں کے وہ ذہنی مریض یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان اکثریت کی بناءپرایک بہترزندگی گزاررہے ہوتے تووہ اس بات سے ہی اندازہ لگالیں کہ مسلمان اوردلت مل کرہندوذہنیت کے مظالم سے چھٹکارہ پانے کیلئے دن رات دعائیں کررہے ہیں۔اگران حالات کے باوجودوہ پاکستان کے وجودِ مسعودکوتسلیم نہیں کرتے توان کیلئے بہترہے کہ وہ اپنابوریابسترہندوماتاکے قدموں میں جاکر بچھالیں۔اس خبرکوبھی پڑھ لیں کہ سندھ سے جوسوافرادپاکستان کوچھوڑ کر وہاں اپنے رشتہ داروں کے پاس منتقل ہوگئے تھے،ایک سال کی مسلسل تذلیل کے بعدانہیں پاکستان جنت معلوم ہونے لگ گیااوروہ دوبارہ معافی وتلافی کے بعدواپس اپنے گاؤں میں آگئے ہیں۔

مودی کی متعصب حکومت کیں آج بھی ہندوستان کے بعض علاقوں میں مسلمانوں پراس قدرمظالم توڑے جارہے ہیں کہ ظالم اور سفاک ہندومسلمان خواتین اورمعصوم بچوں کوبھی معاف نہیں کررہے۔ جس کی وجہ سے مرد، عورتیں اور بچے بلبلا اٹھے ہیں کہ:آخرکیاوجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں،عورتوں اوربچّوں کی خاطرنہ لڑوجوکمزورپاکردبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایاہم کواس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں،اوراپنی طرف سے ہماراکوئی حامی ومددگارپیداکردے۔﴿ؕالنساء:75﴾

اس دعامیں کمزورمسلمانوں کی مظلومیت کانقشہ پیش کرنے کے ساتھ ان کی ہمدردی اورمدد کیلئےمسلمانوں پرجہادکی فرضیت واضح کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی جہادکی بنیادی طورپرتین اقسام ہیں۔1۔دفاعی۔2۔مظلوم مسلمان اورانسانیت کی مددکرنا۔3۔اللہ کے باغیوں کوسرنگوں کرکے پرچم اسلام کوسربلندرکھناکیونکہ زمین ومافیہااللہ کی ملکیت ہےلہٰذاباغی انسانوں کو سرنگوں کرنا اوررکھنااللہ والوں کی ذمہ داری ہے۔جہاں تک مظلوم انسانیت کی مددکرنے کامعاملہ ہے دنیامیں دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمان لازوال تاریخ رکھتے ہیں کیوںکہ انہوں نے اپنی اغراض کی بجائے محض اللہ کی رضااورانسانیت کی حمایت کیلئےبیش بہا قربانیاں دی ہیں۔

ہسپانیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جب عیسائی حکمران راڈرک نے اپنے ہی گورنر کی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کی توگورنرنے مجبورہوکراپنے ہم منصب مسلمان ملک کے سرحدی گورنرموسیٰ بن نصیرکوخط لکھاجس کے جواب میں طارق بن زیادنے اسپین پرحملہ کیاجس کے نتیجے میں تقریباً8سوسال تک اسپین امن وامان کاگہوارہ بنا۔ہسپانوی مورخ اسے ہسپانیہ کی تاریخ کاسنہری دور تصورکرتے ہیں۔ایسی ہی صورت حال سندھ میں جب مسلمان مسافروں پرداہرکے غنڈوں نے حملہ کیاتوایک مسلمان بیٹی نے عراق کے گورنرحجاج بن یوسف کودہائی دی۔ حجاج نے اپنے بھتیجے محمدبن قاسم کومظلوموں کی مددکیلئےبھیجاجس سے تقریباًایک ہزارسال تک ہندوستان میں اسلام کاپھریرابلندرہااوراس ملک میں وحدت پیداہوئی۔لوگوں کوسیاسی،علمی شعورملنے کے ساتھ امن و سکون نصیب ہوااورپاکستان وجودمیں آیا۔اسی جہادکی ترجمانی قادسیہ میں جواس وقت ایرانی حکومت کا دارالحکومت تھا( البدایہ والنہایہ)میں حضرت ربیع (رح) نے رستم کے سامنے ان الفاظ میں کی تھی۔(ہم خود نہیں آئے) ہمیں بھیجاگیاہے تاکہ لوگوں کوجہالت کی تاریکیوں سے نکال کرنورایمان میں لاکھڑاکریں۔عوام الناس کوبڑے لوگوں کے جوروستم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام میں زندگی گزارنے کاموقعہ فراہم کریں۔)

آج کی نوجوان نسل کویہ بتانااس لئے ضروری ہے کہ انہیں دوقومی نظریہ کی حقیقت کاادراک ہوسکے اوروہ مملکت خداداد پاکستان کے وجود کواپنے لئے ایک نعمت سمجھ کراس کی قدرکر سکیں ۔”اوراگرتم اللہ کی نعمتیں گنوتوانہیں شمار نہیں کر سکوگے(النحل:18)”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں