شاہی فرمان

:Share

شاہی فرمان جاری ہوچکا،گھبرانانہیں۔ لب بند،قلم بند،زباں بند……مہیب سناٹا،خاموشی،اضطراب اوربے کلی۔ پوری رات یوں ہی گزر گئی۔ پھر سناٹے،خاموشی اوراضطراب کوتوڑتی ہوئی ایک آوازبلندہوئی۔رب کی برتری،عظمت اورجلال کی آواز ……!خانۂ خداکے بلندمیناروں سے گونجتی ہوئی،جسے کوئی نہیں روک سکتا…ہاں کوئی بھی نہیں۔رب ذوالجلال کی کبریائی بیان کرتی ہوئی آواز، زمینی خداؤں کے منہ پرخاک مل دینے والی آواز ،خودساختہ دیوتاؤں کولرزادینے والی آواز، انسانیت کیلئے نوید ِمسرت … حوصلہ اورامید کانقارہ،نقارہ خداوندی… سربلند وباوقارجلال اورجمال…سربلند باددوستانِ دیں کی نوید ………!

ہم بھی عجیب ہیں۔وہ پکارتاہے:آؤتم فلاح چاہتے ہوناں۔توآؤاورہم کیاکرتے ہیں؟زمینی خداؤں کے آگے بھکاری بن کرکھڑے رہتے ہیں اوردھتکار دیے جاتے ہیں،دھتکارے ہوئے لوگ……اورجب ہرطرف سے،ہردرسے محروم ونامراد لوٹتے ہیں،تب وہ ہمیں یاد آتا ہے۔ہاں وہ پھربھی ہمیں گلے لگاتاہے۔پیغامِ مسرت سناتاہے،اصل کی طرف بلاتاہے۔بس وہی ہے اورہے کون؟ہم گداگراوربھکاری بن گئے ہیں۔ہم فقیرکہاں ہیں!فقرکی توشان ہی نرالی ہے۔وہ مختارجاذب،میراجواں مرگ دوست یادآیا۔اس نے کہاتھا:

ہم کہاں ایک ہی بابِ طلب تک رہتے ہیں!بے شمارولاتعداددروں کے محتاج ہوگئے ہیں اوروہ پھربھی ہماری بے وفائی،ہماری غلطیوں،ہماری سیہ کاریوں ،ہماری بداعمالیوں،منافقتوں اورہمارے کھوٹ کونظراندازکردیتاہے۔آؤفلاح کی طرف……بس یہی درِ خالص ہے،باقی سب جھوٹ ہے، مکرہے، فریب ہے۔مکروفریب کی سہانی دنیا……بے چینی کاسرچشمہ۔رات بھرآنکھوں میں کاٹنے کے بعدعلی الصبح جب بہت بے کلی بڑھی تب بابا جی اقبال یاد آنے لگے:
صدنالۂ شب گیرے،صدصبح بلاخیزے
صد آہ شررریزے،یک شعردل آویزے
درعشق وہوس ناکی،دانی کی تفاوت چیست؟
آں تیشۂ فرہادے،ایں حیلۂ پرویزے

واصف صاحب مسکرانے لگے اورپھرگویا ہوئے”ہم سب فرعون کی زندگی اورموسیٰ کی عاقبت چاہتے ہیں۔ایساتونہیں ہو سکتا”۔اورپھرتوتانتابندھ گیا۔یہ جوزمینی خدابن بیٹھے ہیں،اوروہ جوگزرگئے،اب تماش بینوں کیلئےسامانِ عبرت بنے ہوئے ہیں ۔اس سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔اندھے،بہرے، خود فریبی کا شکارفرعونِ زمانہ…یہ سمجھتے ہیں ہم ہیں پالن ہار۔بس ہم۔ عجیب سی بات ہے۔یہ لبرل،سیکولراورروشن خیالی کے دعویدار……اوروہ بھی اصل

نہیں بالکل جعلی۔اصل توہربات اچھی لگتی ہے ناں۔ٹھیک ہے اختلاف اپنی جگہ، اصل توہوناں۔سراسرجعل سازی کے ماہر۔منافقت کے مجسم شاہکار خود فریب۔

“فرمانِ شاہی ہے کہ صبرکرو،گھبرانانہیں لیکن خوداقرارکرناپڑاکہ میرادولاکھ میں گزارہ نہیں ہوتاجبکہ ہزاروں دیگرمراعات بھی میسرہیں۔دہمکی آمیز تقریریں، نہیں چھوڑیں گے ان مافیازکولیکن کوئی یہ بھی توبتائے کہ لاکھوں ٹن گندم ملک سے باہر کسی کے حکم پربھیجی گئی کہ آج ملک میں قحط کاسماں ہے۔ عجیب وغریب بیانات سامنے آرہے ہیں کہ عوام نومبراور دسمبرمیں گندم زیادہ کھاتے ہیں،اب ایک وقت کھانے میں سے بھی ایک روٹی اورکم کردو۔ ظالموں،غریب کے منہ سے تولقمہ تک چھین لیاگیاہے اورجھوٹ اس ڈھٹائی سے بولاجارہاہے کہ آٹے کی کوئی قلت نہیں۔اگرایساہے تولاکھوں ٹن گندم درآمد کرنے کاشاہی فرمان کیوں جاری ہواجبکہ دومہینوں میں ملکی فصل بھی منڈیوں میں دستیاب ہوگی۔

عوام سے ایک اورمذاق،آٹے کی قلت بھی نہیں اورمعاملے کی تحقیق کیلئے کمیٹی بنا دی گئی جس کوچنددنوں میں شاہی محل میں رپورٹ دیکراصل مافیاکی نشاندہی کرنا تھی لیکن اب سب کوسانپ سونگھ گیاہے۔قبرمیں سکون اورٹیکالگنے سے حوروں کی زیارت کی نویدسنائی جارہی ہے۔کیایہ بدحال عوم کی دلجوئی کرنے کی بجائےاس کا مذاق اڑانے کاوقت ہے؟ ہرتقریرمیں اپنی ناقص کارکردگی کی بجائےسابقہ حکم رانوں کولتاڑنے اوران کی تھوک کے حساب سے گرفتاریوں سے قوم کوان مشکلات سے نجات مل جاتی تواب تک ساراملک خوش حال ہوتا۔ملک کی اعلیِ عدلیہ نےہرروز میڈیامیں پیش گوئیاں کرنے والے وزیر ریلوے کی کارکردگی کاجواحتساب کیاہے، وہ بھی قوم کے سامنے آگیاہے لیکن کیاکریں ،ان کوتوعزت ہی ہضم نہیں ہورہی۔

جناب من! ہوش میں آئیے، ذراباہردیکھیے توخلقِ خداکیاکہتی ہے۔وہ خلقِ خداجسے زمینی خداؤں نے حکم سنایاہے،گھبرانا نہیں، آپ کی غلط پالیسیوں سے مہنگائی نے بنیادی انسانی حقوق تک مسل کررکھ دئیے ہیں۔ لیکن خبردار کوئی نہیں بولے گا۔آپ سے باز پرس کے یہ حقوق میرے رب نے دئیے ہیں، رب کائنات نے اورریاست مدینہ میں تواحتساب کی درخشاں مثالیں توآپ کی تقاریرکا حصہ ہوتی تھیں۔اب آپ کون ہوتے ہیں انہیں سلب کر نے والے !میرے مالکِ حقیقی کے عطا کردہ حقوق کیسے سلب کیے جاسکتے ہیں!ہاں خود فریبی کاکیاعلاج۔ یہ سمجھتے ہیں نظامِ کائنات یہ خودفریب چلا رہے ہیں۔عقل و فکرکے اندھے،انسانیت کے نام پر دھبا۔

ہوش میں آؤ۔تمہارے فرمان تمہیں نہیں بچاسکتے۔کبھی نہیں!سربلندرہے گاسدامیرے رب کافرمان۔ہاں اصل فرمان۔تمہیں شوق چڑآیا ہے توپوری کرلواپنی حسرت…جاناتوہم سب کوایک ہی جگہ ہے۔پھرتم اپنی کرنی کرگزرو۔جوہوگادیکھا جائے گا۔یادرکھناتم خالق و مالک نہیں ہو۔بن ہی نہیں سکتے۔ کبھی نہیں۔شہرِعلم کے باب جناب علی نے فرمایا:
لوگوں پرایک زمانہ آنے والا ہے جب صدقہ کوخسارہ،رحم کرنے کواحسان اورعبادت کوایک دوسرے پربرتری اورسبقت کا ذریعہ قراردیاجائے گا۔ایسے وقت میں حکومت عورتوں کے مشورے،بچوں کے اقتداراورخواجہ سراؤں کی تدبیرکے سہارے رہ جائے گی۔

آتش نمرودہے،ہرسمت ہے اک کربلا
زندگی اوزندگی کتنی تومشکل ہوگئی
ہرطرف ہے خاک وخوں،ہرسمت ہے د یوانگی
زیست لمحہ لمحہ اک زہرہلاہل ہوگئی
پھول جیسے چہرے نفرت کی چتامیں جل گئے
بربریت ایسی جیسے دنیاپاگل ہوگئی
یہ درندے ہیں جنہیں چھوڑاگیاانساں پر
آدمی یابھیڑئیے پہچان مشکل ہوگئی
سربراہان زمانہ بے حس وبے خودرہے
زیست پھرصیّادکے ہاتھوں سے بسمل ہوگئی
قوم جوکسریٰ وقیصرپرکبھی فاتح ہوئی
آج وہ اغیارسے نصرت کی سا ئل ہوگئی
کب تری رحمت کوجوش آئے گارب مصطفی؟
آج پھرآل محمدغم سے گھائل ہوگئی

اپنا تبصرہ بھیجیں