Relief From Grief

گریف سے ریلیف

:Share

تبدیلی کاسلسلہ تو جاری وساری رہتاہے۔اسی کا نام زمانہ ہے۔ پانی ٹھہر جائے تو جوہڑ بن جاتاہے۔چلتاہوا پانی ہی صاف اور شفاف ہوتا ہے۔قوم نے پہلی مرتبہ آپ کے وعدوں پر بھروسہ کیا لیکن آپ توازن ہی برقرارنہیں رکھ پائے۔ہر وعدے سے یوٹرن لیکر اسے سیاسی بالغ نظری کا ثبوت سے تشبیہ دیکر “بس گھبرانا نہیں”کی تسلیاں دیتے رہے۔جن حساس اداروں کی آبروکے آپ ضامن تھے ، آپ کی آنکھوں کے سامنے سارا دن نہ صرف ان کو بغیرکسی ثبوت کے رگیدا جا رہاہ ے بلکہ اب کھلے عام ان کے خلاف بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔سیاسی جماعتوں نے یہ وطیرہ بنا لیاہے کہ اگرحکومت میں ہیں تو سب اچھاہے لیکن جونہی اقتدارسے ہٹایا جائے تو اپنے سوشل میڈیاسے مخالفین پرآگ برسانے کامشن جاری شروع کردیاجائے۔

اگریادہوتوملک کے دشمنوں نے تواس خبرپرگھی کے چراغ جلائے اورساری دنیامیں جگ ہنسائی ہوئی تھی۔یقیناآئین آپ ہی کوآئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کااختیاردیتاہے لیکن اس ادارے پرجس طرح طنزاورتوہین کے تیربرسائے گئے، بشمول آپ کے کسی بھی حکومتی اہلکارنے اس کانوٹس تک نہیں لیا بلکہ جلتی پر تیل کا کام تو اس دن ہوا جب حامد میر چند صحافیوں کے گروہ کو لیکر منہ اور نتھنوں سے آگ نکال رہا تھا۔پہلی مرتبہ آرمی چیف کو ایک صحافی کے سوال کے جواب میں حامدمیر کو تمام صحافیوں کے سامنےمخاطب کرکے کہناپڑا “حامدمیر! آپ بتاتے کیوں نہیں کہ تم پرحملہ بلوچستان کے مینگل نے کروایا تھا جو انڈیاک ے ایماء پر آئے دن ہماری فورسز پرحملوں میں ملوث ہے۔حامد میر جواب تک اشاروں میں اس حملے کا ذمہ دار فوج اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ظہیرالاسلام پرتھوپتا رہاہ ے،اس کے پاس شرمندگی کے سواکوئی چارہ کار نہیں تھا۔

اب سب کومعلوم ہے کہ چہروں سے نقاب نوچنے کی دہمکی دینے والاحامدمیرکن کن افرادکے توسط سےمعافی مانگ کرمعاملہ کو ٹھنڈاکرکے دوبارہ بولنے کے لائق ہواجبکہ اس وقت بھی فوج اورآئی ایس آئی نے حامدمیرکی ان گیدڑبھبکی کودرخوراعتناء بھی نہیں سمجھا اوراس کاکوئی جواب نہیں دیا،بھلااس سے زیادہ ملک میں اورکتنی آزادی درکارہے؟لیکن اس آزادی کامطلب یہ تونہیں کہ ایک طرف کبھی نیوٹرل ہونے کے طعنے دیئے جائیں،کبھی انہی نیوٹرلزکو اپنے کھلے اجتماعات میں نیوٹرل ہوناگناہ قراردیکر مداخلت کی استدعاکی جائے،جب اس پربھی کوئی کان نہ دھرے تواپنی سوشل میڈیاٹیم کوسرگرم کرکے اداروں کے تقدس کواس بری پامال کرنے کی شرمناک کوششیں شروع کردی جائیں جس کودیکھ کردشمن بھی خوش ہوجائے کہ اس کاکام بخوبی ہورہاہے۔

مجھے وہ لمحات یادہیں کہ جب میں عمران خان کی تقریرسن رہاتھاجس میں وہ انتہائی غصے سے خودکوشیخ مجیب الرحمان سے تشبیہ دیتے ہوئے دہمکیاں دے رہے تھے تومجھےقائداعظم کادوقومی نظریے کے متعلق وہ بیان شدت سے یادآیاجس میں انہوں نے بڑی صراحت سے فرمایاکہ”ہندواورمسلمان ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں،ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہے۔ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہے۔میرا یقین آج مزیدمستحکم ہو گیا جب میں نے پاکستانی قوم کے ولن کوبھارت کا ہیرو بنتے دیکھا۔بھارت میں اس وقت 902 ٹی وی چینل میں سے403نیوزچینل ہیں اوران میں سے 38 چینلز پہ عمران خان کو بار بار دکھایا گیا جبکہ بھارت کے ٹاپ10نیوزچینلزکےپرائم ٹائم میں جس کا ایک منٹ ایک سے3لاکھ ک ے درمیان بکتا تھا، نیوز اور کرنٹ افیئر پروگرام میں میزبان سے لیکرنیوز ریڈرایک ہی دہائی دے دیتے ہوئے عمران خان کی ہمدردی میں ہلکان ہو رہے تھے۔ساری قوم یہ سوچ رہی ہے کہ یہ خالصتاً پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اس سے بھارت کو کیا تکلیف ہے؟؟؟آخر بھارت کے کون سے مفادات کوٹھیس پہنچی جو بھارت اتنے ایکسٹریم لیول تک چلا گیا کہ اسے اب عمران خان اوران کے گماشتے شہباز گل کیلئےاپنے ٹاپ میڈیا چینلز کا پرائم ٹائم خریدنے کیلئے اربوں روپیہ لگانا پڑ گیا۔کیا بھارت میں سیاسی صورتحال بالکل پاکستان جیسی نہیں چل رہی کہ وہ کس طرح اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے اپنے زر خرید میڈیاکے توسط سے ان کے خلاف شب و روز زہریلے پروپیگنڈے میں مصروف ہے لیکن پاکستان میں کیا بھارت میں بھی اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا۔

بات صرف یہی تک محدود نہیں،دراصل معاملہ کچھ اور ہے جو شہباز گل کی گرفتاری سے نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے تحائف کی کم داموں پرخریداری اوراس سارے معاملہ کوقوم سے چھپانے کے الزام کاالیکشن کمیشن میں نااہلی کاریفرنس دائرکیاگیاہے۔ اس ریفرنس کی وجہ سے عمران خان کے سرپربھی اُسی آئینی آرٹیکل کی تلوار لٹک رہی ہے جس کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف عمربھر کیلئے پارلیمانی سیاست سے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل قراردیے گئے تھے۔عمران خان کے خلاف سپیکرقومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل63 (ٹو)کے تحت ریفرنس دائرکیا گیاتھاکہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگرالیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا،اس طرح وہ “بددیانت”ہیں،لہٰذاانہیں آئین کے آرٹیکل62ون(ایف)کے تحت نااہل قراردیاجائے۔یہ ریفرنس رواں ماہ الیکشن کمیشن پہنچا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسے18اگست کوسماعت کیلئے مقررکیاتھا۔

توشہ خانہ سکینڈل طویل عرصے سے خبروں میں ہے جس کی وجہ یہ الزام ہے کہ عمران خان اوران کی اہلیہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے توشہ خانے سے سستے داموں تحائف خریدنے کے بعد انہیں بیچ دیاتھااورجہاں یہ تحائف فروخت کئے گئے انہوں نے یہ تحائف خریدنے کے فوری بعدسعودی ولی عہدسے رابطہ کرکے ان کواطلاع کردی کہ جوتحائف آپ نے ہم سے خریدے ہیں ،وہ دوبارہ ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں جس پرسعودی ولی عہدنے اپنے تحائف کی اس ناقدری کے عمل پرپاکستان سے اپنی شدید نارضگی کااظہارکرتے ہوئے پاکستان سے فاصلہ قائم کرنے کافیصلہ کرلیاکیونکہ عربوں میں تحائف کی اس طرح ناقدری کوانتہائی تحقیرسمجھاجاتاہے اوردوسری طرف اس عمل سے پاکستان کی عالمی رسوائی بھی ہوئی ہے۔

ایوان اقتدارمیں سستانے والوں کویہ خبرہوکہ سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کا نام ہے۔اپنی عقل وفراست کے ساتھ اس کے بند مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کوبندکرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کیاجاتا۔ اوپر کی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اورنیچے؟کیااب بھی وہی ہم اوروہی غم ہوں گے۔چہرے بدلنے سے کبھی مقدرنہیں بدلتے ۔ تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات و جذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی،لوڈشیڈنگ اورسابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے ذکرپرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات وواقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آوازبھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔اس کیلئے موجودہ سرکارعوام کیلئے”کاروبار”کرنا ہوگا پھرکہیں جاکران کابازارچلے گا۔ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے تو خواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کو یادوں کی بارات کا کیاپتہ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تووہ آنکھ بند کرنے سے ہی توبہ کرلیں۔بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیرسورہے ہوتے ہیں۔ایسابھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیر جاگتی رہتی ہے۔

بہت سے خواتین وحضرات کوآنکھوں کی”چہل قدمی”کابڑاشوق ہوتاہے،انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔ اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگا جاتے ہیں۔دوسروں کے گھروں میں”نظراندازی”کرنے والوں کو اپنی چادر و چاردیواری کے اندربھی دیکھنا چاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پرکیاگزرتی ہے۔من کاویسے بھی دھن سے کیا رشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیاتوبہت سے سیلاب جسم کوڈبو دیں گے۔سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں۔ پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیرنہیں رہ سکتے اور اسلام آبادان کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑاہاتھ ہے۔ارض وطن کی معاشی بدحالی اورسیاسی انتشارکافائدہ اٹھاتے ہوئےبیرونی دبا ؤکی وجہ سے بھارت سے جلد دوستی کی بیماری اب وباءکی شکل اختیارکرگئی ہے۔جب تک کشمیرکامسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کر لیں ،کاغذ کورا ہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اوراس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں،جب تک جان ہے،جہان داری تو نبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔جیتنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورآپ مخالفین کوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہو رہے ہیں۔آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خودکوٹرین سے کٹواکرہمارے سسٹم کوکاٹ کررکھ دیتی ہے۔ہمارے یہاں توزندہ لوگوں کا حساب نہیں لیاجاتا،مرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔”امیرِشہر”کاتواپنا یہ حال ہے:
امیرشہرغریبوں کاخیال کیاکرتا
امیرشہرکی اپنی ضرورتیں تھیں بہت

ابھی کل کی بات ہے کہ قومی اسمبلی میں ملک بھرسے اسکول کے طلباءکوملک کے قانون سازادارے میں بلاکرپارلیمانی روایات کی ایک مشق کروائی گئی کہ بالآخریہی ہونہارمستقبل کے رہنمابن کرملک کی باگ ڈورسنبھالیں گے لیکن مدارس کے لاکھوں طلباءکویکسرفراموش کرکے کیاپیغام دیاگیاہے؟ایک طرف توآپ ان مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کی ڈگریوں کوتسلیم کرتے ہیں لیکن کیاان کوملکی نظام کوچلانے کااہل نہیں سمجھتے،اس لئے ان کوبلانے کی توفیق ہی میسرنہیں ہوئی۔صرف اگراپنی ضرورتوں اوراپنے بیرونی آقاؤں کوراضی کرنے کیلئےسخت فیصلے کریں گے تولوگوں کا”ری ایکشن”بھی اسی طرح کاسخت ہوگا۔

فیصلے توتاریخ میں کچھ اس قسم کے بھی رقم ہوئے ہیں۔ جب سکندر مرزاکے دورحکومت میں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ایک جلوس نکالاگیاتوسکندر مرزانے جلوس کومنتشرکرنے کیلئے پولیس تک طلب نہیں کی بلکہ اس کے راستے میں ٹھنڈے شربت کی سبیلیں لگائیں،گرمی کاموسم تھا،جلوس کے شرکاء جی بھرکراپنی پیاس بجھاتے رہے۔ شربت میں جمال گوٹہ ملایاہواتھا۔ پھرایک روز جب ڈاکٹرخان صاحب وزیربن گئے توسکندرمرزانے بیوروکریسی کو نصیحت کی کہ”ڈاکٹرصاحب کوخوش رکھنے کاخیال رکھاکرو ،اس شخص نے ساری عمرجیل کی ہواکھائی ہے یاپولیس کے ڈنڈے،ہم اسے بڑی مشکل سے گھیر گھارکرحکومت میں لائے ہیں۔ اب اسے’’گڈلائف‘‘کاایساچسکالگاؤکہ وہ اس پنجرے سے باہرنہ نکل سکے۔”سکندرمرزاکے ری پبلکن پارٹی کے خواب کی تعبیرڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ہی ہوئی تھی۔

جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیرہوئی۔عوام کے سامنے اپنے تمام عیوب،ناکامیاں گزشتہ حکومت پر ڈال کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی۔صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،،عوام کے علم میں سب کچھ ہے،اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں ،عوام کو دئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔انسان کے جذبات ناقابل تسخیر ہوتے ہیں۔مگر یہ بھی تو سوچیں کہ ان کے دردک ے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کے درمیان دشمنی لگا دیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنا نہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں۔اب اس بیمار سوچ کو ذہن سے کھرچ کر نکالنا ہو گا کہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارا فائدہ ہے۔سیلاب اورزلزلہ جھونپڑی اور محلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔سرکار کا دعویٰ ہے کہ ہم نے ملک کودیولیہ سے بچا لیاہے۔گریہ واقعی پاکستان پہلے سے بہتر ہو گیا ہے،لوگ توتب مانیں گے
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحراتھاسمندرہوگیاہوں

صحرا میں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتا جس کی مرہون منت آنکھیں امید سے”تربتر”رہتی ہیں۔امیدکسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکو”بارود”کے ساتھ ساتھ ”نمرود”سے بھی بچاناہوتا ہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی توسمجھو کہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب میڈیاپراس طرح فتح کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں جیساکہ جلدہی شہداوردودھ کی نہریں بہناشروع ہوجائیں گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سننے کومل رہا ہے کہ ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلے کرنے پڑے ہیں۔ اوپر تبدیلی آگئی ہے مگر نیچے اسی طرح کے سخت فیصلے ہوں گے؟ گستاخی معاف!اس کامطلب تویہ ہوا کہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔ اپنے اداروں کی توقیرکاخیال نہ کیاتوکل کلاں خودبھی بے آبرو ہونے میں دیرنہیں لگے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں