اب یہ طے پاگیاہے کہ انتخابات میں بالآخراکثریت عمران خان صاحب کو حاصل ہوگئی ہے اوراگلے وزیراعظم کے طورپرجلدہی حلف اٹھاکرنئی حکومت تشکیل دیکرمسنداقتدارکا بھاری تاج پہن لیں گے اوریقینااس مرتبہ یہ کسی طور پربھی کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہوگاکیونکہ اس حکومت کو متعددچیلنجوں کاسامنارہے گااوران میں سے مشکل ترین چیلنج وطن عزیز کی متزلزل معیشت ہوگا۔من مانی شرطوں پرقرضوں کے حصول،عاجلانہ پالیسیوں پرانحصار،کوتاہ اندیش منصوبہ بندی اورحقائق سے چشم پوشی کی سوچ کے تحت اختیارکی جانے والی ترجیحات کے جونتائج سامنے آسکتے ہیں،پاکستان کی معاشی صورتحال ان کی عکاسی کررہی ہے۔اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کیے گئے اعدادوشمار، عالمی معیشت پرنظررکھنے والے اداروں کی رپورٹس اورمالیاتی امورکے ماہرین کی آراء ایک ہی نکتے کی نشاندہی کررہی ہیں کہ پاکستان کی معیشت بدترین مرحلے سے گزررہی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائرمیں تیزی سے کمی آرہی ہے ،تونائی کے شعبت میں گردشی قرضے 1108 /ارب روپے کی ریکارڈسطح کوچھورہے ہیں،غیرملکی سرمایہ کاری جوچندبرس سے منفی رحجان کاشکارہے۔کم سے کم ترہوتی جارہی ہے۔تجاری اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارے،شرح سوداورافراطِ زر میں اضافے نے معاشی صورتحال کوپریشان کن حالات میں لاکھڑ اکیا ہے ۔ان حالات کامنطقی نتیجہ یہ ہے کہ ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی کارکردگی سسک رہی ہے۔جس طرح ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی حالت قابل رحم ہے اسی طرح پاکستانی کرنسی بنگلہ دیش،نیپال اور جنگ زدہ افغانستان جیسے ملکوں سے بھی کمزورہوچکی ہے۔
ملکی معیشت کی بہترین حالت کے تناظرمیں یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ آنے والی حکومت کیلئے مشکل ترین چیلنج اقتصادی میدان میں درپیش سنگین مسائل سے عہدہ برأ ہوناہوگا۔پٹرولیم مصنوعات پربھاری بھرکم ٹیکس،بجلی،پانی ،گیس کے بلوں کے محصولات کی بھرماراورضروریات زندگی کی اشیاء پربراہِ راست اوربالواسطہ ٹیکسوں سے قومی معیشت کومنحنی ساسہاراتودیا جاسکے گا لیکن ایسے اقدامات سے عام آدمی کو مالی بحران میں مبتلاکرنے کے سواکچھ برآمدنہ ہوگا۔یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ پاکستانی معیشت کی تباہی ایک دن کی کہانی نہیں بلکہ 70سال سے اقتدارمیں آنے والے حضرات حالات کی خرابی میں اپنی استعدادکے مطابق حصہ ڈالتے رہے ہیں۔اقتدارمیں آنے والے ہرحکمران نے خزانہ خالی کرنے کاالزام دوسروں کے سرتھوپ کراسی راستے کواختیارکرنے میں ذرہ بھرجھجک محسوس نہیں کی جس پرچل کرمعاشی میدان میں مستقل ہزیمت ملک کا مقدر بنتی ہے اوراسے حکیم کے لونڈے سے دواکیلئے ہاتھ اوردامن پھیلاکرقرضوں کے نام پربھیک مانگی جاتی ہے جوپہلے سے زیادہ سخت شرائط پرصرف زندہ رہنے کیلئے بھیک عنائت کرتے ہیں اوروہ سودی مہاجن اس لئے مرنے بھی نہیں دیتے کہ ان کے دیئے ہوئے قرضے ہی نہ ڈوب جائیں۔
مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت ہی کودیکھاجائے توسابق وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی قیادت میں معاشی ماہرین کی ٹیم نے جن شرائط پرآئی ایم ایف سے قرض لیا،انہی کے نتیجے میں ڈالر ایسی پروازکرگیاہے کہ ایک ہی جھٹکے میں ہمارے قرضوں میں25فیصدکااضافہ ہوگیااوراس کے مقابلے میں ہمارے ملک کی کرنسی سہم کر بے بسی کے ساتھ انہی کے رحم وکرم پرکھڑی ماتم کناں ہے۔ معلوم نہیں کہ ہماری تنزلی اوررسوائی کایہ خطرناک سفرکہاں جاکردم لے گا۔اس صورتحال کا مایوس کن پہلویہ بھی ہے کہ امریکانے آئی ایم ایف کوکہاہے کہ پاکستان کوکسی بھی قسم کابیل آؤٹ پیکج نہ دیاجائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدارسنبھالتے ہی480/ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی تھی جس کے بعدیہ تاثر پیدا کیاگیاکہ اب توانائی کے میدان میں صورتحال مستحکم ہوجائے گی جبکہ حقائق یہ ہیں کہ لوٹ مار،بدعنوانی اورنااہلی جیسے اسباب نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا بوجھ 1100/ارب سے بھی زائدبڑھادیاہے اورلوڈشیڈنگ کے بھوت سے ابھی تک مکمل طورپر جان نہیں چھوٹ سکی جبکہ انتخابات میں دن کی روشنی میں جھوٹ کا سہارالیکر عوام کوگمراہ کیاجاتارہا۔
اب ظاہرہے کہ روایتی پالیسی کے تحت اس بوجھ کوکسی نہ کسی شکل میں سارفین تک منتقل کرکے قرضوں کے نئے سفرکاآغازکردیاجائے گا۔ملک میں معیشت کی تباہ کن صورتحال کے دیگر پہلوؤں کادباؤ بھی لامحالہ منوسط اورغریب طبقات کی طرف منتقل ہوگا۔پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مصنوعی اورناقابل برداشت اضافے سے عام آدمی کی زندگی مزیدا جیرن ہوجائے گی۔ روپے کی ناقدری سے غیرملکی قرضوں کابوجھ بھی بالآخر ملک کے عوام پرہی منتقل ہوگا،معاشی ماہرین انہی حقائق کی بنیادپرمہنگائی کے نئے طوفان کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔گزشتہ دوہفتوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں14فیصداضافہ ہوچکاہے اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں گرانی کاآسیب کہیں زیادہ قوت سے حملہ آورہوگاجسے نرم ترین الفاظ میں بھی انتہائی تشویشناک قراردیاجاسکتاہے۔
نئی مخلوط کوحکومت سنبھالتے ہی سنگین ترین معاشی بحران کے چیلنج کاسامناکرناپڑے گاجوان کی توقعات سے بھی کہیں بڑاثابت ہوگا۔اگراس معاشی بحران پرفوری قابونہ پایاگیاتو اس کے ملکی سلامتی، استحکام،ڈاخلی امن اورریاستی فعالیت پرمضراثرات مرتب ہوں گے جبکہ ایک بڑی اور مضبوط اپوزیشن بھی ان کوچین سے بیٹھنے نہیں دے گی جبکہ خودعمران خان نے بھی پچھلا سارا دورِ حکومت آئے دن کے دھرنوں ،ہڑتالوں و جلوسوں سے حکومت کاناک میں دم کئے رکھاتھااور اس تمام عرصے میں اسی پارلیمنٹ میں صرف 14مرتبہ بہ امر مجبوری شرکت کی لیکن تنخواہ پوری وصول کرنے کے باوجوداس پربرملالعنت بھی بھیجتے رہے۔ابھی عمران خان نے اقتدارکی باگ دورنہیں سنبھالی لیکن اپوزیشن نے اپنے عملی مظاہروں کا آغازبھی کردیاہے اوریقیناًآنے والے دنوں میں اپوزیشن کے تیوران کوچین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔
ایک ناقابل تردیدحقیقت یہ بھی ہے کہ معاشی معاملات کوماضی کی طرح ڈنگ ٹپاؤ،قرض درقرض اورقومی وسائل کے بے دریغ استعمال کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی تو نتائج تباہ کن ہوں گے،اس لئے بہترہوگاکہ کڑے اورشفاف اورغیرجانبداراحتساب کے ذریعے سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے سخت سے سخت اقدامات روبہ عمل لائے جائیں۔ملک سے بدعنوانی،اقرباپروری اورنااہلی کے ناسورکوجڑسے اکھاڑ پھینکاجائے۔قومی وسائل کے بہراحسن استعمال اورسرکاری اخراجات کیلئے اللے تللے کی پالیسیوں سے مکمل طورپراجتناب کیا جائے۔ ملکی معیشت کودرپیش مشکلات پرپوری قوم کواعتمادمیں لیکرایسی،مختصروسط مدتی اورطویل المدت معاشی حکمت عملی اختیارکرناہوگی جس کے نتائج سےقوم کاہرفردبراہِ راست آگاہ ہو۔نئی حکومت کواس حقیقت کابھرپوراحساس وادارک ہوناچاہئے کہ ملک کے اجتماعی مفادمیں بے رحم معاشی اقدامات نہ کئے تواقتصادیات کے میدان میں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی۔
Load/Hide Comments