بھارتی قابض فورسزکے درندوں نےمقبوضہ کشمیرمیں ہفتے کی شام اننت ناگ اورشوپیان کے کاچھ ڈورو گاؤں کامحاصرہ کرکے بڑی بے رحمی کے ساتھ بے گناہ کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیلی ہے۔تین مقامات پر۲۰نوجوانوں کوشہید اور۷۰سے زائدافرادکوشدیدزخمی کردیا۔ کشمیری حکام کے مطابق یہ حالیہ دنوں میں کشمیر میں ایک ہی دن میں اتنی زیادہ جانوں کوشہید کرنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق پولیس اور فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ میں لوہے کے چھروں کابے رحمانہ استعمال کیا۔ اس واقعہ کی خبر عام ہوتے ہی وادی میں ہڑتال ہوگئی اور علیحدگی پسندوں کے مشترکہ اتحاد نے پیر کو بھی ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ حکومت نے مظاہروں کو روکنے کے لیے اندرونی ریل سروس اور انٹرنیٹ کو معطل کردیا ہے اور پیر کے روز تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان کردیاگیاہے۔ سرینگر کے بیشترعلاقوں نے ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ تازہ ہلاکتوں کے بعد کشمیر میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
حکومت نے اس سال سیاحت کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ روز آل انڈیا ٹورازم کانکلیو منعقد کیا تھا جس میں بھارت کی مختلف ریاستوں کے ٹور آپریٹرز نے شرکت کی تھی۔ اس موقع پر وزیراعلیِ محبوبہ مفتی نے قیام امن کے لیے عام لوگوں سے تعاون کی اپیل کی تھی۔اسی دوران پولیس سربراہ نے حریت کانفرنس کے پچھلے آٹھ سالوں سے نظربند سیدعلی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک پربرسوں سےعائد پابندیوں کے خاتمے کااعلان کرتے ہوئےکہا کہ یہ رہنماء کہیں بھی جانے کے لیے آزاد ہیں لیکن ان کے عوامی رابطے سے امن وقانون میں خلل نہیں پڑناچاہیے۔ کئی سال بعدگزشتہ جمعہ کوتینوں رہنماؤں نے مختلف مقامات پرجمعہ کے اجتماعات سے خطاب کیا۔حکومت کے اس تازہ رویہ سے کئی حلقوں کواُمید تھی کہ پچھلے کئی سالوں سے جاری فوج کا’آپریشن آل آؤٹ‘ بھی معطل کیاجائے گا تاکہ اس گرما میں حالات پرسکون رہیں، لیکن تازہ تصادم آرائیوں اورعوامی ردعمل سے ایسا لگتا ہے کہ لگاتاراب بھی کشمیر میں حالات کشیدہ رہیں گے۔
ادھردوسری طرف فلسطین مہاجرین نے اسرائیل میں اپنے گھروں کو لوٹنے کے حق میں چھ ہفتے طویل مظاہروں کا سلسلہ “یوم الارض “شروع ہی کیاتھاجس کے جواب میں اسرائیلی فوجی درندوں نے براہ راست فائرنگ شروع کردی جس میں کم از کم سولہ فلسطینی نوجوان شہیداورایک ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو گئے ہیں۔غزہ سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس میں ہزاروں فلسطینی شریک ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گتریز نے اسرائیلی سرحد کے قریب شیلنگ سے۱۶فلسطینیوں کی ہلاکت کے واقعے کی آزادنہ تحقیقات کرانے کاکہاہے۔ دوسری جانب نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے ایک ہنگامی اجلاس میں تشدد کی مذمت اوراسرائیل کے خلاف کاروائی کرنے کیلئےقراردادپیش کی جس کوامریکانے ویٹوکردیاجبکہ اسرائیلی ڈیفنس فورسزکا کہنا ہے کہ سرحدی باڑ کے ساتھ پانچ مقامات پر۱۷ہزارفلسطینی ابھی تک جمع ہیں۔
کیایہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی وقت میں مقبوضہ کشمیراورغزہ فلسطین میں اس بیدردی کے ساتھ مسلمانوں کوشہیدکیاجارہاہے یاپھراس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔دراصل عالمی سیاست میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تغیروتبدیلی نے دنیا کوامن دینے کی بجائے ایک ایسی جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں ایک معمولی سے غلطی دنیاکوخاکستر کرسکتی ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم مودی کااسرائیل کادورۂ اوراس کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کابھارت کے دورے میں ایک دوسرے سے بغل گیرہوکردنیاکویہ پیغام دیاہے کہ وہ دونوں اپنے مربی قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ کی پالیسیوں کوتوسیع دینے کیلئے ایک دوسرے کی معاونت کریں گے۔اس صورتحال کودیکھتے ہوئے غیر جانبدارسیاسی مبصرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہودوہنودایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جبکہ بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن مانی شنکرایرنے اپنے تجزیاتی آرٹیکل میں لکھاہے:یہودوہنودایکادونوں قوموں کی خودغرضی “ایک مفادپرستی کی بدترین مثال ہے۔مانی لکھتے ہیں:سگریٹ کے ایک مشہوربرانڈ کا مشہورجملہ تھا”ایک دوسرے کیلئے بنے ہیں”
مودی اورنیتن یاہوپرصادق آتاہے۔دراصل دونوں ہی اس خوف میں مبتلاہیں کہ کہیں کوئی اجنبی طاقت انہیں کچل نہ دے،سب کچھ ہتھیاکرنہ لے جائے۔نیتن یاہو ۱۹۴۹ءمیں اورمودی۱۹۵۰ءمیں پیداہوئے اوردونوں اپنے اپنے ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جوآزادی یاقیام کے بعدپیداہوئے۔بھارت میں اب تک جتنے بھی وزرائے اعظم گزرے ہیں ان کی پیدائش۱۵/اگست۱۹۴۷ءسے پہلے ہوئی تھی اوریہی حال اسرائیل کے ان وزرائے اعظم کابھی تھاجونیتن یاہو سے پہلے مقتدررہے۔
نیتن یاہواورمودی کوایک دوسرے میں اپنی شکل دکھائی دیتی ہے۔دونوں سخت گیر،غیرلچکداراورکٹرنظریاتی (جبکہ دونوں کے نظریات بنی نوع انسانیت کی تباہی اور خاتمے کے پیامبر ) ہیں۔پوری دنیا کے سیاسی دانشوران دونوں کوبائیں بازوکے انتہاء پسنداورمتشددمزاج سمجھتے ہیں ،دونوں مذہب کی بنیادپرقومیت کے قیام کے سلسلے میں تشددکوجائزسمجھتے ہیں۔ مودی کی وی ڈی ساورکرکی شکل میں اورنیتن یاہوکوولاویمیرزنیف جیبوٹنکی کی شکل سخت گیرملا۔ ساورکر نے گوتم بدھ اوراشوک دونوں کے بارے میں سخت ناپسندیدگی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ان کے فلسفہ عدم تشددنے ہندوازم کومشکلات سے دوچارکیااوریہ کہ اب اگرہندوازم کوزندہ کرناہے تو اسے عسکریت پسندی سے ہمکنارکرناہی ہوگا۔ دوسری طرف جیبوٹنکی نے صہیونیت کانظریہ مکمل کامیابی سے ہمکنارکرنے کیلئے تشددکی راہ پرگامزن ہونے کی بھرپور وکالت کی۔اس کاکہناتھاکہ صہیونیوں کوبھرپورفتح کیلئے دیوار کھڑی کرنی ہوگی ۔جب تک طاقت رہے گی صہیونیت رہے گی اورجب طاقت ختم ہوگی توصہیونیت بھی زمیں بوس ہوجائے گی۔
ساورکرنے ہندتواکاتصورپیش کیاجس کاسادہ سامفہو م ہندوراج یاہندوؤں کی حکمرانی ہے۔اس نے دوقومی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہندو قومیت یاہندوقوم پرستی کسی بھی الہامی مذہب کے پیروؤں کے ساتھ نہیں چل سکتی۔اسی نظریے کی کوکھ سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور پھرمہابھاجیسی انتہاء پسند ہندوتنظیموں نے جنم لیا۔جیبوٹنکی نے۱۹۲۳ءمیں یونین آف زیئنسٹ ری وژنسٹی قائم کی اورٹھیک اسی زمانے میں ساورکرنے بھی ہندتواکاتصورپیش کرکے ہندوؤں کومذہب کی بنیادپرقوم پرست بننے کی تحریک دی۔جیبوٹنکی نے دی جیوئش ایجنسی کی بنیادتھیوڈور ہرزل اور مستقبل کے وزیراعظم لیبرزائنٹس کے لیڈربین توریان سے ٹکرلی اورساورکرنے گاندھی اورنہروسے متصادم ہونے کی کوشش کی۔
مودی اورنیتن یاہودونوں ہی تشددسے آراستہ سیاسی فلسفے کے پیروہیں اورانہوں نے مختلف مراحل پرثابت کیاہے کہ کسی نہ کسی دشمن کوانتہائی سفاک ثابت کرنے کی کوشش ہی کے ذریعے سے وہ اپنی دال گلانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔نیتن یاہوکے معاملے میں بات فلسطین کی ہے اورمودی کے کیس میں پاکستان ہے۔دونوں ہی تنگ نظری کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کررہے ہیں۔مقصود صرف یہ ہے کہ اپنے اپنے دشمن سے اپنے لوگوں کوڈرایاجائے،دونوں کادشمن مسلمان ہے۔اس اعتبارسے ہندتوااور یہود تواایک ہی پلیٹ فارم پرہیں،دونوں اصل میں ایک ہیں مگراپنی اپنی متعصب خود غرضانہ حکمت عملی کے تابع فرمان ہیں۔تعلیم کے معاملے میں البتہ فرق ہے ۔نیتن یاہونے امریکاکے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پوسٹ گریجوایٹ کی ڈگری لی ہے۔وہ تکنیکی طور پراعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن یہ بات مودی کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔مودی کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں لیکن ایک خاتون ان کی بیوی ہونے کادعویٰ کرتی ہیں جس کی ابھی تک مودی تردیدنہیں کرسکے اورخودکوان سے الگ کئے ہوئے ہیں۔دوسری طرف نیتن یاہوتین شادیاں کرچکے ہیںاوردرجن بھراسکینڈل بھی ان کے ساتھ منسوب ہیں۔
۳/اگست ۲۰۱۷ء کواسرائیلی پولیس نے نیتن یاہوپرکرپشن کے الزمات عائدکئے ہیں ۔بھارت میں پولیس کسی سربراہ کے بارے میں ایساسوچ بھی نہیں سکتے۔ ۱۹۹۷ء میں نیتن یاہوکے خلاف ایک مقدمہ محض اس لیے ڈراپ کردیاگیا تھاکہ شواہد ناکافی تھے۔ایساہی کچھ معاملہ مودی کابھی رہا لیکن ان کے خلاف ناکافی شواہد کی بنیادپر ایک بڑامقدمہ ڈراپ کر دیاگیا۔۲۰۰۹ءمیں قائم کی جانے والی دویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن بھارتی حکومت کے ساتھ مل کرکام کرتی ہے۔ انسداددہشتگردی کے معاملات کوآگے بڑھانے میں بھارتی حکومت دویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کوخوب بروئے کار لاتی ہے۔دوسری طرف نیتن یاہو اینٹی ٹیررسٹ انسٹیٹیوٹ کاسہارالیتے ہیں جوان کے بھائی یوناتن سے منسوب ہے۔ یوناتن۱۹۷۰ء کی دہائی میں یوگنڈامیں اسرائیلی یرغمالیوں کوآزادکرانے کے مشن میں حصہ لیتے ہوئے ماراگیاتھا۔یہ انسٹیوٹ۱۹۷۸ء میں قائم کیاگیاتھا۔
یہ المیہ نہیں تواورکیاہے کہ نیتن یاہوخودکواینٹی ٹیررسٹ کہتاہے جبکہ اس کا تعلق انتہاء پسندصہیونی گروپ ”ارغون زوائی لیوی”سے ہے جس نے سی آئی ڈی بلڈنگز، ٹیکس سنٹراوردوسری بہت سی اہم عمارتوں کوبم دہماکوں سے اڑادیا تھا۔ان حملوں میں بہت بڑے پیمانے پر برطانوی اورعرب شہری مارے گئے تھے۔۱۹۴۳ءکے بعد ارغوان کی سربراہی میناہم بیگن نے کی اوریزاک شمیرکی سربراہی میں کام کرنے والے گروپ لیبی کے ساتھ کام کرتے رہے جسے عرف عام استرن گینگ کہاجاتاتھا۔بیگن نے۱۹۷۷ءمیں وزارتِ عظمیٰ سنبھالی اور۱۹۸۳ءمیں یہ منصب میزاک شمیرکو سونپا۔ میزاک شمیرنے لکودپارٹی قائم کی،اس وقت نیتن یاہوحکومت پارٹی کے سربراہ ہیں ۔شمیرکے یہی دہشتگردوں نے مشرقِ وسطیٰ کیلئے برطانیہ میں ریذیڈنٹ منسٹرلارڈمونٹے کوہلاک کیاتھاجبکہ بیگن کے دہشت گردوں نے ۲۲جولائی۱۹۴۶ء کومقبوضہ بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈہوٹل کے ایک ونگ کو دہماکے سے اڑادیاتھاجس میں برطانوی انتظامیہ کے دفاتر تھے ۔اس دہماکے میں۹۱/افرادمارے گئے تھے۔کچھ ہی دن بعد برطانوی انٹیلی جنس کوپتاچلا کہ یہ دہشتگردگروپ برطانوی سرزمین پربھی بہت کچھ کرناچاہتاہے اوراس کا ایک ہدف اس کے برطانوی وزیرخارجہ بیون بھی ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ ۱۹۵۲ء میں اس گروپ نے اس وقت کے جرمن چانسلرکونراڈ ایڈنیوئرکوپارسل بم کے ذریعے سے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔
ارغوان اوراسٹرن گینگ نے مل کرجیوش ایجنسی آرمی کے۱۰/اپریل ۱۹۴۸ءکوایک دہماکہ کیاجس میں کم وبیش۲۵۰فلسطینی ،خواتین اوربچے مارے گئے۔ان میں سے بیشتر کی لاشیں مسخ ہوگئیں۔اس دہماکے پر میناہم بیگن نے دہشتگردوں کو بھرپورمبارکباددی اوراس عزم کااعادہ کیاکہ جہاں بھی موقع ملے گادشمنوں کو نشانہ بنایاجائے گا۔تہنیتی پیغام میں بیگن نے اس بات پرخداکاشکراداکیاکہ اس نے اپناپیغام پہنچانے کیلئے انہیں (یہودیوں بالخصوص عسکریت پسندیہودیوں کو) منتخب کیاہے۔پیغام کے آخر میں انہوں نے دیر یاسین کواس بات پرمبارکباددی کہ اس نے عربوں سے نجات دلانے میں ایک اہم کرداراداکیاہے۔
اس کے۱۵دن بعد۲۵/اپریل۱۹۴۸ءکودوسری جنگ عظیم کے دوران انڈین فورسزکے ہاتھوں ترکوں سے چھڑائے گئے شہرجفاپردوانتہاء پسند گروپوں نے حملہ کیااور خوف کی ایسی فضاپیداکی کہ شہرکے سترہزارمکین گھربارچھوڑکرچلے گئے۔ یہودی فورسزنے خالی شہرمیں خوب جی بھرکر لوٹ مارکی اوراملاک کوشدید نقصان پہنچایا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بیگن نے لبنان میں صابرہ اورشتیلہ نامی پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینیوں کوبے رحمی سے قتل عام کیا۔اس قتل عام میں بلاتخصیص بچے عورتیں،بوڑھے اورنوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ بیگن پر اس قدرتنقیدہوئی کہ وہ اگلے سال ہی مستعفی ہوناپڑاتاہم مستعفی ہوکربھی انہوں نے اپنے ہی ہم خیال یزاک شمیرکی راہ ہموارکی،یہ ہے اسرائیل کی لکودپارٹی کاریکارڈ ۔یہ تمام سفاک لیڈرنیتن یاہوکے پیش روہیں،ان سے نیتن یاہونے کیا سیکھاہوگا،اس کااندازہ لگانامشکل نہیں۔غزہ کی پٹی اورغرب اردن پراسرائیلی فورسزکے غیرانسانی مظالم،آبادیوں پرمیزائل برسانااورقتل وغارت کابازارگرم کرناایسے جرائم ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ اوردیگرعالمی اداروں نے بہت سی رپورٹس مرتب کی ہیں مگراصل سوال یہ ہے کہ یاہو جیسے لیڈرایسی باتوں سے کوئی بھی اثرکہاں قبول کرتے ہیں۔انہیں تواپنے کام سے کام رہتاہے ۔ نیتن یاہوبھی اپنی پالیسیوں پرعمل پیراہیں انہیں اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں کسی طورکاردِّ عمل سامنے آتاہے۔۲۰۱۵ء میں نیتن یاہونے اسرائیل میں لاکھوں یہودیوں کی ناراضی کی پرواہ کئے بغیراعلان کیاکہ وہ دنیابھرکے یہودیوں کے مفادات کے محافظ ہیں اوران کیلئے کام کرتے ہیں۔
دوسری طرف مودی نے دھڑلے سے کہاکہ وہ ۱۲۵/کروڑبھارتیوں کے لیڈرہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں انڈین الیکٹوریٹ کے ایک تہائی نے ووٹ دیاہے۔موہن داس کرم چندگاندھی نے کہاتھاکہ فلسطین اسی طرح فلسطینیوں کاہے جس طرح فرانس فرانسیسیوں کااورانگلینڈانگریزوں کا ہے مگریہ تب کی بات تھی۔نہروبھی اس بات کے حق میں تھے کہ کوئی اسرائیلی ریاست معرض ِ وجودمیں نہ لائی جائے بلکہ عرب اوریہودی ایک ریاست کے اندر قدرے خود مختاری کے ساتھ رہیں۔اب سب کچھ تبدیل ہوچکاہے۔بہت کچھ جوبگڑگیاہے،اب تک اس کے درست کرنے کی کوئی سبیل نہیں کی گئی ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ اورنیتن یاہوکے گٹھ جوڑنے غیرمعمولی خرابیاں پیداکی ہیں۔ان خرابیوں میں مودی کسی طورپر بھی ایماندارثالث کاکردارادانہیں کرسکتا نیتن یاہوکے حالیہ دورۂ بھارت کے بعد بھارتی قیادت کیلئے فلسطینیوں سے متعلق تعلقات متوازن رکھنامحال ہے اوراس حوالے سے مودی کی ہرکوشش ان کی روایتی منافقانہ اورمخاصمانہ حکمت عملی ہی کی آئینہ دارہوگی۔
بھارت کے کم وبیش پچاس لاکھ باشندے مسلم دنیامیں کام کررہے ہیں۔ان کی بڑی تعدادخلیجی اورعرب ممالک میں ہے۔بھارت کے مفادمیں یہ ہے کہ وہ عرب اسرائیل تنازع میں اسرائیل کادم چھلہ بننے کی مودی کوشش کامیاب بنانے کی راہ میں حائل ہوجائے۔سفارتی امورکے ماہرتلمند احمدکہتے ہیں بھارت اوراسرائیل کے تعلقات لین دین کی سطح پر رہیں گے اورکبھی حقیقی اسٹرٹیجک پارٹنرشپ میں تبدیل نہیں ہوسکیں گے مگرمودی سرکارکے اب تک کے طرزِعمل کودیکھ کرہرذی شعوربھارتی اطمینان کی بجائے بے چینی اورپریشانی ہی دیکھ رہاہے۔
Load/Hide Comments