Is China In Decline?

کیاچین تنزلی کاشکارہے؟

:Share

چینی معیشت سست روی کاشکارنظرآتی ہے۔چینی معیشت کی دوسری سہ ماہی کی ترقی کے اعدادوشمارجلدآنے والے ہیں۔اگر دنیا کی دوسری بڑی معیشت گراوٹ کاشکارہوتی ہے توعالمی کسادبازاری کاخدشہ مزیدبڑھ جائے گا۔چین نے5.5فیصدسالانہ اقتصادی ترقی کاہدف مقررکیاہے لیکن اب یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔تاہم چین کے اقتصادی امورسے وابستہ سینیئرحکام اس مقصدکوحاصل کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں تاہم پہلی سہ ماہی کے دوران چین کی معیشت کوزوال سے بچالیاگیاہے۔چین برطانیہ اور امریکہ کی طرح مہنگائی سے تونہیں لڑرہالیکن اس کے سامنے کچھ اورمسائل موجودہیں۔چین میں بنی اشیاکی مقامی اوربین الاقوامی مارکیٹ میں مانگ میں کمی آئی ہے۔

امریکاجیسی دوسری بڑی معیشتوں کے ساتھ اس کی تجارتی جنگ بھی چین کی ترقی کوسست کررہی ہے۔چینی کرنسی یوآن کئی دہائیوں میں اپنی بدترین قدرکی طرف بڑھ رہی ہے۔کمزورکرنسی کے باعث بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کارمنہ موڑلیتے ہیں اورعالمی منڈی میں غیریقینی صورتحال میں اضافہ ہونے کے علاوہ اس سے مرکزی بینک کیلئےمعیشت میں سرمایہ کاری کرنابھی مشکل ہوجاتاہے۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب صدرشی جن پنگ کاقدبہت بڑھ چکاہے۔16اکتوبرکوچینی کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں انھیں تیسری بارصدرقراردیاگیاہے۔پھرآخروہ کون سی وجوہات ہیں جنہوں نے چینی معیشت میں اس قدرتنزلی کوہوادی ہے؟

کووڈچین کے مینوفیکچرنگ ہب جیسے شینزین اورتیانجن سمیت کئی شہروں میں پھیلاہواہے اورحکومت نے اس پرقابوپانے کیلئےبہت سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔لوگ کھانے پینے پرکم خرچ کررہے ہیں۔ریٹیل،سیاحت اوردیگرشعبوں پرمبنی صنعتوں پربھی مسلسل دباؤہے۔مینوفیکچرنگ سیکٹرکی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔قومی ادارہ شماریات کے مطابق ستمبر میں مینوفیکچرنگ دوبارہ پٹری پرلانے کیلئےحکومت نےانفراسٹرکچر پربہت زیادہ خرچ کیاہے۔تاہم یہ قدم مینوفیکچرنگ کی رفتارسست ہونے کے دوماہ بعداٹھایاگیااورحکومت پراس حوالے سے سوالات اٹھائےجارہے ہیں۔

نجی سروے کے مطابق ستمبرمیں فیکٹریوں کی سرگرمیوں میں کمی واقع ہونی شروع ہوگئی جوابھی تک جاری ہے۔طلب کی کمی نے پیداوار،نئے آرڈرزاور روزگار کومتاثرکیاہے۔بلندشرح سود،مہنگائی اوریوکرین جنگ کی وجہ سے امریکاجیسے ملک میں مانگ کم ہورہی ہے۔ایسے میں چین اپنی معیشت کوتیز کرنے کیلئےمزید اقدامات کرسکتاہے لیکن جب تک کہ صفرکووڈپالیسی ختم نہیں ہوجاتی،ایساہوتادکھائی نہیں دیتا۔

ایس اینڈپی گلوبل ریٹنگز کے چیف ایشیا اکانومسٹ لوئس کوئزکے مطابق’اس وقت معیشت میں پیسہ لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ اگرکمپنیاں نہیں پھیل سکتیں اورلوگ خرچ کرنے کے قابل نہیں تواس کافائدہ نہیں۔چین نے چھوٹے کاروباروں، انفراسٹرکچراور ریئل اسٹیٹ کوتیزکرنے کیلئےایک ٹریلین یوآن کے پیکج کااعلان کیاتھا۔ترقی کے ہدف اورروزگارکے مواقع پیداکرنے کیلئے درکاراخراجات کوبڑھانے کیلئےمزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ان میں بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں اضافہ،گھر خریدنے والوں،پراپرٹی ڈویلپرزاورمقامی حکومتوں کیلئےقرض کی شرائط میں نرمی اورخاندانوں کودی جانے والی ٹیکس چھوٹ جیسے اقدامات شامل ہیں۔

معاشی کمزوری کے حالیہ ادوارمیں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کمزوررہے ہیں۔ریئل اسٹیٹ کی سرگرمیوں اور ہاؤسنگ سیکٹرمیں منفی رجحان کی وجہ سے ترقی کی رفتارمیں کمی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ریئل اسٹیٹ سے منسلک دیگرصنعتیں چین کی جی ڈی پی کاایک تہائی حصہ ہیں۔جب ہاؤسنگ سیکٹرمیں اعتمادکمزورہوجاتاہے،تولوگ معاشی صورتحال سے اعتمادکھودیتے ہیں۔چین میں گھرخریدنے والے نامکمل عمارتوں پرقرض کی قسطیں ادانہیں کر رہے اوربہت سے لوگوں کوشک ہے کہ ان کے گھرمکمل بھی ہوسکیں گے یانہیں۔نئے گھروں کی مانگ میں کمی آئی ہے اوراس کی وجہ سے تعمیراتی شعبے میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمدمیں بھی کمی آئی ہے۔

چینی حکومت ریئل اسٹیٹ سیکٹرکوریلیف دینے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس کے باوجودپراپرٹی کی قیمتیں گررہی ہیں۔اس سال کئی شہروں میں جائیدادکی قیمتوں میں20فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔پراپرٹی ڈویلپرزدباؤمیں ہیں اوربہت سے تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ حکومت کوریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں اعتمادبحال کرنے کیلئےمزید اقدامات کرنے ہوں گے۔

ماحولیات تبدیلی کا اثر چین کی صنعت پرنظرآناشروع ہوگیاہے۔اگست میں ملک کے جنوب مغربی صوبے سیچوان اوراس کے وسطی شہرجونگ کنگ کوشدیدگرمی کے بعدخشک سالی کاسامناتھا۔جیسے جیسے ایئرکنڈیشنرزکی مانگ میں اضافہ ہوا،اس خطے کی پاورگرڈ،جوصرف ہائیڈروپاورپر منحصرتھی، زبردست دباؤکاشکارہوگئی۔بڑی فیکٹریوں کویاتواپنی کام کے اوقات کار میں کمی کرناپڑی یافیکٹریوں کومکمل طورپربندکرناپڑرہاہے۔چین کے ادارہ شماریات کے مطابق اگست میں لوہے اورسٹیل کی صنعت کے منافع میں2022کے پہلے10مہینوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں80فیصدکمی واقع ہوئی ہے۔یہاں بھی آخرکارچینی حکومت کومددکیلئےآگے آنا پڑااورحکومت نے مقامی کسانوں اورتوانائی کی کمپنیوں کواربوں ڈالرکاریلیف پیکج دیا۔

چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پرریگولیٹری ایجنسیوں کے اقدامات کااثرظاہرہوناشروع ہوگیاہے۔دوسال تک جاری رہنے والی ان کارروائیوں کاکوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ٹیکنالوجی کمپنی ٹین سینٹ نے پچھلی سہ ماہی میں پہلی باراپنے منافع میں کمی دیکھی ہے۔ٹین سینٹ اورعلی باباکے منافع میں 50فیصدکمی آئی ہے جبکہ علی باباکی خالص آمدنی نصف سے زیادہ گرگئی ہے۔حالیہ مہینوں میں دسیوں ہزارافراداپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھوبیٹھےہیں، جو پہلے سے جاری ملازمتوں کے بحران کومزیدنمایاں کر رہاہے۔اس وقت چین میں16سے24سال کی عمرکاہرپانچواں نوجوان بے روزگارہے۔طویل مدت میں اس کااثرچین کی پیداواری صلاحیت اورترقی پرپڑسکتاہے۔

سرمایہ کار بھی حکومت کے رویے میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔جیسےجیسے ژی جن پنگ کی اقتدارپرگرفت مضبوط ہورہی ہے، چین کی کچھ کامیاب کمپنیوں کی مشکلات میں اضافہ بھی ہواہے۔ان کی نسبت سرکاری کمپنیوں کوزیادہ فائدہ ہوتانظرآرہاہے اور ایسے میں بڑے غیرملکی سرمایہ کارچین سے اپناپیسہ نکال رہے ہیں۔جاپان کے سافٹ بینک نےعلی باباسے بڑی رقم نکال لی ہے جبکہ وارن بفیٹ کی برکشائرہیتھ وے چینی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی بی وائے ڈی میں اپناحصہ بیچ رہی ہے۔اس سال کی دوسری ششماہی میں ہی ٹین سینٹ سے7بلین ڈالرسے زیادہ کی سرمایہ کاری نکل چکی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا بھی امریکی سٹاک مارکیٹ میں چینی کمپنیوں پرشکنجہ کس رہاہے۔ایس اینڈپی گلوبل ریٹنگزکے مطابق “سرمایہ کاری کے کچھ فیصلے ملتوی کر دیئے گئے ہیں اورکچھ غیرملکی کمپنیاں دوسرے ممالک میں اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا چاہتی ہیں”۔

دنیابھی اب یہ سمجھ رہی ہے کہ چین صنعتیں لگانے کیلئےاتناموزوں ملک نہیں رہاجتناپہلے تھا۔پچھلی چنددہائیوں کے دوران چین کوجس اقتصادی ترقی نے آگے بڑھایاہے وہ اب تنزلی کاشکاردکھائی دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں