اقبال کاپاکستان

:Share

اقبال کاکلام انسانی فکروعمل کی تاریخ کانہائت دقیق تجزیہ ہے۔انہوں نے اپنی غیرمعمولی بصیرت کی بناپرتاریخی حوادث سے متعدددورس نتائج اخذکئے، بعض وہ نتائج بھی جوابھی رونمانہیں ہوئے تھے۔ان کایہ شعرمبنی برحقیقت ہے:
حادثہ جوابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کامرے آ ئینہ ادراک میں ہے
برصغیرکے مسلمانوں کی تاریخ پراقبال نے خصوصیت کے ساتھ توجہ دی،انہوں نے دیکھاکہ یہ وسیع وعریض خطہ مدت تک مسلمانوں کے فکروعمل کی عظیم جولانگاہ بنارہااورانہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ ایک عظیم الشان اسلامی معاشرہ تشکیل کیاجس کے برجستہ تمدنی نقوش ناقابلِ محوہیں۔مسلمان یہاں اگرچہ دوسری اقوام کی نسبت تعدادمیں کم اورمختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے لیکن عقیدہ توحیدنےانہیں ہمیشہ اسلام کے رشتہ وحدت میں منسلک رکھا۔متعدد مسلمان خاندانوں نے یہاں ایک ہزارسال تک حکومت کی،ان میں غزنوی،غوری، خلجی،تغلقی،لودھی اورمغل خاندان زیادہ معروف ہیں۔یہ حکومتیں اگرچہ مذکورہ خاندانوں کےنام سے منسوب تھیں لیکن چونکہ وہ اسلامی اصولوں کی اساس پراستوارکی گئیں اوراسلامی اقدارکی حفاظت اورنشرواشاعت کیلئے کوشاں رہیں،اس لئےانہیں اسلامی حکومتوں کے نام سے یادکیاجاتا ہےان کے حکمران مسلمان تھے اوردین اسلام کواپنی حکومت کاتشخص اورطرہ امتیازقراردیتے تھے۔وہ اپنی قائم کردہ عدالتوں میں اسلامی قوانین رائج کرتے،مدرسوں اورمساجدکی تاسیس کرتے اوران میں اسلامی تعلیمات وروایات اور مسلمانوں کی زبان وادب کوفروغ دیتے ، اکثرسلاطین ِوقت صوفیااورعلماکی عزت وتکریم کرتےاوران سے ہدایات حاصل کرتے ،صوفیاہمیشہ سلاطین کورعایاکے ساتھ عدل واحسان کی تلقین فرماتے۔

محمدبن قاسم کے بعدمحمودغزنوی نے مسلمانوں کیلئے ہندوستان کے دروازے کھول دیئے،محمودغزنوی نے دہلی کومسلم حکومت کادارلسلطنت قراردیا۔ تمام مسلمان بادشاہوں اورحکمرانوں نے اپنی حکومت کی شناخت دین اسلام کوقرار دیااور ہرایک نے اپنے آپ کودین کے مبلغ ومحافظ اوراس کی عظمت کے مظاہرو مویدکے طورپرملقب کیا،اس حوالے سے اکثرسلاطین کے القاب قابل ملاحظہ ہوں مثلامعزالدین غوری،قطب الدین ایبک،شمس الدین التمش،رکن الدین فیروزشاہ، غیاث الدین بلبن،علاالدین محمد شاہ،ثہیرالدین بابر،نصیرالدین ہمایوں،جلال الدین اکبر،نورالدین جہانگیر،شہاب الدین شاہجہان اور محی الدین اورنگزیب عالمگیر وغیرہ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ سلاطین تخت نشینی کے وقت یہ اصرارکرتے تھے کہ وہ دین سلام کے تحفظ اورترویج میں ہمیشہ کوشاں رہیں گے۔اگراحیامیں کوئی بادشاہ دینی امورکی اشاعت میں کچھ کوتاہی کرتا توصوفیااورعلمااسے متنبہ کرتے اوراس کی اصلاح کی بھرپورکوشش کرتے۔ صوفیامیں نظام الدین اولیاء،بہا الدین ذکریا،شرف الدین بوعلی قلندر،جلال الدین بخاری،شیخ احمدسرہندی اورشاہ ولی اللہ سلاطین وقت کواسلامی احکام کی تعمیل کی تاکید فرماتے رہے۔

برصغیرکی تاریخ سے متعلق جن عظیم حکمرانوں کو اقبال نے خراجِ تحسین اداکیاان میں محمودغزنوی،اورنگ زیب عالمگیر، احمد شاہ ابدالی اورٹیپوسلطان خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکرہیں۔یہ وہ اشخاص ہیں جنہوں نے پرچمِ توحیدکوہمیشہ بلند رکھا اورباطل قوتوں سے نبردآزماہوئے۔اٹھارویں صدی میں جب مسلمانوں کا عظیم الشان معاشرہ بادشاہوں اورامیروں کی اخلاقی بے راہروی کی بناپرفتنہ وفساداورانتشارکاشکارہواتواقتدارانگریزوں کے ہاتھوں میں چلاگیا۔اس کے بعد مسلمانوں کی بیداری میں سرسیداحمدخاں،شبلی نعمانی،مولانا حالی،اکبرالہ آبادی اورسب سے بڑھ کر اقبال نے نہائت اہم کرداراداکیا ۔ اقبال نے ہندوقوم کے تاریخی کرداراوراس کے عصری خطرناک عزائم کوپیشِ نظررکھتے ہوئے مسلمانوں کے دین ومذہب،جان ومال اورتہذیب و تمدن کی حفاظت کیلئے اپنی فکری اورعملی توانائیاں وقف کردیں۔انہوں نے فرمایا:

“آئندہ نسلوں کی فکرکرناہمارافرض ہے،ایسانہ ہوکہ ان کی زندگی گونڈاوربھیل اقوام کی طرح ہوجائے اوررفتہ رفتہ ان کادین اورکلچراس ملک میں فنا ہو جائے”۔اقبال نے برصغیر میں مسلمانوں کیلئے ایک آزادمملکت کاتصورہزارسالہ اسلامی تمدن کی حفاظت اوربقاکیلئے پیش کیا،ان کے نزدیک مذہب قوت کے بغیر محض ایک فلسفہ ہے۔انہوں نے فرمایا”اگرہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طورپرزندہ رہے تواس کیلئے ضروری ہےکہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے”۔

اقبال اسلام کے بغیرمسلمان کی زندگی کاتصور بھی نہیں کرتے تھے،وہ مسلمانوں کی آزادی کی حفاظت صرف نفاذِاسلام کیلئے چاہتے تھے۔انہوں نے فرمایا : ”اگرہندوستان میں مسلمانوں کامقصدسیاست سے محض آزادی اوراقتصادی بہبودہےاورحفاظتِ اسلام اس مقصدکاعنصرنہیں جیساکہ آج کے قوم پرستوں کے رویئے سے معلوم ہوتاہے تومسلمان اپنے مقاصدمیں کبھی بھی کامیاب نہ ہوں گے”۔ہماری تاریخِ ادب میں اقبال آزادی وطن کے سب سے بڑے شاعرہیں۔اس حوالے سے ان کے سازسخن کے نغمات حریت واستقلال ہیں لیکن وہ اسلام کے بغیرآزادی وطن کاتصوربھی نہ کرتے تھے ۔ انہوں نے بڑے غیورانہ لہجے میں فرمایا:اگرآزادی ہند کانتیجہ یہ ہواکہ جیسادارلکفرہے ایسا ہی رہے یااس سے بھی بدترین ہوجائے تومسلمان ایسی آزادی
وطن پرہزارمرتبہ لعنت بھیجتاہے”۔ اقبال نے برصغیرمیں ایک آزاداسلامی ریاست کی تشکیل کامطالبہ محض اس لئے کیاتھاکہ شریعت اسلامی کانفاذ ہو سکے تاکہ اس کے نتیجے میں ہرشخص کومعاش کی ضمانت مل سکے ۔ اس بارے میں انہوں نے قائداعظم کے نام خط میں لکھا……….”شریعت اسلامیہ کے طویل وعمیق مطالعے کے بعدمیں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریق پرسمجھااورنافذکیاجائے توہرشخص کوکم ازکم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہوسکتاہے لیکن کسی ایک آزاداسلامی ریاست یاچند ایسی ریاستوں کی عدم موجودگی میں اسلامی شریعت اسلامیہ کا نفاذاس ملک میں محال ہے ” ۔

انہوں نے مسلمانوں پرواضح کیاکہ برصغیرمیں مسلمانوں کی نجات کاواحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کے تصورکو ترک کرکے اسلامی قومیت کو اپنی شناخت بنائیں کیونکہ اسلام ہی انہیں موجودہ تباہ کن حالات سے محفوظ رکھ سکتاہے ۔ انہوں نے مسلمانوں پراسلام کے احسانات ِعظیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِترکیبی تھاجس سے مسلمانانِ ہندکی حیات متاثرہوئی۔اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات وعواطف سے معمورہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کادارومدارہے اورجن سے متفرق اورمنتشرافرادبتدریج متحدہو کر ایک متمیزاورمعین قوم کی صورت اختیارکرلیتے ہیں اوران کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعورپیداہوجاتاہے”۔

حکیم الامت کاسب سے بڑاکارنامہ جس کی بنیادپرپاکستان قائم ہوا،یہ ہے کہ انہوں نے ہندی قومیت کے تصورکی مکمل نفی کی اورمسلمانوں میں اسلامی قومیت کا شعورپیداکیا۔اقبال جغرافیائی وطن پرستی کے سخت مخالف تھے کیونکہ یہ ان کے نزدیک وحدتِ ملی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،انہوں نے اسلام کو زندگی بخش قوت قراردیتے ہوئے فرمایا”اسلام ایک زندہ قوت ہے جوذہن ِانسانی کونسل ووطن کی قیود سے آزادکرسکتی ہے جس کاعقیدہ ہے کہ مذہب کوفرداور ریاست دونوں کی زندگی میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے اورجسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیرخود اس کے ہاتھ میں ہے”۔اسلام بحیثیت مذہب کے دین وسیاست کا جامع ہے،یہاں تک کہ ایک پہلوسے دوسراپہلوکاجداکرناحقائق اسلامیہ کاخون کرناہے۔

اقبال کیلئےاسلام ہی مسلمان کی زندگی ہے،کوئی مسلمان اسلام سے باہراپناوجودقائم نہیں رکھ سکتا۔انہوں نے فرمایا: ”اسلامی تصورہماراوہ ابدی گھریاوطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسرکرتے ہیں،جونسبت انگلستان کوانگریزوں اورجرمنی کوجرمنوں سے ہے،وہ اسلام کوہم مسلمانوں سے ہے ” ۔

رسالتِ محمدیہ کی اہمیت کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:”ہمارے عقیدے کے مطابق بحیثیت مذہب کے اللہ تعالی نے اسلام کو بذریعہ وحی نازل کیا لیکن ایک معاشرت یا ملت کے طورپراسلام کاوجودکلیتا ًرسولِ اکرم ﷺکی ذاتِ بابرکات کارہینِ منت ہے”۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِراہ کوبخشا فروغِ وادی سینا
نگاہ ِعشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں،وہی فرقاں،وہی یسیں وہی طہٰ

1919ءمیں ایک خط میں لکھا:”اللہ کی راہ میں مجھ سے جوکچھ ہوسکامیں نے کیالیکن دل چاہتاہے کہ جوکچھ ہوااس سے بڑھ کرہوناچاہئے تھااورزندگی تمام و مکمل نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بسرہونی چاہئے تھی ”۔

اقبال اسلام کے ابدی حقائق پرمحکم ایمان رکھتے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی تفسیروتوضیح میں صرف کی تاکہ مسلمان عصرِحاضر کے تقاضوں کے مطابق اس کی لامتناہی برکات سے مستفیذہوں۔حضرت کے نزدیک اسلام ہی مسلمانوں کابہترین مدافع اورمحافظ ہے۔اسلام مسلمانوں سے اپنے تحفظ کامطالبہ نہیں کرتابلکہ انہیں تحفظ کی ضمانت دیتاہے۔ مسلمانوں کے ملک وملت اورجان ومال کی حفاظت صرف اسلام سے وابستگی میں ہے۔انہوں نے فرمایا:
“ایک سبق جومیں نے تاریخِ اسلام سے سیکھاہے”کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا،مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی”۔اس دین کی حقانیت اوراہمیت کے بارے میں رقمطرازہیں:”میری طلب وجستجوصرف اس بات پرمرکوزرہی ہے کہ ایک جدیدمعاشرتی نظام تلاش کیاجائے اورعقلا ًیہ ناممکن معلوم ہوتاہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظرکرلیاجائے جس کامقصد ِوحید ذات پات،رتبہ ودرجہ،رنگ ونسل کے تمام امتیازات مٹادیناہے”۔

اسلام تما م نوعِ انسانی کے حقوق کااحترام کرتاہے۔اس دین میں اسودواحمر،عربی اورعجم اوربندہ وآقاکی تمیزکچھ حکم نہیں رکھتی۔اقبال اس جاہلانہ تصورکو سختی سے مسترد کرتے ہیں کہ اسلام کومعاشرتی حیثیت سے نکال کرشخصی ضابطہ بنا دیا جائے۔انہوں نے1930ءکے تاریخی خطبے میں فرمایا:”کیاآپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اورسیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کابھی وہی حشرہوجومغرب میں مسیحیت کاہوا؟کیایہ ممکن ہے کہ ہم عجمی اسلام کوبطور ایک اخلاقی تخیل کے توبرقراررکھیں لیکن اس کے نظامِ سیاست کے بجائے ان قومی نظامات کواختیار کر لیں جن میں مذہب کی مداخلت کاکوئی امکان باقی نہ رہتاہو…….اسلام کامذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں،دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کوترک کیاتو بالآخر دوسرے کوترک کرنابھی لازم آئے گا۔میں نہیں سمجھتاکہ کوئی مسلمان ایک لمحے کیلئے بھی ایسے نظامِ سیاست پرغور کرنے کیلئے آمادہ ہوگاجوکسی ایسے وطن یاقومی اصول پرمبنی ہو جواسلام کے اصولی اتحادکے منافی ہو”۔

اقبال کے نزدیک اسلام ہی عالمِ انسانیت کیلئے فلاح اورامن کادستورہے،اسلام ایک سوشل نظام ہے جوحریت ومساوات کے ستونوں پرکھڑاہے اوراس وقت احترامِ انسانی کیلئے سب سے بڑی نعمت ہے۔اسلام کا مطالبہ وفاداری صرف خداکیلئے ہے، تخت وتاج کیلئے نہیں اورچونکہ ذاتِ باری تعالی تمام زندگی کی روحانی اساس ہے اس لئے اس کی اطاعت کادراصل مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ہی فطرت ِصحیحہ کی اطاعت کرتا ہے۔

اقبال کے نزدیک”اسلام”ایک عالمگیرسلطنت کایقیناًمنتظرہے جونسلی امتیازات سے بالاترہوگی اورجس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں اورسرمایہ داروں کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔حضرتِ نے مسلمانوں کے تاریک ترین ایام میں اپنی قوتِ ایمانی سے فرمایا:”دنیا میں کارفرماقوتیں اکثراسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن “لیظہرہ علی الدین کلہ”کے دعوی پرمیرا ایمان ہے کہ انجام کاراسلام کی قوتیں کامیاب اورفائزہوں گی”۔
آسماں ہوگا سحرکے نورسے آئینہ پوش
اورظلمت رات کی سیماب ہوجائے گی
اس قدرہو گی ترنم آفریں بادِ بہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نواہوجائے گی
آملیں گے سینہ چاکانِ وطن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِصبا ہوجائے گی
پھردلوں کویاد آجائے گاپیغامِ سجود
پھرجبیں خاکِ حرم سے آشناہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخرجلوہ خورشید سے
یہ چمن معمورہوگانغمہ توحید سے
حضرتِ اقبال نے مسلمانوں کے تحفظ وبقاکیلئے جوراستہ دکھایا،قائداعظم مسلمانوں کے قافلے کولیکراس پرچل پڑے اوربہت قلیل عرصے میں منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے یعنی پاکستان……..اسلام کاپاکستان،ہمیشہ زندہ رہنے والاپاکستان۔ قائداعظم نے اقبال کوخراجِ تحسین ادا کرتےہوئے فرمایا:
“اقبال سے بہتراسلام کوکسی نے نہیں سمجھا،میں نے ان سے زیادہ وفاداراوراسلام کاشیدائی کسی کونہیں دیکھا۔اقبال اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے”اوربلا شبہ اسلام ہمیشہ زندہ ہے اورزندہ رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں