Iqbal: Concept of patriotism and nationality

اقبال:تصوروطنیت وقومیت

:Share

وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ انسان کا اپنی جائے ولادت اور مسکن کے ساتھ محبت و یگانگت کا تعلق ایک فطری عمل ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی اَحادیثِ مبارکہ میں مکہ المکرمہ سے والہانہ محبت کا اظہار اسی حبّ الوطنی کا ثبوت ہے۔”اے مکہ!تو کتنا پیاراپیارا شہر ہے، تو مجھے کس قدر محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔ کسی چیز کے ساتھ خالص محبت ترجیحات کے عملی تعین کی متقاضی ہوتی ہے۔ اگر کسی مرغوب جگہ یا چیز کے ساتھ محبت والہانہ ہو تو فوقیات و ترجیحات اور ہو جاتی ہیں۔
بقول علامہ اقبالؒ:
اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے اور جم اور
ساقی نے بِنا کی رَوشِ لطف و ستم اَور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

موجودہ نظریۂ قوم پرستی کو مغربی طاقتیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ وہ دیرینہ خواب جس کی تعبیر صلیبی جنگوں سے اُن کو حاصل نہیں ہو سکی، وہ قوم پرستی سے حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کو توڑنے میں استعماری قوتیں کافی حد تک کامیاب ہو گئی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں بہت سی ایسی قومیں گزری ہیں جن کی مادی شان و شوکت سے دوسری قومیں لرزتی تھیں، مگر بایں ہمہ گردشِ ایام انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس کی وجہ دین سے بیزاری اور نسلی و جغرافیائی طریقہ زندگی کو فوقیت دینا ہے۔اس لیے کہ وطنیت، چاہے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہو یا علاقائی حد بندی کی بنیاد پر، انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے ہوس پرست بنا دیتی ہے۔ علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے ملّی تصور کو اجاگر کرنے کیلئے فرماتے ہیں:
فرد قائم ربطِ مِلت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تُو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
یقین افراد کا سرمایۂ تعمیرِ ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے

قوم پرستی کا آغازمغرب میں انقلابِ فرانس یعنی 1789ء کے بعد ہوا۔ مشہور قوم پرست “جان جیک روسو” اس بات پر مُصر تھا کہ انسان کو سب سے زیادہ تعلق اپنے گھراور ملک سے ہونا چاہیے۔ اُس کا عقیدہ تھا کہ فرد یا گروہ کی محبت اور وفاداری کا مرکز و محوراس کا وطن ہونا چاہیے۔ اُس نے نوعِ انسانی کی اجتماعی، دینی اور سماجی نظام سے وابستگی کی شدید مخالفت کی۔ مغربی مصنفین کی تحریروں سے عیاں ہے کہ وہ قوم پرستی، زبان، ملک اور نسل کو وحدت کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ اُن کا اصرار ہے کہ غیر کے مقابلے میں ہم کو وطن کا دفاع کرنا ضروری ہے، چاہے اس کا مؤقف صحیح ہو یا غلط۔ چنانچہ قوم پرستی عوام کے جذبات سے کھیلنے، فوجوں کو حرکت میں لانے، ہمسایہ ملکوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے، توسیع پسندی، قتل و غارت گری، بدعنوانی اور ظلم و جبر کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔

اسلام اپنا ایک مستقل نظامِ فکر رکھتا ہے۔ وہ انسان کی عملی، سیاسی، اجتماعی اور روحانی زندگی پر محیط ہے۔ اسی وجہ سے قوم پرستی کا ملتِ اسلامیہ کے ساتھ ٹکراؤ ناگزیر ہے۔ دونوں نظریات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ ملتِ اسلامی کی وحدت کی بنیاد ایک بین الاقوامی تصور پر مبنی ہے اور اس کی تشکیل عقیدے کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے علامہ اقبالؒ نے مذہب کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِین زخمہ ہے، جمعیت مِلت ہے اگر ساز
پانی نہ مِلا زمزمِ مِلت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پَود میں الحاد کے انداز

جب مختلف قومیں کسی خاص مقام یا کسی ایک مرکز میں اپنی قدرتی اور مناسب ترکیب و ترتیب کے ساتھ مل جاتی ہیں تو ایک اجتماعیت وجود میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جا بہ جا اجتماعیت کو قومی زندگی کی سب سے بڑی بنیاد اور انسانوں کیلئےاللہ تعالیٰ کی جانب سے بڑی رحمت و نعمت قرار دیا ہے۔اللہ نے ارشاد فرمایا:سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اور اللہ کی اس نعمت کو یادکرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے۔(آل عمران: 103)

دورِ جدید میں لوگوں نے قوم پرستی (یا وطن پرستی) سے متاثر ہوکر اخوت کے رشتے کو بری طرح پامال کیا ہے۔ اس کےنتیجے میں بنی نوع انسان قبیلوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے جب اس تصور کو مسلمانوں میں پنپتا دیکھا تو انہوں نے وطنیت پر زبردست تنقید کی:
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے
آج کے جدید مغربی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بناء پر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی ان کا خیال تھا کہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ اور بلا وجہ تنازعات کی بنائ پڑتی ہے۔ جو بعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اور بلا خیز تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ اسی نظام کو انہوں نے دنیائے اسلام کے لئے خاص طور پر ایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھا اور جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مدد کی تو انہیں یقین ہو گیا کہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کے لئے زہر قاتل سے زیادہ نقصان ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصور کے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کا تصور پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ مسلمانان ِ عالم کے لئے بنیادی نظریات اور اعتقادات کی رو سے ایک وسیع تر ملت کا تصور ہی درست ہے۔ اور قومیت کے مغربی نظریہ ہمیں بحیثیت ملت ان کی تباہی کے بے شمار امکانات پوشیدہ ہیں۔اقبال قوم اور ملت کو مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مسلمان قوم سے ان کی مراد ہمیشہ ملت اسلامیہ ہوتی ہے۔ اس بارے میں وہ اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں۔ ” میں نے لفظ ”ملت“ قوم کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی میں یہ لفظ اور بالخصوص قرآن مجید میں شرع اور دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن حال کی عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بکثرت سندات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں ”ملت “ بمعنی قوم استعمال کیا ہے۔“ ارادی طور پر ان پر عمل پیرا ہونا تاریکی کی جانب راغب ہونے کے مترادف ہے۔آگے چل کر لکھتے ہیں:

“ان گزارشات سے میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں ، قران کریم میں مسلمانوں کے لئے ”امت“ کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا۔ ”قوم“ رجال کی جماعت کا نام ہے۔ یہ جماعت با اعتبار قبیلہ ، نسل، رنگ ،زبان ، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ”ملت‘ ‘ سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ”ملت“ یا ”امت“ جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہوتی۔

اقبال قومیت کے اس تصور کے خلاف ہیں جس کی بنیاد رنگ، نسل ،زبان یا وطن پر ہو۔ کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب ، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پر امید مستقبل ہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے۔ اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول توحید خدا ملی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کا دوسرا رکن رسالت ہے۔ اور یہی دونوں اساس ملت ہیں۔ نہ کہ وطن جو جنگ اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتاہے۔اس سلسلہ میں اقبال نے اپنے ایک مضمون میں یوں لکھا ہے۔

“قدیم زمانہ میں ”دین“ قومی تھا۔ جیسے مصریوں ، یونانیوں اور ہندیوں کا۔ بعد میں نسلی قرار پایا جیسے یہودیوں کا۔ مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے۔ جس سے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن ”سٹیٹ “ ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نو ع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ ”دین“ نہ قومی ہے نہ نسلی ہے، نہ انفرادی اور نہ پرائیویٹ ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اور اس کامقصد باوجود فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد اور منظم کر نا ہے۔ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اخوت کے قائل ہیں لیکن اس کی بنیاد اسلام پر رکھتے ہیں کیونکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کے پاس وسیع انسانی مسائل کا حل موجود ہے وہ قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لئے رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام نے عالمِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم کو بپا کرکے انسان کو رنگ و نسل ، نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔ اقبال کے نزدیک یہ ” ہیئت اجتماعیہ“ قائم کرنا اسلام ہی کا نصب العین تھا۔ مگر بدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں ، گروہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔ اقبال مسلمانوں کو پھر اسی اخوت اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اور ایک ملت میں گم ہو جانے کا سبق سکھاتے ہیں۔ وہ ایک عالمگیر ملت کے قیام کے خواہشمند ہیں جس کا خدا ، رسول کتاب، کعبہ ، دین اور ایمان ایک ہو:
منفعت ایک ہے اسی قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

علامہ اقبالؒ اْمت اسلامیہ کے اتحاد میں مغربی تصورِ قومیت کو نہایت تباہ کن خیال کرتے ہیں۔ان کے ہاں کارواں سے مراد مسلمانوں کی عظمت گزشتہ ہے وہ کہتے ہیں کہ رنگ، نسل، وطن، ذات اور برادری اسلامی اتحاد قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے امت کوعالمگیریت کا درس دیا۔ اْمت اسلامیہ کا اتحاد وحدت مذہب و تمدن پر قائم ہے۔علامہ اقبالؒ جس قومیت کے قائل ہیں، اس کا دائرہ اسلام کے اندر ہے اور اس کی بنیاد وہ دینی معتقدات پر رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

آج کے جدید مغربی سیاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبالؒ نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بناء پر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی۔ ان کا خیال تھا کہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ اور بلا وجہ تنازعات کی بناء پڑتی ہے۔ جو بعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اور بلا خیز تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ اسی نظام کو انہوں نے دنیائے اسلام کیلئےخاص طور پر ایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھا اور جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مدد کی تو انہیں یقین ہو گیا کہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کیلئےزہر قاتل سے زیادہ نقصان ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصور کے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کا تصور پیش کیااور یہ ثابت کیا کہ مسلمانان ِ عالم کیلئےبنیادی نظریات اور اعتقادات کی رو سے ایک وسیع تر ملت کا تصور ہی درست ہے۔ اور قومیت کے مغربی نظریہ میں بحیثیت ملت ان کی تباہی کے بے شمار امکانات پوشیدہ ہیں۔ارادی طور پر ان پر عمل پیرا ہونا تاریکی کی جانب راغب ہونے کے مترادف ہے۔

اقبالؒ کی مراد کاروان سے مراد ملت اسلامیہ ہے جو ہر طرح کی جغرافیائی تصورسے بالاتر ہے۔ متاع کارواں دراصل تہذیب اسلامی ہے اور یہ تہذیب خدا مرکز تہذیب ہے اوراسی وجہ سے یہ انسان مرکز تہذیب بھی ہے۔ دنیا کو اسلام بطورمذہب قبول ہے لیکن بطورنظام زندگی قبول نہیں ہے۔ اقبالؒ کا فلسفہ خودی اور اسلام کا تزکیہ نفس کا تصورہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ سفر یورپ کے بعدعلامہ کی شاعری نے قوم کو بیدارکر دیا۔ علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ رنگ و خون کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہو جائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک، قوم، نسل اور وطن کی مصنوعی حد بندیوں نے نوعِ انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیا ہے اور اس کا علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلامی معاشرے کے تصور کو رائج کیا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی معاشرے کا حصہ بنا لیں، یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی اْخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی ہے۔ اقبالؒ کا تصورِ ملت ایک انقلابی نعرہ یا جذباتی فیصلہ نہیں جسے اقبالؒ کے کلام میں دوامی حیثیت حاصل نہ ہو۔ اور نہ ہی اقبالؒ ملت کے اس تصور کا خالق ہے۔ جب اقبالؒ کے ذہن میں ملت کا تصور اْبھرا۔اس وقت دنیائے اسلام کی حالت ایک بیمار جسم کی سی تھی۔جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد مسلم ریاستیں حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار ریاستیں نہ تھیں۔ترکی کی حالت ایک مْڑے تْڑے تاش کے پتے کی سی تھی۔ ایران کے شمالی حصوں پر روس اور جنوبی حصوں پر برطانیہ کی حکمرانی تھی۔ افریقہ اور مصر پر یورپی اقوام قابض تھیں۔افغانستان کے والی یوں تو امیر کہلاتے تھے ،مگر ان کی حیثیت وظیفہ خوار اور نوابین ِ اودھ سے زیادہ نہ تھی۔انڈونیشیا ولندیزیوں کے زیر سایہ سیاسی بیداری سے بے خبر تجارتی کاموں سے زیادہ مصروف تھا۔ اور ہند میں مسلمان اقلیتوں کی زندگی بسر کر رہے تھے۔اس حالت میں اقبالؒ کا تصورِ ملت محض انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تاریخ کا حامل ہے۔ وطن دوستی کے شیدائی اقبالؒ نے دیکھا کہ اقوام عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پر ظلم کررہی ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے عمرانی اور سیاسی افکار کے مطالعہ سے ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ مغربی جمہوریت کو اس کے سیکولر اور مادر پدر آزاد ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے مگر جمہوری روح جس میں حریت فکر اور آزادی رائے عام ہے کو قبول کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں نہ تو سیکولر جمہوریہ آئے نہ لبرل ازم کے نام پر بے راہ روی پیدا ہو۔ مگر عصرِ حاضر میں مسلمان جمہوری روح سے استفادہ کر کے خود اپنے نظام خلافت اجتہاد کے ذریعہ ایک ایسے منتخب نظام میں بدل دیں جس میں فرد سے زیادہ جماعت مقتدر ہو۔ ریاستِ اسلامی کی سیاسی ، عمرانی اور معاشی معاملات چلانے کے لئے ایک منتخب ایوان تشکیل پائے جو ہماری عظیم فقہی روایات سے اصولی رہنمائی لے کر جدید عصری تقاضوں کے مطابق خود ایک جدید فقہی نظامِ مدنیت یا نظامِ حیات متشکل کرے۔ یہ ایک ایسا اصول ہو جس سے فرد کا روحانی استخلاص ہو سکے اور اس بنیادی اصول کی عالمگیریت سے انسانی معاشرے کا ارتقاء بھی روحانی اساس پر ہوتا رہے۔ فرد کے روحانی استخلاص اور انسانی معاشرے کے ارتقا کے اس بنیادی اصول کا استخراج اقبالؒ کے ہاں کائنات کی روحانی تعبیر پر ہے جو مادے کے بارے میں جدید طبیعات کے اس انکشاف کے بعد کہ مادہ قابل تحویل بھی ہے اور قابلِ فنا بھی اقبالؒ نے قرآن کے تصورِ توحید پر ایک نئی مابعد الطبیعات کو ایقان دیتے ہوئے اپنائی۔

اقبال قومیت کے اس تصور کے خلاف ہیں جس کی بنیاد رنگ، نسل ،زبان یا وطن پر ہو۔ کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پر امید مستقبل ہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے۔ اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول توحید خدا ملی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کا دوسرا رکن رسالت ہے۔ اور یہی دو نوں اساس ملت ہیں۔ نہ کہ وطن جو جنگ اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتاہے چنانچہ ان کے تصور قومیت کی بنیاد اسلامی معتقدات پر ہے۔ وہ کہتے ہیں،
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
آج ہم جن مشکلات کا شکار ہیں ،ان سے نکلنے کا ہی طریقہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلم امہ اقبال کے تصورِ قومیت کو اپنا ایمان اور ایقان بنا لیں ۔ پھر ہمیں امریکا جیسی سپر پاور سے خطرہ ہوگا نہ معاشی مسائل کا سامنا ہوگا بلکہ مسلم امہ خود ایک سپر پاور بن کر ابھرے گی،ان شاءاللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں