بھارتی مالیاتی فراڈاورمودی

:Share

پچھلے دنوں بھارتی میڈیامیں نریندرمودی کے ساتھ ایک اورمودی کانام چھایا ہواہے۔گجرات سے ہی تعلق رکھنے والاہیرے جواہرات کاتاجر نیرو مودی اور اس کاپوراخاندان بھارتی تاریخ کاسب سے بڑابینک فراڈکرکے بیرونِ ملک فرارہوچکاہے۔اس نے پنجاب نیشنل بینک کوگیارہ ہزارچارسو ایک کروڑروپے کاٹیکہ لگادیالیکن گزشتہ سات سال سے جاری دھوکہ دہی کے باوجودنہ تو بینک کے اندرونی نظام اورنہ بھارتی حکومتوں کے انسداد بدعنونی کے اداروں کوکچھ پتہ چلااورنیرومودی آسانی کے ساتھ گزشتہ جنوری میں سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کرملک سے فرارہوگیا۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ نیرومودی گزشتہ دنوںڈیوس میں ورلڈاکنامک فورم کے اجلاس میں دوسرے بھارتی کارپوریٹ لیڈروں اورکمپنی مالکان کے گروپ میں شامل تھااوراس نے بھارتی وزیراعظم مودی سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ کئی تصاویرکے سیشن میں بھی ان کے ساتھ موجودتھا حالانکہ اس وقت پنجاب بینک سے قرضوں کے حصول میں نیرو مودی کی بے قاعدگیوں کاانکشاف بھی ہوچکاتھا۔
بھارتی بینکاری کی تاریخ کاسب سے بڑابینک فراڈاب بڑاسیاسی سکینڈل بھی بنتانظرآرہاہے اورآج بھارت میں اس فراڈکے حوالے سے براہ راست انگلیاں نریندرمودی کی طرف اٹھ رہی ہیں ۔کانگرس کے مطابق جولائی 2016ء میں ایک شخص ہری پرساد نے وزیراعظم مودی کوخط لکھ کراس فراڈ کی اطلاع دیکرباقاعدہ کاروائی کامطالبہ بھی کیاتھا لیکن اس پرکوئی کاروائی نہیں کی گئی اورنیرو مودی اوربینک کے کے درمیان مشکوک لین دین کا سلسلہ 2017ء تک جای رہا ۔اب بی جے پی اس فراڈکوکانگرس کے پلڑے میں ڈال کرمودی کوبچانے کی کوشش کررہی ہے۔ان کادعویٰ ہے کہ اس مشکوک لین دین کاآغاز2011ء میں اس وقت ہواتھاجب مرکزمیں کانگرس کی حکومت تھی لیکن بی جے پی کی یہ سیاسی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہوئی نظرنہیں آرہی،اس لئے کہ اب ایسی دستاویزات منظرعام پرآرہی ہیں جس سے یہ صاف ثابت ہورہاہے کہ یہ فراڈزیادہ ترمودی دورِ حکومت میں ہوا اوراسے جان بوجھ کرروکنے کی کوشش نہیں کی گئی یااس فراڈ سے ارادتاً چشم پوشی اختیارکی گئی،بلکہ اب سب سے زیادہ سنگین الزام یہ ہے کہ مودی حکومت نے نیرومودی کوملک سے فرارہونے میں درپردہ مددکی تھی۔
پنجاب نیشنل بینک نے 29جنوری کوسینٹرل بیوریوآف انویسٹی گیشن میں نیرومودی کے خلاف شکائت درج کرائی تھی جبکہ نیرومودی،اس کی امریکی نژادبیوی،ایک بھائی اورکئی دوسرے رشتہ دارجنوری کے پہلے ہفتے کے الگ الگ دنوں میں بھارت سے نکل چکے تھے۔شبہ یہ ہے کہ نیرو مودی کوکسی جانب سے الرٹ کردیاگیاتھاکہ ان کے خلاف کاروائی ہونے والی ہے ،اس لیے وہ اس سے قبل ہی بھارت سے اپنے پورے خاندان سمیت کامیابی سے فرارہوگیا۔48سالہ نیرومودی نے اپنے ماموں مہول چوکسی کے ساتھ مودی جیولرز کے نام سے کاروبارشروع کیااوربھارت کے علاوہ نیویارک،ہانگ کانگ،لندن اورہوائی میں جیولری اوربوتیک اسٹورزکھولے۔2016ء میں نیرومودی فوربزمیگزین کے سب سے بڑے دولت مند لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگیااوراس کے رشتے دارمکیش البانی اوروجے مالیانے بھی مختلف بینکوں کوآٹھ ہزارکروڑروپے کادھوکہ دیاہے اورابھی تک نہ صرف کسی بھی قانونی کاروائی سے آزادگھوم پھررہے ہیں بلکہ مودی کے بیرونی دورں میں ان کی سیاسی شہرت کاسامان بھی مہیا کرنے میں پیش پیش ہیں۔بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈکے سابق سنیئرعہدیدارکلیت مودی پربھی سنگین معاشی جرائم کے الزامات ہیں اوریہ بھی لندن میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔تازہ سکینڈل میں بھی نیرومودی کے ماموں مہول چوکسی کانام بھی شامل ہے ۔لطف کی بات تویہ ہے کہ یہ تمام افرادبی جے پی کوبھاری چندہ دینے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
اب کانگرس سمیت تمام سیاسی جماعتیں یہ سوال اٹھارہی ہیں کہ کیاان قریبی تعلقات اورعطیات ہی کاکرشمہ تھاکہ نریندرمودی اتناعرصہ ان دھوکہ بازفراڈیوں کونظرانداز کرتی رہی اورکسی ایک کوبھی نہ پکڑا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے ہی بھارتی بینکوں پران سات کھرب روپوں کابوجھ ہے جوقرض لینے والوں نے بینکوں کوواپس نہیں لوٹائے۔یہ خطیرقرضے بھارتی صنعتکاروں اورکمپنی مالکان نے لئے تھے لیکن تکنیکی اورقانونی خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قرضے واپس نہیں کئے گئے جبکہ یہ تمام قرضہ لینے والے آج بھی انتہائی عیش و عشرت کی نہ صرف زندگی گزاررہے ہیں بلکہ بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ دکھائی بھی دے رہے ہیں۔بینکوں میں انسداد دھوکہ دہی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہرسال بھارتی بینکوں پر22 ہزارکروڑروپے ٹیکس لگ جاتاہے جوقرض ڈوبنے کے علاوہ ہے۔
یہ سارے گھپلے عوامی شعبے کے بینکوں میں ہوتے ہیں جن میں عام لوگوں کاپیسہ جمع ہوتاہے اورجب بھی کسی عوامی بینک پراس طرح کامالیاتی بوجھ قابل حدتک بڑھ جاتاہے توحکومت عوامی ٹیکس سے حاصل ہونے والی اربوں اورکھربوں کی رقوم بینکوں کوتلافی کیلئے دے دیتی ہے اوریوں کھیل چلتارہتاہے لیکن قابل ذکربات تویہ ہے کہ ان تمام بینکوں کے سربراہان کسی نہ کسی طورپربھارتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیںاوراب بھی درپردہ بی جے پی کے کئی رہنماؤں کارشتہ نہ صرف بینک کی مالیاتی انتظامیہ سے ملتاہے بلکہ ان قرض دہندگان کے ساتھ بھی ان کی رشتہ داریاں منظرعام پرآرہی ہیں جن پران قرض دہندگان کوبچانے کے یہ الزامات لگائے جارہے ہیں۔گویاآسان الفاظ میں بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں اوردولت مندوں کی لوٹ کھسوٹ کی قیمت کئی دہائیوں سے عام بھارتی اداکرتے نظرآرہے ہیں۔قابل ذکربات یہ ہے کہ جب مودی حکومت نے اقتدارسنبھالاتھاتوبھارتی اورعالمی میڈیامیں واضح انکشافات ہوئے تھے کہ اس مرتبہ مودی کی کامیابی کاسہرابھارتی تجارتی کارپوریٹ کے سربراہان جن کے عالمی تجارتی اداروں سے بھی گہرے تعلقات ہیں ،کے سرجاتاہے جوبھارت کی سیاسی قسمت کواپنے اندازمیں چلائیں گے اورمودی محض ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی اورمہرے کاکام سرانجام دے گا۔موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ بھارت کاامریکا،مغربی ممالک اور مشرقِ وسطی کی طرف جھکاؤ اورپچھلی چھ دہائیوں سے روس کی دوستی سے منہ پھیرلینے میں اسی کارپوریٹ کا حصہ ہے اوربینکوں سے فراڈکے مجرمین سے چشم پوشی بھی اسی پروگرام کاحصہ ہے جس سے مودی بھی اپناحصہ وصول کررہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں