اس وقت وطن عزیزکی صورتحال انتہائی گھمبیرہے ۔ایک جانب عالمی قوتیں ہم پرالزامات عائد کرکے ہمیں اپنی پابندیوں میں جکڑنے کی سازشوں میں مصرو ف ہیں اورایسے وقت میں جب ہماری حکومت کواپنی بھرپورتوجہ خارجہ امورپر مرکوز کرنا چاہئے تھی ایسے میں حکومت کے تمام اہم مہرے نااہل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی عدلیہ اوراسٹیبلشمنٹ تحریک کا بھرپورحصہ بنے ہوئے ہیں۔وطن عزیزکی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ سابق وزیراعظم نے ملک کاکوئی وزیر خارجہ مقررہی نہیں کیاحالانکہ آج کے ماحول میں باعزت اورآزادی کے ساتھ رہنے کیلئے ایک ایسے مضبوط ، زیرک اورعالمی حالت سے کماحقہ آگہی رکھنے والے فعال وزیرخارجہ کی ضرورت ہوتی ہے جودنیاکے بدلتے ہوئے پل پل حالات کے مطابق اپنی خارجہ پالیسیوں میں وقت کی مناسبت سے تبدیلیاں لاتارہے اورعالمی سطح پراٹھنے والے سوالات کے ٹھوس جوابات دیتارہے لیکن بدقسمتی سے حکومت کے پہلے چارسال وطن عزیزبغیرکسی وزیرخارجہ کے ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے چلتارہا۔اس دوران اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وزارتِ خارجہ کاقلمدان اپنے پاس ہی رکھالیکن ان کی پالیسی میں بھارت کی جانب واضح جھکاؤنظرآتاتھا لہندا ان کی خارجہ پالیسی بھی بھارت سے شروع ہوکر بھارت پرہی ختم ہوجاتی تھی۔اسی لئے اس دوران بھارت نے ہمارے خلاف جوسازشیں کیں ،ہماری جانب سے ان کانہ توجواب دیاگیااورنہ ہی ان کاتوڑ کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان پرجو دہشت گردی کے بیجاالزامات لگائے جارہے ہیں ان کا خاطرخواہ جواب وہ فوجی سپہ سالاردے رہاہے جس کی کمان میں بہادر سپاہ ان تمام دہشتگردوں کے خلاف اپنی لازوال قربانیاں دیکرارضِ وطن سے ان کاصفایاکرنے میں مصروف ہے۔
پچھلے دنوں کابل میں پانچ ملکوں کی کانفرنس میں جنرل قمرباجوہ نے ببانگ دہل دہشتگردی کے خلاف اپنے انہی عزائم اورکامیابیوں کودہراتے ہوئے ان تمام قوتوں کو پاکستانی یوم دفاع کے موقع پراپنی تقریرکااعادہ کیاکہ دہشتگردی کے خلاف اب صرف پاکستان کی نہیں بلکہ دنیاکو”ڈومور”کرنے کی ضرورت ہے۔ اب حال ہی میں١٨فروری کو جنرل باجوہ نے میونخ میں سیکورٹی کانفرنس سے اہم خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم فخرسے کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان میں دہشتگردوں کے کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں بلکہ افغانستان میں (جہاں اس وقت امریکی افواج اپنی تمامترفوجی قوت کے ساتھ موجود ہیں)تخریب کاروں کے محفوظ ٹھکانے اورپناہ گاہیں ہیں جہاں سے پاکستانی سرزمین پردہشتگردی کے حملوں کی منصوبہ بندی اوردہشتگردوں کوبھیجاجاتاہے۔جہادکاحکم دینے کا اختیارصرف ریاست کوہے۔دہشتگردی کے خلاف پاکستان نے سب سے زیادہ بے شمارقربانیاں دی ہیں جن کوتسلیم کرناانتہائی ضروری ہے۔ہم نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کی ہیںاوراب بھی دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پرعمل پیراہیںتاہم دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہاکہ داعش کے جنگجوؤں کی افغانستان میں منتقلی کی اطلاعات ہیں،پاکستان نے افغان سرحدپرسرحدی نظام کوبہتربنانے کیلئے بائیومیٹرک نظام کیا گیا ہے۔پاکستان اب تک ٣٠لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہاہے اوراب وقت آگیاہے کہ افغان مہاجرین کواپنے گھروں میں واپس بھیجا جائے۔دنیانے دہشتگردی کے خلاف اوہ مناسب اقدامات نہیں کئے جس کی اشدضرورت تھی۔
نتیجہ یہ نکلاکہ قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ اپنے سابقہ پیشروؤں کی طرح پاکستان بلکہ اسلام مخالف اپنی سازشوں میں اس حدتک کامیاب ہوگئے کہ بھارت کوافغانستان میں نہ صرف قدم جمانے کاموقع مل گیابلکہ اس نے وہاں خفیہ ایجنسی”را”کے بھی محفوظ ٹھکانے بناکراس کواتنافعال بنادیاکہ وہ افغانستان سے دہشتگرد تیار کرکے پاکستان بھیجنے کامکروہ کرداراداکررہی ہے۔یہ دہشتگرد افغانستان سے پاکستان آکرافغان مہاجرکیمپوں میں پناہ لیتے ہیں، پھروہاں سے مناسب وقت میں اندرون ملک دہشتگردی کی وارداتیں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی بھارتی ”را”کے سربراہ اجیت دوول نے امریکا،اسرائیل اور کٹھ پتلی افغان کاسہ لیسوں کی مددسے افغانستان میں داعش کی بھی داغ بیل ڈالی جس میں ناہنجارپاکستانی طالبان کوبھاری معاوضہ دیکراس کام کیلئے راضی کیا گیااوربعدازاں شام اورعراق سے بھی اپنے ایجنٹوں کاشامل کیا گیا۔افغانستان اور دیگر ممالک سے بیروزگارنوجوانوں کوبھاری معاوضہ کی لالچ دیکران کوقربانی کابکرا بنالیا گیاہے گویااب داعش بھی افغانستان میں ایک حقیقت کاروپ اختیار کر چکی ہے۔
تیسری حقیقی قوت طالبان کی ہے جوافغان شہری ہیں اوروہ اپنے ملک میں کسی بھی غیرملکی فوج یاگروہ کاقدم برداشت نہیں کرتے جوان پرحکمرانی کاخواب دیکھتاہو لہنداوہ امریکی اور دیگر تمام غیر ملکی فوجوں اورعسکری گروہوں کے خلاف میدان جنگ میں ہیں اوران کے خلاف فوجی کاروائیاں کرکے ان کونقصان پہنچاتے رہتے ہیں تاکہ ان کواپنے وطن سے باہر نکالاجاسکے۔ ادھرامریکااپنی سازشوں کے پاؤں پساررہا ہے،اس کامقصد افغانستان میں مستقل ٹھکانہ بناکروہاں قدم جماناہے تاکہ وہاں سے روس ،چین،پاکستان،ایران اور ترکی پرنظررکھی جا سکے۔پینٹاگون کی سازش یہ ہے کہ افغانستان میں اسی طرح بدامنی وخودکش حملوں کاسلسلہ جاری رہے تاکہ امریکی فوجوں کی موجودگی کاجوازقائم رہے اوروہاں مستقل قیام کیلئے اپنے قدم جمائے جائیں۔اس ضمن میں امریکاکویہ رعائت حاصل ہے کہ وہ اس وقت افغانستان کامکمل بجٹ امریکا ہی مہیاکرتاہے اس لئے افغان حکومت چاہتے ہوئے بھی کسی امریکی حکم کوٹالنے کی جسارت نہیں کرسکتی۔
اس دوران دنیامیں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بہت سے اقدامات بھی کیے گئے اوراس ضمن میں کئی خطوط پرسوچابھی جاتا رہا۔اسی سلسلے میں میونخ میں دہشتگردی کے حوالے سے کانفرنس منعقدکی گئی جس کامقصد دنیامیں دہشت گردی کی پیدائش کی پیدائش کی وجوہ اورخاتمے پرغورکرناتھاتاکہ مربوط پالیسی پرعملدرآمدکیا جا سکے جس پرچلتے ہوئے دنیاکو دہشتگردی سے پاک کرکے اپنی آنے والی نسل کوپاک ،صاف اورپرامن معاشرہ دیاجائے۔اس مقصدکیلئے امریکا نے پیش رفت کی تھی اورنائن الیون کے بعدنیٹوفورسزکوساتھ ملاکردہشتگردی کے خلاف عالم اسلام کے خلاف جنگ کاآغازکیا جس میں بزورقوت ،دباؤ اور دہمکیاں دیکرپاکستان کوبھی شامل کرلیاگیا اورجبکہ اس سے قبل امریکا نے افغانستان پرروسی جارحیت کے موقع پربھی دنیابھرسے مسلمان نوجوانوں کو جمع کرکے انہیں گوریلاجنگ کی تربیت،اسلحہ اورڈالرزدیکر افغانستان میں روس کے ساتھ لڑنے کیلئے بھیجاتھااور انہیں اپنے مجاہدین قراردیتے ہوئے ان کی تعریف وتوصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتارہا۔جب سوویت یونین شکست کھاگیا توامریکانے اپنے انہی ہیروزکی جانب سے فوراً آنکھیں پھیر لیں اورانہیں بدامنی اورطوائف الملوکی کے بحر بیکراں میں چھوڑکرچلاگیا۔
اس منفی رویے کے اثرات پاکستان پربھی پڑے اوروہ بھی دہشتگردی کاشکار ہو گیا،نیزامریکاکے مجاہدین دہشتگردبن کر سامنے آگئے۔بعدازاںاس منفی رویے کے اثرات پاکستان پربھی پڑے اوروہ بھی دہشتگردی کاشکارہوگیا،نیزامریکاکے مجاہدین دہشتگردبن کرسامنے آگئے۔بعدازاں دہشتگردوں کی خدمات بھارت نے حاصل کرلیں اوروہ پاکستان میں بھارتی مفادات کی جنگ لڑنے اوریہاں ہماری دفاعی تنصیبات کوہدف بناکرحملے کرنے لگے جس پرپاکستان کی مسلح افواج بھی ہرواردات کے بعد ان کے خلاف جوابی کاروائی کرتیں لیکن ایسی فتح نہیں ہورہی تھی جس کی بنیادپروطن عزیزکومکمل طورپرمحفوظ قراردیاجاسکتا۔اس دوران امریکاہم پردہشتگردی کے خاتمے کیلئے دباؤ بڑھاتا رہا لیکن پھرآرمی پبلک اسکول پشاورکا اندوہناک واقعہ پیش آگیاجس پراس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نعرۂ تکبیربلندکیااورمیدانِ کارزارضربِ عضب آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے اس میں کودگئے اور پھرتھوڑے ہی عرصے میں وطن عزیز سے دہشتگردوں کوراہ فراراختیارکرنے پرمجبورکردیا۔کچھ تومارے گئے اور بہت سے افغانستان فرارہوکرمحفوظ پناہ گاہوں میں چھپ گئے اوراب ٹرائیکاکی مددسے پاکستان کے خلاف مذموم کاروائیوں اورسازشوں میں مصروف ہیں۔
ادھرٹرمپ اورمودی سی پیک اورون روڈون بیلٹ کوناکام بنانے کیلئے جہاں دہشتگردوں کی اعانت میں اضافہ کردیاوہاں فوری طورپرایران کو بانہوں میں لیکر چابہاربندر گاہ میں سرمایہ کاری کرکے سی پیک کوناکام بنانے کیلئے جوابی کاروائی کر دی حالانکہ گوادرکے مقابلے میں وہ اتنی مؤثر نہیں ۔امریکااوربھارت پاک چین کے ان مشترکہ منصوبوں سے انتہائی خوفزدہ ہیں کہ ان منصوبوں کی آڑمیں جہاں پاکستان اورچین دنیاکی ایک بڑی معاشی قوت بن جائیں گے وہاں دفاعی لحاظ سے بھی اتنے مضبوط اور طاقتورہوجائیں گے کہ امریکا اوربھارت کواس خطے میں بالادستی تودورکی بات ، ویسے ہی دیس نکالامل جائے گا۔ دراصل بھارت اپنے اس جنگی جنون کے پیچھے اپنے ہاں جاری درجن سے زائد علیحدگی پسند تحریکوں کو دبانے کی جو کوششیں کررہاہے ،وہ جلدیابدیرسوویت یونین کی طرح بھارت کئی حصوں میں تقسیم ہوجائے گااورامریکا جوکہ سب سے زیادہ چین کامقروض ہے ،اپنی معاشی زوال کی بناء پراپنی تقسیم کوروک نہ پائے گااوراس سلسلے میں امریکا کی چارریاستیں توباقاعدہ اس کے بارے میں امریکی وفاق کوانتباہ بھی کرچکاہے۔اب اقوام عالم کواپنی ذمہ داریاں اداکرنی ہیں۔اگر دنیا پاکستان کے مقابلے میں نصف کوشش بھی کرے تودنیاسے دہشتگردی کاوجود ناپیدہوجائے گا۔
Load/Hide Comments