ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2025ء کوامریکاکے47ویں صدرکاحلف اٹھانے جارہے ہیں۔ ٹرمپ کی جیت پربالخصوص پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس خوش فہمی کوبڑے زورشورسے پھیلایاجا رہاہے کہ ٹرمپ کاان ممالک پردباؤاس قدربڑھ جائے گاجس کے نتیجے میں ان کے رہنماؤں کونہ صرف رہاکردیا جائے گابلکہ اقتدارکی مسندپربھی دوبارہ لابٹھایاجائے گاگویاٹرمپ ان دونوں ممالک میں اپنی مرضی کے وائسرائےمقررکریں گے گویااب یہ دونوں ممالک امریکاکی نوآبادیاں بن چکی ہیں۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدربننے سے کچھ ممالک میں بے چینی بڑھی جبکہ کچھ ممالک خوش بھی دکھائی دے رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں کاخیال ہے کہ ٹرمپ اپنے”اچھے دوست”عمران کورہائی دلوادیں گے اورعمران کی نوراکشتی کے نعرے جوعوامی اجتماعات میں”ہم کسی کے غلام نہیں،اورابسولیوٹلی ناٹ”کہہ کرللکارنا،امریکایکسربھول جائے گا۔
ایساہی گمان اسی خطے کے ایک اورملک بنگلہ دیش میں بھی جاری ہے کہ ٹرمپ کی واپسی سے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اپنا کھویاہواسیاسی میدان دوبارہ حاصل کرلیں گی۔واضح رہے کہ رواں برس اگست کے مہینے میں شیخ حسینہ کوملک میں طلباء تحریک کے نتیجے میں فرارہوکراپنے آقامودی کی گودمیں پناہ لے چکی ہیں اوراب وہاں عبوری حکومت قائم ہوگئی ہے اورنوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات محمد یونس کواس حکومت کاچیف ایڈوائزرمقررکیاگیاہے۔ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیاواقعی ٹرمپ کی ترجیحات میں یہ خوش فہمیاں کہیں موجود بھی ہیں یاحسینہ واجد اورعمران اپنی جماعت کے ووٹروں کے درمیان اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت اورکرپشن کوچھپانے کیلئے ایسے بیانات جاری کررہے ہیں؟امریکامیں اقتدارکی تبدیلی کاپاکستان اوربنگلہ دیش کی سیاست پرکیااثرپڑے گا؟کیاپاکستان اوربنگلہ دیش کوٹرمپ کے دورمیں وہی حمایت مل سکتی ہے جوپہلے مل رہی تھی؟
ٹرمپ کی کامیابی پرایکس اکاؤنٹ پرشیخ حسینہ نے ٹرمپ کے ساتھ تصویرشیئر کرتے ہوئےامریکاکے47ویں صدرمنتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے لکھاکہ”ٹرمپ کی زبردست انتخابی جیت ان کی قیادت اورامریکی عوام کے ان پراعتمادکاثبوت ہے۔امیدہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِحکومت میں بنگلہ دیش اورامریکاکے درمیان دوستانہ اوردوطرفہ تعلقات مزیدمضبوط ہوں گے۔دونوں ممالک کے دوطرفہ اورکثیر الجہتی مفادات کوآگے بڑھانے کیلئےدوبارہ مل کرکام کرنے کے عزم کااظہارکیا۔اس کے ساتھ انہوں نے نومنتخب صدراوران کے اہل خانہ کی اچھی صحت اوردرازی عمرکی بھی دعاکی۔
2016میں ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوارہیلری کلنٹن کوشکست دی تھی۔محمد یونس نے اس وقت اس متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہاتھاکہ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخاب میں جیت سورج گرہن اورتاریک دنوں کی طرح ہے۔2016 کے انتخابات غلط طرزکی سیاست کاشکارہوگئے ہیں۔ٹرمپ کومشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاتھاکہ انہیں دیواروں کی بجائے پل بنانے اورزیادہ آزادخیال اندازاپنانے کی ضرورت ہے ۔اس بیان کے بعدکئی تجزیہ کاروں نے خیال ظاہرکیاکہ محمد یونس امریکامیں ڈیموکریٹس کے قریب ہیں۔جب بنگلہ دیش میں اقتدارکی تبدیلی ہوئی اور محمد یونس کوعبوری حکومت کاچیف ایڈوائزربنایاگیا،اس وقت وہ ڈیموکریٹس،بائیڈن انتظامیہ اورہیلری کلنٹن کے ساتھ مل کرکام کررہے تھے۔
اس نئے کردارمیں آنے کے بعدیونس کے دورہِ امریکاکابھی بہت چرچاہوا۔25ستمبرکوانہوں نے”کلنٹن گلوبل انیشیٹو”پروگرام میں شرکت کی تھی ۔ اس پروگرام میں سابق امریکی صدربل کلنٹن بھی موجودتھے۔جب سے امریکامیں اقتدارکی تبدیلی آئی اورڈیمو کریٹس کی بجائے رپبلکن کواقتدارملنے جارہاہے توایسی صورتحال میں سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ ان پالیسیوں کوجاری رکھیں گے جوبائیڈن انتظامیہ کے دورمیں رائج تھیں یاوہ ان میں کچھ تبدیلیاں کریں گے؟سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پہلے امریکاانڈیا کے نقطہ نظرکوذہن میں رکھتے ہوئے جنوبی ایشیاکوایک اکائی کے طورپر دیکھتا تھالیکن بائیڈن انتظامیہ نے بنگلہ دیش کوایک آزاداکائی کے طورپردیکھا۔اس کااثریہ ہواکہ بنگلہ دیش میں حکومت بدل گئی۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق اورانتخابات کے حوالے سے پہلے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن بائیڈن کے دورمیں ان پرزیادہ سختی تھی اورشیخ حسینہ کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔
بنگلہ دیش کے بنگالی زبان کے ایک روزنامہ”پرتھم آلو”کے پولیٹیکل ایڈیٹرکدل کلول کے مطاب”اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ حسینہ اورٹرمپ کے دورمیں امریکابنگلہ دیش کے تعلقات کشیدہ نہیں تھے لیکن اس کے باوجوداس وقت بنگلہ دیش میں انتخابی عمل پربہت سے لوگوں نے سوالات اٹھائے تھے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کرانے کی اپیل کے علاوہ سرکاری طورپرکچھ نہیں کہاگیا۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت اوربات چیت جاری رہی۔ہمیں یہ بھی یادرکھناچاہیے کہ حال ہی میں محمدیونس امریکا گئے تھے اورانہوں نے جوبائیڈن سے ملاقات کی تھی۔اس تمام پیشرفت کودیکھنے کے بعدہرکوئی تجسس میں ہے کہ آگے کیاہونے والاہے۔
این ٹی وی بنگلہ دیش کے برشون کبیرکاکہناہے کہ ٹرمپ برصغیرکے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظررکھتے ہیں کیونکہ وہ مودی کے بہت قریب ہیں۔ جب یہ معلوم ہواکہ ٹرمپ اقتدار میں واپس آرہے ہیں توبنگلہ دیش کے لوگوں میں اس بارے میں ملے جلے جذبات تھے لیکن محمد یونس کی قیادت میں اب بھی امریکاکے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔بنگلہ دیش میں کوئی تشویشناک صورتحال نہیں تاہم اگلے چندمہینوں کاانتظارکرناہوگاکہ حالات کیسے آگے بڑھتے ہیں۔امید یہی ہے کہ ٹرمپ کے صدربننے سے بنگلہ دیش کے تعلقات کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گاتاہم انڈیاکے ساتھ تعلقات میں کئی اہم تبدیلیوں کاامکان ہے”۔
ادھرکل تک بنگلہ دیش کواپنی کالونی سمجھنے والے انڈیاکوایک باضابطہ سفارتی خط بھیجاگیاہے کہ شیخ حسینہ کوبنگلہ دیشی حکومت کے حوالے کیاجائے۔بنگلہ دیش میں خارجہ امورکے مشیرتوحید حسین نے میڈیاکوبتایاکہ”بنگلہ دیش انہیں عدالتی عمل کیلئےواپس لاناچاہتاہے۔بنگلہ دیش میں اگست کے عوامی احتجاج اورمظاہروں کے بعدوہاں کی عبوری حکومت نے ابتدائی تفتیش کے بعدمعزول وزیراعظم کے خلاف سینکڑوں طلبہ کی ہلاکت اوردوسرے معاملات میں کئی مقدمات درج کیے ہیں۔
انڈیاکی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے بارے میں باضابطہ سفارتی خط بھیجاہے لیکن وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیرجیسوال نے کہاکہ وہ اس مرحلے پراس سے زیادہ کچھ اورنہیں کہہ سکتے۔یادرہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ ملک میں اپنی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاج اورپرتشددمظاہروں کے بعد پانچ اگست کوڈھاکہ سے ایک طیارے کے ذریعے دلیفرارہوگئی تھیں۔اس وقت سے وہ دلی میں مقیم ہیں۔ابتدائی طورپراس طرح کی خبریں آئی تھیں کہ وہ دلی سے برطانیہ چلی جائیں گی لیکں وہ کسی وجہ سے وہاں نہیں جاسکیں۔شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کودلی کے بہت قریب سمجھاجاتاہے۔انڈیاسے ان کی قربت اوریہاں پناہ لینے سے بنگلہ دیش کے عوام میں انڈیاکے خلاف شدید ناراضگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان مجرموں اورمطلوبہ افرادکی حوالگی کامعاہدہ ہے۔انڈیاکی حکومت یہ توقع کررہی تھی کہ کسی نہ کسی مرحلے پربنگلہ دیش کی عبوری حکومت شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کرے گی۔اس بات کاامکان بہت کم ہے کہ انڈیاانہیں ڈھاکہ کے حوالے کرے گا۔بنگلہ دیش کوبھی علم ہے کہ انڈیاشیخ حسینہ کواس کے حوالے نہیں کرے گا۔اگرڈھاکہ نے اس سلسلے میں قانونی قدم بھی اٹھایاتواس عمل میں کئی برس لگ جائیں گے تاہم انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان خلیج بنگال سے کہیں زیادہ وسیع خلیج ضرورحائل ہوگئی ہے۔
محمدیونس کی قیادت میں ڈھاکہ میں عبوری حکومت کے قیام کے بعدانڈین میڈیامیں نئی حکومت کوایک ریڈیکل اسلام پرست،انڈیا اورہندومخالف حکومت کے طورپرپیش کیاگیاہے۔یہاں میڈیامیں مسلسل ایسی خبریں دکھائی گئیں جن میں ملک کے اقلیتی ہندوطبقے اوران کے مندروں پرحملے کے مناظرتھے۔انڈیا کی وزارت خارجہ نے بھی گزشتہ مہینوں میں کئی باربنگلہ دیش کے اقلیتی ہندوؤں اوران کے مندروں پرہونے والے حملوں کے بارے میں تشویش ظاہرکی۔ابھی گزشتہ دنوں انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان ایک اور تنازع اس وقت اُٹھتاہوانظرآیاتھا جب بنگلہ دیشی حکومت کے سربراہ محمدیونس کے مشیرمحفوظ عالم نے فیس بُک پرایک پوسٹ شیئرکی تھی جس میں انڈیاکی تین ریاستوں تریپورہ،مغربی بنگال اورآسام کوبنگلہ دیش کاحصہ دکھایاگیاتھا۔
انڈیامیں سٹریٹجک امورکے ماہربراہماچیلانی نے محفوظ عالم کی فیس بُک پوسٹ کاسکرین شاٹ شیئرکرتے ہوئے لکھاکہ”محمد یونس نے سابق امریکی صدربِل کلنٹن کی موجودگی میں محفوظ عالم کاتعارف بطورشیخ حسینہ کی حکومت گرانے کے ماسٹرمائنڈ کے کروایاتھا۔اب یہ اسلامی طالب علم رہنمااکھنڈ بنگلہ دیش چاہتے ہیں جس میں یہ انڈِیاکے بھی کچھ حصے شامل کرناچاہتے ہیں۔ محفوظ عالم کومحمدیونس کی حکومت میں وزیرخا رجہ مقررکیاگیاہے۔
خارجہ امورکی تجزیہ کارنینیماباسوکہتی ہیں کہ”وہاں ہندوؤں پرحملے ہوئے ہیں لیکن یہ جانناضروری ہے کہ بیشترہندوعوامی لیگ کے حامی ہیں۔بیشترحملے دراصل عوامی لیگ کے حامی ہندوؤں پرہوئے ہیں جنہوں نے عوامی لگ کے دورِحکومت میں مظاہرین پرتشددمیں حصہ لیاتھا۔یہ حملے بڑے پیمانے پر مسلمانوں پربھی ہوئے ہیں،اس لیے ان کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی ہے لیکن یہاں جس طرح اسے غلط اندازمیں بڑھاچڑھاکرپیش کیاگیااس سے یقیناً دونوں ممالک کے تعلقات پراثرپڑاہے۔ نینیما عبوری حکومت کے قیام کے بعدبنگلہ دیش کادورہ کرچکی ہیں ۔ان کاخیال ہے کہ وہاں کے ہندوملک کے بدلتے ہوئے نظام میں اپنے جمہوری حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ایسانہیں ہے کہ اگربنگلہ دیش کے ہندوؤں کوموقع مل جائے تووہ سب انڈیاآجائیں گے۔ انہیں اگرموقع ملے تووہ سب امریکااوریورپ کارخ کریں گے۔انہیں انڈیاسے کوئی خاص رغبت نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیاعبوری حکومت کے قیام کے بعددونوں ملکوں کے تعلقات بہت خراب ہوچکے ہیں؟توکیااب شیخ حسینہ کی حوالگی کے مطالبے سے یہ تعلقات اوربھی خراب ہوں گے؟تجزیہ کارنروپماسبھرامنین کے مطابق اس کادونوں ملکوں کے تعلقات پرکوئی خاص اثرنہیں پڑے گا۔’انڈیاکے خارجہ سیکریٹری وکرم مشری نے حال میں ڈھاکہ کادورہ کیا۔یہ ایک طرح سے دلی کایہ اعتراف تھاکہ شیخ حسینہ اب مستقبل قریب میں اقتدارمیں نہیں آنے والی ہیں اوران کی جماعت عوامی لیگ کودوبارہ ایک فعال اور مقبول پارٹی بننے میں بہت وقت لگے گا۔اس لیے انڈیاکے سامنے یہی راستہ ہے کہ وہ عبوری حکومت کے ساتھ اپنے روابط بہتر کرے۔
ان کامزیدکہناہے کہ یہ صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک بڑی ہندواقلیت ہے بلکہ اس لیے بھی بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات رکھنے ہوں گے کیونکہ اس سے ملک کی شمال مشرقی ریاستوں کی سیکورٹی جڑی ہوئی ہے۔چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کابھی سوال ہے۔خارجہ سکریٹری کاڈھاکہ کادورہ اس سمت پہلابڑاقدم ہے۔انڈیامیں سرکاری سطح پریہ ڈس انفارمیشن بھی پھیلائی جارہی ہے کہ بنگلہ دیش میں اب جمہوریت کمزورپڑ جائے گی اورسخت گیرمذہبی عناصراقتدارپرقابض ہو جائیں گے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں روشن خیال ارکان کے ساتھ ساتھ ایسے بھی عناصر ہیں جوسخت گیرمذہبی نظریے میں یقین رکھتے ہیں جبکہ انڈیاجوخودکودنیاکی سب سے بڑی جمہورہت کانعرہ لگاتے ہوئے ذرہ بھرندامت محسوس نہیں کرتا کہ وہ خودکشمیریوں،سکھوں کے علاوہ دیگراقلیتوں کے ساتھ کس قدرہولناک انسانیت سوزسلوک کرچکاہے بلکہ خودگجرات کے مودی قصاب کے دامن سے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کاخون ابھی تک ٹپک رہاہے اوروہ اپنے کئی انٹرویو میں اس پراپنے ہندوہونے پر شرم محسوس کرنے کی بجائے فخر کااظہاربھی کرچکے ہیں۔وہاں پہلے سے ایک کوشش رہی ہے کہ تاریخ کوذراپیچھے کی سمت موڑدیاجائے لیکن بنگلہ دیش میں اس طرح کی کوششوں کی مزاحمت ہوتی رہی ہے۔
خارجی امورکی تجزیہ کارنینیماباسوکہتی ہیں کہ”شیخ حسینہ کے خلاف عوام کی سب سے بڑی شکایت تھی کہ وہ خودہی الیکشن لڑتی تھیں اورخودہی الکشن جیت جاتی تھیں۔دوسری جماعتوں کو انتخاب میں حصہ ہی نہیں لینے دیاجاتاتھا۔وہاں کیلئےسب سے ضروری چیزہے کہ وہاں جلد انتخابات ہوں اوراس میں سب جماعتوں کوحصہ لینے کی اجازت ہوکیونکہ جمہوریت میں سب کی شراکت ضروری ہے۔عبوری حکومت کئی باریہ کہہ چکی ہے کہ بنگلہ دیش ایک مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ دوسری مذہبی اقلیتوں کوبرابرکے حقوق نہیں حاصل ہوں گے”۔
واشنگٹن میں واقع ولسن سنٹرکے ساؤتھ ایشیاانسٹی ٹیوٹ کے سربراہ مائیکل کوگل مین نے ایک مضمون میں بنگلہ دیش کے حالات پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ”یہ یادرکھنے کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔اس کے باوجودجمہوریت کوبحال کرنے کاعزم لیے ہوئے نئے طاقتور سیاسی گروپ کے ابھرنے سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کیلئے امیدیں برقرارہیں۔ان میں وہ احتجاجی طلبہ رہنما بھی شامل ہیں جنہوں نے شیخ حسینہ کوملک سے باہرنکالا۔ان میں سے بعض رہنماعبوری حکومت میں شامل ہیں۔اس عبوری حکومت میں حقوق انسانی کے معتبرعلمبرداراوربہت سے ایسے عناصر شامل ہیں جوجمہوری اصلاحات پر زوردیتے ہیں”۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ محمدیونس کررہے ہیں۔ان کاشمارملک کے سرکردہ جمہوریت پسندوں میں کیاجاتاہے۔بنگلہ دیش کے عوام بالخصوص نوجوان طبقے میں انہیں بہت احترام کی نظرسے دیکھاجاتاہے۔ماضی میں اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں جب مزاحمت کاروں نے اپنے ملک کی جمہوریت کومستحکم کیا۔اس سلسلے میں چیکوسلواکیہ کے وکلاوہیویل اورجنوبی کوریاکے کم ڈائی جونگ کانام لیاجاسکتاہے۔ان ملکوں میں مزاحمتی جماعتوں نے اقتدارپرقبضہ حاصل کیااوراس کے بعد وہاں جمہوریت کومستحکم کیا۔اس امکان کوخارج نہیں کیاجاسکتاکہ یونس اوران کے ساتھ آنے والے سٹوڈنٹ لیڈربنگلہ دیش کے خاندانی اورغیرجہوریت پسندسیاسی رہنماؤں کی سیاست کے خاتمے کیلئےخوداپنی سیاسی جماعت بنالیں۔
ادھربرطانوی وزیرِٹیولپ صدیق کانام بنگلہ دیش میں جاری کرپشن کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آیاہے اورالزام لگایاگیاہے کہ بنگلہ دیش میں ان کاخاندان مبینہ طورپرتین اعشاریہ نوارب پاؤنڈکی خُردبُردمیں ملوث ہے۔42سالہ ٹیولپ صدیق برطانوی حکومت میں انسدادِ بدعنوانی کی وزیرہیں اور شیخ حسینہ کی بھانجی ہیں۔ان پرالزام ہے کہ انہوں نے2013میں بنگلہ دیش اورروس کے درمیان ایک معاہدہ کروایاجس کے باعث بنگلہ دیش میں نیوکلیئرپاورپلانٹ کی کُل قیمت میں اضافہ ہوا۔بنگلہ دیش کی نئی حکومت حسینہ واجداوران کے خاندان کے کرپشن میں ملوث ہونے کی تحقیقات کررہی ہے اورٹیولپ صدیق کانام بھی اسی سلسلے میں سامنے آیاہے جبکہ موصوفہ نے ان الزام کومکمل سیاسی قراردیتے ہوئے ان کی آنٹی شیخ حسینہ کونقصان پہنچانابتایاہے۔
کنزرویٹوپارٹی کے شیڈووزیرِداخلہ میٹ وِکرکااس حوالے سے کہناتھاکہ”لیبرپارٹی کی انسدادبدعنوانی کی وزیرخودایک کرپشن کیس میں ملوث ہیں،یہ کیئرسٹارمرکے فیصلوں پرلگنے والانیاداغ ہے۔وقت آگیاہے کہ ٹیولپ صدیق سچ بولیں۔برطانوی عوام ایک ایسی حکومت کے مستحق ہیں جس کی ترجیحات میں عوامی مسائل شامل ہوں نہ کہ ایسی حکومت جس کی توجہ ایک اورکرپشن سکینڈل پرمرکوزہو”۔بنگلہ دیش میں اے سی سی اس وقت شیخ حسینہ کی بہن(ٹیولپ صدیق)سمیت ان کے خاندان اورسابق حکومت کے متعدداراکین کے خلاف تحقیقات کررہاہے۔بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل(آئی سی ٹی)نے بھی”انسانیت کے خلاف جرائم”کے الزامات میں شیخ حسینہ اوردیگر45افرادکے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کررکھے ہیں۔
حیرت انگیزطورپرشیخ حسینہ اورعمران خان کے سیاسی مستقبل میں مماثلت نظرآرہی ہے۔دونوں رہنماؤں کے چاہنے والوں کو ٹرمپ سے نہ صرف اپنے رہنماؤں کی رہائی کی بلکہ دوبارہ اقتدار میں آنے کی توقعات ہیں۔کرپشن مقدمات کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جس کاان کوسامناہے۔سوال یہ ہے کیاان کی ٹرمپ سے خوش گمانیاں بارآورثابت ہوسکتی ہیں جبکہ امریکاکاماننا ہےکہ عالمی سیاست میں”فری لنچ”کی گنجائش نہیں ہوتی۔کیاچین کے خلاف بنائے گئے اتحاد”کواڈ”میں آلہ کاربننے کی قیمت کے طورپرانہیں استعمال کیاجاسکتاہے؟دیکھیں اب”خوش گمانیوں”کامقابلہ بدگمانیوں میں کب بدلتاہے کیونکہ امریکاکی تاریخ ہے کہ وہ اپنے مقاصدکی تکمیل کے بعد اپنے دوستوں کی قربانی دیتے ہوئے ایک لمحہ تاخیرنہیں کرتاکیونکہ پاکستان سے زیادہ کسی کو اتناتلخ تجربہ نہیں۔