موت کاخوف

:Share

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کی طرف سے انڈیا مخالف مظاہروں کو دبانے کیلئے طاقت کے استعمال نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا ہے اور وہ موت کو گلے لگانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔یہ بات انڈیا میں ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے کشمیر کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں کشمیر کی نوجوان نسل کی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے تحریرکیا ہے کہ کشمیریوںکے مطابق بنیادی مسئلہ انڈیا کی طرف سے کشمیربحران کا اعتراف نہ کرنا، کشمیر کوسیاسی مسئلہ تسلیم کرکے اس کے سیاسی حل پر تیارنہیں ہے۔ کشمیر میں عام لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد یہ رپورٹ مرتب کرنے والے گروپ میں سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، اقلیتیوں کے قومی کمیشن کے سابق سربراہ وجاہت حبیب اللہ، بھارتی فضائیہ کے ایئر واس مارشل(ریٹائرڈ)کپل کاک،معروف صحافی بھارت بھوشن اورسینٹر آف ڈائیلاگ اینڈ ریکنسیلیشن کے پروگرام ڈائریکٹرششہوبابریوشامل تھے۔اس گروپ نے کشمیرکے مختلف علاقوں میں شدید مظاہروں اورسینکڑوں نوجوانوں کی ہلاکت کے واقعات کے بعد بٹگرام،شوپیاں،اننت ناگ اوربارہ مولہ کادورہ کیااوروہاں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کے اہلکاروں سے بھی مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کی۔ اس کے علاوہ گروپ نے کشمیر کے سرکردہ سیاسی قائدین انجینئر رشید، سیف الدین سوز اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ساتھ نیشنل کانفرنس کے کئی ممبران سے بات کی۔
گروپ نے رپورٹ کے بنیادی نتائج میں کہا کہ جتنے بھی کشمیریوں سے انہوں نے ملاقاتیں کیں ان سب نے مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیا اور کہا کہ جب تک اس کا سیاسی حل تلاش نہیں کر لیا جاتا وادی ٔمیں موت اور تباہی کا سلسلہ زیادہ شدت سے جاری رہے گا۔کشمیریوں کا کہنا ہے کہ انڈیا پران کواعتمادنہیں رہااوربداعتمادی کی یہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔انڈیاکی درندہ صفت فوج بھارتی ہندومتعصب مودی کی آشیرآباد کے ساتھ بے تحاشہ ظلم وستم کے بعدسمجھتی ہے کہ اس طرح وہ کشمیریوں کوخوفزدہ کرکے اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوجائےگی لیکن دنیانے دیکھ لیاکہ ان تمام ظالمانہ ہتھکنڈوں کے بعدتحریک آزادی میں شدت پیداہوئی ہے کیونکہ مودی سرکارکشمیرکو صرف قومی سلامتی کے زاویے سے دیکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تمام کشمیری سابق وزیراعظم اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کی اس تجویزکویادکرتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ کو انسانی ہمدری کے دائرے میں حل کیاجائے لیکن دہلی کی موجودہ حکومت مسئلہ کے سیاسی حل میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ کشمیرکی کل آبادی کا68فیصدنوجوان ہیں اوراس وقت کشمیرکانوجوان بے خوف اورشدید ناامیدی کاشکارہے۔ایک نوجوان جس کانام رپورٹ میں ظاہرنہیں کیاگیااس کے حوالے سے کہاگیاکہ”سب سے اچھی چیزجس کے ہم شکرگزار بھی ہیں وہ ہتھیاروں کا استعمال ہے جس میں پیلٹ گنیں شامل ہیں،جس نے ہماراڈراورخوف نکال دیاہے۔ہم اب شہادتوں پرجشن مناتے ہیں”۔یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں اکژیت توانڈیا سے مذاکرات کرنے پرتیارہی نہیں ہیں اور ان کے روزمرہ کی بول چال کے الفاظ ہی بدل گئے ہیں جن میں ہڑتال،کرفیو، شہادت اوربرہان وانی کے الفاظ کا استعمال کثرت سے کیاجاتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ لوگوں کے خیال میں اس مسئلے سے وابستہ تمام فریقوں ، انڈیا، پاکستان اور کشمیر کے عوام کو شامل کیے بغیر اس کا حل ممکن نہیں ہے۔ فریقین کو اس مسئلہ کے حل کیلئے لچک داررویہ اپنانا ہو گا تاکہ کشمیر کے لوگوں کی مشکلات دورہوسکیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ مودی سرکاراپنی ہٹ دھرمی چھوڑکرزمینی حقائق کوقبول کرتے ہوئے جلدازجلد رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمدکریں وگرنہ ملک میں جاری انتہا پسندی ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ کشمیر کے متنازع خطے سے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر تشددکے سلسلے کوبندکرکے معنی خیز مذاکرات کے عمل سے حل ہو سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے اپیل کی گئی ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کوتسلیم کرکے انسانی حقوق کی پامالیوں کوروکا جائے اوراظہاررائے اورمذہب کی آزادی کوبحال کیاجائے۔انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنرزیدرادالحسین نے کہاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں جامع بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے پرغورکررہی ہے۔اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں زوردیاگیاہے کہ انڈیااورپاکستان کے زیرانتظام دونوں کشمیر میں ماضی میں اورموجودہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاخاتمہ ہواورتمام لوگوں کوانصاف مہیا کیاجائے جوگذشتہ سات دہائیوں سے اس تنازعے کاسامناکررہے ہیں جس نے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کوبربادکردیاہے۔انچاس صفحات پرمشتمل رپورٹ میں زیدرادالحسین کاکہناتھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدسلوکی اورسکیورٹی فورسزکی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں پرسزائیں نہ دینے کی دائمی صورت حال ہے جس پررپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انڈیا سے کہاگیاہے کہ گذشتہ 30برس کے دوران فوج یامسلح شدت پسندوں کے ہاتھوں جوہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی ازسرنوتحقیقات کی جائیں اورقتل اورحقوق کی دیگر پامالیوں میں ملوث فوجی ونیم فوجی اہلکاروں کے مقامی مواخذہ میں حائل فوجی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔مقبوضہ کشمیر میں2016سے مظاہرین کے خلاف سب سے مہلک ہتھیارپیلٹ گن کےاستعمال پرشدیدمذمت کی گئی ہے جس نے سینکڑوں نوجوان بچوں اوربچیوں کوعمربھرکیلئے بصارت سے محروم کردیاگیا۔ 2016ء کے گرما میں مسلح رہنما برہان وانی کی ہلاکت سے 2018ء کے مارچ تک 180سے245کشمیری مظاہرین درندہ صفت فورسزکی کاروائیوں میں مارے گئے۔سکیورٹی آپریشنز کے دوران مارے گئے افراد یا رہائشی مکان کھونے والے افراد کو معاوضہ دینے کاکہا ہے ۔بھارتی وزارت خارجہ نے ٹویٹ کے ذریعہ شورمچاتے ہوئے اس رپورٹ کی صداقت اورغیر جانبداری سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ یہ رپورٹ خاص مفادکوزیرنظررکھ کرتیارکی گئی ہے اوراسے جھوٹ کاپلندہ”قراردے کرمستردکردیاہے جبکہ پاکستان کے دفترخارجہ نے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرکمیشن بنانے کاخیرمقدم کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں