Eid Ul Adha and Father Day

عید الاضحیٰ اورفادرڈے

:Share

برسوں بعدساری دنیامیں عیدالاضحٰی اورفادرڈے ایک ہی دن منائے جارہے ہیں اورپچھلے کئی دنوں سے قارئین کایہ سوال بھی مجھ پرقرض تھاکہ آپ نے “ماں،ممتا”پربہت لکھالیکن کیا وجہ ہے کہ آپ نے “باپ”جیسی شفیق ہستی پراتنانہیں لکھاکہ باپ کی خاموش محبت کیاہوتی ہے؟یہ ہے وہ سوال ،جس کے جواب میں یقیناًپوری کتاب بھی باپ کی محبت کے ایک پل کاحق بھی نہیں چکا سکتی۔ نجانے باپ کانام آتے ہی ایک کمزوراورضعیف نورانی چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتاہے لیکن میرے نزدیک باپ کی اہمیت اورشخصیت اس لئے سب سے الگ اورجداہے کہ میں نے اپنے تیرہ سال کی عمرمیں “بابِ جنت” کو اس دنیاسے رخصت ہوتے دیکھاہے۔باپ کیا،کیسا اورکیوں اتنااہم ہوتاہے،شائدمجھ سے زیادہ نہ کوئی جان سکا ہے اورنہ ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ جس اولاد پر ابھی تک باپ کامبارک سایہ قائم ہے،وہ باپ کی جدائی کے دکھ کونہیں سمجھ سکتے بلکہ میرادعویٰ ہے کہ”والد”کوبھی اس کا اندازہ نہیں ہوگاکہ ان کی سرپرستی اولادکیلئے کتنی بڑی رحمت،شفقت اوربے لوث سہاراہے جس کااس دنیامیں کوئی نعم البدل نہیں لیکن میرے باپ کواس کا مکمل ادراک تھاکیونکہ وہ بھی کم سنی (9سال کی عمر)میں یتیم ہوگئے تھے اوربڑے کرب کے ساتھ ان کی جدائی کاتذکرہ فرمایاکرتے تھے۔

باپ اپنے اہل خانہ کی کفالت کیلئے دن رات اپنے آرام اورصحت کی پرواہ کئے بغیربھرپورمحنت میں جتارہتاہے اوراس کی ساری تھکان یہ سوچتے ہی غائب ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کاخوش نما مستقبل مضبوط کررہاہے۔اسے اپنی اولادکی تمام خواہشات کوپوراکرنااس لئے بھی ضروری سمجھتاہے کہ وہ خودبچپن میں اپنی خواہشات کادم گھٹنے اورباپ کی مجبوریوں کا تجربہ رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ دن کےعلاوہ رات کوبھی بچوں کے مستقبل اورفکرمعاش کیلئے بے چین رہتاہے اورخوابوں کے محل تعمیرکرنے کے اپنی کھلی آنکھوں سےخوبصورت اورسہانے خواب دیکھتا رہتا ہے ۔لیکن کمال درجہ کاضبط کامالک ہوتا ہے کہ کبھی گھرمیں اپنی پریشانی یاالجھن نہیں بتاتااوراپنی ذات پرہرمشکل کوبرداشت کرکے اپنے اہل خانہ کیلئے ایک سیسہ پلائی دیوارکی مانندکھڑارہتاہے۔

چونکہ میں والد صاحب سے زیادہ قریب رہا ہوں اس لئے میرے لئے یہ سوال بہت معنی رکھتا ہے لیکن محبت کایہ شاہکارعین جوانی میں اللہ کے حضور حاضر ہوگئے اورمیں بچپن ہی کی یادوں کے سمندرمیں غوطے لگاتارہتاہوں اورہرمشکل گھڑی میں رب کے بعدمیراباپ ہی میری منزل ہے کہ ان کے پندونصائح اورخوبصورت سبق آموزکہانیاں مجھے آج بھی ازبر یاد ہیں

جہاں تک بات ماں کی محبت کی ہے تو اس بابت تو تب سے لکھا جارہا ہے جب سے حضرت انسان نے لکھنا سیکھا تھا لیکن باپ ایک ایسی ذات ہے جس بابت شاید باپ نے بھی کبھی کھل کر نہیں لکھا اور بھلا لکھ بھی کیسے سکتا ہے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا اور مختلف ہے۔ ماں کی محبت تو بچے کی پیدائش سے اس کی آخری عمر تک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہر برائی کو پس پردہ ڈال کر اسے چاہتے رہنا۔بچپن میں بچہ اگر مٹی کھائے تو ماں اس پر پردہ ڈالتی ہے اور باپ سے بچاتی ہے، نوجوانی میں بچے کی پڑھائی کا نتیجہ آئے تو اس رپورٹ کارڈ کو باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے، جوانی میں بچے کا دیر سے گھر آنا باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے جیسے بچہ بڑا اور اس کے “جرائم ” بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ماں اپنے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے،اس کے برعکس “باپ” ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کو بے پناہ چاہنے کے باوجود اس پر صرف اس لئے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ کہیں بچہ خود کو بڑے نقصان میں مبتلا نہ کر بیٹھے، اس کی پڑھائی پر سختی برتتا ہے کہ کہیں اس کا بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کا محتاج نہ بن کر رہ جائے، بچے کا رات دیر سے گھر آنا اس لئے کھٹکتا ہے کہ کہیں کسی بری لت میں مبتلا ہوکر بچہ اپنی صحت اور مستقبل نہ خراب کر بیٹھے۔

باپ شفقت محبت اورایثارکاوہ کوہ ہمالیہ ہے جس کی چوٹی تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔اس کاغصہ وقتی ہوتاہے،اگروہ ہماری کسی بات پرناراض ہوبھی جائےتو اندرہی اندرانتظارکرتاہے کہ اسے منالیا جائے۔وہ اوپرسے توسخت ہوتاہے پراندرسے بالکل سادہ ہوتاہے۔صرف اس کی”انا اورمان”اپنی شفقت کا اظہارنہیں کرنے دیتی جوکہ ہمارے معاشرے کی عطا کردہ ہے۔لیکن جونہی اولاد اس کے سامنے اپنی غلطی کااعتراف کرکے معافی کی طلبگارہوتی ہے تواولادکے منہ سے ابھی فقرہ مکمل نہیں ہوتاکہ وہ دوڑکر آپ کواپنے سینے سے اس زورسے لگاتاہے کہ محبت کی ساری گرمی جہاں اس کے سارے مصنوعی غصے کاکافورکردیتی ہے وہاں اولادکی غلطیوں اورشرمندگی کووالہانہ محبت سے شرابورکردیتی ہے۔

یعنی بچے کی پیدائش سے لیکر قبر تک باپ کی زندگی کا محور اس کا بچہ اور اس کا مستقبل ہی رہتا ہے، جہاں ماں کی محبت اس کی آنکھوں سے اور عمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے وہیں باپ کی محبت کا خزانہ سات پردوں میں چھپا رہتا ہے، غصہ ، پابندیاں ، ڈانٹ ، مار ، سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں کو چھپا کر رکھتا ہے کہ بھلے اس کی اولاد اسے غلط سمجھے پر وہ یہ سب پردے قائم رکھتا ہے کہ اس کی اولاد انہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتی ہے۔

میں بڑےاچھے اسکول میں پڑھتاتھا،اوراسی بات پر ہرروز چِڑھتا تھا۔ میرے دوست لمبی لمبی گاڑیوں میں آتے اور میری طرح نہیں کہ تانگے سے اتر کر گھر کے بنے ہوئے پراٹھوں والا ٹفن ہاتھ میں تھامے اسکول داخل ہوتا جبکہ میرے سب دوست کنٹین میں بیٹھ کر رنگ برنگے سموسے اور دیگر کھانوں کا لطف اٹھاتے تھے۔ کچھ تو ایسے بھی تھے جو سال میں کسی غیر ملک میں چھٹیاں منانے جاتے تھے۔ کسی کا باپ ڈاکٹر، کسی کا باپ سیاستدان، کوئی کسی بڑی مل یا فیکٹری کے مالک کا بیٹا یا کوئی کسی بڑے سرکاری عہدے دار کا بیٹا ہوتا تھا۔ جبکہ میرے والد بالکل ان پڑھ اور ایک معمولی ہوٹل چلانے والے۔

ایک دن میں اس معاشرہ کے غیر امتیازی سلوک کو دیکھ کر پھٹ پڑا،اور بڑے درد کے ساتھ اپنے والد سے سوال کر دیا:اباجی! یہ کیا ہے؟ آپ سب کی طرح پیسے والے ،امیر شخص کیوں نہیں ہیں؟ میرا اچانک یہ سوال سن کر تھوڑی دیر مجھے دیکھا اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کی خاموش ہو گئے، مجھے شدت سے اس سوال کا جواب درکار تھا کہ ابھی اس کے جواب میں کچھ الفاظ میری دماغ کی خلش دور کردیں گے۔ لیکن میں نے ان کی بھرائی آنکھوں میں جو درد دیکھا،وہ میرے دل میں ایک خنجرکی طرح اتر گیا اور دل میں سما گیا۔ آج بھی جب وہ آنکھیں تصور میں نظرآتی ہیں تواپنے اس سوال پر ندامت بھی ہوتی ہے لیکن بچپن کی معصومیت کے پردے میں اسی طرح چھپا لیتا ہوں جس طرح میرے باپ نے اس دن اپنے آنسوؤں کو اندر ہی اندر جذب کرکے چھپا لیاتھا۔

ایک دن میں نے اپنے پوتے سے کہا: میں نے جو غلطی کی، تم اسے مت دہرانا، موسم کا حال اسے مت سنانا جو تمہارے لئے ہر روز بھاگتا رہا، سردی، گرمی، بارش آندھی، کسی موسم کی پرواہ نہیں کی۔ دھوپ اور سایہ میں تمیز نہیں رہی، کڑاکے دار سردی بھی اس کی راستہ نہ روک سکی۔ وہ تم سب کے اچھے مستقبل کیلئے بھاگتا رہا، اس کیلئے رات اور دن کا فرق مٹ گیا تھا، کیونکہ اس سخت جاں محنت کی کمائی تم ہو۔ اس سے کبھی یہ نہ پوچھنا کہ اس نے کمایا کیا ہے؟

شہر میں بڑی بڑی دوکانیں تھیں، کپڑوں کھلوں اور کتابوں سے بھری ہوئی ہر دیکھنے والے کو دعوت دے رہی تھیں۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کہ ان دنون میرے والد کی مالی استطاعت کیا تھی تاہم اندر سے یہ آواز اٹھتی تھی کہ اگر میں اپنے باپ سے کسی چیز کی فرمائش کروں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ مجھے نہ لا کر دیں۔ میں برسوں سے ان کو وہی دو کرتے شلوار میں دیکھ رہا تھا۔ نئے سوٹ کی باری تب آتی جب پہلے والا بالکل پہننے کے لائق نہ رہتا لیکن عجب بات یہ ہے کہ میں جب بھی کپڑے، کھلونے اور کتابوں کی فرمائش کرتا، وہ مجھے فوری مل جاتا۔ کچھ قصے ایسے ہیں جو دل پر درج ہو گئے اور میرے روح تک کو انہوں نے اسیر کررکھا ہے۔ میں یہ کبھی نہیں بھول پاتا کہ میرے بابا ہماری خوشیاں خریدتے ہوئے خود خرچ ہو گئے۔

میں ڈرتا نہیں، کسی مشکل، کسی آزمائش، کسی آفت یا مصیبت سے نہیں ڈرتا۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میرے پاؤں میں کسی معمولی سے دکھ کا بھی کانٹا چبھ جائے،اگر میرا وقت بگڑ جائے اور دنیا میرا ساتھ چھوڑ جائے، مجھے اس کی پرواہ نہیں کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہی ہے میرا باپ جو سجدے سے اس وقت تک سر نہیں اٹھائے گا جب تک اس کا بیٹا فتح یاب ہونے کا نعرہ نہیں لگائے گا۔ جب تک وہ شفقت بھرا محنتی ہاتھ میرے سر پر تھا، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ میں تو اس کے سہارے اور یقین پردنیا کی تمام قیامتوں سے لڑ جاتا تھا اور اپنی کامیابی کی خبر سنانے کیلئے دروازے میں اس کی راہ دیکھتا رہتا تھا۔

یہ کیا؟ لیکن ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ میرے بابا جن کو میں ایک سخت گیرسمجھتا تھا لیکن میری ماں کی ہر بات پر خاموشی سے “ہاں کردینے والے میرے “بابا”،جب کبھی ایک روپیہ مانگا تو جواب میں سب سے چھپا کر پانچ روپے میری جیب میں یا میری کتاب کھول کر اس کے اندر چھپا کر رکھ دینے والے میرے “بابا” جن کے جوتے سے ان کے پاؤں کی انگلیاں باہر جھانکتے نظر آتی رہیں لیکن مجھے مہنگے جوتے اور سینڈل لا کر دیتے رہے اور میرے چہرے پر آئی ہوئی خوشیوں کو دیکھ کر واری قربان ہوتے رہے۔

خود بیچارے بہت ہی سیدھے سادے مزاج کے مالک لیکن میرے بگاڑنے کا الزام ساری عمر اپنے کندھوں پر ڈھوتے رہے اور ہاں اب تو میں سچ مچ بگڑ چکا ہوں، میرا دل جیتنے کیلئے چاہے کوئی بڑی گاڑی میں آئے، قیمتی فیشن ایبل لباس زیبِ تن کر آ جائے، ہاتھ میں بہت ہی مہنگا موبائل فون تھامے ناز نخرے کرتا ہوا آئے، میرے راستے میں پھول بچھانے کی بجائے خود بچھ جائے، میرا پیار کسی ایسے ویسے کو ملے گا نہیں، مھے اپنے بابا سے کم کوئی چلے گا نہیں۔

“بابا” چار الفاظ پر مشتمل ایک معمولی سا لفظ، اس میں کوئی ڈرامہ نہیں جو”باپ” میں ہے، وہ گہرائی نہیں جو “بابا جی” کہنے میں ہے، وہ مٹھاس نہیں جو “اباجی” کہنے میں ہے، وہ حفاظت کا احساس نہیں جو کبھی کبھار”بابا جانی” میں ہے لیکن کچھ تو ہے کہ یہ معمولی سا لفظ سنتے ہی میرے اند کا موسم بدل جاتا ہے۔ میں کچھ اور ہو جاتا ہوں، جس دن یاد آتا ہے کہ میں اپنے باپ کا فخر تھا تو اس دن میرے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ خوشیوں سے معمور ہو کراپنے حسن کی گواہی دینے لگ جاتا ہے۔

بہت چھوٹا تھا میں،جب میرے “بابا” میرے لئے کھلونا کار اور اس کے ساتھ ایک موٹے کاغذ کا ایک چمکدار تاج لیکر آئے تھے جس کو پہن کر میں کئی دن شہزادوں کی طرح گھومتا رہا۔ اپنے دوستوں کی تحسین بھری نگاہیں موصول کرکے سینہ چوڑا کرکے چلتا رہا۔ دن، ماہ و سال تیزی سے گزرتے گئے اور میں ان تمام کھلونوں سے آزاد ہو کر اپنی تعلیم اور دوسرے مشاغل میں کھو گیا۔ غالباً میں نویں کلاس میں تھا اور میری عمر بھی بچپن کی حدوں سے نکل کر لڑکپن یعینی تیرہ سال تک جا پہنچی تھی۔ اپنے امتحانات میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے کی خوشی میں حسبِ عادت پھر تحفہ کی فرمائش کی تو نجانے کہاں سے وہ میری وہی پرانی کھلونا کار اور وہ موٹے سنہری کاغذ کا تاج نکال کر لے آئے اور میرے نئے تحفے کے ساتھ ان کو شامل کرکے مجھے اس احساس سے مالامال کر گئے کہ وہ “بابا” جو اپنے بچوں کے بچپن کا ہرلمحہ اس قدر محفوظ رکھ سکتے ہیں تو ان کی بے لوث دعائیں تو آپ کی ساری زندگی کے تحفظ کی گارنٹی بن سکتی ہیں۔

اگلے دن “بابا” بہت غور سے مجھے دیکھ رہے تھے اور مجھے ان کی نظروں سے یہ محسوس ہوا کہ یہ میرے سر پرکل کے سنہری کاغذ کے تاج کو حقیقت بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور نجانے دل میں کیا دعائیں دیں کہ میں آج سچ مچ ان کی دعاؤں کی بدولت دنیا کی ہر آسائش کے لطف اٹھا رہا ہوں اورمجھے یقین ہو گیا کہ مجھے سر پر تاج سجانے کیلئے کسی بادشاہ کی ضرورت نہیں بلکہ اس کیلئے میرے بابا کی دعاؤں میں بھرپور سنہری کاغذ کا تاج ہی کافی ہے۔ لیکن “باباجانی” مجھے آج آپ کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ میں تو ان تمام آسائشوں کے باوجود آپ کا مقروض ہوں کہ میں تو اس صدقے کے چند سکے بھی نہ لوٹا سکا جو آپ نے میرے ہاتھ سے ایک فقیر کو دلوائے تھے۔میں مسجد کا وہ چندہ تک واپس نہیں کر پایا جو آپ ہمیشہ مجھے مسجد کے ڈبے میں ڈالنے کیلئے دیتے رہے۔ میرا یہ قلق ختم ہونے نام نہیں لے رہا کہ میری کمسنی میں ہی آپ ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کے ہاں حضور ہو گئے!

میں نے سناہے کہ دنیا کے سب سے بڑے محل کا مالک برونائی کاسلطان ہے،مجھے جب برونائی جانے کاموقع ملا تو میرے میزبان نے اچانک مجھ سے کہاکہ اگلے دومنٹ کے بعدہم برونائی کے”ایمان کی روشنی کامحل” کے سامنے سے گزریں گے جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کے سب سے بڑے محل کے طور پر شامل کیا گیا ہے، جو 2 ملین مربع فٹ پر محیط ہے ۔ اس محل کا گنبد 22 قیراط سونے سے مزین ہے۔ اس میں 1788 کمرے، سلطان کے پولوٹٹو کے لیے ایئر کنڈیشنڈ اصطبل، سونے کے دروازے کے ہینڈل اور257 باتھ روم ہیں۔ سال میں صرف رمضان کے اختتام پر تین دن عوام کے لیے کھلا رہتا ہے، جب سلطان اپنے استقبال کے لیے ایک “اوپن ہاؤس” کا انعقاد کرتا ہے۔

میں نے یہ بھی سناہے کہ عرب کا ایک امیر حکمران ایک ایسی گاڑی کا مالک ہے جو سونے (گولڈ) سے تیارکی گئی ہے۔دنیا میں اب درجنوں افراد ایسے ہیں جن کی دولت کے تخمینے کھربوں ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، اوران میں کئی افراد ایسے ہیں کہ ان کی دولت کرمحفوظ کرنے کیلئے بینکوں کے پاس بھی جگہ نہیں رہی اور اب وہ دیگرذرائع سے اپنی دولت کو محفوظ کرکے اک خاص نشے میں مبتلا ہیں لیکن یقین کریں کہ دنیا کے امیرترین فہرست پر آج بھی میرا باپ سرفہرست ہے۔ میرے بابا جیسا عالی شان اورکون ہو گا جو اپنے کرتے کی پھٹی جیب میں ہاتھ ڈال کر مجھے یقین دلاتا رہا کہ جو مانگے گا، ملے گا۔۔۔آپ خود بتائیں بھلا اس سے بڑا دولت مند اور کون ہو سکتا ہے۔

میرے ابا جی انتہائی رعب داب شخصیت کے مالک تھے لیکن کبھی بھی انہوں نے مارانہیں۔بظاہر انتہائی سخت معلوم ہوتے تھے لیکن یہ اس ڈسپلن کا تقاضہ تھاجوبچوں کی تربیت کیلئے ضروری ہوتاہے۔ ہم بھائیوں پر بہت سخت پابندیاں تھیں۔اوریہی کچھ ہراولاد کومحسوس ہوتاہے کہ شاید ان کا باپ دنیا کا سب سے برا اور ظالم باپ ہےکہ جو نا ہی دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھنے دیتا ہے اور نہ ہی جیب خرچ اتنی زیادہ دیتا ہے کہ اولاد فضول عیاشیاں کرسکیں۔ باقی بھائیوں نے تو شائداتنی سخت پابندیوں کاسامنانہ کیاہو لیکن میرے ساتھ بے انتہاء پیارہونے کے باوجودکبھی میری بے جاضدکونہیں مانا گیاکیونکہ ان کاکہناتھاکہ بڑابیٹاگاڑی کاانجن ہوتاہے اورباقی بہن بھائی اس کے ساتھ منسلک بوگیوں کی مانندہوتے ہیں۔آج جب اپنے بچپن کے دوستوں کو نشے یا دیگر خرافات میں مبتلا دیکھتا ہوں تو الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے والد صاحب نے ہم پر سختیاں برتیں جس کی بدولت آج کسی بھی طرح کے نشے سے خود کو بچائے رکھا ہے، اور آج اس مقام پر کھڑے ہیں کہ اپنے والدین کا سر فخر سے بلند رکھ سکیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں، جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی باپ ” مرنا ” شروع ہوجاتا ہے۔ جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا ؟ جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے “حجت” پوری کی جانے لگے تو بوڑھا شخص تو زندہ رہتا ہے پر اس کے اندر کا ” باپ ” مرنا شروع ہوجاتاہے۔باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولادپراس کاحق ہے۔جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اس کی سرزنش بھی کی ہو، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پھر بھی اس لئے ڈانٹا کہ کہیں نا سمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے، ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا پر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مر گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ “والد”کااولاد کی زندگی پر ہمیشہ اختیار رہناضروری ہے لہذا اولاد کوعمر کے ہر حصّے میں باپ کویہ یقین دلاناضروری ہے کہ اسے کبھی احساس نہ ہو کہ اب ہم “بڑے” ہوگئے ہیں یا ان کی اہمیت گھٹ چکی ہے لہذا پیسے ہونے کے باوجود اپنے ہر کام کے لئے باپ سے پیسے مانگنا اپنی عادت بنا لو چاہے وہ تمہاری اپنی ہی کمائی ہوئی دولت کیوں نہ ہو، رات اگر کسی پروگرام سے واپسی پر دیر ہوجانے کا خدشہ ہو تو آدھا گھنٹے پہلےباپ کی منتیں کرنی شروع کردو کہ پلیز جانیں دیں جلدی واپس آجاؤں گا ۔آپ یہ بھی تودیکھیں کہ روڈ کراس کرتے ہوئے بوڑھااپ آج بھی جوان اورتوانا بچے کاہاتھ پکڑ کر رکھتے ہیں جبکہ آپ کے بچے بھی شادی شدہ ہوگئے ہیں اور یقیناًتمام اولاد دل ہی دل میں ہنستے ہوئےاور آس پاس کھڑے لوگوں کی نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے باپ کا ہاتھ پکڑ کر روڈ کراس کرتے ہوئے دیکھتے ہوں گے لیکن اس کی کوئی پرواہ نہ کریں۔

باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں مانگتی کہ “باپ ” کو زندہ رکھا جائے ،پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو ، اگر اس کے اندر کا ” باپ ” زندہ ہے تو یقین جانئے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے۔اگرآپ کے والدصاحب سلامت ہیں تو خدارا اس کے اندر کا ” باپ ” زندہ رکھئے یہ اس “بوڑھے شخص” کا آپ پر حق بھی ہے اور آپ کا فرض بھی ہے۔

یقیناًہم سب جنت کے امیدوارہیں توپھردیرکس بات کی ہے۔اپنی ماں جس کے قدموں کے نیچے جنت ہے توباپ کوجنت کادروازہ تعبیرکیاگیاہے اورداخلہ کیلئے دروازہ کی کیا قدراوراہمیت ہے،ہم سب جانتے ہیں لیکن میرے رب کایہ فرمان کہ جس کے ساتھ باپ ناراض ہوتومیرارب بھی اس سے منہ موڑلیتاہے۔اس لئےان دونوں کوراضی رکھناہوگا۔ٹھیک اسی طرح رحم کرناہوگا جس طرح انہوں نے ہم پررحم کیاجب ہم محض گوشت کےاک لوتھڑے کے سواکچھ نہ تھے۔وہ بڑے خوش نصیب ہیں جن کے والدین یاان میں کوئی ایک زندہ ہے۔اللہ نہ کرے کہ دیرہوجائے،ان کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی دعاؤں میں اولادہی سرفہرست ہوتی ہے،اپنے لئے تومانگنے کاانہیں یادبھی نہیں ہوتا۔والدین بالخصوص والد کی اہمیت ہم جیسے ہی بتاسکتے ہیں کہ جن کے کان ہر عیداورخاص تہوارپروہ رس بھری آوازکے منتظررہتے ہیں کہ کاش کوئی آگے بڑھ کرویسے ہی گلے لگاکرعیدمبارک کہے جس طرح بچپن میں منہ چوم کرہاتھ میں عیدی ملتی تھی۔

بابا! آپ کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ میرے رب نے آپ کو جنت کا دروازہ کیوں کہا۔ باپ ایک ایسابے داغ آئینہ ہوتا ہے جس پرکبھی بھی کسی قسم کی دھول ٹھہر نہیں سکتی اور اس آئینے میں اسے اپنی اولاد سے زیادہ کوئی اورخوبصورت دکھائی ہی نہیں دیتا۔ میرےنبی ﷺکافرمان ہے کہ دعاعبادات کامغزہے،اس لئے اپنے رب سے کثرت کے ساتھ دعاکرنی چاہئے اورمیرے رب کافرمان ہے کہ میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں،اس لئے میری گزارش ہے کہ اپنے رب سے ہمیشہ خوش گمان ہوکرمانگیں۔
“دعا”ایک”امید”ہے
“دعا”ایک”یقین”ہے
“دعا”ایک”بھروسہ”ہے
“دعا”ایک”وسیلہ”ہے
“دعا”ایک”حوصلہ”ہے
“دعا”ایک”محبت”ہے
میری سب دعاؤں کامرکز میراباپ!
میری دعا ہےکہ یاکریم ورحیم رب!جن کے والدین اس دنیامیں نہیں رہے،ان کی بخشش فرمااورجن کے والدین زندہ ہیں،ان کی خدمت کرنے کی توفیق عنائت فرماکہ توہی ہماری دعاؤں کوسننے اورقبول کرنے والاہے۔ آپ ہمیشہ خوش ،آباد،سلامت رہیں اور میراکریم رب آپ کو کسی کا محتاج نہ کرے ۔ آمین!

تاریک ہوگئی مری کائنات ِ حیات جن کے بغیر

اپنا تبصرہ بھیجیں