خود کو امن کا پیامبر اور انسانیت پرست کہلانے والے روی شنکر نے بابری مسجد اوررام مندرتنازعے پرانڈیا ٹوڈے اوراین ڈی ٹی وی کو یکے بعد دیگرے اپنے انٹرویوزکے دوران یہ کہا کہ اگرایودھیا تنازع حل نہیں ہواتو پھر انڈیا میں شام جیسے حالات ہو جائیں گے۔اگرعدالت یہ فیصلہ دیتی ہے کہ متنازع جگہ بابری مسجد ہے توکیا لوگ اس بات کوباآسانی اوربخوشی قبول کر لیں گے؟یہ 500 سال سے مندر کیلئےلڑنے والی اکثریتی برادری کے لیے تلخ گولی ثابت ہوگی۔ ایسے میں کشت وخون بھی ہوسکتاہے۔اگرعدالت نے مندر کے حق میں فیصلہ دیاتوپھرمسلمان شکست خوردہ محسوس کریں گے۔ ان کا عدلیہ سے یقین اٹھ سکتا ہے۔ ایسے میں وہ انتہا پسندی کی جانب جاسکتے ہیں اورہم امن چاہتے ہیں۔
آل انڈیا اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقلیتوں کے خلاف براہ راست دھمکی ہے اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے مترادف ہے۔ انہیں سپریم کورٹ اورقانون کی بالا دستی میں یقین نہیں؟وہ خودکو ہی عدالت سمجھنے لگے ہیں۔ ملک کاموازنہ شام کی خانہ جنگی سے کرنالوگوں کے ذہن میں خوف ودہشت پیداکرناہے۔ ان کے خلاف فورا ًمقدمہ درج کیاجانا چاہیے۔سنئیرصحافی راج دیپ سردیسائی نے ٹوئٹر پرسوال کیا:کیاروی شرمانے واقعی یہ کہا ہے کہ اگر مسجد مندرمسئلہ حل نہیں ہوتاتوانڈیا شام بن جائے گا؟ کیاوہ یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یاکہ حکومت ہند کی جانب سے یاپھر وی ایچ پی جانب سے؟ہندی اخبار امراجلا کے مطابق سابق رام ولاس ویدانتی نے روی شنکر کی کوششوں پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا:آخروہ ایودھیا میں رام مندرکی تعمیرکی ٹھیکیداری لینے والے کون ہوتے ہیں۔آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی ایودھیامیں روی شنکرکی مداخلت نہیں چاہتے۔
ادھرمعروف بھارتی اخبارانڈین ایکسپریس میں ”سوامی اکنی ویش”ایک مختصرآرٹیکل میں دہائی دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں:میرے لئے زندگی سے موت بہترہے اگرمیں ایک ایسی سچائی کااظہارنہ کروں جسے اچھی طرح سے جانتاہوں۔میں نے پرماتمایاخداکوسچائی کی روشنی میں دیکھاہے۔ سچائی چھپاناظلم ہے اوربزدلوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔رام جنم بھومی کی تحریک ایک خالص سیاسی چال ہے جوخودغرضانہ اورمفاد پرستی پرمبنی ہے۔محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے عوام کوبیوقوف اور بدھوبنانے کیلئے اسے ہندودھرم کاجامہ پہنایاگیاہے۔مجھے اس بات پرسخت حیرت ہوتی ہے کہ یہ کوئی کہے کہ اس سال ہزاروں سال قبل بھگوان رام کاجنم ہواتھا۔رام للاکوقانونی یاغیرقانونی طورپر استھاپت کرنے کی بات اس وقت پیش آسکتی ہے جبکہ ان کی جنم بھومی کی نشاندہی پورے طورپرسامنے آئے یاکسی کومعلوم ہو۔اجودھیا میں16 ایسے حریف یا دعویدار ہیں جواپنے طورپررام جنم بھومی کاتعین کرتے ہیں۔
میں راجیوگاندھی کے دورِ اقتدارمیں ایسی بہت سے کوششوں میں شامل تھاجس میں یہ تنازع ختم کرنے کی بات کی جارہی تھی۔راجیوگاندھی پریہ الزام ہے کہ انہوں نے ایک سرد خانے میں دبے ہوئے مسئلے کوزندہ کیا۔دراصل کانگرس کی چاپلوسی اورخوشامدانہ سیاست کایہ ایک حصہ تھا۔ پارٹی نے ڈبل گیم کھیلی،کون نہیں جانتاکہ نرسمہاراؤ نے تخت نشینی کیلئےمسجدکومسمارکرنے میں حصہ لیا۔مسٹروی پی سنگھ نے مسئلہ سلجھانے کی جو کوششیں کیں ،میں نے ان میں بھی حصہ لیا۔
ایل کے ایڈوانی کو277ایکڑاراضی کے بدلے مسجدکے قریب ساٹھ ایکڑزمین دینے کی بات کی گئی لیکن ایڈوانی کی سازشیں چالیں بس یہ تھیں کہ مندروہیں بنائیں گے جہاں بابری مسجدہے۔ جسٹس کرشناائیر،بی جی درگریزاورمیں(سوامی اگنیویشن)نے چندرت کھیرکے ذریعے سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔جب مسئلہ حل کرنے کے قریب پہنچاتو راجیوگاندھی اوران کے رفقاء کو احساس ہواکہ ساراکریڈٹ وزیراعظم چندرشیکھر کومل جائے گاجس کی وجہ سے راجیوگاندھی نے چندرشیکھرکی حکومت کوگرانے کافیصلہ کیااوران کی حکومت سے اپنی حمائت واپس لے لی۔جہاں تک مسلمانوں کامعاملہ ہے تووہ یہ مسئلہ حل کرناچاہتے تھے تاکہ لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آئے اورکسی کوہندومسلمان میں تنازع کھڑاکرنے یا نفرت پھیلانے کاموقع نہ ملے۔سیدشہاب الدین جو بابری مسجدایکشن کمیٹی کے کنوینرتھے ۔میں مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں تھااورسبھی امن چاہتے تھے۔وہ کسی نہ کسی طورپرمسئلے کے حل کے خواہاں تھے تاکہ پھر کسی دوسری مسجد یا عبادت گاہ پرظالموں کی نظرنہ ہو۔وہ سب اس کاباعزت اورآبرومندانہ حل چاہتے تھے۔وہ لوگ خوش دلی سے کہتے تھے کہ عدالت کوفیصلہ کرنادیجئے۔
یہ افسوسناک بات ہے کہ عدالت نے حق وانصاف کاوہ کردارادانہیں کیاجیسے اداکرناچاہئے تھا ۔ میری فکرمندی اس بات پرتھی کہ عوام کی خوش عقیدگی اورسادگی کااستحصال نہ ہونے پائے ۔ ایسے لوگوں کے ذریعے سے جوویدک عقیدے کی روحانیت اورعظمت کی ذرابھی پرواہ نہیں کرتے، میں ایک مخلص عقیدت مندہونے کی وجہ سے دھوکہ دہی اورتشددکی بات محسوس کرتا ہوں۔میں نے اس معاملے میں عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے اورشواہدجمع کیے،ان کی روشنی میں اچھی طرح سے کہہ سکتا ہوں کہ آرایس ایس اوروی ایچ پی کادعویٰ کسی بھی طرح جائزقرارنہیں پاتا،میں نے کھلے ذہن کے ساتھ اس کی چھان بین کی ہے۔تلسی داس اس وقت کے سب سے بڑے رام بھگت تھے جن کے زمانے(1528ء) میں میر باقی کے بارے میں کہاجاتاہے کہ رام مندرکوگراکربابری مسجد تعمیر کی لیکن حیرت کی بات ہے کہ تلسی داس نے اپنی کتاب میں اتنے بڑے واقعے کاتذکرہ تک نہیں کیااورگروگوبندسنگھ،سوامی وویکانندشیواجی نے بھی کہیں اس کاذکرنہیں کیاہے کہ سرجوندی کے کنارے رام پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے نام پر مندر بناہواتھا۔کسی بھی کتاب یااسکرپٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے جارحیت کی اس تحریک کاکوئی ثبوت ہو۔یہ کہناکہ یہ ایک عقیدے کی بات ہے ،کسی بھی طرح حق بات نہیں ہے اورنہ ہی کوئی انصاف کی بات ہے ۔
جوچیزمیرے لئے انتہائی تکلیف کاباعث ہے وہ اس کافرقہ وارانہ ایجنڈاہے جونہائت غلط اورنقصان دہ ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ رام بھگوان تھے اور بھگوان”نرادھار”یعنی جس کی کوئی شکل وصورت نہیں ہوتی توآخرجو”نرادھار”ہوتواس کی جائے پیدائش یاجنم بھومی کی نشاندہی کیسے ہو سکتی ہے ؟یہ انسانی عقل ودانش کی سراسرتوہین ہے کہ خداکی شکل وصورت کا کوئی اپنے انداز سے تعین کرے۔میرے لئے یہ انتہائی دکھ اورتکلیف کی بات ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کااستحصال کیاجارہا ہے،نفرت اورفرقہ پرستی کازہرگھولاجارہاہے ۔رام کے نام پریہ سراسرغلط کام کاپرچار ہو رہاہے ۔ گاندھی جی ایک راسخ العقیدہ ہندوتھے،جب وہ قتل کیے گئے توان کی زبان پررام کانام نہیں بلکہ جے رام تھا۔ان کی عقیدت مندی شک وشبہ سے بالاترہے۔انہوں نے کبھی رام مندرکامسئلہ نہیں اٹھایا، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ خداصرف مندرمیں نہیں ،وہ ہرجگہ رہتاہے۔ خداکسی مسجد،مندریاچرچ میں مقیدنہیں ہوتا۔گاندھی جی نے شائدہی کسی مندرمیں وقت گزاراہو بلکہ وہ اکثرکہاکرتے تھے کہ مندروں میں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی۔
اسلام اورعیسائیت سے بالکل الگ ہندومت ایک خاندانی روحانیت پرمبنی ہوتاہے۔میں جانتاہوں کہ خداپروتیوں اورپنڈتوں کاجانبدارنہیں ہوتا،اس لئے کہ ہماراگھربھی مندر ہے ۔ یہ سب اس وقت ہوا جب بڑی ذات کے لوگوں نے دھرم کواچک لیااوراپنے مفادکیلئے اس کاستعمال جائزکرلیا۔اس وقت سے سنائن دھرم پنڈتوں اورپروتیوں کے قبضے میں ہوگیا،حقیقت خرافات میں کھوگئی اورتوہم پرستی،استحصال،فریب اوردھوکہ دہی کاسلسلہ شروع ہوگیا۔آج ہماری یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم اس پرمنہ نہیں کھولتے،بندرکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم سرحدپارکے لوگوں سے مغلوب ہوئے،مغل بادشاہوں اورانگریزوں نے ہمیں اپنے بس میں کرلیا۔سنائن دھرم کے لوگ کبھی ترقی نہیں کرسکتے جب تک وہ توہم پرستی اوربے عقلی کے خول سے باہرنہ آئے۔ ہم جنم بھومی کے معاملے پر رجعت پسندی ،بے عقلی اورفرقہ پرستی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہ ایک جنگ ہے جو سستی شہرت اوراقتدارکی کرسی حاصل کرنے کیلئے کی جارہی ہے۔وہ لوگ جوعقیدے ویدے سے واقف ہیں وہی اسے ہندومت کی ترقی کہہ سکتے ہیں اوراس کیلئے لڑائی لڑسکتے ہیں۔میں اس عقیدے کوبڑی اچھی طریقے سے جانتاہوں،اس سے میری محبت ہے اوریہی وہ وجہ ہے کہ اس گمراہی اورضلالت کوکسی طرح بھی قبول نہیں کیاجاسکتا۔
Load/Hide Comments