ہربڑااورعالمی امورپرمتصرف ملک اپنی طاقت برقراررکھنے کیلئےکچھ بھی کرسکتااورکچھ بھی کرگزرتاہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دورکی بڑی طاقتوں نے معاملات اپنے بس میں کرنے کیلئےکسی بھی حد تک جانے سے گریزنہیں کیا۔جہاں بات آسانی سے نہ بن سکتی ہو وہاں طاقت کے بے محابااستعمال کواپناپیدائشی حق سمجھتے ہوئے بڑی طاقتوں نے ہروہ مکروہ کھیل کھیلاہے جو کسی بھی اعتبارسے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔آج کی دنیاایک ایسے دورسے گزررہی ہے جب عالمی امورپرمتصرف ریاستیں کمزورپڑتی جارہی ہیں اورچندریاستوں کی قوت میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔جوریاستیں طاقتورہوتی جارہی ہیں وہ عالمی امور اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کررہی ہیں۔گزشتہ سوبرس کے دوران جن ریاستوں نے دنیاکوچلایاہے وہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی نہ کسی طورمعاملات کواپنے ہاتھ میں رکھا جائے۔اس معاملے میں امریکاکی مثال بہت نمایاں ہے،جومعاملات کواپنے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دیکھ کرحواس باختہ ہےاوربدحواسی کے عالم میں ایسی حرکتیں بھی کررہاہے جن سے خوداُسے بھی نقصان پہنچ رہاہے۔
امریکااوریورپ نے مل کردنیاپرکم وبیش سات عشروں تک حکومت کی ہے۔ان سات عشروں کے دوران متعدد خطوں کو پسماندہ رکھاگیاہے۔کوشش کی گئی ہے کہ مخالفت میں کوئی آوازبلندنہ ہو۔جس ملک نے امریکااوریورپ کیلئےکسی بھی درجے میں خطرہ بننے کی کوشش کی ہے اُسے ہمیشہ کیلئےخاموش کرنے کی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیاگیا۔اب معاملات خاصے تبدیل ہوچکے ہیں۔امریکانے عسکری مہم جوئی اپنائی تھی،جس کے نتیجے میں اُس نے کئی ریاستوں پر جنگ مسلط کی اورکئی خطوں کوتاراج کیا۔یورپ نے کئی جنگوں میں اُس کاساتھ دیامگراب یورپ اپناراستہ الگ کرچکاہے۔وہ معاملات کوعسکری سطح پرنمٹانے کی بجائے نرم قوت یعنی علوم وفنون اورتجارت کے ذریعے درست کرناچاہتاہے۔امریکی قیادت اب بھی طاقت کے استعمال سے ہٹ کرکسی بھی زاویے سے سوچنے کیلئےتیارنہیں۔معاملات کواپنے ہاتھ سے جاتادیکھ کرامریکااب اپنی قوت برقراررکھنے کے حوالے سے کچھ بھی کرگزرنے کوتیارہے اورکربھی رہاہے۔اس وقت امریکاکی ذہنیت یہ ہے کہ اگرمیں جیت نہیں سکتا توپھرکھیل کوجاری بھی نہیں رہنے دوں گا!
چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے خوفزدہ ہوکرامریکاجوکچھ کررہاہے،اس کے نتیجے میں عالمی نظام مزیدالجھتااوربگڑتاجارہا ہے ۔ عالمی مالیاتی نظام بھی دگرگوں ہے۔ڈالراب بھی عالمی سودوں کی کرنسی ہے مگریہ سب کچھ محض دکھاوے کی حدتک ہے ۔ امریکاکمزورپڑچکاہے اوراس حقیقت کواس کے حریف بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ امریکاہرعالمی معاملے سے اِس طورجُڑاہواہے کہ اگراسے بیک جنبش قلم الگ کردیاجائے تومضمحل عالمی نظام دم توڑدے گا۔ایسی صورت میں بہت بڑے پیمانے پرخرابی پیداہوگی۔امریکی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ پوری دنیاکوتنہانہیں چلاسکتی۔اُسے اس بات کابھی اندازہ ہے کہ چین اوراُس کے ہم نوا ملک تیزی سے ابھررہے ہیں اورکسی بھی وقت ایک نئے عالمی نظام کی راہ ہموار کر سکتے ہیں جس میں امریکاکیلئےاپنی پوزیشن برقراررکھنے کی گنجائش نہ ہو۔ایسے میں ایک کوشش یہ بھی ہے کہ اپنی طاقت میں اضافے کے بجائے دوسروں کی طاقت میں کمی پرتوجہ دی جائے۔دنیاکی آبادی کم کرنے کاایجنڈابھی اِسی کوشش کاحصہ ہے۔
کم وبیش20برس سے بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاؤنڈیشن افریقااورایشیاکے دورافتادہ اورانتہائی پسماندہ ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کاپروگرام چلاتی آئی ہے۔بعض ممالک میں طلبا،اساتذہ اوروالدین کوتوکیاخبرہونی تھی،حکومتیں بھی بے خبررہیں اوراس فاؤنڈیشن نے اپنا کھیل اچھی طرح کھیلا۔بل اینڈمیلنڈافاؤنڈیشن کی ویکسی نیشن مہم کے خطرناک اورتباہ کن نتائج بھی برآمدہوتے رہے ہیں۔ بھارت میں پولیوکے کیس بڑھے۔کینیامیں خواتین کیلئےپیچیدگیاں پیداہوئیں۔بہت سے بچے بھی جان سے گئے۔بل اینڈمیلنڈاگیٹس فاؤنڈیشن نے اپنی ویکسی نیشن مہم عالمی ادارۂ صحت اوریونیسیف وغیرہ کے تعاون اور اشتراکِ عمل سے چلائی۔امریکااورچنددوسرے ممالک نے بل اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن کے خلاف مقدمات بھی دائرکیے۔
بل گیٹس کی شخصیت بہت عجیب ہے۔وہ اپنےآپ کوایک ایسے مسیحا کے روپ میں دیکھتے ہیں جوبچوں کوبیماریوں سے بچاکر دنیاکی آبادی گھٹانے کی راہ ہموارکررہاہے! 2010ءمیں راک فیلررپورٹ آئی تھی،جس میں’’لاک اسٹیپ سیناریو‘‘ پیش کیاگیاتھا۔آج ہم اُسی منظرنامے میں جی رہے ہیں۔بل گیٹس نے کیلی فورنیامیں ٹیڈشوکے دوران کہاتھاکہ اگرہم نے ویکسی نیشن کے حوالے سے اپناکام بخوبی مکمل کرلیاتودنیا کی آبادی کو 10تا15فیصدگھٹانے میں کامیاب ہوہی جائیں گے!
بچوں کے حقوق کےعلمبرداراوراینٹی ویکسی نیشن کارکن رابرٹ ایف کینیڈی نے بل گیٹس فاؤنڈیشن کے خلاف مہم چلارکھی ہے۔انہوں نے ایوانِ صدرسے مطالبہ کیاہے کہ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔ان کاکہناہے کہ بل گیٹس فاؤنڈیشن نے ایک طرف توطبی مشق کے حوالے سےغیرقانونی وغیراخلاقی حرکتیں کی ہیں اورانسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔بڑے دواسازادارے بل گیٹس کے ساتھ ہیں۔انہیں عالمی ادارۂ صحت،بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف،ڈاکٹرانتھونی فوشی اوردوسری بہت سی اہم شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔یہ ہے ایجنڈاآئی ڈی2020ء دنیا بھر میں7/ارب افرادکی ویکسی نیشن کی جانی ہے۔یہ ویکسی نیشن کوروناوائرس کے انسدادکے نام پرہوگی۔کوروناکی ایک ایسی ویکسین آزمائی جائے گی،جواب تک آزمائی نہیں گئی اورجس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی کہانہیں جاسکتا۔یہ کئی ارب ڈالرکاپراجیکٹ ہے، کئی بڑے دواسازاداروں کاایجنڈاہے۔کوئی نہیں جانتاکہ ویکسین کی کاک ٹیل میں ہے کیا۔ویکسی نیشن ترقی پذیراورپس ماندہ ممالک سے شروع ہوگی اورمرحلہ وارترقی یافتہ معاشروں تک پہنچے گی۔
کوروناوائرس کیلئےجامع اوردیرپانوعیت کی ویکسی نیشن تیارکرنے کی کوشش کی جارہی ہے اورلطیفہ یہ ہے کہ کوروناوائرس کیلئےکسی ویکسین کی ضرورت ہے ہی نہیں۔اس کے بہت سے علاج موجود ہیں۔فرانس کے پروفیسرڈیڈیئرراؤلٹ متعدی امراض کے پانچ بڑے ماہرین میں سے ہیں۔ان کاکہناہے کہ ملیریااور’’سارس‘‘کے تدارک کیلئےہائیڈاگزی کلوروکوئن انتہائی موثرہے۔یہ سستی بھی ہے اورآسانی سے دستیاب بھی۔ یہ دوا کوروناوائرس کے تدارک کیلئےبھی انتہائی کارگرہے۔فروری کے وسط تک ڈاکٹرڈیڈیئرراؤلٹ کی لیب میں ہائیڈراگزی کلوروکوئن کی مدد سے کوروناوائرس کے تدارک سے متعلق تجربات شروع ہوچکے تھے۔چین میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ ہائیڈراگزی کلوروکوئن کوروناوائرس کے حوالے سے صورتِ حال کو قابو میں رکھنے میں بھرپورمددکرسکتی ہے۔چائنیزنیشنل ہیلتھ کمیشن نے بھی کوروناوائرس کے تدارک کے طورپرہائیڈراگزی کلورو کوئن کے استعمال کی سفارش کی ہے۔