پاک وہندکی صدیوں پرپھیلی ہوئی تاریخ کامطالعہ کیاجائےتوغوروفکرکے نئے دریچے کھلتے ہیں اوریوں محسوس ہوتاہے جیسے قیام پاکستان کی بنیادکئی صدیا ں پہلے رکھ دی گئی تھی اوربعدازاں تاریخ حالات کواس مقصدکےسانچے میں ڈھالتی رہی،اسی لئے بعض مؤرخین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قیام پاکستان ناگزیرتھااوریہ مشیتِ ایزدی تھی۔غورکیجئے توصدیوں پر پھیلےہوئے تاریخی سفرکےبعض اہم مقامات اورسنگ میل اس کاواضح ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔
قدیم ہندوستان کی تواریخ میں سے تاریخ فرشتہ کوایک معتبرحوالہ کی حیثیت حاصل ہے۔تاریخ فرشتہ کےصفحہ101پردرج شہاب الدین غوری کالکھاہواایک خط پڑھ کرمیں گہری سوچ میں پڑگیا۔شہاب الدین غوری نے یہ خط ہندوستان کے مشہورہندو حکمران راجہ پرتھوی راج کے خط کے جواب میں کئی صدیاں قبل1192ءمیں لکھاتھا۔ترائن کے میدان میں مسلمان اور ہندو افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں۔پس منظرکے طورپریہ بات ہمارے ذہنوں میں رہے کہ شہاب الدین غوری دو سال قبل پرتھوی راج سے شکت کھاچکاتھا اور اب ایک فیصلہ کن معرکے کیلئےمیدان میں اتراتھا۔پرتھوری راج ہندوستان میں ہندوؤں کی طاقت کاانتہائی مضبوط ترین اورطاقتورسمبل سمجھاجاتاتھااوراسے ہندوراجاؤں کی پوری حمایت حاصل تھی۔جنگ سے قبل غوری نے پرتھوی راج کوباہمی صلح کیلئےجوخط لکھااس میں مطالبہ کیاگیاتھاکہ یاتوموجودہ صوبہ پنجاب، سرحد اورسندھ کے علاقے میرے حوالےکردویاپھرفیصلہ کن جنگ کیلئے تیارہوجاؤ۔ان علاقوں کے مطالبے کی بنیادیہ تھی کہ ان میں مسلمان مقابلتاًزیادہ تھے لیکن حکومت کے ظلم وستم کے شکارتھے۔
بلوچستان اس اسکیم میں شامل نہیں تھاکیونکہ وہاں پہلے ہی مسلمانوں کی حکومت قائم تھی۔بہرحال پرتھوی راج طاقت کے نشے میں مست تھا۔اس نے غوری کی صلح کی مشروط پیشکش کوٹھکرادیااوریہ علاقے دینے سے انکارکردیا۔نتیجے کے طور پرجنگ ہوئی جس میں پرتھوی راج اوراس کے سینکڑوں ساتھیوں کوشکست فاش ہوئی جواپنے اپنے علاقے کی افواج کے ساتھ اپنے دھرم کے مطابق اس مقدس جنگ میں شریک تھے۔پرتھوی راج ماراگیا،ہندوؤں کی کمرٹوٹ گئی اورغوری نے اس علاقے پرقبضہ کرکے قطب الدین ایبک کوحکمراں نامزدکیاجس نے1193ءمیں دہلی پر قبضہ کرکے ہندوستا ن میں باقاعدہ ایک مسلمان حکومت کی بنیادرکھی۔جنگ ترائن کوہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس نے ہندوستان کےمقدرکافیصلہ کردیااورایک مسلمان حکومت کے قیام کی راہ ہموارکردی ۔
غوری کاخط ہمارے لئے غیرمعمولی انکشاف کی حیثیت رکھتاہے اورانکشاف کے بہت سے ایسے پہلوہیں جوگہرے غورو فکرکے متقاضی ہیں لیکن اس موضوع کی طرف بڑھنے سے قبل یہ ذہن میں رکھناضروری ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی مملکت کی بنیادمحمدبن قاسم نے رکھی تھی جوان علاقوں سے کہیں کم تررقبے پرمحیط تھی۔محمدبن قاسم712ء میں ہندوستان پرحملہ آورہوا،فتوحات کرتے کرتے ملتان تک پہنچااورصرف تین برس کے بعد715ءمیں واپس بلالیاگیا۔محمدبن قاسم کی رخصتی کے کچھ ہی عرصہ بعدمسلمان مملکت کمزورہوگئی اورپھرسرداروں اور حکمرانوں کی بغاوتوں کے سبب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوکررہ گئی۔اس لحاظ سے صحیح معنوں میں ایک بڑی اسلامی حکومت کے قیام کا کریڈٹ قطب الد ین ایبک کوجاتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان تمام علاقوں میں موجودہ پاکستان پرمشتمل1192ءتک مسلمان آبادی ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت قدرے زیادہ کس طرح ہوگئی جبکہ 1192ءتک یہاں کوئی مستحکم اسلامی حکومت بھی قائم نہیں تھی۔بلاشبہ مسلمان حملہ آوراس دوران حملہ کرتے رہے اوراکثراوقات مال غنیمت لے کرواپس لوٹ جاتے رہے ۔
997ء سے لے کر1030ءتک محمودغزنوی نے ہندوستان پر17حملے کئے جن سے مقامی ہندوریاستیں کمزورہوئیں،مسلمان دشمن قوتوں کی کمر ٹوٹی،مسلمانوں کوبالواسطہ تقویت ملی لیکن محمود غزنوی نے بھی ہندوستان میں کسی اسلامی ریاست کی بنیادنہ رکھی اوراکثراوقات یہاں سے مالِ غنیمت لے کرواپس وطن لوٹ گیاگویااس کامطلب یہ ہواکہ ہندواورمغربہ مؤرخین کا یہ الزام غلط ہے کہ یہاں اسلام تلوارکے زورسے پھیلا کیونکہ جنگ ترائن تک ہندوستا ن میں نہ کوئی اسلامی حکومت موجود تھی اورنہ ہی مسلمانوں کواتنی طاقت حاصل تھی کہ وہ بزورشمشیر اسلام پھیلا سکتے۔ہوایوں کہ بہت سے اولیائے کرام،صوفیاءاورصالحین اس عرصے میں ہندوستان آکرآبادہوئے جن میں خاص طورپرحضرت علی ہجویری عرف دا تا گنج بخش قابل ذکرہیں جومحمودغزنوی کی فوج کے ساتھ یہاں آئے اورپھریہیں کے ہ کررہ گئے۔یہ ان اولیائے کرام کی نگاہ کافیض تھاکہ مقامی آبادیوں کے دل مسخرہوتے گئے اوروہ صدیوں کے سفرمیں اس طرح حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔1192ءتک موجودہ سندھ ،سرحداور پنجاب کے علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی مقابلتاًزیادہ ہوگئی اوریوں قیام پاکستان کی راہ ہموارہوتی گئی ۔
اس مسئلے کے منتخب پہلوؤں پرغورکریں توان میں بڑی حکمت کے پوشیدہ رازکھلتے ہیں اورمشیت ایزدی کے واضح اشارے ملتے ہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ اولیائے کرام توسارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے جن میں دہلی،سرہنداوراجمیرشریف خاص طورپرقابل ذکرہیں لیکن ان علاقوں میں مسلمان اکثریت میں کیوں نہ ہوسکے۔دوسری قابل ذکربات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان ان صوبوں یاعلاقوں میں اکثریت میں ہوئے جوجغرافیائی طورپرایک دوسرے سے ملحق اورآپس میں پیوست تھے،ورنہ اگرمسلمان سرحدمیں اکثریت میں ہوتے تو پھریوپی یاہندوستان کے دوردرازعلاقوں میں اکثریت میں ہوتے توکیاپاکستان کامطالبہ کیاجاسکتاتھایااسے منوایاجاسکتاتھا؟جواب نفی میں ہے کیونکہ پاکستان کے مطالبے کی بنیاد ہی یہی تھی کہ صوبہ پنجا ب،سرحد،سندھ اوربلوچستان اوربعدازاں مشرقی بنگال جہاں اکثریت میں ہیں اورجغرافیائی طورپر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں،ان علاقو ں پرمشتمل ایک آزادمسلمان مملکت قائم کردی جائے جہاں مسلمان اپنے دین،ثقافت اور مذہب کے مطابق زندگی گزارسکیں،گویایہ مشیت ایزدی تھی کہ مسلمان ان علاقوں میں اکثریت میں ہوئے جوجغرافیائی طور پرایک یونٹ تھے۔اس لحاظ سے پاکستان کی بنیاداسی وقت رکھ دی گئی جب شہاب الدین غوری نے صلح کیلئے پرتھوی راج سے ان علاقوں کامطالبہ کیا۔اسی پس منظرمیں حضرت قائداعظم نے علی گڑھ میں1944ءمیں خطاب کے دوران کہاتھاکہ پاکستان اسی دن وجودمیں آگیاتھاجس دن ہندوستان کی سرزمین پرپہلے مسلمان نے قدم رکھاکیونکہ مسلمان ایک مخصوص انداززندگی،ایک منفردکلچراورسوچ کی نمائندگی کرتاہے جوہرلحاظ سے ہندوستان کی دوسری اقوام سے مختلف اورالگ ہے اور”یہ تاریخی جملہ قائداعظم نے اس کئے کہاتھاکہ ہندومذہب میں جوبچہ جس گھرمیں پیداہوتاہے اس کی شناخت اپنے باپ کے مذہب سے پہچانی جاتی ہے اوریہ مذہبی طبقاتی تقسیم نے ہندوؤں کے درمیان نفرت اورتذلیل کی ایک گہری خلیج حائل کر رکھی ہے لیکن جس دن ہندوستان میں رہنے والے پہلے شخص نے اسلام کے الہامی دین کوقبول کیاتوگویااس نے مکمل طور پراپنی پرانی شناخت سے ناطہ توڑکرایک ایسے مذہب کوقبول کرلیاجس نے اس کے زندگی کے تمام ضابطہ حیات کوہندوؤں سے بالکل الگ کردیا۔
مجھے ہندوستان کی تاریخ میں مسلمان اوراسلام میں گہراربط نظرآتاہے اوروہ یوں کہ جب بھی اسلام کوکوئی چیلنج درپیش ہوا یامسلمانوں کے وجود کوصحیح معنوں میں کسی خطرے کاسامناہواتوایسی قوتیں نمودارہوئیں جنہوں نے ان چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کیااورمسلمانوں کوان سے بچانے کیلئےتحریکیں چلائیں۔تاریخی طورپرہندوستان میں مسلمانوں نے680برس تک حکومت کی اوران کے کل76بادشاہ ہوئے۔سب سے طاقتور حکومت مغلیہ خاندان کی سمجھی جاتی ہے جس کےدورمیں اکبر کےدین الہٰی کی صورت میں ہندوستان میں اسلام کوسب سے پہلے ایک سنجیدہ چیلنج کامقابلہ کرناپڑا۔حضرت مجددالف ثانی اکبرکے دین الہٰی کی راہ میں سدِسکندری بنے اورانہوں نے مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی کافریضہ اداکیا۔ مغلیہ خاندان کی حکومت ماسوائے اورنگزیب عالمگیرکے،ایک لبرل حکومت سمجھی جاتی ہے جس کے کم ازکم دویاتین بادشاہ ہندوماؤں کے بطن سے پیداہوئے تھے۔ظاہرہے کہ اس تناظرمیں مغلیہ خاندان نے ہندوستان میں اسلام کی کیاخدمت کرنی تھی۔اسلام تواندرہی اندراولیائے اکرام،صوفیااوراہل نظرکی برکت سے پھیلتارہا۔
اورنگزیب عالمگیرکاانتقال1707ءمیں ہوااوراس کے بعدمغلیہ سلطنت کمزورہونے لگی۔ہندوستان کی تاریخ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی مسلمانوں کیلئےانتہا ئی ابتلاکادورتھاکیونکہ اس دوران مسلمان حکومتیں گرنے لگیں،مختلف علاقوں پرمسلمان دشمن قوتیں قابض ہوگئیں اور مسلمان اپنے آپ کوغیرمحفوظ محسوس کرنے لگے۔انگریزاکبرکے دورمیں تجارتی مقاصدکے پیش نظرہندوستان میں آئے تھے اوروہ آہستہ آہستہ اپنے پاؤں پھیلاتے رہے،اثرورسوخ میں اضافہ کرتے رہے اوراپنی عسکری قوت بڑھاتے رہے چنانچہ انگریزوں نے1757ءمیں جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کوشکست دے کربنگال پرقبضہ کر لیا،1799ءمیں ٹیپوسلطان کوشکست دے کراس کی سلطنت پرقابض ہوگئے تھے،1764ءمیں بکسرکی لڑائی میں مغل بادشاہ شاہ عالم کی شکست کے بعددہلی کی حکومت بھی انگریزوں کے سامنے سرنگوں ہوگئی،1808ءمیں رنجیت سنگھ نے پنجاب میں سکھ حکومت کی بنیادڈالی اورپنجاب میں مسلمانوں کاناطقہ بندکردیا، حتیٰ کہ شاہی مسجدکواصطبل میں تبدیل کردیا ۔
مسلمانوں کے اس تنز ل اورابتلاکے دورمیں شاہ ولی اللہ نے اصلاح معاشرہ کی تحریک شروع کی،مسلمانوں میں جہاد بیدار کرنے کیلئےمنظم پروگرام شروع کیا،مسلمان دشمن قوتوں کوکمزور کرنے کیلئےاحمد شاہ ابدالی کوحملے کی دعوت دی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمان سرداروں کوخطوط لکھے جن کے مطالعے سے مسلمانوں کی نفسیا ت اورسوچ سمجھنے میں مددملتی ہے۔ان خطوط کالب لباب یہ تھاکہ ہندوستان میں مسلمان اوراسلام کی بقا کیلئےکچھ علاقوں میں مسلمان حکومتوں کاقیام ضروری ہے۔غورکیاجائے تومحسوس ہوتاہے کہ یہ سوچ تحریک پاکستان کی بنیادبنی،یہی بات علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباداورقائداعظم کےنام خطوط میں باربارکہی اورخودقائداعظم بھی اکثراوقات اس سوچ کااظہارکرتے رہے۔دراصل یہ وہ خواب تھاجوہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے بعدان کے قومی اوراجتماعی لاشعورمیں پلتارہااوربالآخراسی خواب کی تعبیران کومطالبہ پاکستان میں نظرآئی ۔
شاہ ولی اللہ کے جانشین شاہ عبدالعزیزنے ہندوستان کودارلحرب قراردیااورسیداحمدشہیدنے پنجاب کے مسلمانوں کورنجیت سنگھ کے مظالم سے نجات دلانے کیلئےجہادکاآغازکیا۔1826ءمیں جہادی قافلے صوبہ سرحدکی جا نب روانہ ہوئے۔مجاہدین نے پہلااوردوسرامقابلہ جیت کرسرحد پرقبضہ کرلیا،1827ءمیں سیداحمدشہید صوبہ سرحد کے امیرالمومنین مقررہوئے اورانہوں نے شریعت کے نفاذکااعلان کردیا۔رنجیت سنگھ خود پشاورپہنچااورکچھ قبائلی سرداروں کواپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا جن میں یارمحمداورسلطان محمدقابل ذکرہیں۔بالاکوٹ کے فیصلہ کن معرکے میں یارمحمدمجاہدین کوعین جنگ کے دوران چھوڑگیا،اپنے باورچیوں کے ذریعے شاہ صاحب کوزہردلوادیا۔1831ءمیں بالاکوٹ کے مقام پرسیداحمد بریلوی اورشاہ اسماعیل شہید ہوگئے، یوں شاہ ولی اللہ نے جس تحریک کاآغاز1731ءمیں کیاتھاوہ ایک صد ی کےبعد1831ءمیں ختم ہوگئی ۔
سیداحمدشہیداورشاہ اسماعیل کاارادہ تھاکہ وہ اس خطے کے مسلمانوں کوسکھوں سے نجات دلاکرانگریزوں کے خلاف جہاد کریں گے لیکن ان کایہ خواب ادھورارہا۔ا سے کسی اورشکل وصورت میں کسی اورطریقے سے شرمندہ تعبیرہوناتھا،قدرت کو یہی منظورتھا۔دوسری طرف انگریزآہستہ آہستہ اپناجال پھیلارہے تھے اورہندوستان پرقبضہ جمانے کیلئےشاطرانہ چالیں چل رہے تھے۔سراج الدولہ،ٹیپوسلطان اورشاہ عالم کی فوجوں کو شکست دینے کے بعدوہ ایک مؤثرعسکری قوت بن کرابھرچکے تھے،انگریزوں نے اسی حکمت عملی کے تحت1843ءمیں سندھ کاالحاق اور 29مارچ1849ءکوپنجاب کااپنے ساتھ الحاق کرکے ان صوبوں پرقبضہ کرلیا۔1856ءمیں انگریزوں نے اودھ کے فرمانرواواجدعلی کے سسر اوروزیراعظم میرعلی نقی کواپنے ساتھ ملاکر وا جد علی سے دستخط کرواکراودھ پرقبضہ کرلیااورمیرواجدکوکلکتہ کے منیابُرج میں قیدکردیا۔
ایک مورخ کے بقول تین میروں نے ہندوستان میں مسلمان مملکتوں کےمقدرکافیصلہ کردیا۔میرجعفرنے پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ سے غداری کرکے مسلمانوں کوبنگال کی حکومت سے محروم کردیا،میرصادق نے ٹیپوسلطان سے غداری کر کے مسلمانوں کومیسورکی مملکت میں حکمران سے غلام بنادیااورمیرعلی نقی نے میرواجدسے دستخط کرواکراودھ انگریزوں کے حوالے کردیا۔پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت مضبوط بنانے اورسرحدمیں مجاہدین سے گفت وشنیداوران کی شکست میں لاہورکی فقیر فیملی کے ایک سربراہ کابھی مؤرخین ذکرکرتے ہیں جسے رنجیت سنگھ کے دربارمیں اہم حیثیت حاصل تھی ۔ انتہائی مشہورشخصیت معیزالدین احمد فرزندمولاناصلاح الدین احمدمرحوم تودعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب سیکرٹریٹ کے قلعے انارکلی(آرکا ئیوز)میں محفوظ پنجا ب کے انگریزحاکم کاوہ فرمان اپنے آنکھوں سے پڑھاہے جس کے مطابق لاہورکے ایک معروف خاندان کوفوری طورپرسیدہونے کاتاج پہنایاگیاتھا،یادرہے کہ انگریزی زبان کے سرکاری حکم نا موں میں”امیجئیٹ افیکٹ”کے الفاظ ضروراستعمال ہوتے ہیں جس کاترجمہ”فوری طورپر”ہوتاہے۔
1857ءکی جنگ آزدی کی ناکامی کےبعدانگریزہندوستان پرچھاگئے،انگریزآئے تواپنے ساتھ سائنس،ٹیکنالوجی،مواصلات، ریلوے،ما ڈرن ایجوکیشن،اورایک سیاسی کلچربھی لائے۔انگریزوں کی پالیسیوں کے سبب ہندوستان میں نیشنلزم کاشعورمضبو ط ہوا،سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئیں،حق رائے دہی اورانتخابات کاذکرہونے لگاجس سے محدودجمہوریت اورپھر اکثریت و اقلیت کے احساس نے جنم لیا۔
اس صورتحال کے نتیجے کے طورپرمسلمانوں نے شدت سے محسوس کیاکہ وہ اقلیت ہونے کے سبب ہمیشہ ہمیشہ اکثریت کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے،انہوں نے محسوس کرناشروع کیاکہ چونکہ وہ اپنے مذہب،ثقافت،تاریخی پس منظر اورقومی سوچ کے حوالے سے ایک علیحدہ قوم ہیں،اس لئے انہیں ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے جدوجہدکرنی چاہئے ۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سرسیداحمدخان سے لیکر قائد اعظم تک تقریباًسبھی مسلمان لیڈروں نے اپنے سیاسی کیریئر کاآغازہندومسلم اتحادکی کوششوں سے کیالیکن انہوں نے ہندوذہنی رویے اورتنگ نظری کوقریب سے دیکھ کراپنی راہیں الگ کرلیں۔ہندومسلم اتحادکااہم ترین سنگ میل لکھنؤپیکٹ1916ءتھاجس کاخواب1928ءمیں نہرو رپورٹ نے پاش پاش کردیا حتیٰ کہ قائداعظم جیسے مستقل مزاج انسان کویہ بھی کہناپڑاکہ اب ہمارے راستے الگ الگ ہیں۔علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد1930ء نے مسلمانوں کونئی سوچ دی اوران میں منزل کا شعوربیدارکیاجبکہ1935ءکے انتخابات کے نتیجے کے طورپر1937ءمیں چھ صوبوں میں کا نگریس کی حکمرانی نے مسلمان عوام کی آنکھیں کھول دیں۔ان واقعات نے قراردادِپاکستان کی راہ ہموارکی اور 1940ءمیں مسلمانان ہندنے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک علیحدہ اورآزادوطن کامطالبہ کردیا ۔
اس کے بعدبرطانوی حکومت نے”مسئلہ ہند “کاحل ڈھونڈنے کیلئےبہت سی کو ششیں کیں جن کی تفصیل کتابوں میں محفوظ ہے لیکن ساری کو ششیں اوراسکیمیں ایک ایک کرکے ناکام ہوگئیں۔سیاسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے روحانی اشارے بھی ملتے ہیں جومشیت ایزدی کی جھلک دکھاتے ہیں۔مولانااشرف علی تھانوی مفسرقرآن،عاشق رسول ﷺاور روحانی شخصیت تھے۔ان کے مریدوں اورچاہنے والوں کی تعدادلاکھوں میں تھی۔ایسے فقیرمنش اورصوفی انسان سے آپ صرف حق گوئی کی تو قع کرسکتے ہیں۔حضرت تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفراحمدعثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روزحضرت نے مجھے طلب فرمایااوربتایا:
“میں بہت کم خواب دیکھتاہوں مگرآج میں نے عجیب ساخواب دیکھاہے،میں نے دیکھاکہ ایک بہت بڑامجمع ہےگویامیدان حشر ہے۔اس میں اولیاءوصلحاءکرام،علماءکرسیوں پربیٹھے ہوئے ہیں۔مسٹرمحمدعلی جناح بھی اس مجمع میں عربی لباس پہنے ایک کرسی پربیٹھے ہیں۔میرے دل میں خیال گزراکہ یہ اس مجمع میں کیسے شامل ہوگئے تومجھے بتایاگیاکہ محمدعلی جنا ح آج کل “اسلام “کی بہت بڑی خدمت کررہے ہیں اسی واسطے ان کویہ درجہ دیاگیاہے”۔(بحوالہ تعمیرپاکستان اورعلماءربانی ازمنشی عبدالرحمٰن ادارہ اسلامیات لاہور1992ءصفحہ92) 4جولائی 1943ءکو حضرت تھانوی نے مولاناشبیراحمدعثمانی اورمولاناظفراحمدعثمانی دونوں کوطلب فرماکرارشادفرمایا، 1940ءکی قراردادپاکستان کوکامیابی نصیب ہوگی، میراوقتِ آخرہے اگرمیں زندہ رہتاتو ضروراس عظیم مقصدکی کامیابی کیلئے کام کرتا،مشیت ایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن بنے ۔قیام پاکستان کیلئےجوکچھ ہوسکے کرنا،اپنے مریدوں کوبھی کام کرنے پرابھارنا،تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میراجنازہ پڑھائے گااوردوسراعثمانی جناح صاحب کاجنازہ پڑھائےگا”(بحوالہ قائداعظم کامذہب وعقیدہ ازمنشی عبدالرحمٰن صفحہ249)اورقائداعظم کی شخصیت کا روحانی پہلواز حبیب اللہ (1948)۔قائداعظم کی نمازجنازہ کراچی میں مولاناشبیراحمدعثمانی نے پڑھائی۔
مولاناحسرت موہانی ایک مردِدرویش،بے لوث عظیم اوربہادرانسان تھے،زندگی کاخاصاحصہ انگریزی راج کے خلاف جدوجہدکرنے کی سزاکے طورپرجیلوں میں گزاردیا اوراکثراوقات سزا بامشقت پائی اس ضمن میں ان کایہ شعرزبان زدعام ہے۔
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
مولاناحسرت موہانی نے مسلم لیگ کے کئی اجلاسوں کی صدارت فرمائی اوراتنے دبنگ انسان تھے کہ مسلم لیگ کونسل کے بھرے اجلاس میں اٹھ کرقائداعظم کی پا لیسیوں پرتنقیدکرتے اورخودقائداعظم ان کابے حداحترام کرتے تھے،یہاں قائداعظم کے جمہوری مزاج کابھی پتہ چلتاہے۔مولاناکواللہ تعالیٰ نے غربت کے باوجودگیارہ جج اوربہت سے عمرے نصیب کئے۔
مولانانے زندگی کابقیہ حصہ مسلم لیگ میں رہ کرحصول پاکستان کیلئے دن رات جدوجہدمیں گزاردیالیکن قیام پاکستان کے بعدہندوستان میں رہنے کوترجیح دی کیونکہ ان کی جدوجہدذات کیلئے نہیں بلکہ قوم وملت کیلئےتھی۔محترم ظہیرالاسلام فاروقی ایڈووکیٹ اپنی کتاب”مقصدپاکستان”(لاہور1981ء)میں رقمطرازہیں”1946ءمیں مسلم لیگ کااجلاس بمبئی میں تھا۔ٹرین میں پیر سیدعلی محمدراشدی کے ساتھ مولاناحسرت موہانی بھی ہم سفرتھے۔راشدی صاحب نے مولاناحسرت موہانی صاحب سے پوچھاکہ”کیا مسلم لیگ کامطالبۂ پاکستان مان لیاجائے گا؟”مولانا حسرت موہانی مرحوم نے جواب میں کہاکہ”پاکستان توبن جائے گاآگے کی فکرکرو”پھرکہا۔میں نے رسول اکرمﷺکوخواب میں دیکھاآنحضورﷺنے خوداس کی بشارت دی،بعدازاں میں نے دیوان حافظ سے فال نکالی اوراس کی تضمین میں یہ اشعارکہے۔
جبکہ حافظ بھی مصدق ہوبہ فال دیواں
جب کہے خواب میں خودآکے وہ شاہِ خوباں
تجھ کوحسرت یہ مبارک،سندومہرونشاں
پردہ بردارکہ تاسجدہ کندجملہ جہاں
مولاناحسین احمدکانگریس کے ممتازلیڈراورتقسیم ہندکے شدیدمخالف تھے جن کے بارے میں یہ واقعہ میں نے کئی بزرگوں سےسناہےکہ وہ46 ۔1945ءکے انتخابات کے ضمن میں کانگریس کیلئےووٹ مانگنے کی غرض سے بنگال کادورہ کررہے تھے۔ان کے ہمراہ بہت سے مریدان اورسیاسی کارکن بھی تھے۔اس انتخابی مہم کے دوران ایک دن انہوں نے نمازفجر اداکی، امامت کے بعداپنے محدودحلقے میں تقریرکرتے ہوئے کہاکہ آج رات مجھے نبی کریمﷺکی زیارت نصیب ہوئی آپﷺنے فرمایا کہ پاکستان کے قیام کافیصلہ ہوچکاہے،جب مولانامدنی یہ کہہ چکے توایک مرید اٹھااوراس نے کہاکہ حضرت چلئے اورمسلم لیگ کاساتھ دیجئے اب اس کے بعد کانگریس کیلئےانتخابی مہم چلانے کاکوئی جوازنہیں،اس کے جواب میں مولانا مدنی نے کہاکہ دینی معاملات میں حضورﷺکی پیروی فرض ہے لیکن تکونیی وسیاسی معاملات میں نہیں۔اب اصحابِ نظرخودہی اندازہ لگالیں کہ نبی اکرمﷺنے خواب میں پاکستان کی بشارت بھی دی لیکن اس کے باوجوداپنے سیاسی نظریات پرقائم رہے اوران افرادکی بھی خبرلینے کی ضرورت ہے جوبھارت کی سرزمین پرکھڑے ہوکریہ برملاکہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان بنانے کی غلطی میں حصہ نہیں لیالیکن اب پاکستان کی سیاست کے ٹھیکیداربنے ہوئے ہیں اورہرقسم کے مفادسے لطف اندوزبھی ہو رہے ہیں۔
اس ضمن میں بہت سے واقعات مشہورہیں لیکن میں نے صرف ان ہستیوں کے حوالے دیئے ہیں جن کی امانت ودیانت شک وشبہ سے بالاترہے۔ سیاسی محاذکی پیش رفت بھی قابل غورہے اورکچھ ایسے ہی اشارے دیتی ہے کہ انگریزبہرحال ہندوستان کومتحدہ رکھناچاہتے تھے اوروہ اسی فریم ورک میں ہندوستان کے مسئلے کاحل تلا ش کرنے کیلئےسرگرداں تھے۔اس ضمن میں بہت سی کو ششیں کی گئی لیکن مشیت ایزدی یہی تھی کہ وہ بارآورنہ ہوں،یہاں کابینہ مشن پلان کاذکرضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسے مسلم لیگ نے قبول کرلیاتھااور یوں حصول پاکستان دس برس کیلئے ملتوی ہوسکتاتھاکیونکہ کابینہ پلان کے مطابق مختلف گروپ دس سال کے بعداس انتظام سے باہرنکل سکتے تھے۔مشیت ایزدی یہی تھی کہ پاکستا ن کاقیام دس سال کیلئےملتوی نہ ہوچنانچہ کانگریس نے اس پلان کومستردکردیااوریوں انگریزوں کے پاس ہندستان کوتقسیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔
تقسیم ہندکے اس پہلوپربھی ذراغورکیجئے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان کوجون1948ءمیں تقسیم کرنے کااعلان کیاتھا ۔ ماؤنٹ بیٹن کو11 فروری1947ءکووائسرائے مقررکیاگیااوربعدازاں ماؤنٹ بیٹن20مارچ1947ءمیں وائسرائے بن کرآیاتوحالات کاجائزہ لے کراس نتیجے پرپہنچاکہ تقسیم کوزیادہ عرصے تک لٹکائے رکھنانہایت خطرناک ہوگاچنانچہ اس نے برطانوی حکومت کو قائل کیاکہ ہندوستان کوجلدازجلد تقسیم کرکے آزادی دے دی جائے۔یوں اعلان آزادی اورقیام پاکستان کیلئے14/اور 15/اگست کی نصف شب کاانتخاب کیاگیاجومسلمانان پاکستان کیلئے نہایت نیک شگون،مبارک اورصاحبانِ نظروباطن کیلئے مشیت ایزدی کاواضح اشارہ تھاکیونکہ رات”شب قدر”کی تھی،یہ مہینہ رمضان المبارک کاتھااور15/اگست ہماراپہلایوم پاکستان جمعتہ الوداع کے روزمنایاجاناتھا۔یہ رمزیں صرف رمزشناس ہی سمجھ سکتے ہیں،اوریہ اشارے صرف ان کیلئےہوتے ہیں جن کے باطن منوراوردل شفاف ہوتے ہیں۔آپ چاہیں تومجھے توہم پرستی،رجعت پسندی اورضعیف الاعتقادی کاطعنہ دے دیں لیکن مجھے تویہ اشارے غوروفکرکاسامان لگتے ہیں۔میں ایک ایسے شخص کوجودنیاوی معیارکے مطابق نہایت پڑھالکھاتھا، یہ سمجھا نے کی کوششیں کررہاتھاکہ پاکستان ایک منفرد قسم کاملک ہے اوراگرآپ اس کے خمیراورضمیرمیں جھانکیں تو غوروفکرکابے پناہ ساماں ملتاہے کہ اسے کس طرح مشیت ایزدی نے صدیوں تک تاریخ کے سانچے میں ڈھالااورپھردنیائے اسلام کاسب سے بڑااسلامی ملک بناکردنیاکے نقشے پرابھارا۔ اس تناظرمیں ان کایہ سوال ایک فطری ردعمل تھاکہ پھر1971ء میں پاکستان کیوں ٹوٹ گیا؟اقبال کے الفاظ میں تواس سوال کاجواب کچھ یوں ہے ۔
فطرت افراد سے اغماض توکرلیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کومعاف
اگرآپ کوقدرت کی جانب سے ایک تحفہ یاانعام عظیم ملے تواس کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں اوراگرآپ وہ تقاضے پورے نہ کریں توپھروارننگ ملتی ہے اورکبھی کبھی سزابھی،مختصریہ کہ اللہ تعالیٰ نے پا کستان کی صورت میں ہمیں ایک انعام عظیم بخشاجوہماری کوتاہیوں،کم نظری،سیاسی ہوس اورنالائقی سے نصف رہ گیاالبتہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ مشرقی پاکستان آج بھی مشرقی پاکستان ہے صرف ان کانام بدلاہے،وہ اپنے مزاج ،ہندودشمنی،اسلامی پس منظراورفکرونگاہ کے حوالے سے اب بھی مشرقی پاکستان ہی ہے اوراسے قدرت کاکرشمہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ اسی مبارک مہینے کی5/اگست 2024ءکوایک ایساانقلاب دیکھنے کوملاکہ خونی حسینہ ڈائن بھاگ کرواپس اپنےانہی ہندوآقاؤں کے جوتے چاٹنے کیلئے پہنچ گئی اوراس کے بنائے ہوئے باپ کے بُتوں کوسرعام لوگوں نے پاش پاش کردیااورجوتوں کی بارش کردی۔آج اسی ڈائن کو امریکااوربرطانیہ نے بھی پناہ دینے سے انکارکردیاہے اوراقوام متحدہ نے اس کوہونے والے تمام قتل وغارت کاذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عالمی طورپرتحقیق کامطالبہ کیاہے۔ مودی سرکارکے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے ہیں اورہنگامی اجلاس بلاکر بالآخرآئی ایس آئی کوموردِالزام ٹھہرایاجارہاہے لیکن اس سانحے میں بھی ایک ایسانقطہ پنہاں ہے جس پرغورکریں توحیران کن اشارے ملتے ہیں اورفہم وفراست کے نئے دروازے کُھلتے ہیں ۔
ذراغورکیجئے کہ بظاہرپاکستان توڑنے کی ذمہ داری تین سیاسی کرداروں پرعائدکی جاتی ہے جبکہ چوتھاکردارفوجی تھا۔ ذراقدرت کے انتقام پرغور کریں کہ وہ تینوں سیاسی کرداریعنی اندراگاندھی،شیخ مجیب الرحمٰن اورذوالفقارعلی بھٹوغیرفطری موت کانشانہ بن کرعبرت کی داستانیں چھوڑگئے، رہاچوتھافوجی کرداریحییٰ خان تووہ بھی گھرکی قیدمیں ایڑیاں رگڑرگڑکر مرا،اوراپنے پیچھے عبرت کی کہانیاں چھوڑگیا۔عالمی تاریخ گواہ ہے کہ ملک بنتے اورٹوٹتے رہتے ہیں،سکڑتے اورپھیلتے رہتے ہیں اورقوموں کے جغرافئے بھی بدلتے رہتے ہیں،ابھی کل کی بات ہے کہ ہماری نگاہوں کے سامنے”یوایس ایس آر” روس نامی ایک سپرپاورٹوٹ کرکئی آزادمسلم ممالک کوجنم دیا،پولینڈ،بوسنیااورسربیاوغیرہ کی تاریخ ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے لیکن مجھے عالمی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملی جہاں ملک ٹوٹنے پرکسی گورباچوف کوپھانسی چڑھایاگیاہویاکسی ذمہ دارکوسبق آموزسزا ملی ہوجبکہ پاکستان میں قدرت کایہ انتقام صرف ایک نسل تک محدودنہیں رہااوراب اس کی تازہ ترین مثال اس کی بیٹی حسینہ واجدکافراراورمجیب الرحمان کے بت کاجوحشرہوا ہے،وہ سب کیلئے باعثِ عبرت ہے۔
میں نے عرض کیاکہ غورکرنے والوں کیلئےاس میں عبرت کابے پناہ ساماں موجودہے،کبھی آپ نےغورکیاکہ پاکستان توڑنے والے تین کرداروں (مجیب الرحمان،اندارگاندھی اورذوالفقار علی بھٹو)کی غیرفطری اورعبرت ناک اموات کے بعدان کی آئندہ نسل میں سے بھی کسی مردکوفطری موت نصیب نہیں ہوئی،کیایہ سب کچھ محض اتفاقیہ ہےِ؟سوال یہ ہے کہ یہ اتفاق صرف سقوط مشرقی پاکستان کے تین کرداروں کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟پھرسبھی کرداروں کے ساتھ کیوں ہوا؟میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ قیام پاکستان کی تاریخ میں مشیت ایزدی کے واضح اشارے ملتے ہیں اوراس کی بشارت ہمارے نبی کریم ﷺنے کئی باردی تھی،اس لئے جوبھی اس ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کرے گاوہ اس دنیامیں اوراگلے جہان میں بھی عزت پائےگااورجواسے کسی بھی طرح نقصان پہنچائے گاوہ یہاں اوروہاں بھی ذلیل وخوارہوگا۔
کچھ بھی تونہیں رہے گا،کچھ بھی تونہیں بس نام رہے گااللہ کا!
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کاچاندنکلے گا
اندھیری رات کے پردوں میں دن کی روشنی بھی ہے