China's global military diplomacy and the United States

چین کی عالمی عسکری ڈپلومیسی اورامریکا

:Share

ٹرمپ کی اپنی کابینہ میں نامزدگیوں سے مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ دنیاکے کئی ممالک میں مزیدپریشانی کی لہردوڑگئی ہے۔ ان نامزدگیوں سے واضح ہوتاجا رہاہے کہ چین کے خلاف وہ اپنی پالیسیوں پرعملدرآمد کرنے کی پوری کوشش کریں گے جس کووہ اپنے پہلے دورِاقتدارمیں پورانہیں کرسکے۔تاہم چین میں بہت سے لوگوں کیلئےٹرمپ محض ایک تفریحی کردارہیں اوریہاں سوشل میڈیاپران کے ڈانس کی میمزبھی شیئرکی جاتی ہیں۔ایک چینی سیاسی تجزیہ نگارکے مطابق”مجھے ٹرمپ اچھے لگتے ہیں مگروہ عدم توازن کاشکارہیں۔کون جانتاہے کہ وہ کیاکرگزریں؟”

ٹرمپ نے وزیرخارجہ کیلئےمارکوروبیوکونامزدکیاہے جنہوں نے اپنے پہلے ہی ایک بیان میں بیجنگ کوایک ایساخطرہ قراردے رکھاہے جواس صدی کی سمت کاتعین کرے گا۔ٹرمپ نے مائیک والٹزکوقومی سلامتی کامشیرنامزدکیاہے جنہوں نے اس ماہ کے آغازمیں یہ لکھاتھاکہ امریکاکوفوری طورپر یوکرین اورمشرق وسطیٰ میں تنازعات کوختم کرواکربالآخراصلی خطرے کی طرف یعنی چین کی کمیونسٹ پارٹی کوقابوکرنے پراپنی توجہ مرکوزرکھنی چاہیے۔

عالمی تجزیہ نگارخبردارکررہے ہیں کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِاقتدارکیلئے چین ابھی سے تیاری کررہاہے۔ان تحفظات کے باوجود ٹرمپ کی واپسی چین کیلئےکوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے۔توقع ہے جب جنوری میں ٹرمپ اقتدارمیں آجائیں گے تودنیادونوں ممالک کے تعلقات میں اتارچڑھاؤکیلئے تیاررہے۔ٹرمپ کی جیت سے بہت پہلے ہی چین اورامریکاکے درمیان مسابقت میں اضافہ دیکھنے میں آیاتھا۔بائیڈن انتظامیہ کے دورمیں ان تعلقات میں خاص طورپرچینی اشیاپرٹیرف عائدکرنے کے فیصلے اوریوکرین جنگ اورتائیوان کے مستقبل سے متعلق جیسے”جیوپولیٹکل”عدم اتفاق سے زیادہ تناؤدیکھنے میں آیا۔

اس سب کے باوجوددونوں ملکوں میں بات چیت بھی جاری رہی۔امریکاکے متعددسینیئراہلکاربیجنگ گئے۔چینی صدرشی نے امریکا کے نئے صدرکے ساتھ مل کرکام کرنے کے عزم کااظہارکیاہے۔انہوں نے جوبائیڈن کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں واشنگٹن کو اس پربھی خبردارکیاکہ’نئی سرد جنگ نہ لڑی جائے اوریہ کبھی جیتی نہیں جاسکے گی۔چین کاراستہ روکنا غیر دانشمندانہ،ناقابل قبول اورناکامی کاراستہ ہوگا”۔بیجنگ طویل عرصے سے امریکااور اس کے اتحادیوں پر”چین کاراستہ روکنے”کاالزام عائدکرتاآرہا ہے۔چینی اشیاپرٹیرف کے نفاذ،جدیداے آئی چپس تک رسائی میں رکاوٹوں اور ساؤتھ چائناسی اوراس کے علاوہ بننے والے فوجی اتحادوں کوبھی چین اس نظرسے دیکھتاہے کہ یہ سب اس کارستہ روکنے کیلئےکیاجارہاہے۔اب روبیواور والٹزجیسی نامزدگیوں سے یہ ظاہرہوتاہے کہ نئی امریکی انتظامیہ چین کی طرف زیادہ سخت اورتناؤوالی حکمت عملی اختیارکرے گی۔

یہ دونوں نئے نامزد حکام چین کو امریکی سلامتی اور اس کی معیشت کیلئےخطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چین کے بیشتر صنعتی گروپ کوٹرمپ کے ان وعدوں پرعمل کاڈرہے جس میں انہوں نے یہ عزم کیاتھاکہ وہ چینی اشیا پربھاری ٹیکس عائدکریں گے،یوں اس کابراہ راست چین کی برآمدات پراثر پڑے گاجس کاچین کی معیشت میں اہم کردارہے۔یقیناًچین کے عالمی کاروباری افرادممکنہ خطرے کی تیاری کیلئے ابھی سے تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن اس کاکیارخ ہوگا،یہ ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔

ادھردوسری طرف ماضی میں ٹیمپل آف ہیون کے شمال میں شہرممنوعہ واقع ہے جہاں چین کاشاہی خاندان تقریباًپانچ صدیوں تک مقیم رہا۔2017میں یہاں صدرشی نے ٹرمپ کی میزبانی کی تھی۔یہ اعزازچین کے قیام سے آج تک کسی اورامریکی صدرکوحاصل نہیں رہا۔صدرشی نے اس علاقے کوعام عوام کیلئےبندکروادیاتھااورانہوں نےصدرٹرمپ کویہاں کادورہ کروایا جس کی براہ راست ٹی وی پرکوریج ہوئی تھی۔ٹرمپ کویہاں شام کے کھانے میں کنگ پاؤچکن پیش کیاگیاتھا۔اس دوران ان کی نواسی ارابیلاکشنرکی ایک ویڈیوبھی سوشل میڈیاپروائرل ہوئی جس میں وہ ایک چینی گاناگنگنارہی

تھی۔اسے دونوں اطراف سے چین اورامریکاکے درمیان تعلقات کاعروج قراردیاگیاتھامگر2019میں یہ تعلق اس وقت تلخی میں بدل گیا جب چینی شہرووہان سے کوروناوائرس کاپھیلاؤ شروع ہوااورپھریہ2020میں دنیابھرمیں پھیل گیا۔ٹرمپ نے بارباراسے”چینی وائرس”کہااورتجارت میں بھی “جیساکروگے ویسابھرو گے”والی جنگ کاآغازکیااورچینی اشیاپر300بلین ارب ڈالرکاٹیرف کانفاذبھی کیا۔

جب ٹرمپ اپنے دوسرے دورکاآغازکررہے ہوں گے توان کاسامناایک مضبوط صدرشی سے ہوگا،جوتیسری بارچین کے صدربنے ہیں اوراب ممکنہ طورپروہی تاحیات چین کے سربراہ ہوں گے۔چین کے پاس پہلے سے ہی دنیاکی سب سے بڑی بّری اوربحری فوج ہے اوراب واشنگٹن اس بات پربھی پریشان ہے کہ چین اب سب سے بڑاجوہری ہتھیاروں کاذخیرہ بھی بنارہاہے۔جب ٹرمپ اپنی کابینہ کے ناموں کااعلان کررہے تھے توعین اسی وقت چین کے سرکاری میڈیانے ایک ویڈیو نشرکی جس میں ملک کے سب سے بڑے ائیرشومیں نئے برق رفتارجنگی طیارے جے35اے کودکھایاجارہاتھا جو کبھی سیدھااوپرآسمان کی طرف اورکبھی اوپرسے زمین کی طرف تیزی سے رخ کرتاتھا۔

امریکاکے بعدچین دنیاکادوسرا ملک ہے جس کے اپنے بیڑے میں دوبرق رفتارجنگی طیارے موجودہیں۔دنیاکے پہلے دوبرق رفتار جنگی طیارےجے20 -ایس بھی نمائش میں موجودتھے۔گذشتہ ہفتے کیلیفورنیاکے”مڈلبری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز”نے ایسی سیٹلائٹ تصاویردیکھی ہیں جن سے یہ ظاہرہوتاہے کہ چین ایک نئے طیارہ برداربحری جہازکیلئےجوہری “پروپلشن” پرکام کررہا ہے۔کارنیگی انڈومنٹ فارانٹرنیشنل پیس کے تونگ ژاؤکاکہنا ہے کہ مطالعات سے چین کی”فرسٹ یوزپالیسی” یعنی خطرے کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی حکمت عملی اختیارکرنے سے اورجوہری خطرات میں اضافے پر سنگین خدشات کوجنم دیاہے۔ان کے مطابق”جب تک ٹرمپ خوداس میں دلچسپی نہیں لیتے جس کے امکان کم ہیں تواس وقت تک دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں کی دوڑکی شدیدمسابقت کے دھانے پرآجائیں گے،جس کے عالمی استحکام پربھی اثرات مرتب ہوں گے”۔

صدرشی کی قیادت میں حالیہ برسوں میں چین اب ساؤتھ چائناسی اورتائیوان کااپناحصہ ہونے کے دعوؤں میں مزیدجارحانہ انداز اختیارکرگیاہے ۔ امریکا کواب ایک اورپریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ چین نے تائیوان پرفوجی حملے کی بھی تیاری شروع کررکھی ہے،جسے چین اپنے ہی ایک علیحدہ ہوجانے والے صوبے کے طورپردیکھتاہے جوبالآخراس کے زیرانتظام آجائے گا۔کیا ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ہوتے ہوئے امریکاتائیوان کادفاع کرے گا؟یہ سوال ہرامریکی صدرسے پوچھاجاتاہے۔ٹرمپ نے اس سوال پر مختلف جواب دیاہے۔انہوں نے کہاکہ وہ فوجی طاقت کااستعمال نہیں کریں گے کیونکہ شی جانتے تھے کہ وہ”پاگل”ہیں اوراگرایسا ہوابھی تووہ سزاکے طورپرچینی درآمدات پرانتہائی سخت ٹیرف عائدکریں گے۔

غیرملکی جنگوں میں حصہ نہ لینے سے متعلق ٹرمپ کے بیانات کے باوجودزیادہ ترماہرین کویہ امیدہے کہ واشنگٹن تائے پے کو فوجی امدادپہنچاتارہے گا۔ پہلی بات تویہ ہے کہ امریکاقانونی طورپربھی اس جزیرے کودفاعی ہتھیارفروخت کرنے کاپابندہے۔دوسرا اب تک کسی بھی انتظامیہ سے زیادہ ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کواسلحہ فروخت کیاہے اورتائیوان کوفوجی امدادجاری رکھنے کیلئےمضبوط دوطرفہ حمایت بھی موجودہے اس لئے ٹرمپ تائیوان کوہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائیں گے۔

یادرہے کہ گذشتہ دوبرس کے دوران چین اورامریکاکے مابین بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤکے درمیان بیجنگ دنیابھرمیں اپنی فوجی سفارت کاری میں اضافہ کررہاہے۔یہ رجحان خاص طورپر روس،ایشیاپیسیفک خطے اوربیلٹ اینڈروڈانیشیٹو (بی آرآئی)منصوبے کے تحت دیکھنے کوملاہے جس میں چین اپنے تجارتی شراکت داروں پرتوجہ مرکوزکررہاہے۔جنوری2023میں چین کی جانب سے اپنی “زیروکووِڈپالیسی”کوختم کرنے کے بعدسے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں،عسکری سطح پرسفارتی تبادلے،خیرسگالی کے دورے، مشترکہ بحری مشقیں اوردیگرتربیتی مشقوں میں اضافہ ہو رہاہے۔جنوری2023سے اکتوبر2024تک کے ریکارڈکی جانچ پڑتال سے فوجی رسائی میں اضافہ کے واضح حقائق سامنے آتے ہیں۔

چین کے اعلیٰ عہدیداروں کی غیرملکی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتیں،خیرسگالی کے دورے اوردیگراہم عسکری تقریبات شامل ہیں تاہم ان میں دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں شامل نہیں ہیں۔چین کی عسکری سفارتکاری کے حوالے سے پیپلزلبریشن آرمی ڈیلی کی ویب سائٹ،سرکاری ویب سائٹ ہوانکیووینگ اورچین کی وزارتِ دفاع کی سرکاری ویب سائٹ سے اعدادوشمارکے مطابق پتہ چلتاہے کہ2023ءکے آغازسے 31/ اکتوبرکے درمیان چین نے بڑی سرعت کے ساتھ ایک خاص حکمت عملی کے تحت اپنی منزل کے حصول کیلئے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کردیاہے۔

چین نے2023میں148اور31/اکتوبر2024تک169عسکری سفارتی سرگرمیاں کیں جوہمیں اس کی حکمتِ عملی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔چین نے روس کے ساتھ گذشتہ دوبرسوں میں مختلف اوقات پر11ملاقاتیں،6فوجی مشقیں اور6خیرسگالی دورے کیے ہیں۔اس دوران چین اورروس کی فوج کے مابین ہونے والی متعددسرگرمیوں میں سے تقریباً نصف اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پرمشتمل تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان میں6مشترکہ مشقیں اورچھ پورٹ کالزبھی شامل تھی۔

یہ اضافہ دونوں ممالک کی2022کی”نولمٹس”شراکت داری کے بعددیکھنے کوملاہے جوامریکی اثرورسوخ کامقابلہ کرنے اور علاقائی اورعالمی سلامتی کوبرقراررکھنے کیلئےدونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کی عکاسی کرتاہے۔اس سب کوخاص طورپر روس یوکرین جنگ کے تناظرمیں دیکھناضروری ہے۔ویتنام اورکمبوڈیاکے ساتھ بھی چین کی فوجی سفارت کاری میں اضافہ دیکھنے کوملا ہے۔عسکری سرگرمیوں کی بات کی جائے توروس کے بعدیہ دونوں مُمالک دوسرے اورتیسرے نمبرپرہیں۔

ویتنام کے ساتھ عسکری سفارت کاری کے حوالے سے سرگرمیوں میں9ملاقاتیں،9عسکری سطح کے تبادلے اور3خیرسگالی کے دورے شامل ہیں جبکہ کمبوڈیاکے ساتھ3خیرسگالی کے دوروں کے علاوہ2تربیتی سیشن کیے گئے۔چین کے قریبی دوست ملک پاکستان کے ساتھ ایک عسکری تقریب کے علاوہ ملاقاتوں پرزوردیاگیا۔اسی طرح باوجود اس کے امریکاچین کے گردحصارقائم کرنے کیلئے”کواڈ”کاقیام عمل میں لاچکاہے اوراس کیلئے وہ انڈیاکواستعمال کرنے کیلئے پوری طرح سرگرم بھی ہے لیکن انڈیا اورامریکاکے ساتھ بھی چین کے اعلیٰ سطحی اہلکاروں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں ہیں۔

جنوبی افریقاچین کے ساتھ ملاقاتوں اورخیرسگالی کے دوروں میں مصروف رہاجبکہ انڈونیشیانے بنیادی طورپرخیرسگالی کے دورے کیے۔کووڈ2019سے پہلے چین نے شمالی کوریاکے ساتھ تین اعلیٰ سطحی عسکری اجلاس کیے جس میں مرکزی فوجی کمیشن کے وائس چیئرمین ژانگ یوشیانے شرکت کی۔اپنی کووڈ پابندیاں اٹھانے کے بعدسے چین نے شمالی کوریاکے ساتھ عوامی طورپرتوفوجی سفارت کاری دوبارہ شروع نہیں کی ہے جودونوں ممالک کے تعلقات میں جمودکی عکاسی کرتاہے۔تاہم ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ چین ایساشمالی کوریا کے ذریعے روس کی بالواسطہ حمایت کرنے پرمغربی پابندیوں سے بچنے کیلئےکررہاہے۔

چین اورشمالی کوریاکے تعلقات کی75ویں سالگرہ کے موقع پر6/اکتوبر2024کوچین نے چینی کمیونسٹ پارٹی(سی سی پی)کے سرکردہ رہنماژاؤلیجی کوپیانگ یانگ بھیجالیکن دونوں طرف سے کسی فوجی رہنمانے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔شمالی کوریا کی2024کے شیانگ شان میں عدم موجودگی نمایاں تھی۔یہ فورم ایک سالانہ سیکورٹی سمٹ ہے جس میں شمالی کوریا عام طورپر شرکت کرتاہے۔اسی طرح، ایران کے ساتھ چین کی آخری عسکری سرگرمی اپریل 2022 میں ہوئی تھی، جب اس وقت کے چینی وزیر دفاع وی فینگے نے اس وقت کے صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک کوئی عوامی دو طرفہ فوجی سفارت کاری نہیں ہوئی ہے، حالانکہ ایران مارچ 2023 اور مارچ 2024 میں چین اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں کا حصہ تھا۔

بحیرہ جنوبی چین میں اپنے تسلط کو مزید مضبوط کرنے کیلئےاہم ترین ’آسیان‘ ممالک کے ساتھ فوجی تعلقات استوار کر رہا ہے۔ ویتنام اور انڈونیشیا کے ساتھ تنازعات کے باوجود بیجنگ دونوں ممالک کے ساتھ فوجی سفارت کاری کو برقرار رکھتا ہے، جو اس کے اہم ایشیائی تجارتی شراکت داروں میں سے ہیں۔ چین کے سب سے قریبی سیاسی اتحادی سمجھے جانے والے لاؤس اور کمبوڈیا ان پانچ آسیان ممالک میں شامل ہیں جن میں ویتنام، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔

2024میں سب سے زیادہ فوجی سفارت کاری کی سرگرمیاں ایشیااوراوشیانامیں مرکوزکی گئی ہیں۔یورپ میں چین کی تقریباًنصف عسکری سرگرمیاں روس کی وجہ سے ہیں۔تاہم اس دوران برطانیہ،بیلاروس،سربیااورفرانس کے ساتھ بھی قابل ذکرملاقاتیں ہوئیں۔ اپریل2023میں روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس کے ساتھ طے پانے والے سمندری قانون نافذکرنے والے معاہدے کے بعد،2024 میں چینی ساحلی محافظوں کے گشت میں بھی اضافہ ہوا۔2024میں چین اورروس کی فضائی افواج،ساحلی محافظوں اوربحریہ کے درمیان مشترکہ گشت بحیرہ بیرنگ، شمالی بحرالکاہل،آرکٹک، پیسیفک اورشمال مغربی بحرالکاحل میں پھیل گیا۔پیپلزلبریشن آرمی نیوی نے چینی عسکری سفارت کاری میں تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے اوراب یہ اس حوالے سے پیپلزلبریشن آرمی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

گشت اورتربیت کے علاوہ،چینی بحریہ نے پورٹ کالزاورمیڈیکل مشنزکے ذریعے خیرسگالی کی کوششوں کووسعت دی ہے۔اپنے میڈیکل سہولیات فراہم کرنے والے جہازوں کے ذریعے مفت صحت کی دیکھ بھال کی پیشکش کی ہے۔اکتوبر2024تک،اس نے22 پورٹ کالزاور12میڈیکل وزٹ مکمل کیے،2023میں17پورٹ کالزاورآٹھ میڈیکل وزٹس کیے گئے۔خلیج عدن میں نیوی کے مشنز نے اپنی خیرسگالی کی سرگرمیوں کومزیدبڑھایا ہے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیاہے اورچین کے ترقیاتی مفادات کاتحفظ کیاہے۔ عام طورپرچینی بحریہ اپنے سمندری راستوں کوقزاقی سے بچانے اوربین الاقوامی جہازرانی کی حفاظت کویقینی بنانے کیلئے حفاظتی مشن کے تین بیڑے بھیجتی ہے لیکن2024میں خلیج عدن میں صرف ایک مشن تعینات کیاگیا تھاجسے تجزیہ کارچینی بحریہ کے آپریشنل تبدیلی کے طورپردیکھتے ہیں۔

یہ حکمت عملی کسی بحری بیڑے کوطویل عرصے تک خطے میں رہنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے اوراسے ملک جبوتی میں موجوداس کے اڈے سے لاجسٹک مددبھی ملتی ہے۔چین عالمی طورپراپنی سافٹ پاوربڑھانے کیلئے ملک میں کانفرنسز،فورمز، کھیلوں کی سرگرمیاں،ایئرشوز،پریڈزاوردفاعی نمائشوں سمیت متعدد فوجی تقریبات کی میزبانی کرتارہاہے اور2023کے مقابلے میں 2024میں ان میں اضافہ دیکھنے کومل رہاہے۔ان میں سے چین نے 2023میں7/اوراکتوبر2024میں تقریبات کی میزبانی کی۔ چین نے 18بین الاقوامی ایونٹس میں فوجی نمائندے بھیجے ۔ان میں3دفاعی نمائشیں اور5فضائی شوشامل تھے،جوبنیادی طورپر ایشیا،اوشیانا،مشرق وسطیٰ اورافریقامیں منعقدکیے گئے تھے۔

اگرچہ چین کایہ دعویٰ ہے کہ اس نے غربت کاخاتمہ کردیاہے مگرملک بھرمیں لاکھوں مزدوراورفیکٹری ورکرز،جنہوں نے چین کے عروج میں حصہ ڈالا،پریشان ہیں کہ اب آگے کیاہونے والاہے۔اس کامستقبل اورچین کی معیشت کامستقبل جزوی طورپراس بات پرمنحصرہوسکتاہے کہ ٹرمپ چینی اشیاپراپنے ٹیرف کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ عالمی ماہرین کے مطابق اس باربیجنگ(ہر طرح کی صورتحال کیلئے)تیارہے۔چین نے پہلے ہی اپنے زرعی درآمدات کے ذرائع کومتنوع بناناشروع کردیاہے(خاص طورپربرازیل،ارجنٹائن اورروس سے)اور غیر امریکی اتحادی ممالک میں اپنی برآمدات کے حجم میں اضافہ کیاہے۔مقامی طورپرحالیہ مقامی حکومت کے قرضوں کی دوبارہ سرمایہ کاری بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ممکنہ تجارتی جنگ پرمنفی اثرات کودورکرنے کی راہ ہموارکررہی ہے۔بیجنگ کوایک اورامیدبھی ہوسکتی ہے۔ارب پتی ایلون مسک اب ٹرمپ کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں۔ان کی کمپنی ٹیسلاچین پر انحصارکرتی ہے۔ اس کی تمام الیکٹرانک گاڑیاں”ای ویز”کاتقریباًنصف حصہ چین میں تیارہوتاہے۔چینی رہنمااس پرغورکرسکتے ہیں کہ کیاایلون مسک ٹرمپ کے تجارتی عزم میں فرق ڈال سکتے ہیں۔

لیکن21ویں صدی کی عظیم طاقت کی جدوجہدصرف تجارت پرنہیں ہے۔صدرشی کے خواب میں چین کودنیاکی غالب طاقت بنانابھی شامل ہے۔کچھ ماہرین کاخیال ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ٹرمپ کاایک اوردورِصدارت بیجنگ کوایک موقع فراہم کرسکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں