“سالگرہ”

:Share

آج میرے پاکستان کی72ویں سالگرہ ہے،مجھے اس کی دوستی پرفخرہے۔جب میں اس کے ہمراہ ہوتاہوں تومجھے ایک گونہ اطمینان ہوتاہے۔پاکستان کی ایک بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ اس کوجوساتھی ملے،اس کے خلوص،اس کی محبت،اس کی ہمدردی،اس کی وسیع القلبی کابے جااستعمال کرتے رہے۔پاکستان یہ سب چکرسمجھتاتھامگراپنی طبعی شرافت کی وجہ سے اس نے یہ سارے معاملات اللہ پرچھوڑرکھے تھے۔جب میں اپنے گھرسے باہرنکلاتومیں نے جگہ جگہ اجتماعات دیکھے جس میں مقررحضرات پاکستان سے اپنی دوستی اورمحبت میں ایک دوسرے سے بڑھ کررطب اللسان تھے۔میں ایک جلسے سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے میں پاکستان کوتلاش کرتارہامگرایسالگتاتھاکہ شائد وہ اپنی اس سالگرہ کی تیاریوں میں نہ توشریک ہوناچاہتاہے اور نہ دوسروں کوشریک ہونے دیناچاہتاہے۔

ان پریشان کن خیالات کولیکرمیں نے گلی گلی اس کوڈھونڈناشروع کیا،جیسے جیسے میری تلاش بڑھتی گئی،میری امید کمزورپڑتی گئی اوروقت بھی تنگ ہوتاچلا گیا۔مجھے یہ بھی فکرلاحق تھی کہ شام کوبچوں نے بھی پاکستان سے مل کرمبارکباد دیناتھی،اگرمجھے پاکستان نہ ملا تومیں اپنے بچوں کوکیاجواب دوں گا،ویسے بھی بچے پاکستان سے میری دوستی کوایک خواب ہی سمجھے تھے اورمیں نے بڑے وثوق سے ان کویقین دلایاتھاکہ میں تم کوبتاؤں گاکہ میں اورپاکستان کتنے اچھے دوست اورساتھی ہیں۔اچانک خیال آیاکہ پاکستان جب گھبراتاہے یاکسی بات پراس کوصدمہ ہوتاہے تووہ ایک ہی جگہ ملتاہے۔یہ خیال آتے ہی میں الٹے پاؤں بھاگتاہواگھرآیااوراپنے بچوں،پوتوں کوساتھ لیکرقائدکے مزارکی طرف روانہ ہوگیا۔ بابائے قوم کے مزارکے احاطے میں آیاتوکیا دیکھتا ہوں کہ پاکستان باباکی قبر سے لپٹاہچکیاں لے رہاہے۔

قدموں کی آہٹ پرپاکستان نے اپناچہرہ قبرسے الگ کیااوراپنی سوجھی ہوئی آنکھوں سے میری طرف لپکا۔میں نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ پھیلائے،بغل گیر ہوتے ہی میں نے پوچھاکہ پاکستان تم اپنی سالگرہ کے جلسوں میں کیوں نہیں تھے؟اس نے مجھے فوراًاپنے سے الگ کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے میراکندھاپکڑکر زورسے جھٹکادیاکہ تم بھی مجھے یہی کہنے کیلئے آئے ہو؟ کیاکوئی اپنی سالگرہ اس منافقت سے مناسکتاہے؟میں نے کہا کہ میں تمہاری بات نہیں سمجھا ،اس پر پاکستان نے مجھے یہ کہا کہ کیامجھے میرے باپ نے اسی لئے جنم دیاتھا کہ یہاں قتل وغارتگری خون خرابہ ہو،رشوت،چوربازاری ہو،امتحانوں میں نقل اورغنڈ ہ گردی ہو،ہزاروں میل دورسے وہی استعمارآکرتم پرحکم چلائیں جن سے میں تمہیں باوقاراندازمیں آزاد کرواکے گیاتھا، میری تصویرکواپنی پشت پرلٹکاکرمیرے سامنے میری غیرت کوسرِعام نیلام کیاجائے اورتم سب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کرکسی مصلحت کی بناءپراف تک نہ کرو،حتیٰ کہ دنیا کی تمام برائیوں کواپنے ہاں رائج کرکے خودکوترقی یافتہ سمجھو؟؟؟؟؟

میں جب ایک سال اورکچھ دن کاتھاتومجھ سے میرے بابابچھڑگئے،اس یتیم کوپالنے کیلئے میرے چچاؤں نے بھرپورکردار اداکیا اورآہستہ آہستہ وہ لوگ بھی مجھ سے بچھڑگئے۔ایک پھوپھی تھی جومیری غمخواراور ہمدردتھی،باپ کی کمی جب مجھے محسوس ہوتی تومیں ان کی گودمیں سررکھ دیتااوربے انتہاسکون پاتا۔ افسوس وہ بھی مجھ سے جداہوگئیں،میں غیروں کے رحم وکرم پرآگیا، جوچچااوررشتہ دارکروڑپتی تھے، نواب تھے،صاحبِ حیثیت تھے،انہوں نے اپنا تمام دھن مجھ پرلٹادیااورمرتے وقت ان کی زبان سے میرے لئے دعائے خیرکے کلمات ہی نکلے کہ اے اللہ! پاکستان کی حفاظت کرنا(آمین)۔اب تم خودہی بتاؤ کیاوہ لوگ عظیم تھے جنہوں نے ایک یتیم کی پرورش کرنے کیلئے اپنی جان ومال داؤپرلگادیئے یاوہ لوگ عظیم ہیں جو میری جائیداد،میری دولت کولوٹتے رہے اوراپنے ناموں اوراپنی اولادوں کے نام منتقل کرتے رہے اورپھر ڈھٹائی دیکھو کہ اس یتیم کو بجائے سنوارنے اوربنانے کے ایک بازو سے بھی محروم کردیااورپھربھی میری محبت کاجھوٹا دم بھرتے ہیں۔اب تم خودہی بتاؤکیا میں ان کی محفلوں میں شریک ہوسکتاہوں؟

میں نے کہادیکھومیرے ساتھ میرے بچے اورمیرے پوتے بھی آئے ہیں اورمیں بڑے فخرسے اپنی اور تمہاری دوستی کے متعلق بتاتاہوں تویہ مانتے نہیں۔پاکستان نے اپنے بازومیرے بچوں اورپوتوں پررکھے اور کہااے بچو!تمہارے اورتمہارے ابو جیسے لوگ مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں اورانہی جیسے لوگوں کی وجہ سے میں اب تک مملکتِ خداداد ہوں ورنہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں کاشکارہوکرکب کاختم ہوگیا ہوتا۔ مجھے آج بھی یادہے جب تمہاراباپ میراایک بازو کٹ جانے کی خبرسن کرزمین پرگرگیاتھاتواس کے سرپر ایک چوٹ آئی تھی تومیرے ہی دوسرے سلامت مگرزخمی ہاتھ نے اس کوسہارا دیکر زمین سے اٹھایااوراس کے زخم پراپنی محبت کامرہم رکھااوریہ احساس اسی وقت پیداہوتاہے جب کسی کیلئے زندگی جیسی قیمتی چیزبھی قربان کردی جائے ۔وہ لوگ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں جوایمانداری،وفاداری اورخلوص کے ساتھ میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں اورکسی قسم کاصلہ نہیں چاہتے۔
پاکستان نے ان کومسرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ بچو!میری خدمت یامجھ سے محبت کے اوربھی بے شمار اندازہیں جومیں تم کوبتاناچاہتاہوں۔قانون کی پاسداری کرنا،اپنے اختیارات کاناجا ئز استعمال نہیں کرنااورمظلوموں کے حقوق دلانا،یہ بھی مجھ سے محبت کے اندازہیں۔اپنے کام کوتندہی سے کرنا،میرے بابا کے فرمان”ایمان،اتحاد،تنظیم”کی پاسداری کرنااورجس منصب پرفائزہواس کوایمانداری سے انجام دینابھی میری محبت ہے۔میری پوتی نے کہا کہ پاکستان!میں نے آج صبح اسکول میں آپ کے باباکے احسانات پرتقریرکی تھی اورمجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہواکہ میں جب تقریرکررہی تھی تواسٹیج پربیٹھے بزرگ بجائے میری بات سننے کے باتوں میں مشغول ہوگئے اورمیری تقریرکے بعدجب یہ اعلان ہواکہ اب ان کی خدمت میں ایک گانااوررقص پیش کیاجائے گاتووہ خوشی کے مارے اپنی اپنی کر سیوں سے اٹھ کرکھڑے ہوگئے اور مسلسل تالیوں کے ساتھ وہ زمین پرپاؤں مارنے لگے۔

پاکستان نے سردآہ بھری اورمیری پوتی کے سرپراپناکانپتاہاتھ رکھ کرکہابیٹی!تم صحیح کہہ رہی ہو،ہمارے بڑوں نے اپنے مقصدِ حیات کارخ صحیح راہ پرنہیں ڈالا جس کے نتیجے میں ہم اپناتمدن اورثقافت،آداب واطوارفراموش کربیٹھے،پھرپاکستان نے کہا بیٹا!یہ میرے باباکی عظمت ہے کہ آزادی کی جنگ میں جہاں لاکھوں افرادقربان ہوتے ہیں انہوں نے ایک گولی چلائے بغیر اور ایک قطرہ خوں بہائے بغیراتنی بڑی اسلامی مملکت وجود میں لے آئے،یہ الگ بات ہے کہ فرنگی اور ہندوبنئے کی سازشوں نے میرے ہزاروں بچوں کوہجرت کرتے ہوئے کاٹ دیالیکن اس کے باوجودوہ جب مجھ سے ملے توان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوتھے ۔پھرپاکستان نے میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہابیٹا!تم ڈاکٹرہومگرتمہارایہ علم اورپیشہ تمہارے لئے دولت کمانے کاذریعہ نہ بنے بلکہ تمہارے ساتھیوں اوردوسرے شہریوں کیلئے باعثِ خدمت ہو،یہی تمہاری محبت کااظہار ہوگا۔ پھرننھے معصوم پوتے کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ یہ عمرمعصومیت کی ہے اور اسکی معصومیت کوبچانااوراس کی حفاظت کرنایہ تم بڑوں کاکام ہے۔یہ ابن الوقت لوگ جواس وقت میرے نام کی بیساکھی لیکرسیاسی میدان میں اونچااڑناچاہتے ہیں ، وہ زیادہ عرصے تک پنپ نہیں پائیں گے۔

بچو!میں تمہیں آج ایک رازکی بات بتاتا ہوں کہ تمہارے ابواورداداکی محبت جووہ مجھ سے کرتے ہیں،ایک عجیب سی محبت ہے۔یہ دنیامیں جہاں جہاں بھی گئے میرے نام کوبلندہی کرتے رہے،ایک بات اوربتا دوں کہ آج صبح تمہارے ابونے اپنے تمام ساتھیوں کوکانفرنس روم میں جمع کیااورمیرے بھائی اقبال کی لکھی ایک نظم”لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنامیری” سب نے مل کرپڑھی،پھرہرایک نے باری باری میری تاریخِ آزادی اورلوگوں کی مجھ سے عقیدت اورمحبت کے اظہار کیا۔محبت کایہ اظہارکسی کے زور،کسی زبردستی،کسی لالچ کے بغیرتھا،سب ساتھیوں کے چہروں پرجذبات کی حرارت،آنکھوں میں فرطِ محبت سے امڈے ہوئے آنسواورکپکپاتے ہوئے لب اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ یہ اوران جیسے بے شمارلوگ اب بھی مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں توبچو!تم بھی اپنے ابواوران کے ساتھیوں جیسے بنوکیونکہ تم ہی سے ان کی کل اورمیری نئی صبح وابستہ ہے۔ پاکستان کی آوازگلوگیرتھی اوروہ خاموش کھڑااپنے باپ سے کہہ رہا تھا!

“بابا!تم نے میراایک تشخص بنایا،تمہارے ساتھیوں نے اس میں رنگ بھرااورکچھ نادانوں نے اس رنگ کواپنی حماقتوں سے مٹانے کی کوشش کی مگراب بھی بہت سے لوگ میری محبت میں تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیارہیں اورمجھے امیدہے میرانام ،میری شناخت انشاء اللہ ختم نہیں ہوسکتی!پھرپاکستان نے اپنا آنسوؤں سے ترچہرہ اٹھایا،میرااورمیرے بچوں کاہاتھ پکڑا،ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرپاکستان پائندہ باداورقائداعظم زندہ بادکے پرجوش نعرے لگائے،قومی ترانہ پڑھ کرمزارسے باہرآئے۔سب نے باری باری پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملایااور تجدیدِ عہدکرکے ہم لوگ اپنے گھر کو واپس ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں