Beggar

گداگر

:Share

ایک بزرگ نے نصیحت کی، تمہارے سامنے کوئی ہاتھ پھیلائے تو یہ ہاتھ خالی نہ جانے دو۔حضور اکرم ﷺ نے تو یہ بھی فرمایاکہ پاس کچھ نہ ہو تو مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے،اور پھر بات ان مانگنے والوں کی شروع ہوئی جو پیشہ ور گداگر ہیں یا صحت مند اور تندرست و توانا ہیں مگر گلیوں بازاروں میں مانگتے پھرتے ہیں۔پیشہ ور گداگروں کے بارے میں کون نہیں جانتاکہ کچھ لوگ ان کا کاروبار بھی کرتے ہیں اور کچھ مانگنے والے جعلی معذور بن جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی کیا بھی ہو ،اس کا صرف پھیلا ہوا ہاتھ دیکھو اور اسے خالی واپس نہ جانے دو۔ ایسی بحث مت کرو کہ ہٹے کٹے ہو،نوکری مزدوری کیوں نہیں کرتے۔تم نہیں جانتے کہ اس صحت مندی کے باوجود اس کی کیا مجبوری ہے ۔اس کو اللہ تعالی پر چھوڑ دو اور تم اپنا فرض ادا کردو۔

یہ بات جب میں نے ایک صاحب سے کہی کہ کیا تم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہیں جو خدا نے دے رکھا ہے تم اس کے حق دار ہو؟ ہماری حالت تو یہ ہے کہ دن رات خدا کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں،زبانی کلامی ایمان لاتے ہیں مگر عمل اس کے مطابق نہیں کرتے ۔ہماری حالت تو اس ملازم جیسی ہے جو مالک کے ہر حکم پر حاضر جناب تو کہے مگر اسکے حکم کو بجا نہ لائے!زبان سے خدا کو رازق تسلیم کرتے ہیں مگر در حقیقت اپنی کوششوں کواپنا رازق سمجھتے ہیں،نوکری کو،کاروبار کویا کسی دوسرے قسم کے معاشی حربے کو۔ربِّ کریم نے جو صفات اپنی ذاتِ برتر کیلئے مخصوص کر رکھی ہیں،وہ ہم اپنے رویّے میں پیدا کرکے اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں جو ناقابلِ معافی ہے۔

افسوس کہ خدا کے مجبور بندوں سے بحث کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا خدا ہماری کتنی ہی کوتاہیوں سے درگزر کرکے ہمیں روزی دیتا ہے اور اس دنیا کے عیش کراتا ہے۔کیا ہم اللہ کے ان بندوں میں شامل ہیں جو ایک وقت کی روٹی جتنی بھی اطاعت کرتے ہیں؟کیا ہم کسی عمل کے معاوضے میں اپنا کچھ حق جتا سکتے ہیں؟کیا ہم اپنے رب کی اتنی مزدوری کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کچھ موجود ہے اس کو جائز قرار دے سکیں؟سچی بات تو یہ ہے کہ صبح جب ناشتہ کرنے لگتا ہوں تو کبھی یہ سوچتا ہوں کہ مجھے یہ کیوں مل رہا ہے؟میری ضرورت کے مطابق سب کچھ موجود ہے مگر کس عمل اور کس محنت کے عوض میں!مجھے اپنے لیل و نہار میں کوئی ایسا عمل دکھا ئی نہیں دیتا کہ میں ایک لقمے کا حقدار بھی کہلا سکوں ۔ ہم ایک بے دین اور عملاً خدا کے منکروںکی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں کپڑے کے دوکانداروں کے گز چھوٹے ہیں،ناپ تول کے دوسرے پیمانے بھی معیار کے مطابق نہیں۔شائد ہی کوئی ایسا پٹرول پمپ ہو جس کے میٹر درست ہوں اور تیل خالص ہو۔عام خیال تھاکہ موٹر وے کے پٹرول پمپ درست ہوتے ہیں،میں گاؤں جاتے ہوئے انہی پٹرول پمپوں سے تیل لیتا تھا۔لیکن ایک دن یہ خبر چھپی کہ یہاں کے کئی پٹرول پمپوں کی جانچ پڑتال کی گئی تو ان میں سے آدھے سے زیادہ غلط نکلے۔ایک مستند حدیث ہے جو قوم ناپ تول میں بد دیانتی کرتی ہے اس کا رزق روک لیا جاتا ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ ایک قوم پر عذاب اسی لئے نازل ہوا ،اور وہ ناپ تول میں بدعنوانی کی سزا میں تباہ و برباد کر دی گئی مگر عبرت کون پکڑے؟ ہمارے ہاں جن کو اس ملک کے خزانے کا امین ہونا چاہئے تھا وہ کروڑوں اربوں ملک و قوم کا لوٹ کر اپنے بیرونی بینک اکاؤنٹس میں محفوظ کر لیتے ہیں اور ایک این آر او کے طفیل پھر سے اس ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ملکی آئین میں اسلام کے بارے میں شقیں موجود ہیں مگر ہمارے حکمران آج تک سیکولر رہے ہیں اورسیکولرازم میں ملک کی نجات سمجھتے ہیں۔دنیا کے سیکولر لیڈرہمارے آئیڈل ہیں اورسود جو خدا اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ ہے،اسے ہم نے جائز قرار دے رکھا ہے اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔یعنی ہم اپنے آپ کو خدا اور اس کے رسول سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں۔ العیاذ باللہ

ہمارے معاشرے میں گداگری نہ صرف ضرورت بلکہ پیشہ بن چکاہے، پیشہ وربھکاری میدان میں آگئے ہیں وہ گداگرجو کبھی مساجد کے باہریا بازار جانے پرایک طرف سرجھکائے بیٹھے نظرآتے تھے اب وہ ہرگلی ہر محلے ہربازاروسڑک پرعام نظر آتے ہیں نہ صرف نظرآتے ہیں بلکہ بھیک مانگنے کیلئے پیروں میں بھی گرپڑتے ہیں۔وہ فقیر جوکبھی اللہ کے نام پرہاتھ اٹھائے راستوں سے گزراکرتے تھے اب ان کی جگہ پیشہ وربھکاریوں نے لے لی ہے جوہربندے کوپکڑکر،راستہ روک کر، دروازہ کھٹکھٹاکربھیک وصولنے کوحق سمجھنے لگے ہیں۔اکثرتویہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ کم بھیک ملنے پر بھکاری آپ کو صلوٰتیں سناکرنکل جاتے ہیں۔

گداگروں کوگلی محلے سڑکوں یابازاروں میں دیکھنامعمول کی بات ہے۔ اب توہم انہیں نظر اندازکرنابھی سیکھ گئے ہیں۔آج کے دورمیں وہی پیشہ وربھکاری کامیاب ہیں جوکبھی ہاتھ توکبھی دوپٹہ پکڑکربھیک مانگتے ہیں باقی جوکسی کونے کھدرے میں بیٹھاضرورت مندہے وہ ہماری عنایتوں سے محروم رہ جاتاہے۔اس کی مددتودور ہم اس پرنگاہ بھی نہیں ڈالتے۔بھکاریوں میں کئی قسمیں ہیں جنہیں ہم معمولی تصورکرتے ہیں وہ قطعی معمولی نہیں یہ ایک شرم کا مقام ہے اسلامی ریاست کیلئے،اس کے حکمرانوں کیلئے کہ ان کے دورحکومت میں گداگری اس قدرعروج پرہے۔یہ غریبی کوظاہرنہیں کرتی نہ یہ بےروزگاری کوظاہرکرتی ہے بلکہ یہ تووطنِ عزیزکے حکمرانوں کی نااہلی کامنہ بولتاثبوت ہے جس پرکسی کادھیان اس اندازمیں نہیں پڑتاجیسے کہ پڑنا چاہئے،ہمارے حکمران اپنی آرام گاہوں سے نکلتے ہیں توزیادہ ترٹی وی پرآنے کیلئے،باقی کوئی دلچسپی انہیں پاکستان یااس کے مسائل کوحل کرنے میں تونظرنہیں آتی۔

بات گداگر کی ہو رہی تھی اور آپ کو معلوم نہیں کہ کوئی کیوں گداگر ہے؟ ایک عورت کیوں طوائف ہے؟ہم عورت کو طوائف بناتے ہیں،لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر اسے گرفتار کر لیتے ہیں کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اس کی سزا سنگساری ہے۔میرے ایک دوست مجھے بتا رہے تھے کہ میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو مختلف ٹریفک لائٹس پرسہ پہر کے اخبارات ضرور خریدتا ہوں،مگر کسی کو پڑھتا نہیں۔خریدتا اس لئے ہوں کہ جو لڑکااخبار بیچ رہا ہے وہ اس کی محنت سے خوش ہو کر اس سے اخبار لے لیتے ہیں۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے ہاتھ کو خالی نہ جانے دیں۔کیا یہی کچھ کم ہے کہ وہ ہاتھ آپ کا نہیں،کسی دوسرے کا ہے،اور آپ دینے والے ہیں لینے والے نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں