گزشتہ برس سے جاری انسانیت سوزخونریزی ابھی جاری ہے کہ ایک مرتبہ پھرشام میں اچانک چھڑجانے والی جنگ نے قیامت برپاکردی ہے۔حلب میں تازہ حملے کے پیچھے ہئیت تحریرشام کاایک خاص منصوبہ کارفرمانظرآتاہے کہ اس وقت ایران اوراس کے تمام پراکسی گروپ اپنی بقاکی جنگ میں مصروف ہیں اورروس بھی یوکرین کی جنگ میں پھنساہواہےاوران تمام کی ان کمزوریوں کافائدہ اٹھانے کا یہی صحیح وقت ہے۔شام میں گزشتہ چند دنوں میں پیش آنے والے واقعات اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع تھم نہیں رہابلکہ شدت اختیارکررہاہے۔
2011کے بعدتقریباًایک دہائی کی جنگ کے باوجودشام کے حکمران بشارالاسداپنااقتداربچانے میں کامیاب رہے تھے اوراس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے والد سے ورثے میں ملنے والی حکومت کوبچانے کیلئےملک کوتوڑنے کیلئےتیارتھے۔انہوں نے روس، ایران اورلبنان کی حزب اللہ جیسے طاقتوراتحادیوں پرانحصارکیاجنہوں نے داعش سمیت امریکی اورمشرق وسطیٰ کے دیگرممالک کے حمایت یافتہ گروہوں سے نمٹنے میں شام کی مددکی لیکن پھرایران کواسرائیلی حملوں کاسامناکرناپڑاجبکہ حزب اللہ،جواپنے بہترین جنگجو شام میں لڑائی کیلئے بھیجاکرتی تھی،کوبھی اسرائیلی حملوں کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھاناپڑا۔روس نے گزشتہ چنددنوں میں شام میں باغیوں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں لیکن اس کی عسکری طاقت مکمل طورپریوکرین سے نبردآزما ہے ۔ایسے میں شام میں جاری جنگ مکمل طورپرختم نہیں ہوئی تھی،ہاں یہ ضرورہواکہ خطے اوربین الاقوامی تنازعوں کے بیچ شام کی خانہ جنگی شہ سرخیوں میں اپنی جگہ برقرارنہیں رکھ سکی۔چند مقامات پرجنگ معطل ہوئی لیکن یہ معاملہ ادھورارہا۔
بشارالاسدکی حکومت2011کی طرح سے مکمل طاقت پھرسے حاصل نہیں کرپائی اگرچہ اس کی جیلیں قیدیوں سے بھرچکی تھیں۔ لیکن چندروز قبل تک شام کے اہم شہراورمرکزی شاہراہیں بشارالاسدکے کنٹرول میں تھے لیکن ہیئت التحریرالشام نے27نومبرکے بعدترکی کی سرحدسے منسلک ادلب صوبے سے نکل کرچندہی دن میں شامی فوجیوں کوناقابلِ یقین شکست سے دوچارکرکےخطے کے دیگرممالک کوبھی حیران کردیاہے۔اس برق رفتارحملے کے دودن بعدہی حلب کے قدیم شہرسے جنگجووں کی تصاویرسامنے آنے لگی تھیں جو2012سے2015تک شامی فوج کا”ناقابل تسخیراڈہ”سمجھا جاتاتھا ۔اس وقت یہ شہرحکومتی فوج اورباغیوں کے درمیان لڑائی کامرکزتھا۔حلب پرقبضے اورشامی فوج کی شکست کے بعدماحول کافی پرسکون دکھائی دیا۔ سوشل میڈیاپرگردش کرنے والی ایک تصویرمیں یونیفارم میں ملبوس مسلح جنگجوایک فاسٹ فوڈریسٹورنٹ میں فرائیڈچکن کیلئے قطاریں بناکرانتظار کرتے دکھائی دیے۔
ہیئت التحریر الشام نے2016میں القاعدہ سے اپنی راہیں جداکرلی تھیں اورایساوقت بھی آیاجب ان دونوں کے بیچ لڑائی بھی ہوئی۔ ہیئت التحریرالشام کواقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سمیت امریکا،یورپی یونین،ترکی اوربرطانیہ نے”دہشتگرد”قراردے رکھاہے۔ اس کے سربراہ ابومحمدالجولانی عراق اورشام میں طویل تاریخ رکھتے ہیں۔حالیہ برسوں میں انہوں نے جہادی نظریے سے ہٹ کر زیادہ بڑے پیمانے پراپنے گروہ کوحمایت دلوانے کی کوشش کی ہے۔اب یہ گروہ اپنی زبان اوراعلانات میں اسلامی یاجہادی نظریات کے استعمال سے پرہیزکرتاہے۔ان کی کوشش ہے کہ اپنے ماضی سے دوری اختیار کرے اوراپنے حملے کوشامی حکومت کےخلاف مزاحمت کے طورپرپیش کرے۔واضح رہے کہ شام کے شہری شدت پسندانہ جہادی نظریات کوپسندنہیں کرتے ہیں۔2011میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعدجب جمہورپسند احتجاج کی قیادت جہادی گروہوں کے ہاتھ آگئی توبہت سے شامی شہری اس سے دورہوتے چلے گئے یاانہوں نے مجبوراًحکومت کاساتھ دیاکیونکہ انہیں داعش جیسی انتہاپسندانہ سوچ سے خوف آتاتھا۔
حالیہ حملہ،جس کی قیادت ہیئت التحریرکررہی ہے،شمالی شام کے سیاسی منظرنامے سے تعلق رکھتاہے۔شمال مغرب میں”شامی ڈیموکریٹک فورسز”کاغلبہ ہے جس کی سربراہی کردکررہے ہیں اورانہیں امریکاکی حمایت حاصل ہے۔اس علاقے میں900امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔اس تنازع میں ترکی بھی ایک بڑاکھلاڑی ہے جس نے سرحدوں پراپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں اورچند عسکری گروہوں کی حمایت بھی کرتاہے۔شام سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق ہیئت التحریرنے سرکاری ہیلی کاپٹروں سمیت عسکری سازوسامان کی وافرمقدارپربھی قبضہ کرلیاہے اوراب دمشق کے راستے پر اگلے اہم شہرحماکی جانب رخ کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی حکومت اوراس کے اتحادی فضائی طاقت سے جوابی کارروائی کریں گے۔باغیوں کے پاس ایئر فورس نہیں ہے۔تاہم ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ باغیوں نے ڈرون کی مددسے شام کے ایک سینئرانٹیلیجنس افسرکوماردیا ہے،ایسے میں شام کی صورت حال بین الاقوامی سطح پرخطرے کی گھنٹیاں بجارہی ہے۔شام میں باغیوں نے کئی سال بعدحکومتی افواج کے خلاف ایک بڑاحملہ کیاہے جس سے یہ تاثرزائل ہواکہ ان کی عسکری طاقت ختم ہوچکی تھی۔
ہیئت تحریرالشام کے غیرمتوقع حملے نے شام کے دوسرے بڑے شہر،حلب پرقبضہ کرتے ہوئے سرکاری فوج کوبے دخل ہونے پر مجبورکردیا۔اس حملے کاایک اورنتیجہ یہ نکلاکہ روس نے2016کے بعدشام میں پہلی بارفضائی کارروائیاں کیں جن میں حلب میں باغیوں کونشانہ بنایاگیا۔شام کی خانہ جنگی کے آغازکے14برس بعدایک بارپھرسے چھڑجانے والی جنگ نے ان خدشات کوجنم دیا ہے کہ یہ تنازع آسانی سے ختم ہونے والانہیں۔2018سے شام خانہ جنگی کی وجہ سے تین حصوں میں بٹ چکاہے۔ایک جانب بشار الاسدکی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے ہیں تودوسری جانب ہیئت تحریرجبکہ تیسرا علاقہ کردوں کے زیراثرہے لیکن وہ کیاوجوہات ہیں جن کے باعث شام میں خانہ جنگی کاخاتمہ مشکل ہے؟
شام ایک عالمی شطرنج بن چکاہے جہاں مخالف طاقتیں اپنے سٹریٹیجک مقاصدکے حصول میں مقامی اتحادیوں کی مددکررہی ہیں۔ ایک جانب بشارالاسد کی حکومت ہے جسے ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے تودوسری طرف وہ مسلح حزب مخالف گروہ ہیں جن کی پشت پناہی ترکی،سعودی عرب اور امریکا کررہے ہیں۔جیسے جیسے تنازع بڑھتاگیا،داعش اورالقاعدہ بھی میدان میں داخل ہو گئے اورعالمی خدشات بھی بڑھتے چلے گئے۔
شام کے کردشہری امریکی حمایت کی مددسے اپنی حکومت قائم کرنے کے خواہش مندہیں جس سے اس بحران کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتاہے۔روس اور ایران نے بشارالاسدکی حکومت کو برقراررکھنے میں کلیدی کرداراداکیاہے جبکہ ترکی شمال میں اپنی سرحد سے ملحقہ علاقوں کے نزدیک مسلح گروہوں کی مددکرتاآیاہے۔2020میں روس اورترکی نے ادلب میں جنگ بندی کامعاہدہ کروایااورمشترکہ پیٹرولنگ کیلئےایک سکیورٹی راہداری قائم کی۔اگرچہ اس معاہدے کے بعدبڑے پیمانے پرجھڑپیں ختم ہوگئی تھیں لیکن شام کی حکومت مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرپائی۔ایسے میں موجودہ صورتحال میں کمزورحکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیئت تحریرپھر متحرک ہوئی کیوںکہ بشارالاسدکے اہم حامی،روس اورایران،دیگرتنازعوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بشارالاسدکی حکومت کئی سال سے بیرونی سہاروں پربھاری انحصارکررہی تھی لیکن اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کوپہنچنے والے نقصان اوریوکرین میں روس کی توجہ کی وجہ سے شام کی حکومت تنہارہ گئی تھی اوریہی موقع تھاجب ہیئت تحریرنے اچانک حملہ کیااورعلاقوں پرقبضہ کرناشروع کیا۔تاہم جنگ دوبارہ شروع ہونے کی وجہ شمال میں مقامی عدم استحکام ہے جوحل نہیں ہوسکااورساتھ ہی بیرونی امدادکی کمی ہے جس پربشارالاسدکا انحصار تھا۔
کئی سال کی خانہ جنگی نے شام کوتباہ حال کردیاہے،معیشت کابراحال ہے اورلاکھوں لوگ متاثرہوئے ہیں۔ایسے میں بحالی کا راستہ بھی واضح نہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق جنگ سے قبل شام کی آبادی دوکروڑ20لاکھ تھی جس کا نصف بے گھرہوچکاہے۔ تقریباً20لاکھ لوگ اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم کیمپوں میں زندگی بسرکررہے ہیں۔60لاکھ ملک چھوڑکر لبنان ،اردن اور ترکی جاچکے ہیں۔صرف ترکی میں50لاکھ سے زیادہ شامی شہری بطور پناہ گزین موجودہیں۔ان حالات میں جبکہ صورتحال بھی غیرواضح ہے اوربہت سے مقامات پرلڑائی جاری ہے،اس لئے یہ خدشہ بڑھ گیاہے کہ جنگ سے متاثرہ افرادبھی ان کیمپوں کارخ کریں گے جہاں پہلے ہی20لاکھ افرادموجودہیں،وہاں اب مزیدلوگوں کی گنجائش نہیں ہے۔
موجودہ لڑائی سے قبل شام میں تقریباًایک کروڑ50لاکھ سے زیادہ لوگوں کوانسانی امدادکی ضرورت تھی جوکہ ایک بڑی تعدادہے۔ ایک کروڑ20لاکھ افرادکوغذائی قلت کاسامناتھا فروری2023 میں ترکی اورشام میں آنے والے زلزلے نے حالات مزیدبگاڑدیے تھے۔ شام میں تقریباً6 ہزارلوگ ہلاک ہوئے اور80لاکھ سے زیادہ متاثرہوئے تھے۔
بشارالاسدکی حکومت اقتداربرقراررکھنے کیلئےتشدداورجبرپرانحصارکرتی آئی ہے جس سے نہ صرف تنازع طول پکڑتاچلاگیا بلکہ ان کے خلاف عوام میں غصہ بھی بڑھتاگیا۔2021کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال، گنجان آبادآبادیوں پرفضائی حملوں سمیت ایسی حکمت عملی کے شواہدموجودہیں جن میں عام شہریوں کوخوراک سے محروم رکھنے کے مقصدسے باغیوں کے زیراثرعلاقوں کاگھیراؤکیاگیااورانسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔یورپین کونسل آن فارن ریلیشنزکے مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقاپروگرام کے مطابق”آمرانہ طرزِحکومت اس تنازع میں مرکزی کردارکاحامل ہے کیوںکہ بشارالاسد حکومت نے تسلسل سے سمجھوتہ کرنے یاشراکت اقتدارسے انکارکیاہے”۔2020تک،اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق3لاکھ سے زیادہ عام شہری عسکری کارروائیوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے تھے جبکہ اس سے بڑی تعدادمیں بھوک، بیماری اورصحت کی بنیادی سہولیات سے محرومی کاشکار تھے ۔رائل یونائیٹڈسروسزانسٹیٹیوٹ کے مطابق شامی حکومت اچھی گورنس سے زیادہ اپنے دوام پرتوجہ دیے ہوئے ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شام میں جاری تنازع میں سیاسی اختلافات کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تفریق بھی کارفرماہے۔جنگ کے ابتدائی دنوں سے کُرد اکثریتی علاقوں پرحکومت کاکنٹرول نہیں ہے جبکہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے بچ جانے والے جنگجوشام کے وسیع صحراؤں میں اب بھی موجودہیں اورلوگوں کیلئےخطرے کاباعث ہیں۔ملک کے شمال مشرقی صوبے ادلب عسکری تنظیموں کاگڑھ بن چکاہے جن کی قیادت صوبے کی حکمران ہیئت تحریرکررہی ہے۔اس وقت ان تنظیموں کی آپسی لڑائی نے صورتحال کومزید مشکل بنادیاہے۔
ترک حمایتی گروپ سمیت کئی گروہوں کی ایس ڈی ایف سے جھرپیں ہوتی آئی ہیں۔ایس ڈی ایف میں کردش گروپ وائے پی جی کے جنگجو شامل ہیں جنہیں ترکی شدت پسند تنظیم کہتاآیا ہے۔ہیئت تحریرکی حالیہ کارروائیوں کے شروع ہونے کے کچھ ہی روز بعدترک حمایت یافتہ فری شامی آرمی نے دعویٰ کیاکہ اس نے حلب کے مضافاتی علاقوں پرقبضہ کرلیاہےتاہم یہ علاقے بشار الاسد کی فوج کے کنٹرول میں نہیں تھے بلکہ یہاں ایس ڈی ایف قابض تھی جس سے ان تنظیموں کے درمیان موجود اختلافات واضح ہوتے ہیں۔
ادھردوسری طرف شام میں باغی فورسزنے ملک کے دوسرے بڑے شہرحلب کے”اکثریتی”علاقے پرقبضہ کرلیاہے۔2016کے بعدگزشتہ ہفتہ کی شام روس نے پہلی مرتبہ حلب پر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔شامی ادارے کاکہناتھاکہ ملک میں حالیہ شروع ہونے والی لڑائیوں میں اب تک20عام شہریوں سمیت300سے زیادہ افرادہلاک ہوگئے ہیں۔2016میں بشار الاسدکی افواج نے حلب سے باغیوں کوعلاقہ بدرکردیاتھااوراس کے بعدسے یہاں پرکوئی بڑاحملہ نہیں ہواتھا۔اب شامی فوج نے تصدیق کی ہے کہ باغی شہرکے “بڑے حصے”میں داخل ہو گئے ہیں اوراس دوران درجنوں فوجی ہلاک اورزخمی بھی ہوئے ہیں۔شامی عسکری ذرائع کے مطابق حلب میں ایئرپورٹ جانے والے اورشہرکے اندرجانے والے تمام راستے بندکردیے گئے ہیں۔باغی کسی بھی بڑی مزاحمت کاسامناکیے بغیر”شہر کے اکثریتی علاقوں”میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔علاقے میں کوئی لڑائی دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ شام کی سرکاری افواج وہاں سے نکل گئی تھیں۔سٹی کونسل،پولیس سٹیشنزاورانٹیلیجنس دفاترسب بند ہیں۔ایساپہلے کبھی نہیں ہوا۔
2011میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے بعدشروع ہونے والی خانہ جنگی میں5لاکھ سے زیادہ افرادہلاک ہوئے تھے۔اس وقت بشارالاسدکے مخالفین نے اس خانہ جنگی کافائدہ اُٹھایاتھااورملک کے بڑے حصوں پرقبضہ کرلیاتھاتاہم بعدمیں شامی حکومت نے روس،ایران اوردیگر اتحادیوں کی مددسے تقریباًتمام علاقوں کاکنٹرول واپس لے لیاتھاصرف ادلب وہ واحدعلاقہ تھاجس کاکنٹرول ہیئت تحریرکے پاس تھا۔اس صوبے میں کچھ علاقوں میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجوبھی موجودہیں۔جمعے کوحلب میں روس نے23فضائی حملے کیے تھے۔روس کاکہناہے کہ اس نے شام میں”انتہا پسندقوتوں”پرحملہ کیاہے۔کریملن کے ترجمان کے مطابق روس”شام میں امن قائم رکھنے کیلئےحکومت”کی حمایت جاری رکھے گا۔
حلب شہرپرتازہ حملے ہیئت تحریرکی قیادت میں ہوئے ہیں جس کاشامی تنازع میں ایک عرصے سے کرداررہاہے۔ہیئت تحریرکا وجود2011میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیاتھا،جوکہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔داعش کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کابھی اس گروہ کوبنانے میں کردارتھا ۔اس گروہ کوشام میں بشارالاسدکاسب سے خطرناک ترین مخالف سمجھاجاتا تھا۔ 2016میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابومحمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کرلیااوراس تنظیم کوتحلیل کرکے دیگرگروہوں سے اتحادکرکے ہیئت تحریرکی بنیاد رکھ دی۔القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعدہیئت تحریرکا مقصد دنیامیں خلافت قائم کرنانہیں بلکہ شام میں مذہبی حکومت قائم کرناہےلیکن ہیئت تحریرکی اس کاروائی میں ایران اوراس کی پراکسیزکوبھی شددیددھچکا پہنچا ہے۔
گذشتہ4برسوں میں ایسالگ رہاتھاجیسے شام میں جنگ اب ختم ہوگئی ہے اوربشارالاسدکی حکومت ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔بشارالاسدکی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اوراہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا۔دوسری جانب ایران یہ ماننے کوتیارنہیں کہ حلب کاکنٹرول شامی حکومت کے ہاتھ سے چلاگیاہے۔ایرانی نیوزایجنسی کے مطابق لبنان میں ایرانی سفیرمجتبیٰ امانی کاکہناہے کہ حلب پردہشتگردوں کے قبضے”کی غلط افواہیں”سائبرآرمی”کی جانب سے پھیلائی جارہی ہیں۔اب شامی حکومت مضبوط ہے اورروسی حکومت بھی شام کادفاع کرنے کیلئےپُرعزم ہے۔مزاحمتی محاذ اورایران شامی حکومت اوراس کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔
لیکن دوسری جانب عرب میڈیاحلب میں باغی جنگجوؤں کی پیش قدمی کو”ایران کیلئےایک دھچکا”قراردے رہاہے۔”الشرق الاوسط کے مطابق شام میں باغیوں کی پیش قدمی روس اورشامی حکومت کے ساتھ ساتھ ایران کیلئےبھی ایک”دھچکا”ہے۔حلب اوردیگر علاقوں میں جاری تازہ لڑائیاں شام میں ایران اوردیگرغیرملکی طاقتوں کی مداخلت کانتیجہ ہیں۔ابھی یہ تحریرمکمل نہیں ہوئی تھی کہ خبرملی کہ مجاہدین دمشق میں داخل ہوگئے ہیں اورسرکاری ٹی وی اورریڈیو سے بشاالاسدکی حکومت کاتختہ الٹنےاورسیاسی قیدیوں کورہاکرنے کااعلان ہوگیاہے۔بظاہرتوایسالگتا ہے کہ شام میں بشارالاسدکی حکومت محض چنددنوں میں گرگئی لیکن یہ معاملہ اتناسادہ نہیں اوراس کے پیچھے کئی عوامل شامل ہیں۔سالوں سے اپنی ہی عوام کے خلاف جاری جنگ نے بشار الاسدکی فوج کوبہت کمزورکردیاتھا تاہم اس کے باوجود جتنی جلدی یہ ہوا،وہ بہت حیران کن ہے۔
شام کے تیسرے بڑے شہرحمص پرباغیوں کے قبضے کے کچھ ہی دیربعداطلاع آئی کہ مجاہدین دمشق میں داخل ہوگئے ہیں اوریہ خبرملتے ہی بشارالاسد ایک طیارے میں دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔ شامی انقلاب اوراپوزیشن فورسزکے قومی اتحاد کے سربراہ ہادی البحرا نے کہاہے کہ بشارالاسدکی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی “شام کے تاریک دور “کاخاتمہ ہوگیاہے۔انہوں نے عوام کویقین دلایاکہ دمشق میں صورتحال محفوظ ہے اورتمام افراداپنےگھروں میں بناکسی فرقہ وارانہ یامذہبی تفریق کے محفوظ ہیں،کسی کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی نہیں ہوگی۔
دمشق میں موجودتمام مجاہدین کوحکم دیاگیاہے کہ کوئی بھی عوامی اداروں میں داخل نہ ہواورہوائی فائرنگ پربھی پابندی عائد کردی ہے۔اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِاعظم محمدالجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔محمد الجلالی نے اعلان کیاہے کہ عوام جس کوبھی چنیں گے وہ اقتدار کی منتقلی کے کسی بھی طریقہ کار کیلئے تیارہیں۔یادرہے کہ سب سے زیادہ منظم اورطاقتور”ہیئت تحریر”انقلاب کی قیادت کررہی ہے۔ دیگر گروہوں کے مقابلے میں اس پرغیرملکی طاقتوں کااثرورسوخ بہت کم ہے۔دیگرگروپس ترکی کے زیرِاثرچل رہے ہیں۔ابھی یہ دیکھناباقی ہے کہ یہ گروپس موجودکرد گروہوں کے ساتھ کیسے ہم آہنگی برقراررکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے2015میں منظورہونے والی قراردار کے تحت امن کاایک منصوبہ پیش کیاگیاتھا۔اس کے مطابق یہ طے ہواتھاکہ شام کے لوگ ہی ملک کے مستقبل کافیصلہ کریں گے۔ آزادانہ انتخابات اورایک نیامنشورلایاجائے گالیکن اس قراردادپرعمل کرنے سے بشار الاسداوران کے خاندان کواقتدا چھوڑناپڑتالیکن بشارالاسداقتدارکی قربانی کیلئے تیارنہیں ہورہاتھالیکن آج وقت نے ثابت کردیاکہ بالآخرہزاروں بے گناہوں کی آہوں کوبھی منزل نے اپنی بانہوں میں لینے کافیصلہ کرلیاہے۔