تبدیلی کاسلسلہ توجاری وساری رہتاہے۔اسی کانام زمانہ ہے۔ پانی ٹھہرجائے توجوہڑبن جاتاہے۔چلتاہواپانی ہی صاف اور شفاف ہوتاہے۔قوم نے پہلی مرتبہ آپ کے وعدوں پر بھروسہ کیا لیکن آپ توازن ہی برقرارنہیں رکھ پائے۔ہروعدے سے یوٹرن لیکراسے سیاسی بالغ نظری کاثبوت سے تشبیہ دیکر “بس گھبرانانہیں”کی تسلیاں دیتے رہے۔جن حساس اداروں کی آبروکے آپ ضامن ہیں ،آپ کی آنکھوں کے سامنے سارادن ان کوبغیرکسی ثبوت کے رگیدا گیا۔ملک کے دشمنوں نے تو اس خبرپرگھی کے چراغ جلائے اورساری دنیامیں جگ ہنسائی ہوئی۔ آپ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی فرماتے ہیں لیکن اس ادارے پرجس طرح طنزاورتوہین کے تیربرسائے گئے، بشمول آپ کے کسی بھی حکومتی اہلکارنے اس کانوٹس تک نہیں لیابلکہ جلتی پر تیل کا کام تواس دن ہواجب حامدمیرچندصحافیوں کے گروہ کولیکرمنہ اورنتھنوں سے آگ نکال رہاتھا۔پہلی مرتبہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں حامدمیرکوتمام صحافیوں کے سامنےمخاطب کر تے ہوئے کہا”حامدمیر!آپ بتاتے کیوں نہیں کہ تم پرحملہ بلوچستان کے مینگل نے کروایاتھاجو انڈیاکے ایماء پرآئے دن ہماری فورسزپرحملوں میں ملوث ہے۔حامدمیرجواب تک اشاروں میں اس حملے کاذمہ دارفوج اورآئی ایس آئی کے سابق سربراہ ظہیرالاسلام پرتھوپتارہاہے،اس کے پاس شرمندگی کے سواکوئی چارہ کارنہیں رہا۔اب شنیدیہ ہے کہ چہروں سے نقاب نوچنے کی دہمکی دینے والاحامدمیر معافی مانگ کرمعاملہ کوٹھنڈاکرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ فوج اورآئی ایس آئی نے حامدمیرکی ان گیدڑبھبکی کودرخوراعتناء بھی نہیں سمجھا اوراس کاکوئی جواب نہیں دیا،بھلااس سے زیادہ ملک میں اورکتنی آزادی درکارہے؟
میں جب حامدمیرکی یہ زہریلی تقریرسن رہاتھاتومجھےقائداعظم کادوقومی نظریے کے متعلق وہ بیان شدت سے یادآیاجس میں انہوں نے بڑی صراحت سے فرمایاکہ”ہندواورمسلمان ایک دوسرے کی ضداورایک دوسرے سے متصادم ہیں،ایک قوم کاہیرودوسری قوم کادشمن ہے۔ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہے۔میرایقین آج مزیدمستحکم ہوگیاجب میں نے پاکستانی قوم کے ولن کوبھارت کاہیروبنتے دیکھا۔بھارت میں اس وقت 902 ٹی وی چینل میں سے403نیوزچینل ہیں اوران میں سے38چینلزپہ حامد میرکوبارباردکھایاجارہاہے جبکہ بھارت کے ٹاپ 10نیوزچینلزکے پرائم ٹائم میں جس کاایک منٹ ایک سے3لاکھ کے درمیان بکتاہے،نیوزاورکرنٹ افیئرپروگرام میں میزبان سے لیکرنیوزریڈرایک ہی دہائی دیتے ہوئے حامدمیرکی ہمدردی میں ہلکان ہورہے ہیں۔ساری قوم یہ سوچ رہی ہے کہ کسی صحافی کونکالنایانہ نکالناچینل کااندرونی مسئلہ ہے اس سے بھارت کوکیاتکلیف ہے؟؟؟کون ہے جس کوپاکستان میں اپنے لوکل اپریٹرسے پراپیگنڈہ چیئرچھن جانے کادکھ ہے۔بھارت کے کون سے مفادکوٹھیس پہنچی جوبھارت اتنے ایکسٹریم لیول تک چلاگیاکہ اسے حامد میرکیلئےاپنے ٹاپ میڈیاچینلزکاپرائم ٹائم خریدنے کیلئےاربوں روپیہ لگاناپڑگیا۔بھارت میں کس چینل سے کس صحافی کوکب نکالایارکھاگیاپاکستان میں کیابھارت میں بھی اس کاعلم کسی کونہیں ہوتا۔
بات صرف یہی تک محدودنہیں،حامدمیرکافیس بک پیج جوکہ ویری فائیڈپیج تھا،انڈیاسے رن کیاجارہاتھاجولوگ فیس بک یوزرزہیں وہ جانتے ہیں کہ فیس بک پیج ویرفائی کراناآسان کام نہیں،اس کیلئےآپ کواپنی شناخت کیلئےاپناآئی ڈی کارڈ،ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ سبمٹ کرواناہوتے ہیں۔جب سوشل میڈیاپہ ایک نوجوان نے حامدمیرکے فیس بک پیج پہ لوکیشن کی نشاندہی کی کہ اس کاایک ایڈمن حامد میراور دوسراانڈیاسے ہے اوراس کی وڈیوبناکرآپ لوڈکی توحامدمیرنے بھانڈاپھوٹ جانے پہ فوری طورپہ پیج سے انڈین ایڈمن کوریمووکیااورپیج ان پبلش کردیا،کیاابھی بھی کوئی گنجائش بچتی ہے کہ حامدمیر کہ پیچھے کون ہے؟؟؟حامدمیرنے بھانڈاپھوٹنے کے بعداس پیج سے لاعلمی کااظہارکردیا،حیرت ہے جوحامدمیر لوگوں کے گھروں کے اندرکے حالات جانتاہے وہ یہ نہیں جانتاتھاکہ اس نے پیج ویرفائی کروا رکھاہے جوانڈیاسے چلایاجارہاتھا، اگرحامدمیرکانہیں تھاتوانڈیاسے چلنےکی نشاندہی پرفوری ان پبلش کیوں کیاگیا؟؟؟
دنیامیں آئے روزدرجنوں صحافی پرتشددواقعات میں مارے جاتے ہیں لیکن کہیں سے آوازنہیں اٹھتی،کیاوجہ ہے کہ امریکا،برطانیہ اور بھارت کامیڈیا ذاتی چپقلش پہ پٹنے والے صحافی اسدطورکے معاملے کوجان بوجھ کرریاستی اداروں کے سرڈالنے والے حامدمیرکو خصوصی کوریج دے رہے ہیں۔ بھارت میں اس سال درجنوں صحافی بےدردی سے قتل ہوے ان میں سے چارصحافی زندہ جلادئیے گئے۔27نومبرکوراکیش سنگھ نیربھک کوکرپشن بے نقاب کرنے پراپنے ہی گھرکے اندرہینڈ سینیٹائزرکی مددسے زندہ جلاکرقتل کردیاگیاجبکہ تحقیقاتی صحافی جگندرسنگھ کولکھنومیں زندہ جلادیاگیا ان کے بچے آج بھی انصاف کی بھیک مانگتے ہیں۔بھارت میں قتل ہونے والے تمام صحافیوں کےذکرکیلئےدرجنوں صفحات درکارہوں گے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ان صحافیوں کیلئے بھارت امریکا،برطانیہ میں کیوں آوازنہیں اٹھائی گئی؟ کیاسی این این،بی بی سی اوعالمی میڈیااورانسانی حقوق کی تنظیموں کیلئےذاتی چپقلش پہ دوتھپڑکھانے والا اسدطور غازی اورزندہ جلائے جانے والے بھارتی صحافی مردارہیں؟؟
صحافتی تنظیم کے اعدادوشمارکے مطابق لاطینی امریکامیں پچھلےسال16صحافی قتل ہوئے،کیاانسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پہ احتجاج کیا؟ برطانیہ کے اخبار نیوز آف دی ورلڈکے سابق صحافی شین پراسراراندازمیں ہلاک ہوگئے،کیابھارت،امریکا،برطانیہ میں شور اٹھا؟بی بی سی کی اینکر/نیوزریڈرجِل وینڈی ڈانڈو برطانیہ میں قتل ہوئی،کیابی بی سی،سی این این اوربھارت کے403 چینلزنے صدابلندکی ۔پھرعالمی میڈیا ،صحافتی تنظیموں کوپاکستان کے ایک یوٹیوبرکے ساتھ اتنی ہمدردی کیونکرپیداہوگئی؟کیااسدطورکے پیچھے ان ممالک نے انوسٹمنٹ تونہیں کررکھی؟ ایک ایک سوال کابغورجائزہ لیجیے تویقیناًآپ پردے کے پیچھےکیاچل رہاہے،سب جان جائیں گے۔
ایوان اقتدارمیں سستانے والوں کویہ خبرہوکہ سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کا نام ہے۔اپنی عقل وفراست کے ساتھ اس کے بند مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کو بندکرنے میں کسی قسم کی مروت کا مظاہرہ نہیں کیاجاتا اوپر کی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اورنیچے؟کیااب بھی وہی ہم اور وہی غم ہوں گے ۔ چہرے بدلنے سے کبھی مقدر نہیں بدلتے ۔ تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات و جذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی، لوڈشیڈنگ اورسابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے ذکرپر انہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ تو پہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات وواقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آواز بھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔ اس کیلئےموجودہ سرکار کوعوام کیلئے ”کاروبار” کرنا ہوگا پھر کہیں جاکر ان کابازار چلے گا۔ ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہو جائیں۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں ، ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کا کیاپتہ ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تو وہ آنکھ بند کرنے سے ہی توبہ کر لیں۔ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیر سورہے ہوتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیرجاگتی رہتی ہے۔
بہت سے خواتین وحضرات کوآنکھوں کی”چہل قدمی” کابڑا شوق ہوتاہے،انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں ۔ اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگاجاتے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں ”نظراندازی” کرنے والوں کو اپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھنا چاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پر کیا گزرتی ہے۔ من کاویسے بھی دھن سے کیا رشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں، یہ بھرگیا توبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔ سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں۔ پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے اور اسلام آباد ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑا ہاتھ ہے ۔ کہاجارہاہے کہ بھارت سے جلد دوستی کی بیماری اب وباء کی شکل اختیارکر گئی ہے ۔ جب تک کشمیرکامسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کے لئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں، کاغذ کور اہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے اوراس کے بعدسمجھوتے ہی چلتے ہیں، جب تک جان ہے،جہان داری تو نبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔جیتنے والوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہار رہی ہے اورآپ ڈالرکوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہورہے ہیں۔آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ایک ماں نے اپنے معصوم بچوں سمیت خود کو ٹرین سے کٹواکر ہمارے سسٹم کو کاٹ کررکھ دیتی ہے ۔ہمارے یہاں توزندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتا،مرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔ ”امیر کا شہر” کاتواپنا یہ حال ہے:
امیرشہرغریبوں کاخیال کیاکرتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
صرف اگراپنی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے سخت فیصلے کریں گے تولوگوں کاری ایکشن بھی اسی طرح کاسخت ہوگا۔فیصلے توتاریخ میں کچھ اس قسم کے بھی رقم ہوئے ہیں۔ جب سکندر مرزاپشاورکے ڈپٹی کمشنر تھے توان دنوں وہاں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ایک جلوس نکالاگیا سکندرمرزا نے جلوس کو منتشر کرنے کے لئے پولیس تک طلب نہیں کی بلکہ اس کے راستے میں ٹھنڈے شربت کی سبیلیں لگائیں،گرمی کاموسم تھا ، جلوس کے شرکاء جی بھرکراپنی پیاس بجھاتے رہے۔ شربت میں جمال گوٹہ ملایاہواتھا۔ پھرایک روز جب ڈاکٹر خان صاحب وزیربن گئے تو سکندر مرزانے بیوروکریسی کونصیحت کی کہ ”ڈاکٹر صاحب کوخوش رکھنے کاخیال رکھاکرو، اس شخص نے ساری عمر جیل کی ہوا کھائی ہے یاپولیس کے ڈنڈے ،ہم اسے بڑی مشکل سے گھیرگھارکر حکومت میں لائے ہیں۔ اب اسے’’گڈلائف‘‘کاایساچسکا لگاؤکہ وہ اس پنجرے سے باہر نہ نکل سکے۔” سکندرمرزا کے ری پبلکن پارٹی کے خواب کی تعبیر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ہی ہوئی۔
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیر ہوئی۔ عوام نے موجودہ سرکار کوبڑی تمناؤں کے ساتھ چناہے ۔ صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،،عوام کے علم میں سب کچھ ہے، اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کو دئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔ انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔مگریہ بھی توسوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں۔اب اس بیمارسوچ کوذہن سے کھرچ کرنکالناہوگاکہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارافائدہ ہے۔سیلاب اورزلزلہ جھونپڑی اورمحلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ سرکارکادعویٰ ہے کہ پہلی بار پیارے پاکستان میں تبدیلی آئی ہے،گریہ واقعی پاکستان پہلے سے بہترہوگیا ہے، لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحرا تھا سمندر ہوگیا ہوں
صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتاجس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے ”تربتر” رہتی ہیں۔امیدکسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکوبارودکے ساتھ ساتھ ”نمرود” سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی توسمجھو کہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب بجٹ پیش کرکے میڈیاپراس طرح فتح کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں جیساکہ جلدہی شہداوردودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سننے کومل رہاہے کہ ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلے کرنے پڑے ہیں۔ اوپر تبدیلی آگئی ہے مگر نیچے اسی طرح کے سخت فیصلے ہوں گے؟ گستاخی معاف! اس کامطلب تویہ ہوا کہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔ اپنے اداروں کی توقیرکاخیال نہ کیاتوکل کلاں خودبھی بے آبرو ہونے میں دیرنہیں لگے گی۔