Are We All Strange?

عجیب ہیں ناں ہم سب!

:Share

میں بہت بولتا ہوں۔سب لوگ میرا منہ تکتے رہتے ہیں۔میں کسی کوموقع ہی نہیں دیتا کہ وہ بھی کوئی بات کرے۔ لوگوں کو گرفت میں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔میں یہ بھی نہیں دیکھتا کہ میرا مخالف کون ہے۔بڑا ہے،چھوٹا ہے،مرد ہے،عورت ہے،بچے ہیں،بس بلاتکان بولتارہتا ہوں۔ہاں میں نے بہت مرتبہ پڑھاہے “جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا”لیکن میں نے اس پرکبھی عمل نہیں کیا۔ شایدکر ہی نہیں سکتا۔خود پسندی اور اپنی فوں فاں میں مگن،اپنے خیالات کا اسیر اور اپنی چرب زبانی پر نازاں۔

ایک دن باباجی نے بھی کہا’’دیکھ پگلے تو بہت بولتاہے۔محفل کو دیکھ کر بات کیا کر۔جس نے دیکھا نہیں اُسے کیا دکھانا۔ہنسا کر، ہنسایا کر لیکن ہر بات ہر ایک سے نہیں کرنی۔دیکھ تو آنکھیں،کان کھلے اور اپنی زبان بند رکھ۔ تنہائی سے بات کر،محفل میں خاموش رہ ،اکیلے میں محفل سجا اور محفل میں تنہا ہو جا۔‘‘”واہ، واہ کیا بیکار سی بات کی آپ نے،اچھا، کوئی کام کی بات بتایا کریں۔خوامخواہ کی بات” میں نے انہیں خاموش کر دیا۔”او پگلے،تیرا اچھا بھی راہ پر آئے گا۔”

کتنی بدنصیبی ہے،میں اب تک گمراہ ہوں۔کتنی عجیب سی بات ہے،میں کچھ نہیں جانتااورجاننے کادعوے دار ہوں۔میں اپنے جہل کوعلم کہتاہوں،چرب زبانی کو ذہانت،مکاری کو اخلاص،ہوس کو محبت، چالاکی کو ہنر، دھوکے کو کمال،کراہت کو جمال، اداکاری کو ہتھیار سمجھتا ہوں۔میں ڈرا ہوا ہوں،سہما ہوا ہوں،خوفزدہ ہوں لیکن خود کو بہت بہادرسمجھتا ہوں۔میری نیت کچھ اور ہے اورعمل کچھ اور۔ میں صرف اپنی محبت میں گرفتار ہوں اور خود کوآزاد سمجھتا ہوں۔میں اپنے نفس کی پیروی کرتاہوں اورسمجھتا ہوں کہ میں رب کابندہ ہوں۔میں رب سے محبت کادعویٰ کرتا اور بیچ ”چوراہا” مخلوق کیلئے آزار بنا رہتا ہوں۔میرا رونا مکرکا رونا ہے۔ میرے آنسو فریب ہیں۔ میری ہمدردی دکھاواہے۔ میراایثارتجارتی ہے۔میراخلوص بازاری ہے۔میں مجسم فنکاری ہوں ۔تاجراورنراتاجر،جوجمع تفریق کرتارہتاہے، مکرو فریب کی دنیاکاباسی، ہوس نفس کاپجاری۔میں کسی کے کام نہیں آتااورتوقع رکھتاہوں کہ لوگ میرے حضوردست بستہ کھڑے رہیں۔میں سب کے حقوق غضب کرکے بھی اپنے حقوق کاطلبگارہوں۔میں دوسروں کوان کے فرائض یاددلاتارہتاہوں اوراپنے فرائض کوبھول گیا ہوں۔

میں نے نصیحت کرنے کاآسان کام اپنے لئے منتخب کرلیاہے اوراس پرعمل کرنے کامشکل کام مخلوق کیلئے رکھ چھوڑاہے۔میں کالم اس لئے نہیں لکھتاکہ اس سے خلق خداروشنی پائے۔ میں یہ اس لئے لکھتاہوں کہ مجھے اس سے شہرت مل جائے،اورناموری کا مجھے چسکالگ گیاہے۔میں چاہتاہوں کہ لوگ میری بات سنیں چاہے میں ان کی کوئی بات بھی نہ سنوں۔ میں اوروں کوآئینہ دکھاتا رہتا ہوں اورکوئی مجھے آئینہ دکھائے تومنہ سے جھاگ اڑانے لگتاہوں۔اب توالیکٹرانک میڈیامیں بھی میری شکارگاہ قائم ہوچکی ہے جہاں میری بے مہار گفتارکی بندوق بلاتامل مخالفین کے سروں کانشانہ لیکرچیتھڑے اڑانے میں ایک لذت محسوس کرتی ہے۔اینکرخاتون کو پروگرام شروع کرنے میں چندمنٹ دیرکیاہوئی کہ اول فول بکناشروع کردیااوریہ سارامعاملہ آن ائیرچلاگیالیکن مجال ہے کہ شرمندگی کاشائبہ تک بھی میری جبین نازپرآیاہو،اس کے باوجودمیں اس عوام سے توقع رکھتاہوں کہ مجھے راست گودانشور سمجھتے ہوئے مجھے اپنی محفلوں میں مہمان خصوصی کے طورمدعوکریں جہاں میں لوگوں کویہ درس دیتاہوں کہ تم کواس ملک نے کیادیاجبکہ میں نے تواپناحق اس ملک اور معاشرے سے بزور طاقت چھیناہے۔ہے ناں عجیب سی بات!

میں خودکوبہت باعلم اورلوگوں کومجسم جہل سمجھتاہوں۔میں چاہتاہوں کہ جب میں کسی تقریب میں جاؤں توسب لوگ میرے احترام میں کھڑے ہو جائیں اوراگرکوئی میرے پاس اپنادکھ بیان کرنے آئے تومیں مصروفیت کو خود پر اوڑھ کر اسے چلتا کردوں۔معصوم و مظلوم انسانوں کے چہروں پراداسی ناچ رہی ہو،بھوک نے انہیں بنجر بنا دیا ہو، وہ دربدر خاک بسر ہوں مگر میں اپنی دانشوری کا کمال دکھا رہاہوں اور پھر بھی انسانیت کے دکھوں کا پرچارک بنا ہوا ہوں۔وہ رت جگے کررہے ہوں اور میں چین سے سوتا رہوں۔وہ اپنے جائز کاموں کیلئےخوار ہورہے ہوں اور میرے ایک فون پرسارے کام ہو جائیں۔وہ دھوپ میں لائن لگا کر کھڑے ہوں اور میں اندرجا کر افسر سے چائے پی کر اپنا کام کروالوں ۔عجیب سی بات ہے ناں!

میں سیمینارپرسیمینارسجائے چلاجارہاہوں۔منرل واٹرپیتاہوں۔یخ بستہ پنج وہفت ستارہ ہوٹلوں میں طعام وقیام کرتاہوں۔لگژری گاڑی میں سفرکرتاہو ااورروناروتاہوں مفلوک الحالوں کا۔میں نے آج تک فاقہ نہیں کیااورفاقہ زدوں کادکھ لکھتاہوں۔میں خودتوہرناجائزکے سہارے امیربن گیالیکن اب غریبوں کاہمدردبناپھرتاہوں۔ جمہوریت کے نام پرپریس کی آزادی کاخوب فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بخئے ادھیڑکراس معصوم عوام کے دلوں میں ہمدردی کی جوت جگاتاہوں لیکن درپردہ اپنی جبینِ نیازانہی کے حضور جھکاکر اپنے سارے کام کرواتاہوں۔حکومت وقت کے خلاف میرے الفاظ نرے لفظ ہیں،بے روح لفظ،میں لایعنی تحقیق میں لگارہتاہوں۔میں زندہ مسائل کو نظراندازکرکے اپنے قاری کوفضول مباحث میں الجھائے رکھتاہوں۔اس لئے کہ کہیں اصل مسائل کی طرف اس کی توجہ نہ چلی جائے اوروہ اس انسان کش نظام کے خلاف اٹھ کھڑانہ ہو۔عجیب ہوں ناں میں!

میں خوددوغلاہوں اور،اوروں کومنافق کہتاہوں۔میں نے اپنے ضمیرکاسوداکرلیاہے،میرے اندرسے بدبوکے بھبکے اٹھ رہے ہیں اور میں اوپرسے خوشبو لگائے پھرتاہوں۔میں اپنے اندرکے انسان کو سولی دے چکا ہوں۔میں خوبصورت لباس میں درندہ ہوں۔میں صرف خود جینا چاہتا ہوں۔مجھے لوگوں سے کوئی سروکارنہیں ہے۔مجھے اپنا پیٹ بھرنا ہے،مجھے بھوکوں،ننگوں،ناداروں،مفلسوں سے کیا لینا دینا۔میں تواپنی سگی اولادکوپہچاننے سے انکارکردیتاہوں۔میں زرداروں کے آگے بچھاجاتاہوں اورکوئی نادارسلام کرے تومجھے ناگوارگزرتاہے۔میں سماجی بہبودکے کام اس لئے نہیں کرتا کہ مجھے یہی کرناچاہئے بلکہ اس لئے کرتاہوں کہ میری واہ واہ ہو۔میں اپنی تعریف سن کرنہال ہوتارہتاہوں۔میں نے بھی سوچ لیاہے کہ جس ملک نے مجھے یہ ساری راحتیں اور نعمتیں عطاکی ہیں،اب ایک قدم اورآگے بڑھ کرمیں بھی ان انقلابیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہوکررونمائی کاشرف حاصل کروں۔میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنی زبان وقلم کے توسط سے ان کے گلے کاہاربنوں جو اس عوام کوآزادی کے نام پرانقلاب کی نویدسنارہے ہیں۔

لیکن میں یہ بھول گیاہوں کہ اصل کوبقاہے۔جعل سازی کبھی پنپ نہیں سکتی۔بارآورنہیں ہوسکتی۔کوئی انقلاب نہیں لاسکتی لیکن میں ان کاخوشامدی ہوں جنہوں نے سفرکیلئے جیٹ طیارہ،سینکڑوں کنال کاگھر،لاکھوں روپے کے یومیہ اخراجات،گھرکے دالان میں کروڑوں روپے کی گاڑیوں کاایک اسکواڈہر وقت تیار،درجنوں اسلحہ بردارمحافظوں کی قطاررکھی ہوئی ہے،ان حالات میں گلے سڑے نظام کی پیوندکاری کب تک کی جاسکتی ہے؟مجھے آخری تنبیہ مل چکی ہے کہ آخراس انسان کش نظام کوفناہوجاناہے،مجھے بھی اوران انقلاب کے داعیوں نے بھی۔سب اپنی اپنی قبرکاپیٹ بھریں گے۔موت ہمارے تعاقب میں ہے اورہم جینے کیلئے منصوبے بنارہے ہیں۔میں بندۂ رب نہیں بندۂ نفس ہوں۔
عجیب ہیں ناں ہم سب! کچھ بھی تونہیں رہے گایارو۔بس نام رہے گااللہ کا۔

اجل سے خوفزدہ،زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے
رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر دھرے ہوئے لوگ

اپنا تبصرہ بھیجیں