یوں نہ پھرہوگاکوئی نغمہ سرامیرے بعد
اورہی ہوگی گلستاں کی فضامیرے بعد
راہ سنساں مکاں خستہ مکیں ا فسردہ
کیسا ویراں ہوا شہروفامیرے بعد
سروقدوسجیلا’بلندوبالاکسرتی بدن’سرخ وسفیدرنگت’کشیدہ قامت’گلابی ومعصوم چہرہ’ فراخ جبیں’منفرد وحسیں’خوبصورت سرمگیں آنکھیں جن میں بلاکی چمک بلکہ ہیرے کی دمک’پھران میں شب زندہ داری کی وجہ سے لال لال ڈورے’جائزہ لیتی ہوئی نگاہیں’ستواں اوراونچی ناک’خوبصورت نازک پتلے ہونٹ’ کشادہ و غنچہ دہن’ سرخ رخسار بمثل قندھاری انار’ سلیقے وقرینے کی ملائم وریشمی ریش مبارک جس میں سیاہی سے سفیدی ہم آغوش ‘قریب تھاکہ سینہ ڈھانپ لے’ ترشی ہوئی مونچھیں’ سرمنڈا ہوامگرقراقلی ٹوپی سے ڈھکاہوا’لہجے میں سوزو عاجزی’آوازمیں اقبال’چال میں کمال’ طبیعت میں جلال’سرتاپا استقلال’ رفتار میں حکومت’گفتارمیں سطوت’ عظمت کشمیر کی معنوی صفات کاعکسِ جمیل’صباکی طرح نرم اوررعدکی طرح گرم’ایک جیتی جاگتی کہانی ‘ارض کشمیرجنت نظیر کی نشانی’ایک حصارجس کی قربت سے حشمت کااحساس ہوتا ہے اورجس کی دوری میں عقیدت نشوونماپاتی ہے’گویاشکل میں شہنشاہ توعادات میں بے پناہ! یہ ہے ان کی جھلک جن کانام نامی ہے حبیب اللہ ملک!
جن کی یادوں سے رگِ جاں میں دکھن ہونے لگے
ذکر چھڑ جائے تو پتھر کا دل بھی رونے لگے
۵۱برس قبل آج ہی کے دن٣دسمبر۱۹۶۵ء جمعتہ المبارک بوقت۳ بجکر۱۳منٹ بمقام سول ہسپتال کمرہ نمبر۵لائلپورمیں ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت نے اس عارضی زندگی کی بہاروں سے منہ موڑ لیاکہ جیسے انہوں نے جان لیا ہوکہ اب میراٹھکانہ ایسے داربقاء میں ہے جہاں سدابہارخوشبوؤں کے گلستان ہیں۔ جس طرح ہرچیزکی قدروقیمت کاایک معیارہے اسی طرح اس جہاں کے گلستاں میں داخلہ کا ٹکٹ بھی ایساارزاں نہیں۔زندگی جیسی قیمتی دولت دیکرموت نصیب ہوتی ہے اور پھرموت ہی تو وصل حبیب اوربقائے حبیب کاسبب اورذریعہ ہے۔ بقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت بھی کیاہو گی ! کیاخوب کہ آج ہزاروں دلوں کاحبیب اپنے حبیب کے حضور حاضرہوگیا۔
اب یادرفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے اتنی دوربسائیں ہیں بستیاں
کہتے ہیں دنیامیں ایسی جھیلیں بھی ہیں جن کاپانی بیک وقت شیریں بھی ہے اور نمکین بھی’ان کے ایک حصے میں میٹھااورشیریں پانی بہتاہےاوردوسرے حصے میں نمکین اورکڑواکسیلا۔قدرت کاکیسامعجزانہ کمال ہے کہ ان میں پانی کی دونوں سطحیں الگ الگ رہتی ہیں اورہرحصے کاپانی اپناذائقہ برقراررکھے ہوئے ہے۔جب بھی ان کامبارک خیال آتا ہے تومیرے ذہن میں ایک ایسی ہی جھیل کاتصورجاگ اٹھتاہے۔کئی سال گزرگئے’ہزاروں دفعہ قصدکیاکہ ان تصورات اور خوبصورت یادوں کوالفاظ کی زبان دوں لیکن ایک غیرمرئی خوف کی بناء پر ایسانہ کرسکا’شائدبزدل،خوفزدہ اورکمزور ہوں کہ ان تمام یادوں کا احاطہ نہ کر سکوں گالیکن آج توحدہوگئی’بعض اوقات گم گشتہ یادوں کے بارودکے ڈھیرمیں حالات وواقعات کاآتش گیرمادہ جمع ہوتارہتا ہے لیکن دھماکے کیلئے کوئی چنگاری میسرنہیں آتی یایوں سمجھ لیں احتیاط کی بناء پر چنگاری سے محفوظ رکھنااصول حیات ٹھہرجاتاہے لیکن آج انجانے کیوں دل نے ایسی چنگاری دکھائی کہ تمام یادوں کوایک دھماکے سے اڑاکررکھ دیا ہے۔
۳دسمبر۱۹۶۵ء بروز جمعتہ المبارک کومیں جب آپ کے پاس فیصل آبادکے سول ہسپتال کے کمرہ نمبر۵میں بیٹھاتھا توآپ نے نیم کھلی آنکھوں سے پوچھا کہ ”آج کون سا دن ہے؟تایاجان نے جواب دیا کہ آج جمعہ ہے توآپ نے اپنی رفیقہ حیات کی طرف نگاہ اٹھائی جوفوراً آپ کی نگاہوں کامطلب بھانپ گئیں ۔آپ کوبسترپرہی وضوکروا دیاگیا۔آج پچھلے دس دنوں کی نسبت طبیعت میں خاصاسکون تھا ۔ چہرے پر کمزوری کے باوجودرونق بھی لوٹ آئی تھی۔ دیرینہ ساتھی حافظ صاحب سے خصوصی فرمائش پرکافی دیر تک قرآن کریم سنتے رہے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ حافظ صاحب خوش الحانی کے ساتھ سورة الحشرکے آخری رکوع کی آیات پر پہنچے توآپ کی آنکھوں سے ساون بھادوں شروع ہوگیا۔میں نے فوراً اپنامنہ کھڑکی کی طرف کرلیاکہ برداشت کایارا نہ تھا۔ آپ نے ہم سب کوجمعہ کی نمازمسجد میں پڑھنے کاحکم دیا۔
سب ہی ہسپتال سے ملحقہ مسجدکی طرف چل دیئے لیکن نجانے کیوں میرے قدم من من بھر کے ہوگئے تھے۔رکھتاکہیں تھا’پڑتے کہیں تھے۔مڑمڑکر نگاہیں کمرے کا طواف کررہی تھیں’ایک انجاناسا خوف دل کوبے قرارکررہا تھا۔پچھلے دس دن والدہ محترمہ ایک پل کیلئے آپ سے سے جدانہیں ہوئی تھیں۔میرے میٹرک کے امتحان چل رہے تھے بس یوں سمجھیں کہ خانہ پری اورآپ کے احکام کی اطاعت ہورہی تھی ۔میری امتحانات میں ہمیشہ یہ حالت رہی کہ مقررہ وقت ختم بھی ہو جاتاتھااورمجھے لکھنے سے فرصت نہیں ملتی تھی لیکن اب کئی دنوں سے صورتحال بالکل مختلف تھی۔اب شائد سب سے پہلے میں ہی اپنے پرچے سے فارغ ہوکرہسپتال کی طرف بھاگتاتھا۔ میرے اسکول کے تمام اساتذہ کرام اور خصوصی طورپرمیرے ہیڈماسٹر جناب ذکاء اللہ صاحب کوپوری توقع تھی کہ امسال پورے ضلع میں نمایاں کامیابی میں میرانام ضرورہوگالیکن اس انجانے حادثے کی کس کوخبر تھی۔یہ توشائد آپ ہی کی دعاؤں کاکمال تھاکہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی کرم فرمایاوگرنہ میری محنت اورکارکردگی توآپ کی بیماری کی خبر نے سلب کرلی تھی۔
آپ جب سے ہسپتال میں صاحبِ فراش تھے’ساراشہرامڈآیاتھا۔کئی دفعہ ہسپتال کے عملہ نے اس طرف توجہ دلائی کیونکہ ڈاکٹروں کی ایک پوری جماعت ہمہ وقت موجودرہتی تھی۔ہسپتال کادوسراعملہ بھی کوئی ایمرجنسی ڈیوٹی کی طرح حاضر رہتا تھا ۔بعض اوقات آپ کے چہرے سے محسوس ہوتا تھا کہ آپ ناقابل برداشت تکلیف کابڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں لیکن منہ سے کبھی اس کااظہار نہیں ہورہا تھا۔
آپ پچھلے چند ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے بے خانماں مہاجرین کے استقبال کیلئے ملک کی اگلی سرحدوں پرپہنچ گئے تھے۔آپ فیصل آباد سے تیسری مرتبہ پورا ٹرک گرم کپڑوں اوردیگر ضروری اشیاء کالیکرنہ صرف امدادی کاموں میں مصروف تھے بلکہ اپنے بھائی عصمت اللہ ملک اوردوسرے عزیزواقارب کوبھی ڈھونڈرہے تھے ۔میرے ننہیال کی ایک خاصی تعداد جونہی پہنچی توان کولیکرفوری فیصل آبادپہنچے مگرتیسری مرتبہ بھی اپنے بھائی کے بغیربہت مایوس لوٹے۔آپ کے اندرونی کرب کابخوبی آپ کے چہرے سے پتہ چل رہا تھا۔ایک شام آپ نے مہاجرین کی بے بسی اورغریب الوطنی کاایسا نقشہ کھینچاکہ سننے والے سب افرادآبدیدہ ہوگئے۔کئی ایک خاندان کی آبادکاری کے باوجودآپ کادل مسلسل مہاجرین کشمیرمیں اٹکاہواتھا شائد اپنے مہاجر ہونے کے مصائب دوبارہ دل میں تازہ ہوگئے تھے۔آپ پھر سے مہاجرین کی آبادکاری کی کوششوں میں مصروف تھے کہ کمرکی اچانک درد نے بے حال کر دیا۔رات بھر کمرکی سخت دردمیں مبتلارہے۔دوسری صبح اپنے دوست حکیم ریاست علی سے جوذکر کیا تواس نے بغیردیکھے زائدالمعیادپنسلین کاانجکشن بائیں بازومیں لگادیا’ گویاآپ کے اس دنیاسے رخصت ہونے کااعلان جاری ہوگیا۔وہ دن بڑی مشکل سے گزرا’دردکی شدت نے بے حال کردیا’فوری ہسپتال پہنچایاگیا۔معلوم ہواکہ درد میں افاقے کی بجائے زائدالمعیاد ٹیکے نے سارے جسم میں شدیدقسم کاانفیکشن پیداکردیا ہے۔سب ڈاکٹرحیران تھے کہ پچھلے چوبیس گھنٹے کس طرح گزرگئے حالانکہ اس انفیکشن کے بعدتوزندگی چندگھنٹوں کی مہمان ہوتی ہے۔یقیناًدمِ واپسی کے معین دن کاانتظارتھا۔
فوری طورپرسارے جسم کامکمل خون تبدیل کردیاگیا۔پہلے تین دن طبیعت سخت خراب رہی لیکن چوتھے دن طبیعت کافی سنبھل گئی لیکن یکایک طبیعت اچانک خراب ہوگئی اورڈاکٹروں نے بازوکاٹنے کامشورہ دیاکہ دوبارہ اس انفیکشن کو سارے جسم میں پھیلنے سے روکنے کیلئے اورکوئی چارۂ نہ تھا۔چچاجان جو خود ڈاکٹرتھے اورپہلے ہی دن سے سایہ کی طرح اس سارے عمل کی نگرانی کررہے تھے’فوری آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔دوسری طرف مقامی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے سے حکیم ریاست علی کی گرفتاری کامطالبہ زورپکڑگیا۔ شہر بھرمیں غم وغصہ کی ایسی لہر اٹھی کہ حکیم صاحب اپنامطب بند کرکے شہر سے فرار ہوگئے۔ایک دن اچانک حکیم صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہسپتال آپ کے قدموں پرسررکھ کرگڑگڑاکرمعافی مانگ رہے تھے اورمجھے یاد ہے کہ آپ بسترِمرگ سے بھی ان کوتسلیاں دے رہے تھے۔ہم سب کی طرف منہ کرکے ارشادفرمایا:
میں نے حکیم صاحب کواس غیردانستہ عمل پرمعاف کردیا ہے’آج کے بعدجوبھی ان کوتکلیف پہنچائے گااس کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھاکہ آپ کے ساتھ تعلق کوختم کیاجائے’آپ کے تعلق پر توپوری دنیاکو قربان کیاجاسکتا ہے۔اغیارکوآپ کے تعلق پرفخرتھاپھر بھلااہل خاندان سے کون ایسی جرأت کرسکتاتھا۔حکیم صاحب کوعزت کے ساتھ رخصت کردیا گیا ۔مولوی اسماعیل اپنی ریڑھی پرباہربیٹھا آپ کی صحت کیلئے گڑگڑاکردعائیں مانگ رہا تھا۔آپ نے کس محبت کے ساتھ اس کوبھیک مانگنے سے منع کیاتھا حالانکہ وہ دونوں ٹانگوں بلکہ جسم کے نچلے مفلوج دھڑ کے ساتھ سڑکوں پر گھسٹ کر بھیک مانگاکرتاتھا۔آپ نے نہ صرف اس کیلئے ریڑھی کابندوبست کیا بلکہ اپنے ہوٹل کے باہراس کوایک چھوٹاسا”کھوکھا”سامان کے ساتھ لگوادیا کہ محنت کے ساتھ رزق کماؤحالانکہ آپ کواس جگہ کیلئے کئی دفعہ ہزاروں روپے کی آفربھی ہوچکی تھی ۔ وہ خود فرمایاکرتے تھے کہ ممکن ہے کہ یہ میراعمل میری عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن جائے۔
آپ کابرسوں سے دستورتھاکہ علی الصبح فقیروں اورمحتاجوں کی ایک لمبی قطارکیلئے ہوٹل سے روزانہ چائے اورناشتے کابندوبست کررکھاتھااوراس عمل کو اپنے فرضِ منصبی سمجھ کراداکرتے تھے۔ملازمین کوسختی سے ہدائت تھی کہ اس عمل میں کوئی سستی اوربداخلاقی کااظہار نہ کرے۔پھرملازمین سے بھی اولادجیسی شفقت اور محبت تھی۔کشمیرسے محبت کاایک ایسااعلیٰ ثبوت کہ تمام ملازمین جن کاتعلق بھی کشمیر سے تھا برسوں سے کام کررہے تھے’گویا اپنا ایک چھوٹاساکشمیربسائے بیٹھے تھے۔ شہرکے شرفاء’دانشوروں اورعلماء سے دوستی کایہ عالم کہ میلوں دورسے ان حضرات کی روزانہ آمدپرمحفل سجائی جاتی تھی جہاں شہرکامقامی مسئلہ ہویاقومی سیاست کا’اس میں بھرپوراجتماعی دلچسپی اورشرکت فرماتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ قومی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کابھی ازحد احترام تھامگرایوب خان کی حمائت محض اس لئے کہ اسلام میں عورت کوگھرکی حکمرانی کادرس دیا گیا’حالانکہ ہم سب محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کیلئے دعاگو تھے۔ایک دفعہ اہلیہ جوکہ سیاست کے حرفِ ابجدسے بھی واقف نہیں تھیں ‘محض عورت ہونے کے ناطے محترمہ فاطمہ جناح کی حمائت میں کچھ ہمدردی کے الفاظ کہہ ڈالے ‘بس پھر کیاتھاکہ جھیل کامیٹھا پانی کچھ لمحوں کیلئے تو کڑواہوگیا لیکن فوری اپنے اس رویہ پرمعذرت کرتے ہوئے دلجوئی فرمادی۔
علمائے دین کاازحداحترام اوران کی مجالس میں بیٹھناباعثِ افتخارسمجھتے تھے۔جہاں مولاناصدیق صاحب سے مراسم تھے وہاں صاحبزادہ فیض الحسن سے بھی یاداللہ تھی۔ مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل سے توخصوصی محبت تھی۔ مجلس ِاحرارکے ناطے صاحبزادہ فیض الحسن کی خطابت کے بھی بہت معترف تھے۔
دیکھ لو آج پھر نہ دیکھو گے
غالب بے مثال کی صورت
بات پھیل گئی مگریادیں بدستورپرے جمائے صف در صف کھڑی ہیں۔کس کو لوں اورکس کی چھوڑوں!مجھے اس بات کاتوعلم ہے کہ محبت کے پھول آنکھوں کے گملوں میں ہوتے ہیں جوپلکوں کی حفاظت میں سینچے جاتے ہیں لیکن برسوں کی فصل پک کرآج ان صفحات پرجمع ہورہی ہے ۔شائد ایسا آج بھی نہ ہوتااگر یہ۳دسمبر کادن انمٹ نقوش لئے مطالبہ اورتقاضہ نہ کرتا۔ دراصل دکھوں کے چراغ جب انسان اپنی ہتھیلی پرلیکر پھرتاہے تواس کااجالا چہرے پرسہانی یادوں کے داغ نمایاں کردیتا ہے اورپھر بعض اوقات انسان محبت میں ایک تماشہ بن جاتاہے لیکن اگر یہی دکھ کاچراغ چھپ کردل میں جلایاجائے تواس کی روشنی سے روح روشن اور مہک اٹھتی ہے ۔پھرانسان دوسروں کے دکھ دردمیں شریک ہو جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ تقریباً پچھلی چار دہائیوں سے زائدآپ کی یادوں کے چراغوں کی لودھیمی ہونے کانام ہی نہیں لیتی!
اندربھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
میں جانتا ہوں آپ کیوں اورکہاں چلے گئے ہیں اس کے باوجودکم وبیش ہرروز اپنے دل میں ایسے ان گنت سوالات کلبلاتے ہوئے دیکھتاہوں۔اب توآپ کے ہاں اڑوس پروس میں کئی اپنے ہی چلے آئے ہیں۔ایک طرف ماں کی محبت کوپہلومیں لٹارکھا ہے اوراس کے ساتھ ہی اپنی رفیقہ حیات کوبھی بلارکھا ہے ۔ جہاں تایا جان اورچچاجان اس محفل میں شریک ہیں وہاں نوجوان بیٹے اعجازملک اور احسان ملک بھی آپ کے ساتھ محفل سجائے تشریف فرماہیں۔
معشوق ریاض اٹھ گئے اس بزم سے کیاکیا
جاتی ہوئی دنیاہے رہے نام خداکا
مجھے آپ کی کہانی سنانے کاناصحانہ اندازاچھی طرح یاد ہے کہ کس حکمت و دانائی کے ساتھ ہمارے دلوں میں مطلوبہ نصیحت گھرکرجایاکرتی تھی ۔آپ نے کبھی بھی اپنی غریب الوطنی کے مصائب کونہیں چھپایا بلکہ ہمیشہ اس کوعبرت کے اندازمیں یادبھی رکھااورہمارے دلوں میں بھی اتارا۔پاکستان کوایک معجزاتی ریاست اورجان سے زیادہ عزیز رکھنے کی تلقین کی کہ دنیامیں اس سے بڑی اورکوئی نعمت نہیں جولاکھوں جانوں کی قربانی اورایثارسے حاصل کیا گیا۔شب وروزکی محنت نے زندگی کے تمام انعامات سے نوازرکھاتھا لیکن کشمیرکی یاد اکثرآبدیدہ کردیتی تھی۔ہم سب کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔کنبہ پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔توفیقِ ایزدی سے جب گھربنوایاتوخاندان کے کئی بے گھرافرادکوگھرکے ایک حصے میں رہنے کی تمام آسائشیں مہیافرمادیں۔آپ کی ساری عمرکوشش رہی کہ کسی بچے کی جائزخواہش”حسرت”نہ بن جائے کہ وہ یہ کہنے پرمجبورہوجائے کہ ”کاش!ایساہوتا۔ ”آپکویہ سننا پسند نہ تھا ۔خودبھی قناعت برتی اورعملاً اس کی تلقین بھی کی۔
ایک مرتبہ موسم گرماکی تعطیلات میں اسکول کے طلباء کاایک گروپ مطالعاتی سیر کیلئے سوات اور گلگت کیلئے تیارہوا۔میں نے بھی اپنانام لکھوادیا ۔آپ سے اجازت مانگی توآپ نے بڑے اصرارکے بعد اجازت تودے دی لیکن کیادیکھتاہوں کہ آپ مجھے رخصت کرنے کیلئے خودریلوے اسٹیشن پرتشریف لے آئے اور علیحدگی میں میرے ہیڈماسٹر جناب ذکاء اللہ صاحب اوردوسرے اساتذہ کرام سے کافی دیرمحو کلام رہے۔یہ عقدہ بعدمیں کھلاکہ ایک خاصی رقم زادِ راہ کیلئے خاموشی سے ہیڈماسٹر صاحب کے حوالے کردی کہ میری کسی خواہش کو حسرت میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے۔پھلوں کے کئی ٹوکرے بھی ساتھ لائے جس سے تمام طلباء ساتھی بھی خاصے لطف اندوزرہے۔جب مہینہ بھر کی سیرسے واپس پہنچاتوگھروالوں سے معلوم ہواکہ آپ نے ہرشب خصوصاًپھل کھانے کی مجلس میں بہت یادفرمایابلکہ بے تابی کایہ عالم تھاکہ میں نے جوخطوط لکھے تھے ان کودن میں کئی مرتبہ سنتے تھے۔میں نے اس سفرمیں ”سواتی سٹائل”کی ایک ٹوپی خریدی جوآپ نے میری دلجوئی کیلئے کئی دن اوڑھے رکھی حالانکہ مجھے علم تھاکہ آپ ہمیشہ قراقلی ٹوپی استعمال فرماتے تھے۔
خواب بن کر رہ گئیں ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کر رہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا
اپنی والدہ کی دلجوئی کاکس قدرخیال تھا۔ساری عمر آپ کے پاس قیام رہاحالانکہ دوسرے بچوں کے گھربھی قریب تھے۔ایسی بے مثال محبت ‘ایک دفعہ سردیوں میں ان کیلئے ایک گرم چادرسوروپے میں خریدی’گھرمیں والدہ کی خدمت میں پیش کی تووالدہ نے فوراًمحبت میں اوڑھ لیا۔ان کے دل میں نجانے کیاآیاکہ انہوں نے اس گرم چادرکی قیمت پوچھ لی۔آپ کافی ٹال مٹول سے کام لیتے رہے لیکن بالآخر جب بتانے پرمجبورہوگئے توانتہائی غیر معمولی قیمت محض اس لئے بتائی کہ اصل قیمت سن کر والدہ فضول خرچی گردان کرناراض نہ ہوجائیں۔
ہمارے بعد اندھیرارہے گامحفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کیلئے
آپ کی بڑی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرونِ ملک کاسفرکروں۔اس کیلئے اپنے قریبی دوست محمد حنیف صاحب کوبسترِ مرگ سے تلقین بھی کی۔میں بھی سن رہاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی اس خواہش نے مجھے بے شماررکاوٹوں کے باوجود سہارادیئے رکھااوراب ایک ایسا وقت بھی آیاکہ آدھی سے زیادہ دنیا کی سیاحت کرچکا ہوں لیکن پھربھی ہرسال کوئی نہ کوئی بیرونی سفر انتظارمیں رہتاہے۔آپ تواپنے ہرتعلق رکھنے والے کے دل میں اپنی بے پناہ یادیں چھوڑ کر اپنے محبوب رب کے ہاں حاضرہوگئے ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ موت کوئی نئی چیزنہیں’ اس کاذائقہ توہرکسی نے چکھناہے’موت کے قانون سے نہ توکوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ ولی’جوبھی آتاہے اپنامقررہ وقت پوراکرکے اس دنیاسے رخصت ہوجاتاہے ‘ کسی کاحالتِ ایمان میں اس دنیاسے رخصت ہوجانااس کے حق میں ایک بڑی نعمت ہے۔پھراس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنی دائمی جدائی کاایساغم دے جاتے ہیں جوبڑاہی جانکاہ اورہوشربا ہوتاہے بلکہ اس صدمے سے سنبھلنے میں عمرصرف ہوجاتی ہے۔آخر آپ بھی تواپنی والدہ محترمہ کاتین مہینے سے زائدانتظارنہ کرسکے۔
ہے رشک اک جہان کوجوہرکی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگاردے
بعض لوگوں کے جانے کی اطلاع پڑوسی کوبھی نہیں ہوتی’اگرہوبھی جائے تودوچار آنکھوں کے علاوہ ان پررونے والا کوئی نہیں ہوتا’بعض لوگوں کے جانے سے دو چارخاندان غمزدہ ہوتے ہیں لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جانے سے ایک عالم غمگیں اوراندوہگیں ہوجاتاہے’جس تک بھی خبرپہنچتی ہے اس کی چشم نم اوردل غم سے لبریزہوجاتاہے۔جن کے رخصت ہونے سے محبت والفت کی مسند سونی ہوجاتی ہے’پیاروشفقت کی بساط الٹ جاتی ہے’ پورا کنبہ ان کی دعاؤں اوربرکات وتوجہات سے محروم ہوجاتاہے۔
آپ کی موت ایک انسان کی موت نہیں بلکہ ایک عمل کی موت ہے جس کاخلاء ابھی اوربرسوں رہے گا۔آپ کی موت توایک انکساری وتواضع کی موت ہے’ شرافت ونجابت کی موت ہے’شفیق باپ’محبت کرنے والے شوہراورپرخلوص رفیق کی موت ہے۔ایک ایسے عظیم انسان کی موت ہے جن کے نقشِ پا سے زندگی راستہ ڈھونڈتی ہے۔ایک ایسے بلندپایہ خلیق باپ کی موت ہے جس سے محبت کاایک باب مکمل طورپربندہوگیاہے ۔آپ کے دل کی دھڑکن نے بندہو کر سینکڑوں دلوں کی دھڑکن کوبری طرح پامال کیاہے۔
آپ ہمارے لئے پندونصائح کامینارہ نورتھے جس کی روشنی میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت عودکرآتی تھی۔آپ خودشمع کی مانندپگھل کر اک جہاں کو روشنی مہیا کرتے تھے۔دنیاکی سخت دھوپ میں نہائت فرحت بخش سایہ بن کر ہرکسی کے سر پرموجودتھے’خودبے قرارہوکرہرکسی کوسکون کی دولت تقسیم کرتے رہتے تھے۔ بولتے تومنہ سے ایسے انمول موتی جھڑتے کہ ہرکسی کو سمیٹنے میں اپنی جھولی تنگ نظرآتی۔اگرخاموش رہتے تووقاروسکینت کااعلیٰ نمونہ ہوتے تھے۔کس کس خوبی کا ذکرکروں اوراب کس کس محرومی کی نشاندھی کروں’گویا اب توتپتی دھوپ میں ان سنگلاخ پتھروں پرننگے پاؤں چلنے کی بھی ایک عادت سی ہوگئی ہے۔
غم مختلف شخصیتوں پرمختلف اندازمیں اثراندازہوتاہے۔کچھ لوگوں پغم کی خبر بجلی کے کرنٹ کی طرح گرتی ہے’کچھ لوگوں پرغم کادھاراچل کرانہیں بھگودیتا ہے ‘ کچھ لوگ غم کی خبرسن کرخالی الذہن ہوجاتے ہیں’پھرغم بوندبوندگرتاچلا جاتا ہے۔آپ کوبھی جب منوں پھولوں میں سجاہوادیکھاتھاتودفعتاًمیں خالی الذہن ہو گیاتھا۔ مجھے پتہ تھاکہ اب غم بوندبوندگرے گا’گرتارہے گا’میراسب سے بڑا محسن جوچلا گیا تھا۔میری زندگی کاسب سے بڑامشاہدہ’وہ جومجھ پراللہ کی عظیم ترین کرم نوازی تھا’جس کے جانے کے بعدمیں بالکل اکیلارہ گیا’جیسے کسی مٹی کے پیالے سے دودھ نکال لیاجائے اوراب صرف خالی برتن رہ جائے!
آپ توایک عطیہ خداوندی تھے جس سے ہم سب استفادہ کرتے رہے اوراب اللہ نے آپ کوواپس بلالیاہے۔آپ نے سفرآخرت کیلئے بھی کیسادن پایا۔ جمعتہ المبارک کی نمازپڑھ کرہم سب تیزی سے لوٹے تومعلوم ہواکہ مسلسل ایک گھنٹہ بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کودنیاکی گرم سردہواؤں کا مقابلہ کرنے کی نصیحتیں فرماتے رہے’بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے معاملات کی صفائی طلب کرتے رہے’ آسمان کی طرف نگاہیں اٹھاکربڑی بے بسی سے دعا کی۔
’’اے غفورالرحیم!اپنے کھوٹے اعمال کے ساتھ تیرے دربارمیں تیری رحمت کا امیدواربن کرحاضرہورہاہوں،اگرتومعاف کردے توکوئی بڑی بات نہیں،دنیاوی سفربھی زادِراہ کے بغیر تیرے سہارے طے کیاہے اوراب بھی ایسا ہی معاملہ ہے ۔ ” علامہ اقبال کی یہ رباعی دہراتے رہے
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہا ے ٔ من پذ یر
گر تو می بینم حسابم نا گز یر
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر
کمرے میں موجودافرادکوگواہ بناکر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے۔انااللہ واناالیہ راجعون
اداسی جوایک سیاہ بادل کی طرح میرے دل میں اترتی چلی جارہی ہے ‘نیچے ہی نیچے…….نیچے ہی نیچے’میں دل تھام کران کیلئے دعاکرتاہوں کہ:
اے غفورالرحیم!آپ رب ہیں ہم عبدہیں’آپ مسجودہیں ہم ساجدہیں ‘آپ دینے والے ہم لینے والے ہیں’آپ رحمٰن ہیں ہم طلبگارہیں’ غلطیوں سے درگزر فرما اور والدِ محترم کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرما۔ثم آمین
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھودیئے
ڈھونڈاتھاآسماں نے جنہیں خاک چھان کر
(والد محترم کی۵۱ویں برسی کے موقع پر)