اک تھوڑااورانتظار!

:Share

ہرفرعون یہ سمجھ بیٹھاہے کہ بس وہی ہےعقل وفکرکاعلمبردار… بہت ضروری ہے وہ ۔اس کی ہدایت ورہنمائی ہی نجات کا سبب ہے۔بس وہی”میں” کاچکر۔نحوست کاچکر،اسی لیے وہ پکارتا رہتاہے۔وہی ہے اعلیٰ وارفع، وہی ہے رب اوررب اعلیٰ بھی ۔ خودفریبی کی چادرمیں لپٹاہوا۔موت…موت تواسے چھوبھی نہیں سکتی۔سامان حرب سے لیس۔خد ّام اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔چڑیابھی پرنہیں مارسکتی۔دوردورتک کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ اسے گزندپہنچاسکے۔جیسے وہ موت کوبھول بیٹھتاہے،خودفریب توسمجھتاہے کہ موت بھی اسے بھول جائے گی لیکن ہوتا کچھ اورہے۔سب کچھ ہوتا ہے… محافظ بھی، سامان حرب بھی،محلات بھی،سازوسامان بھی،آفرین بھی،واہ واہ بھی…سب کچھ ہوتاہےاورپھرنیل ہوتاہے،لہریں ہوتی ہیں،منہ زورلہریں … رب حقیقی کے حکم کی پابنداورجب وہ گھِرجاتاہے پھردوردورتک کوئی نہیں ہوتامدد گار۔تب وہ آنکھ کھولتا ہےاورپکارنے لگتاہے”نہیں نہیں،میں ایمان لاتاہوں،ہاں میں موسیٰ وہارون کے رب پرایمان لاتا ہوں”لیکن بندہوجاتاہے در۔کسی آہ وبکاسے نہیں کھلتا،اورپھروہ غرق ہوجاتاہے۔موت اس کی شہ رگ پردانت گاڑدیتی ہے۔ختم شد،نشانِ عبرت،داستان در داستان۔

فرعون مرتاہے،فرعونیت نہیں مرتی۔اس کے پیروکارآتے ہیں،آتے رہیں گے۔پھروہ پکارنے لگتے ہیں،ہمارامنصوبہ کامیاب رہا۔ہم ہیں اعلیٰ وارفع۔ہمارے پاس ہیں وہ دانش وبینش جوبچا لے جائیں گے سب کو۔بس ہمارے پیچھے چلو۔ہماری پیروکاری کروکہ نجات اسی میں ہے۔مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے اس زعم میں مبتلارکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے،اس کی مرضی سے چلتاہے کاروبارحیات… لیکن پھرایک اوردریاہوتاہے اورانجام وہی۔

ایک دن میں نے ان سے پوچھاتھا:”انسان ہیں ہم… گناہ توکریں گے۔ہوگابھی،پھرکیاکریں؟”توبولے:”ہاں یہ توہےلیکن جب گناہ تنہائی میں سرزدہوجائے توتنہائی میں اس کی معافی مانگواور جب سرعام ہوجائے،اجتماع میں ہوجائے تواجتماع میں کھڑے ہوکرمعافی کے طالب بن جاؤ۔سچائی کواختیارکرویہ روشنی ہے،نجات ہے،رہنمائی ہے،سکون ہے۔اس کی تلخی میں بھی شیرینی ہے،مٹھاس ہےاورجھوٹ…! جھوٹ توبس ہلاکت ہے،اندھیراہے،گمراہی ہے،بے سکونی ہے … اطمینان کاقاتل جھوٹ ہے اور انسانیت کابھی۔جھوٹ ایک فریب ہے،سہا نانظرآتاہے… ہے نہیں۔ بس سچائی ہی نجات ہے” ۔

پھرایک دن انہوں نے اس سے بھی آگے کی بات کی تھی:سچائی کے لیے زبانِ صادق کاہوناضروری ہے۔سچائی پاکیزگی ہے اور جھوٹ نجاست۔جھوٹ آلودہ زبان سچائی بیان ہی نہیں کرسکتی،توپہلے اپنی زبان و ذہن کوجھوٹ کی نجاست سے پاک کرو۔ نجس زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ بے معنی و بے اثرہوتے ہیں،چاہے سننے میں کتنے ہی خوش کن اورسماعت میں کتنے ہی سروربکھیریں ۔عجیب لوگ تھے وہ … ہر مسئلے کی جڑ جانتے تھے۔ بہت سادہ بیان، لیکن روح میں اتر جاتی تھی ان کی بات،اوراب توبہت سے ہیں شعلہ بیان لیکن!

یقین کریں کشمیرتواب دریافت ہواہے”۔پچھلی چھ دہائیوں سے بھارت کشمیر پرکنٹرول حاصل کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنے ناجائزقبضے کوقانونی شکل دینے میں ناکام توہمیشہ رہاہے لیکن اب حالات سے صاف دکھائی دےرہا ہے کہ اس بارکشمیرمیں بری طرح پھنس گیاہے۔خودبھارت کے صاحبِ الرائے لوگ تسلیم کررہے ہیں کہ موجودہ تحریک ماضی کی تمام تحریکوں سے زیادہ پرجوش اورنتیجہ پرپہنچ کردم لے گی۔بھارت کیلئے کشمیرکی صورتحال اب ایسی جان لیوا خوفناک دلدل بن گئی ہے کہ اگرایک پاؤں نکالنے کی کوشش کرتاہے تودوسرا پاؤں اس سے کہیں زیادہ سنگین دلدل میں دھنستاچلاجاتاہے۔یوں محسوس ہوتاہے کہ اب دلدل سے جان چھڑانابھارت کے بس میں نہیں رہا۔کشمیر کی سنگین بگڑتی صورتحال پربھارتی سیاستدانوں نے بھی دہائی دیناشروع کردی ہےاورحیرت انگیز طورپرجوبات بھارت کے لبرل سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آئی،اس کوبی جے پی کے معروف رہنمامرلی منوہرجوشی نے راجیہ سبھامیں چدم برم کومخاطب کرکے پوچھ لیاکہ “وہ بتائیں کہ کشمیریوں کے جائزمطالبات کیاہیں؟مجھے تومکمل آزادی کے علاوہ ان کی کوئی شکائت سنائی نہیں دیتی۔اگر یہ بات ہے توپھرکشمیریوں کو بتادیجئے کہ یہ ممکن نہیں”!

اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیرکی موجودہ صورتحال پرپاکستان کی مجرمانہ خاموشی اورحالات سے فائدہ نہ اٹھانے کی پالیسی کبھی بھِی کشمیریوں کے جذبات کوسردنہیں کرسکی۔داخلی حالات اور ڈپلومیسی کی مجبوریوں کے تحت کشمیریوں کاوکیل،دوست اورعلاقائی ایٹمی طاقت ِپاکستان کوتوخاموش کروادیاگیاہے لیکن ان تمام مصائب اورافتاد کے باوجود پاکستانی قوم اب بھی کشمیریوں کےساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظرآتی ہےلیکن اس مرتبہ کشمیر کے مسئلے پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش اوراغماض برتنے کی پالیسی جس کااشارہ ایک معروف کالم نگارکی زبانی انکشاف کیاگیاہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف سےکشمیرکی موجودہ صورتحال کوہی مستقل بین الاقوامی سرحدوں میں تبدیل کرکے اس قضیہ کافیصلہ کردیاجائے گا کیونکہ دنیادوجوہری ممالک کے مابین ایسی جنگ کی متحمل نہیں جس سے اقوام عالم متاثرہوں۔

میں پوچھتاہوں اگرکشمیرکایہی فیصلہ مقصودتھاتوایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کی شہادتوں کوکس کھاتے میں ڈالیں گے، سات ہزاردوسوکشمیری نوجوانوں کوتشدد کرکے قتل کرکے بے نامی قبروں میں دفن کردیاگیا،گیارہ ہزاردوسوکشمیری خواتین کی جبری عصمت دری کاحساب کون لے گا،تئیس ہزارکشمیری خواتین کوبیوہ کردیاگیا،سوالاکھ بچوں کویتیم بنادیا گیا، کشمیریوں کی سوا لاکھ سے زائد عمارتوں کوشدیداورجزوی بربادکردیاگیا،دوسوسے زائدکشمیری گھروں کاڈائنامیٹ سے اڑادیاگیا،بیس ہزارسے زائدکشمیریوں کوجیلوں میں بندکر دیاگیاہے،شہادتوں کاسلسلہ اب بھی جاری ہے اورکشمیری نوجوان خواتین کواغواء کرنے کی کاروائیاں اب بھی جاری ہیں اورپھراس پرمستزادکشمیرکے نام پرپاکستان پردوجنگیں مسلط کردی گئیں،پاکستان کودولخت کردیاگیا،دہشتگردی کے نام پرملک کوتاراج کردیاگیاجس میں اب تک65ہزارسے زائد پاکستانی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے،پرائی جنگ میں ملک کوسوارب ڈالرسے زائدکا نقصان برداشت کرناپڑگیا۔

پھر کشمیرکی وجہ سے اس کمینے مکاردشمن کے مقابلے کیلئےنصف صدی سے زائدملک کے دفاعی بجٹ پرکھربوں روپے کے اخراجات اٹھ گئے،جوہری طاقت بننے کیلئے کیاکیاقربانیاں دینی پڑیں ،اب تک ہماری بہادرافواج کتنے نوجوانوں کے پاکیزہ خون قربان کرچکی،ضرب العضب اورردّالفسادآپریشنزمیں کس بہادری کے ساتھ ملک کوبھارتی دہشتگردوں اورآئے دن بم دہماکوں سے محفوظ کرنے کیلئے ہماری افواج کے بہادرسپوتوں کی قربانی کے ساتھ قوم کوکس کرب سے گزرناپڑا اورآج ہمیں قصرسفید کے فرعون کے اس منصوبے پرآمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم اس قدر بھاری قیمت اداکرنے کے بعدخطے میں اس مکارہندوکی بالادستی قبول کرکے کشمیرکی موجودہ سرحدوں کومسقتل مان کرمسئلہ کشمیرکوبھول جائیں اوران تمام کشمیریوں کوبھارتی درندوں کے رحم وکرم پرچھوڑدیں جہاں ہریانہ کاوزیراعلیٰ کشمیرکے مسئلے کوہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئےاپنے نوجوانوں کو کشمیری بچیوں سے زبردستی شادی کرنے کاحکم دے رہاہےاس ناہنجار کالم نگارنے اپنے کالم میں جس وثوق کے ساتھ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اورامریکی صدر ٹرمپ کی فون پرگفتگواوردیگرمعاملات کاذکرکیاہے،اس سے صاف واضح ہوتاہے کہ یہ کسی کے اشارے پرقوم کوپاکستان اورکشمیرکےمستقبل پر ہونے والے فیصلے کے بارے میں تیار کرنے کی الخراش کوشش کی گئی ہے جوموجودہ مقتدرحلقوں کوبہت مہنگی پڑے گی۔یقیناً ہماری بہادر افواج جووطن پربے مثال قربانی کاانتہائی عمدہ ریکارڈرکھتی ہے اورساری قوم کواپنی افواج سے بھی اسی لئے انتہائی عقیدت ہے،یقیناًیہ کالم ان کیلئے بھی سوہان ِروح ثابت ہواہوگا۔

تاہم قدرت نے مظلوم کشمیریوں کیلئے ایک نیادرکھول دیاہے۔حال ہی کینیڈانے کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بناء پربھارت کےدوجنرلز،تین بریگیڈیئرزاورخفیہ انٹیلی جنس کے دواعلیِ آفیسرزکوویزہ دینے سے انکارکردیاہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل چین جیسی عالمی سپرطاقت نے کشمیری شہریوں کوسادہ کاغذپرویزہ جاری کرنے اورکشمیر میں تعینات بھارتی فوجی جنرل کواس بناء پرکہ وہ کشمیر جیسے متنازعہ علاقے میں تعینات ہے ویزہ جاری کرنے سے انکارکرکے عالمی برادری کوایک مرتبہ پھرمتنازعہ کشمیر پراپنی پالیسی کابرملااظہارکرچکی ہے۔ اس سفارتی عمل نے کشمیری عوام کے حوصلے مزیدبلند کردیئے ہیں۔گویا”پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے”۔

ادھرقصرسفیدکےفرعون ٹرمپ نےکشمیرکی موجودہ ابترصورتحال پربات چیت کیلئے وقت مانگاہے اور دوسری طرف بھارت الفاظ اورمذاکرات کی لیپاپوتی کرکے کسی نہ کسی طورپرکشمیر کی صورتحال کوسردکرنے کی کوششیں کررہا ہے لیکن کشمیری اوران کی نوجوان نسل اب عزت اور سیاسی آزادی کیلئے ذہنی طورپرفیصلہ کن لڑائی اورآخری معرکہ لڑنے کامکمل عزمِ صمیم کرچکے ہیں اوروہ اپنی گزرجانے والی نسلوں کی ساری ذلتوں اوران کے ساتھ ہونے والے سلوک کاقرض چکانے کیلئے اپنی جانوں کافقیدالمثال مظاہرہ کررہے ہیں۔

چندبرس قبل مجاہدین کی مسلح جدوجہدکویہ کہہ کردھوکہ دیکرروک دیاگیاتھاکہ پورے مقبوضہ کشمیرمیں عوام کی سیاسی تحریک کوغلبہ حاصل ہوگیاہے اورعالمی طاقتیں درپردہ سرگرم ہوگئی ہیںاب ایک مرتبہ پھربھارتی استعمارنے گھبرا کربرطانیہ اورامریکاکواپنی مددکیلئے بلایاہے کہ وہ کسی طرح اس تحریک کوسردکرنے میں ان کاہاتھ بٹائیں۔سناہے کہ ان دونوں ملکوں کے سفیر حریت کانفرنس کے قائدین سے ملاقات کرکے ان کوبھارتی حکومت کے ساتھ بات چیت پرآمادہ کرنے کیلئے جلدہی کشمیرروانہ ہورہے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے حریت کانفرنس کے قائدین کوبھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پربٹھا کربات چیت میں الجھادیاجائے اوراسی دوران کشمیری عوامی تحریک کا”ٹمپو”ختم کرکے اس تحریک کوناکام بنادیاجائے تاکہ بھارت کوایک دفعہ پھرتازہ دم ہوکرکشمیرپراپناجبری قبضہ مزیدمضبوط کرنے کاموقع مل جائے اور کشمیریوں کوایک دفعہ پھرآزادی سے کوسوں دورکردیاجائے”!

ایک اطلاع کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی فرقہ واریت کوہوادینے کیلئے پچھلے دنوں سکھوں اورکشمیری مسلمانوں کوآپس میں لڑانے کی ناکام کوشش بھی کرچکی ہے جس کوبروقت کشمیری اور سکھ برادری نے ناکام بنادیاہے۔یادرہے چندسال پہلے چھتی سنگھ پورہ کاواقعہ ابھی تک لوگوں کویادہے جس میں”را” نے چالیس سے زائدسکھوں کوبھارتی فورسز کے ہاتھوں مروا کران کاالزام کشمیری مجاہدین کے سرپرتھوپ دیاتھا،بعد میں بھارت کی اپنی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تفصیلی پورٹ میں بھارتی”را”کی اس سازش کابھانڈہ پھوڑدیاتھا۔

قیامِ پاکستان کے وقت بھی چانکیہ سیاست نے ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے اکا دکاخنجرزنی کے واقعات سے فسادات کی بنیاد رکھی،اس کے بعد وسیع پیمانے پر بلوؤں کااہتمام کیاگیاجس میں دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کوشہید کردیا گیااورآخرمیں مسلمانوں کی املاک کونذرِآتش کردیاگیالیکن اس کے نتیجے میں پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔اب چانکیہ کے پیروکاراسی عمل کوکشمیرمیں دہرارہے ہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے اہم لیڈرمرلی منوہر جوشی کایہ کہنابڑامعنی خیزتھاکہ”کشمیرمیں سرمایہ کاری مت کرو”انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ کشمیرمیں94ہزار کروڑ روپے جھونک دیئے گئے ہیں جومجموعی آبادی کامحض ایک یادوفیصدہے،اس طرح دوفیصد آبادی ہماراچودہ فیصد بجٹ کھاجاتی ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کااظہارراجیہ سبھامیں اپوزیشن لیڈرارون جیٹلی کی طرف سے بھی سامنے آیاہے”کشمیرپالیسی نہروکی غلطی سے پیداہوئی ہے،جورقومات کشمیرمیں فورسزپراس وقت خرچ کی جارہی ہیں،وہ ان کسانوں کی فلاح وبہبود پرخرچ کی جاتیں جواس وقت بھوک سے مررہے ہیں۔حقیقت تویہ ہے کہ آزادی کے بعدسے کشمیر کی صورتحال پہلی باراتنی خراب ہوئی ہے”۔

بی جے پی کے دو اہم رہنماؤں کی طرف سے کشمیرکوایک معاشی بوجھ سمجھنے میں کیاپیغام مضمرہے اس کافیصلہ توبہت جلدوقت کردے گا۔تاریخ کا یہ عبرتناک عمل ہے کہ جب ظلم حد سےبڑھتا ہے تومٹ جاتاہے۔کشمیریوں نے اپنے ایک لاکھ شہداءسے زائدکی قربانیوں نے یہ ثابت کردیاہے کہ اگرروس اور امریکااپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پرعراقیوں اورافغانیوں کونہ دباسکے توبھارت توان سے زیادہ طاقتورنہیں ہے۔مجھ سے ایک امریکی صحافی نے سوال کیا کہ”آخر نہتے کشمیری اور کتنی دیر لڑتے رہیں گے؟”۔”بہتر ہوتا اگرتم یہ سوال بھارتی حکومت سے کرتے کہ وہ کتنی دیراورکشمیریوں سے لڑنے کی ہمت رکھتی ہے!”میرے دل سے اٹھنے والی یہ آواز شائد کشمیریوں کے ترجمانی کرسکی یانہیں لیکن اس امریکی صحافی نے فوری اس بات کا اعتراف کیا کہ مظلوم کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکا ،یہی تاریخ کا عبرتناک سبق ہے جو بالآخر ان ظالموں کا مقدر بنے گا۔

مودی اپنے اس مکروہ عمل سے کشمیرمیں آبادی کے تناسب کوتبدیل کرنے کیلئےتمام حربے آزمائے گا۔کیا ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی اس بات کی روشن دلیل نہیں کہ جس رب نے ہرانسان کوآزادپیداکیاہے،وہ ہرحال میں حریت کیلئے اپنی جاں تک قربان کردینے کاعزم رکھتاہے۔اگرسروں کی گنتی مقصودہے توپھران مجبورومقہوربے گناہ سرفروشوں کی تعداد بھی سامنے آنی چاہئے جوکشمیر کی آزادی کیلئے قلم کردیئے گئے۔ان اجتماعی قبروں میں دفن گمنام شہداء کا بھی حساب ہوناچاہئے جن کی مائیں ابھی تک نوحہ کناں ہیں،جن کے معصوم بچے اپنے والدین کی صورت دیکھنے کوترس رہے ہیں۔ان معصوم جوان بچیوں کا بھی حساب ترتیب دیناہوگاجن کی عصمت دری کرکے اپنے قبیح جرائم کے ثبوت مٹانے کیلئے ان کوشہیدکردیا گیا۔

کشمیر میں جوکچھ ہوا،اورابھی تک ہورہاہے،سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔3ہفتے کرفیوکی آڑمیں میں دودرجن سے زائد نوجوانوں کوبیدردی کے ساتھ شہید کردیاگیا،ان کی چیخیں،ان کا پاک لہو…رہنے دیجئے لہواپناراستہ خودبناتاہے۔وہ پکارتا ہے،پکارے گا۔امریکا وبرطانیہ کب تک زبانی جمع خرچ سے کام چلائیں گے،اسے رہنے دیجئے۔دیکھتے رہئے یہ لہوکیسے پکارے گا۔ضرور پکارے گا،چاہے زبانِ خنجر لب سی لے۔ان طاقتوں کے حواری مسلمان حکمرانوں میں تو تھوڑی سی بھی شرم، تھوڑی سی بھی حیاباقی نہیں رہی کہ بے گناہ کشمیریوں پرجومظالم ڈھائے جارہے ہیں،حج خطبہ میں ان کیلئے دعاہی کرسکیں یااس پر کوئی احتجاج کرسکیں،شائد ان کواپنے اقتدارکاسنگھاسن ڈولتاہوانظرآنے لگتاہے،کوئی نہیں پوچھتایارو۔ میرے رب کی ہیبت وجلال کی قسم،وہ خودپوچھے گا، ضرورحساب لے گا۔میں اورآپ کس گنتی میں ہیں…!عاجزاورناکارہ۔

اپنے اقتدار کوبچانے کیلئے یہ بزدل حکمران اوران جیسے سارے”حربی اوربہادر”میرے رب سے کیسے لڑیں گے؟یہ میرے رب کو روشن خیالی اورماڈریٹ ہونے پرکیسے قائل کرلیں گے؟ آپ میرے رب ذوالجلا ل کاسامناکرسکتے ہیں؟رہنے دیجئے اپنی دانش وبیش کوبات لمبی ہوجائے گی۔یہ توچھوٹے چھوٹے سے بونے امریکن آتے ہیں ان کوقائل نہ کرسکے۔جی ہاں یہ خودغرض انسان،اسی طرح الجھارہتاہے خود فریب انسان،جی جناب اسی طرح۔

بالکل یہی سمجھتاہے کہ جس طرح وہ موت کوبھولاہواہے،موت بھی اسے بھول چکی ہوگی لیکن آتی ہے وہ،ہزارپہرے بیٹھا دیجئے،دیواریں چنوالیجئے،کیمرے لگالیجئے۔وہ نہیں رکتی۔آتی ہے اورسرعام آتی ہے۔کوئی نہیں بچ سکااس سے۔اورہاں ہم سب اپنے رب کے حضورپیش کیے جائیں گے۔ضرورپیش کیے جائیں گے۔آپ سمجھ بیٹھے ہیں یہ محفل سداسجائیں رہیں گے۔ واہ،واہ، آفرین آفرین کرنے والے درباری یونہی داددیتے رہیں گے۔ نہیں،بالکل بھی نہیں۔سب کچھ ختم ہوجائے گالیکن کشمیریوں کی منزل بہت قریب ہے،جی ہاں یہ ایسی حقیقت ہے جیسے سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں غروب ہوجاتا ہے۔کشمیرکی آزادی کوکوئی نہیں روک سکتااوربھارتی ناجائزقبضہ بہت جلدغروب ہونے کوہے۔بس اک تھوڑااورانتظار…….. منزل بہت قریب ہے!
کچھ باقی نہیں بچے گا، کچھ بھی نہیں۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔
یہ ہمارے میاں محمد بخش کہاں سے پکارے:
سدا نہ باغیں بلبل بولے،سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے،حسن جوانی،سدانہ صحبت یاراں

اپنا تبصرہ بھیجیں