IMF and Pakistan's Politics: A Complex Relationship

آئی ایم ایف اورپاکستان کی سیاست:ایک پیچیدہ تعلق

:Share

سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف کے چھ رکنی خصوصی وفدنے جوئل ٹرکیوٹزکی قیادت میں منگل(11فروری)کی دوپہرسپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ملاقات کی ہے۔وفدنے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کاتحفظ،معاہدوں کی پاسداری، اورپراپرٹی حقوق کے بارے سوالات پوچھے جس کے جواب میں عدالتی اصلاحات اور کارکردگی کوبڑھانے کیلئےجاری کوششوں کاجائزہ پیش کیاگیا۔ چیف جسٹس نے وفدکویقین دہانی کروائی کہ”پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اورادارے(سپریم کورٹ)کاسربراہ ہونے کے ناطے عدلیہ کی آزادی کاتحفظ اُن کی ذمہ داری ہے۔

صحافیوں سے غیررسمی گفتگوکرتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایاکہ”میں نے آئی ایم ایف کے وفدکونیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایاہے کہ ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں۔چیف جسٹس نے آئی ایم ایف وفدکے اراکین کوواضح کیاکہ”عدلیہ ایسے مشنز(وفود)کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کرتی،لیکن فنانس ڈویژن کی درخواست پریہ ملاقات ہورہی ہے۔ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کاحلف اٹھارکھا ہے،یہ ہماراکام نہیں ہے آپ کوساری تفصیلات بتائیں”۔

چیف جسٹس نے وفد کوبتایاکہ وہ اپنے تبصروں اورخیالات کے حوالے سے پوری طرح محتاط رہیں گے۔انہوں نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے حوالے سے اہم آئینی پیش رفت اور اصلاحات پرروشنی ڈالی،جن میں سینئرسطح پرعدالت میں(ججزکی)تعیناتیوں، عدالتی احتساب،اورجوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تنظیم نوشامل ہے۔سپریم کورٹ فروری کے آخری ہفتے میں متوقع آئندہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی(این جے پی ایم سی)کے اجلاس کیلئےایک اہم ایجنڈے کوحتمی شکل دے رہی ہے جومختلف سٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے تیارکیاجارہاہے۔مجوزہ ایجنڈے میں کسی بھی تجویزکو شامل کرنے کیلئےبالکل تیارہیں۔انہوں نے مشن کو اس ضمن میں تجویزشیئرکرنے کی دعوت بھی دی۔ملاقات کے دوران عدالتی احتساب اورججوں کے خلاف شکایات کے ازالے کے طریقہ کارپربھی بات چیت ہوئی۔

آئی ایم ایف کے وفدنے قانونی اورادارہ جاتی استحکام کوبرقراررکھنے میں عدلیہ کے کردارکوتسلیم کیااورگورننس اوراحتساب کو مضبوط بنانے کیلئےعدلیہ میں جاری اصلاحات کی تعریف کی۔بات چیت میں عدالتی کارکردگی کوبڑھانے اورقانون کی حکمرانی کواقتصادی اورسماجی ترقی کے سنگ بنیادکے طورپر برقراررکھنے کے مشترکہ عزم کااعادہ کیاگیا۔چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر کئی سوالات کوجنم دیاہے۔سوال یہ ہے کہ اس ملاقات کے محرکات،اس کے آئینی پہلو، اوراس کے پاکستان کی خودمختاری پرکیاممکنہ اثرات پڑسکتے ہیں؟

پاکستان کاآئین عدلیہ کوایک خودمختارادارہ قراردیتاہے،جوانتظامیہ یاکسی بین الاقوامی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔چیف جسٹس پاکستان کسی بھی غیرآئینی دباؤیااثرورسوخ کے پابندنہیں ہیں۔تاہم،یہ ملاقات محض خیرسگالی یاعدالتی اصلاحات کے بارے میں معلوماتی تبادلہ ہوسکتی ہے۔اس قسم کی ملاقاتوں کامقصدشفافیت کوفروغ دینایاقانونی معاملات میں بین الاقوامی اعتمادبحال کرنا ہوسکتاہے۔26ویں آئینی ترمیم کے بعدپاکستانی عدلیہ میں
حالیہ اختلافات اورتقسیم کی خبریں ملکی سیاست اورقانونی نظام پراثراندازہورہی ہیں۔ ایسی صورت میں آئی ایم ایف کاعدلیہ سے رابطہ،کسی بھی غیریقینی صورتحال یاممکنہ قانونی تنازعات کی پیش بندی کے طورپر دیکھاجاسکتاہے،جومعاشی استحکام پراثرڈال سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے وفودعموماًحکومتوں اورمرکزی بینکوں کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں تاکہ مالیاتی پالیسیوں،اصلاحات،اورقرض معاہدوں کی شرائط پر
تبادلہ خیال کیاجاسکے۔تاہم،عدلیہ سے ملاقات غیرمعمولی ہے اوراس کے پیچھے ممکنہ وجوہات میں ملک کے قانونی وعدالتی ڈھانچے کی پائیداری کاجائزہ لیناشامل ہوسکتاہے۔سرمایہ کاری اورمالیاتی استحکام کیلئےمضبوط عدالتی نظام ایک اہم عنصرہوتاہے،جس کی بنیادپرآئی ایم ایف کسی ملک کی قرض واپسی کی صلاحیت کااندازہ لگاسکتاہے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئی بارقرض معاہدے کیے ہیں جن میں معاشی اصلاحات،سبسڈی میں کمی،ٹیکس نیٹ میں اضافہ، بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ،اورمالیاتی خسارے کوکم کرنے جیسے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔یہ شرائط اکثرعوامی ناپسندیدگی کاشکارہوتی ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں مہنگائی اوربیروزگاری میں اضافہ ہوسکتاہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اکثرقرض دہندہ کے مفادات کے تحفظ کیلئےسخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں۔اگرچہ یہ شرائط بظاہر اندرونی معاملات میں مداخلت لگ سکتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ معاہدے کی شرائط کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں قرض لینے والے ملک نے خود تسلیم کیا ہوتا ہے۔ تاہم، ان شرائط کا نفاذ اکثر ملک کی خود مختاری پر سوالات اٹھاتا ہے۔

ماہرین کی رائے اس حوالے سے منقسم ہے تاہم حکومت کے خیال میں یہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے اوروفدپاکستان سے ہونے والے تازہ قرض معاہدے کے تحت ہی اپنے جائزہ مشن پرہے اوراداروں اوران کے سربراہان سے ملاقاتیں کررہاہے۔پاکستانی وفاقی وزیرقانون نذیرتارڑکے مطابق وفدکایہ دورہ آئی ایم ایف کے”ڈومین”یعنی دائرہ کار میں آتاہے۔قانون کی حکمرانی،وفدکے ساتھ انتظام کاحصہ ہے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن سپریم کورٹ کاایک ذیلی ادارہ ہے جوکہ جوڈیشل پالیسی اورعدالتی اصلاحات سے متعلق سفارشات تیارکرتا ہے۔جہاں تک بات عدالتی خودمختاری کی ہے یاججزکی تعیناتی کی،تویہ خالص ایک آئینی نوعیت کامعاملہ ہے اوراس پروفد مداخلت نہیں کرتااوریہ وفدکے مشن کاحصہ بھی نہیں تھا۔لااینڈجسٹس کمیشن پہلے سے ہی بہت سارے بین الاقوامی اداروں سے رابطے قائم کیے ہوئے ہے۔تاہم اس کے برعکس پاکستان کے سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ پاشاکے مطابق اس نوعیت کادورہ اور ملاقات کسی بھی ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کی بہترین مثال ہے۔اس وفدکایہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے کہ وہ اس طرح ملک کے چیف جسٹس سے ملیں اورپھران سے تفصیلی نوعیت کے سوالات کرے۔پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلے بھی قرض معاہدے کیے ہیں مگرماضی میں کبھی سپریم کورٹ کی سطح پرآئی ایم ایف نے کوئی جائزہ نہیں لیا۔

معاشی امورکے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف وفدکی ملاقات کسی بھی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔ اُن کی رائے میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو7/ارب ڈالرپروگرام کامعاہدہ کررکھاہے اس کے تحت پاکستان نے اس طرح کے جائزے کیلئےرضامندی ظاہرکر رکھی ہے تاہم ڈاکٹرحفیظ کے مطابق سپریم کورٹ کاان معاملات سے کوئی تعلق نہیں بنتااوریہ ملاقات اگرضلعی عدالتوں یاہائی کورٹس کی سطح پربھی ہوتی،توبات قابل ہضم تھی،مگراس سے اوپرجانے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی۔

حفیظ شیخ کے مطابق اس وفدکامینڈیٹ محض اتناہے کہ اس نے بدعنوانی سے متعلق ایک مخصوص رپورٹ مرتب کرنی ہے جبکہ 7/ارب ڈالرکے پروگرام کاجائزہ لینے کیلئےآئی ایم ایف کاوفداگلے دوسے تین ہفتوں میں پاکستان کادورہ کرے گاجس کی بنیادپرپھر یہ فیصلہ ہوناہے کہ اسلام آبادکو قرض کی اگلی قسط جاری کی جانی چاہیے یانہیں۔تاہم آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے تحت پاکستان عدالتی اصلاحات کرنے کاپابندہے اورپھرآئی ایم ایف کے جائزے سے مشروط اس پروگرام کوآگے بڑھانے کاپابندہے۔آئی ایم ایف کایہ وفدایک ہفتے کیلئےپاکستان کے دورے پررہے گااور6شعبوں کی کڑی نگرانی کرے گاکہ کیسے یہ بدعنوانی کے خاتمے کیلئےکام کررہے ہیں۔حکام کے مطابق یہ وفد مالیاتی گورننس،سینٹرل بینک گورننس اینڈآپریشنز، مالیاتی شعبے پرنظر رکھے گا،مارکیٹ ریگولیشن کاجائزہ لے گااورپاکستان میں قانون کی حکمرانی اوراینٹی منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کاجائزہ لے گا ۔اس وفدنے عدلیہ،سٹیٹ بینک ،الیکشن کمیشن،فنانس،ریونیواورایس ای سی پی سمیت دیگرشعبوں کے حکام سے ملاقاتیں کرنی ہیں۔

گذشتہ برس پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان7/ارب ڈالرقرض کے حصول کیلئےطے پانے والے معاہدے سے قبل پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈکی جانب سے عائدکردہ شرائط کوپوراکرنے کی کوشش کی تھی جس کے تحت رواں مالی سال میں ٹیکس آمدن بڑھانے،مختلف شعبوں پرٹیکس کی شرح بڑھانے اورنئے شعبوں کوٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات شامل تھے۔

اینٹی کرپشن فریم ورک کومؤثربنانے کیلئےحکومت2025تک سول سروس ایکٹ میں ترمیم کرے گی تاکہ اعلیٰ سطح کے عوامی عہدیداروں کے اثاثوں کی ڈیجیٹل فائلنگ اوران کی عوامی رسائی کویقینی بنایاجاسکے اورایف بی آرکے ذریعے اثاثوں کی جانچ کیلئےایک مستحکم فریم ورک تیارکیاجائے گا۔عدالتی اور ریگولیٹری نظام کاجائزہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کاحصہ ہے اورپاکستان نے اس معاہدے پردستخط کررکھے ہیں۔ پاکستان نے فنڈکویہ یقین دلا رکھا ہے کہ وہ انسداد بدعنوانی کیلئےاپنے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرے گااوروہ آگے بڑھنے کیلئےسب کوغیرامتیازی کاروباری اورسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا۔

معاشی غلامی کاتصوراس وقت سامنے آتاہے جب کوئی ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کراپنی آزادانہ پالیسی سازی کی صلاحیت کھوبیٹھتاہے ۔ تاریخ میں کئی مثالیں موجودہیں جہاں معاشی برتری نے ممالک کی خودمختاری کومحدودکردیا۔مثال کے طورپر19ویں صدی میں مصرنے برطانوی قرضوں کی ادائیگی نہ کرسکنے پراپنی خودمختاری کھودی،جس کے نتیجے میں برطانیہ نے مصرپر قبضہ کرلیا۔اسی طرح جدیددورمیں”ڈیبٹ ٹریپ ڈپلومیسی”کی اصطلاح اکثرچین کے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں سخت معاشی اصلاحات اورآئی ایم ایف کے ساتھ کئی بارمعاہدے کرکے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ٹیکس اصلاحات،اخراجات میں کٹوتی،اورزرِمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔تاہم،یہ تمام کوششیں وقتی طورپرتوکارگرثابت ہوئیں لیکن ملک کی معیشت اب بھی غیرمستحکم ہے اورقرضوں کابوجھ بڑھتاجارہاہے۔

اگرپاکستان دیوالیہ ہوتاہے توعالمی مالیاتی ادارے،خاص طورپرآئی ایم ایف،قرضوں کی واپسی کیلئےمختلف اقدامات کرسکتے ہیں۔ ان میں ملک کے غیر ملکی اثاثوں کوضبط کرنا،بین الاقوامی مالیاتی امدادیاتجارت پرپابندیاں لگانا،اوربین الاقوامی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی شامل ہوسکتی ہے۔بعض اوقات ،ملک کے اندرونی اثاثے،جیسے سرکاری ادارے یاقدرتی وسائل،بھی گروی رکھوائے جاسکتے ہیں یاان پربین الاقوامی کنٹرول عائدکیاجاسکتاہے ۔ پاکستان نے ماضی میں کئی قیمتی اثاثے مختلف مالیاتی معاہدوں کے تحت گروی رکھوائے ہیں۔ان میں گوادرپورٹ،موٹرویز،اورقومی ایئرلائن کے مخصوص حصص شامل ہیں۔اس کے علاوہ،کچھ قدرتی وسائل اورپاورپلانٹس بھی گروی رکھے گئے ہیں یاان پرغیرملکی سرمایہ کاروں کااثرورسوخ بڑھ گیاہے۔یہ اقدامات وقتی مالی امدادکیلئےکیے گئے تھے لیکن ان کا طویل المدتی اثرملکی خودمختاری پرپڑسکتاہے۔

آئی ایم ایف وفدکی چیف جسٹس سے ملاقات کئی پہلوؤں سے اہم ہے،مگریہ کہناکہ یہ براہِ راست مداخلت ہے یاپاکستان کی خود مختاری پرحملہ ہے، شاید قبل ازوقت ہوگا۔پاکستان کواپنی معاشی پالیسیاں مستحکم کرکے قرضوں پرانحصارکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے اثرسے بچ سکے ۔تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ حقیقی خودمختاری صرف معاشی خود انحصاری سے ہی ممکن ہے اوراس کیلئے سیاسی استحکام بھی ناگزیرہے۔ سیاسی انارکی،

بدعنوانی،اورادارہ جاتی کمزوری ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

پاکستان میں سیاسی انارکی کی وجوہات میں طاقت کی کشمکش،جمہوری اداروں کی کمزوری،اورانتخابی نظام کی شفافیت کافقدان شامل ہیں۔سیاسی جماعتوں کاکرداراس میں کلیدی ہے،جنہیں اپنے اندرونی ڈھانچے کومضبوط،جمہوری اصولوں کی پاسداری اورعوامی مفادات کواولین ترجیح دینی چاہیے۔علاوہ ازیں عالمی سیاست میں موجودہ سپرپاورزکے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی،جیسے امریکا،چین،اورروس کے درمیان تعلقات،عالمی سطح پرانارکی کاباعث بن رہے ہیں۔غزہ اوراسرائیل کے درمیان جاری تنازعہ،اور امریکاکی جارحانہ خارجہ پالیسیوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیابھرمیں امن کو خطرے میں ڈال دیاہے۔یہ عالمی تناؤپاکستان جیسے ممالک پربھی اثراندازہوتاہے،جواقتصادی وسیاسی دباؤکاسامناکرتے ہیں۔

آئی ایم ایف وفدکی چیف جسٹس سے ملاقات کئی پہلوؤں سے اہم ہے،مگریہ کہناکہ یہ براہِ راست مداخلت ہے یاپاکستان کی خود مختاری پرحملہ ہے، شاید قبل ازوقت ہوگا۔پاکستان کواپنی معاشی پالیسیاں مستحکم کرکے قرضوں پرانحصارکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے اثرسے بچ سکے ۔ ساتھ ہی،سیاسی استحکام اورعالمی سیاست کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرنابھی ضروری ہے۔تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ حقیقی خودمختاری صرف معاشی خود انحصاری سے ہی نہیں بلکہ سیاسی استحکام اوربین الاقوامی سطح پرمتوازن پالیسیوں سے ممکن ہے۔ہمیں ہرحال میں یہ ذہن نشین رکھناچاہئے کہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن چکاہے اوراس کی میزائل ٹیکنالوجی پرامریکانہ صرف اپنے تحفظات کااظہار کرچکاہے بلکہ دومرتبہ مختلف اقسام کی پابندیاں بھی عائدکرچکاہے کہ امریکا پاکستان کے بین البراعظمی میزائل کی زدمیں آچکا ہے جبکہ تمام وہ مالیاتی ادارے جو پاکستان کوقرض دیتے ہیں،ان کی باگ ڈوران قوتوں کے پاس ہے جن کوایٹمی پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں