یوں تودنیاٹرمپ کے متحدہ عرب امارات،بحرین اوراسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پانے اورمذاکرات میں ثالث کاکردارادا کرکے اپنے آئندہ صدارتی انتخاب کیلئے بھی راہ ہموارکی ہے اوراب اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں امن معاہدے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔اب اس کو آئندہ ہفتوں اورمہینوں کے دوران میں مکمل کیاجائے گا۔اس معاہدہ کی خبرسے عرب دنیااورخود امریکامیں بھی ایک لہردوڑگئی ہے اوربہت سے لوگ ہنوزحیرت زدہ ہیں کہ یہ سب کیوںکرممکن ہوا۔یہ اس وقت ہی کیوں ہواہے؟ یہ ڈیل کتنے عرصے سے’’پک ‘‘رہی تھی اوراس کے کیا مضمرات ہوں گے؟ماضی میں امن کیلئےکاوشوں،بشمول1992ءمیں میڈرڈ کانفرنس،1990ءکے عشرے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کے عمل اور اسرائیل کے مصر،اردن اورتنظیم آزادیِ فلسطین(پی ایل او)کے ساتھ طے شدہ معاہدوں اورسمجھوتوں کی طرح’’معاہدۂ ابراہیم‘‘کیلئےمذاکرات عوام کی نظروں میں نہیں ہوئے ہیں اوریہ میڈیاکی بھی اسکروٹنی کے بغیرہوئے ہیں۔بظاہریہ لگتاہے کہ یہ مذاکرات ابھی ہوئے ہیں اورٹرمپ اوروائٹ ہاؤس میں ان کی ٹیم نے فوری طورپراس معاہدے کی’’نقاب کشائی‘‘کردی ہے۔
تاہم مجھے اس معاہدے کی خبرسے کوئی تعجب نہیں ہواکیونکہ بالخصوص سعودی عرب،یواے ایاوردیگرخلیجی عرب ریاستوں اوراسرائیل کے درمیان ڈیل کی ایک طویل تاریخ ہے اوراس کے زیادہ وسیع ترپہلو اورمعاہدے پردستخطوں کے بعد باری باری انکشاف ہوگاکہ اسرائیل اوریواے ایکے درمیان ٹرمپ کے حلقے میں یہ آئیڈیاکیسے پروان چڑھااوراس پرکتنے عرصے سے کام ہورہاتھا؟اس سلسلے میں اپنے کئی مضامین میں لکھ چکا ہوں اورمیرے قارئین یقیناًاس سے بخوبی واقف ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین نے یہ عاجلانہ دعویٰ کیاہے کہ انہوں نے اس معاہدے اوراس کے اعلان میں عجلت کامظاہرہ کیاہے۔انہوں نے دراصل اس معاہدے کے ذریعے ایک طرح سے امریکامیں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ٹرمپ نے راتوں رات ہی اس کاحکم دے دیاتھا لیکن یہ درست نہیں۔
ٹرمپ کے خارجہ پالیسی برائے مشرقِ وسطیٰ کے ایک مشیرکے مطابق پانچ سال قبل ٹرمپ ٹاورمیں ایک خصوصی ملاقات میں یواے ای کی طرف اشارہ کرکےایک نئے عرب،اسرائیل امن معاہدے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں پوچھاتھا”کیاوہ اسرائیل کے ساتھ کسی ممکنہ امن ڈیل کاامیدوار ہو سکتاہے گویاٹرمپ اس کے بارے میں برسوں سے سوچ رہا تھااوروہ اس ڈیل کاخالق بننا چاہتاتھا۔2016ءمیں صدارتی انتخاب کیلئےمہم کے دوران ٹرمپ نے ایسی کسی ڈیل کی پیشگوئی کی تھی۔اس نے ستمبر2016ءمیں نیتن یاہوسے ملاقات کی تھی۔صدرمنتخب ہونے کے بعدٹرمپ نے یواے ای کے ولی عہد شیخ محمدبن زایدالنہیان سے ملاقات کی تھی۔یہ کوئی پانچ سال پرانی بات ہے۔
اسرائیلی ربع صدی قبل اردن کے ساتھ امن معاہدہ پردستخط کرنے کے بعدسے کسی اورملک سے بھی معاہدہ طے کرنے کی تاک میں تھے۔اہم ذرائع کے مطابق جہاں تک یواے ای کی قیادت کاتعلق ہے،شیخ محمداوران کے بھائی امارات کے وزیربرائے خارجہ اموراوربین الاقوامی ترقی شیخ عبداللہ بن زاید نے2016ءمیں عندیہ دیاتھاکہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسی کسی ڈیل کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن وہ فلسطینیوں کوبھی ملحوظ رکھیں گے۔اس معاہدہ کی جڑبنیادتوپرانی ہے لیکن اس کاآئیڈیابتدریج پروان چڑھا ہے۔امریکامیں اس کی شرائط توقع سے کہیں زیادہ کم وقت میں طے پائی ہیں۔
ریاض سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد2017ءمیں ٹرمپ کا اس طرح کی ڈیل کے بارے میں منصوبہ طے پاچکاتھاجس کیلئے باقی ماندہ کام اس نے اپنے یہودی نژاددامادجیرالڈکوسونپاجو کہ سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان کے ذاتی دوست ہیں اورسعودی عرب میں اقتدارکے راستے میں خطرہ بننے والے تمام افرادکی گرفتاری اوران سےپانچ سوبلین ڈالرکی وصولی کی مدمیں گرفتاری کے مشورہ دینے کی وجہ سے کافی شہرت بھی رکھتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں اپنی آمدکے فوری بعدٹرمپ نے متعددعرب ممالک کے لیڈروں سے بات چیت کاایک تیزرفتارسلسلہ شروع کیاتھا۔ ان میں مصر، سعودی عرب، یواے ای،بحرین اوراردن کے لیڈرشامل تھے۔ان سے ملاقاتوں کامقصدایک عرب اتحادکی تشکیل تھا۔ خارجہ پالیسی کی ایک مقصدی مہم کے نتیجے میں یہ اتحاد تشکیل پایاتھا۔اس کامقصداپنے اگلے انتخاب میں کامیابی کیلئے عربوں اوراسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کےعمل کوآگے بڑھاناتھا۔گویایہ ثابت ہواکہ امریکی صدرسے آج جوکچھ سناگیاہے،اس پر برسوں سے کام جاری تھا۔اسرائیلی اوراماراتی دونوں ہی یقینی طورپراس تاریخی راستے پرچلنے کے مشتاق تھے لیکن اس کیلئے انہیں امریکاکی اسپانسرشپ درکارتھی۔
سوال یہ ہے کہ اس معاہدہ میں تاخیرکیوں ہوئی ہے؟یہ2020ءکے موسم گرمامیں کیوں طے پایاہے اور2017ءکے موسم بہارمیں کیوں نہیں جبکہ فریقین توانہی شرائط پرتیاربیٹھے تھے؟جب صدرٹرمپ نے مئی2017ءمیں ریاض میں50سے زیادہ عرب اورمسلم ممالک کے لیڈروں سے خطاب کیا تھاتوانہوں نے ان کی دہشتگردی اورانتہا پسندی کے خلاف لڑنے اورعرب اسرائیل تنازع کے حل کی غرض سے آگے بڑھنے اور امن معاہدوں کیلئے حوصلہ افزائی کی تھی۔اس وقت عرب اتحادیوں کی جانب سے اْسی سال موسم گرمامیں ڈیل کیلئےکسی اقدام کی توقع کی گئی تھی لیکن چند لوگوں ہی نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ سابق صدراوباماکے دورکی افسر شاہی ٹرمپ انتظامیہ کے تحت بھی کام کررہی تھی۔اس نے نہ صرف وائٹ ہاؤس کوتوازن سے دور رکھاتھااورقومی سلامتی پر تندو تیز تحقیقات کی تھیں بلکہ خطے میں ٹرمپ کے عرب اتحادیوں کومیڈیاکے ذریعے بے توقیر کرنے کی کوشش بھی کی تھی ۔وائٹ ہاؤس اورکانگریس میں اس کے اتحادیوں کوان نام نہاد تحقیقات اور مواخذے کی مہم کی دلدل سے باہرنکلنے میں قریب قریب تین سال لگے ہیں ۔اس کے بعدچھ ماہ کوروناوائرس کی وَباکی نذرہوگئے ہیں۔ان تمام تر تاخیری وجوہات کے باوجودامن معاہدے کااعلان ہوچکاہے اوراب یہ خود اپنی زندگی جی رہاہے۔
غورطلب بات یہ ہے کہ اس معاہدے سے کس نے کیاحاصل کیا؟اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کادیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہواچاہتاہے۔وہ یوں کہ اس کوخلیج عرب کی ایک بڑی معیشت تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔اس کی عرب دنیاکے سب سے جدید ملک کے ساتھ شراکت داری قائم ہوجائے گی۔ یواے ای کویہ خواب دکھایاگیاہے کہ اسرائیل کی زراعت سے دفاعی شعبے تک جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔(یہ سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ اسرائیل اس خطے میں کسی کواتناطاقتوربنتے نہیں دے گاکہ کل کلاں وہ اس کیلئے خطرہ بن جائے) تاہم دونوں ممالک خودکواگرایک مخالف خطے میں پاتے ہیں توان کے درمیان فوجی تعاون کھیل کاپانسہ پلٹنے کیلئےاہم عامل ثابت ہوگا۔
دوسری جانب ابوظہبی قطرپراس مقصد کیلئےدباؤڈالے گا کہ وہ بھی اس کی پیروی کرے یاپھروہ بظاہرامریکی عوام کی نظروں میں امن کامخالف سمجھاجائے گا۔فلسطینی یاکم سے کم اعتدال پسند حلقے امریکاکی گزشتہ دوسال کے دوران اسرائیل نوازپالیسی سے مطمئن نہیں ہیں،انہیں اب ایک نیاموقع مل جائے گاکہ وہ اپنی حتمی ریاست کے قیام کیلئےزیادہ فعال کردارادا کرسکیں۔انہیں خلیج کی جانب سے خاطرخواہ اقتصادی امداد مل سکتی ہے۔بظاہرفلسطینیوں کویہ خواب بھی دکھایاگیاہے کہ یواے ای کے ساتھ معاہدے کے بعداسرائیل غرب اردن کے سرحدی علاقے کو قومیانے کے منصوبے کومنجمد کردے گا۔یہ ایک معجزہ ہی ہے لیکن فلسطین کی سول سوسائٹی اورنوجوانوں کیلئےاس سے بھی بڑا معجزہ یہ ہے کہ نوجوانوں کودبئی کے غربِ اردن سے کاروباری رابطے کے نتیجے میں کافی اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے اوروہ پچھلی سات دہائیوں سے جاری معاشی مشکلات سے چھٹکارہ پاکرغربت اورمفلسی کی دلدل سے نکل سکتے ہیں اوراپنی آنے والی نسل کوبہترین ضروریات زندگی کے ساتھ بہترین تعلیم کے زیورسے آراستہ کرسکیں گے جبکہ اسرائیل سمجھتاہے کہ اس لالچ سے وہ فلسطینیوں کی آئندہ آنے والی نسل کواپنے خلاف جہاد سے بھی دورکرسکتاہے۔
یقیناًاس معاہدے کے بعدشدیدترین مخالفت کرنے والے بھی کھل کرسامنے آگئے ہیں۔بظاہریواے ای اوردیگرذرائع ابلاغ کواسرائیلی اورامریکی میڈیا میں ان مخالفین کے خلاف پروپیگنڈہ کوبڑی پذیرائی مل رہی ہے کہ ایران اوراخوان المسلمون بلاشبہ ایسے کسی معاہدے کی اس لئے مخالفت کررہے ہیں کیونکہ ایسا معاہدہ ان کے امور/ لوگوں کوریڈیکل بنانے، فلسطینی نصب العین(کاز)اور یروشلم کے بارے میں پتوں کی بڑے مؤثراندازمیں فعالیت کوکم کردے گاجبکہ اماراتی دنیابھرکے مسلمانوں کیلئےاس مقدس شہر کے دروازے کھولیں گے۔ترکی کی حکمراں جماعت بھی اس امن معاہدے کی مخالفت میں ایران کی صف میں شامل ہوگئی ہے لیکن اس کیلئےضرررساں امریہ ہے کہ استنبول میں سیکولرحضرات اور کاروباری افراداس طرح کی جارحانہ خارجہ پالیسی سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔نتیجتاًاسرائیلی کاروباری اپنے کاروبارکوترکی سے خلیج کی منڈی میں منتقل کردیں گے کیونکہ انہیں ترکی میں امن عمل کی مخالف ایک جارحانہ حکومت کاسامناہے۔
جہاں تک یواے ای کاساتھ دینے والادوسرےملک بحرین کاتعلق ہے تواس نے توبرسوں قبل بین المذاہب مکالمے کاآغازہی اس لئے کیاتھاکہ اس کی آڑمیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کاراستہ کھولاجائے اورگزشتہ چندبرسوں سے اپنے ہاں کی شیعہ آبادی میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے پیچھے ملوث ایرانی ہاتھوں کوواضح پیغام دیاجائے۔ عمان اورکویت فی الحال اس معاملے کوبغوردیکھنے کی پالیسی پرگامزن ہیں لیکن سب سے بڑاتحفہ، جومشرقِ وسطیٰ میں بنیادہی کوتبدیل کرکے رکھ دے گا،وہ سعودی عرب کے علاوہ کوئی اورنہیں ہے جبکہ خطے کے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں کہ یواے ای اوربحرین اتنابڑاقدم سعودی مشاورت کے بغیراٹھاسکیں کیونکہ سعودی ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان ابوظہبی کے ولی عہدمحمد بن زایدالنہیان کے انتہائی قریبی دوست اوراتحادی ہیں۔نوجوان سعودی ولی عہد نے پہلے ہی مملکت کی تاریخ میں اصلاحات “سعودی عرب وژن2030ء” کے نام پر سب سے بڑامنصوبہ شروع کررکھاہے جس میں جہاں دبئی جیسی تمام سہولیات کے ساتھ ایک ایسانیاشہر بنایاجارہاہے، ملک بھرمیں سینماوتھیٹرکے ساتھ مغربی میوزک کے پروگرامزکاآغازہوچکا ہے جس کے جواب میں بیشتروہ تمام مذہبی علماءجنہوں نے ان اقدامات کواسلامی معاشرے کے خلاف آوازاٹھائی تھی ،ان کی اس آوازکونہ صرف دبادیاگیاہے بلکہ ایک سخت گیرپالیسی کا برملااعلان کرکے امریکی ومغربی میڈیاسے تحسین بھی وصول کی جا چکی ہے۔
امریکی اورمغربی میڈیاجوبظاہرسعودی صحافی جمال خاشفجی کے ترکی میں سعودی سفارت خانے میں بہیمانہ قتل پرٹرمپ سے اس ظالمانہ عمل پرکاروائی کا مطالبہ کررہاتھا،اس نے بھی حالیہ یواے ای اوربحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پرایک مرتبہ پھرسعودی ولی عہد محمدبن سلمان کی تعریف میں توصیفی کلمات کاانبارلگاتے ہوئے اپنے اداریوں میں لکھا ہے کہ ریاض سربراہ اجلاس کے بعد محمدبن سلمان نے ہی ٹرمپ کے ساتھ مل کر خلیج میں سفارتی نشاۃ ثانیہ میں اہم کرداراداکیا ہے مگرساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیاہے کہ انہیں خودبڑی احتیاط سے اپنے ملک میں دوررس نتائج کی حامل اصلاحات کوعملی جامہ پہناناہوگاتاکہ وہ خودیروشلم کی جانب جانے والی شاہراہ پرچلنے کیلئےعرب اتحاد کی قیادت کرسکیں اوروہاں امن کی دعاکرسکیں ۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ خطے میں اس دہماکے بعدعالم اسلام کوشدیددھچکالگاہے جس کے جواب میں عالم اسلام میں اتحادکی کوششوں کوبری طرح ناکامی کامنہ دیکھناپڑگیاہے اوریہی امریکاومغرب کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی کامیابی ہے جوکہ عالم اسلام کیلئے ایک سانحہ سے کم نہیں۔