سطحِ ارضی کے ہرخطے اورخطے کی ہرہرزبان میں بے شمارکتابیں لکھی گئیں،جنہیں شمارمیں نہیں لایاجاسکتا ۔ان بے شمار کتابوں کی موجودگی میں آخرصرف قرآن ہی وہ کتاب کیوں ہے جس کاپڑھنا،سمجھنااورپھرسمجھ کرعمل کرناہرفرد نوع انسانی پر لازم قرارپائے؟ آخرہم قرآنِ کریم کا مطالعہ کیوں کریں؟یہ ایک ایسافطری سوال ہے جس کاجواب علمِ عقلی اورفطرتِ طبعی کے مطابق مطلوب ہے تاکہ دنیاکے موجودہ مصائب سے نجات حاصل کرنے کے دعویٰ کی بھی تصدیق ہوسکے۔ مذہب اورعقیدہ انسان کی فطری ضرورت ہے۔ایساکوئی انسان نہیں جوکسی مذہب کا پابند اورکسی مخصوص عقیدے کاحامل نہ ہو ۔ حتیٰ کہ جولوگ کسی مذہب کونہیں مانتے اورکسی معبودکی عبادت نہیں کرتے،غورکریں توان کاکسی مذہب کونہ ماننااورکسی معبودکی بارگاہ میں جبینِ نیازکانہ جھکانابھی ایک عقیدہ اورمذہب ہی ہے ۔
دنیاکے تمام وابستگانِ مذاہب اپنی اپنی کتابوں کووہی درجہ دیتے ہیں جومسلمان قرآنِ کریم کو۔یسوع مسیح کونجات دہندہ سمجھنے والا ایک عیسائی،پتھروں کے تراشیدہ صنم کدے میں سرجھکانے والاایک ہندو،نسلِ داؤدسے ظہورپانے والے نجات دہندہ کا منتظرایک یہودی،آتشی شراروں کومقام تقدیس پرفائزکرنے والاایک آتش پرست،نروان کی تلاش میں سرگرداں ایک بُدھ اور حضرت لا-زوکی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے والامذہبِ تاؤکاایک پیروکاریہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ نسلِ انسانی سے تعلق رکھنے والافردقرآنِ کریم ہی کیوں پڑھے؟اس کیلئےلازم ہے کہ وہ عہدِ نامۂ جدید، وید،بھوت گیتا،عہدنامۂ قدیم ،اوستا،تری پتاکا،تا-تے-کنگ کامطالعہ کیوں نہ کرے؟یہ تمام کتابیں ہروابستگانِ مذہب کیلئے ایسی ہی مقدس اورالہامی ہیں جیسی مسلمانوں کے لیے قرآنِ کریم لیکن اگردنیامیں مذاہب سے وابستہ ان الہامی کتابوں کامطالعہ ضروری ہی قرارپائے تب بھی صرف قرآنِ کریم ہی وہ واحد معجزاتی کتاب ہے جس کا مطالعہ لازمی ہے۔بایں وجہ کہ ان تمام مقدس کتابوں میں یہ کہیں نہیں لکھاکہ یہ انسانیت کیلئے نازل کی گئی ہے۔
تاہم اللہ نےہدایت کیلئےجوکتابیں نازل کیں ان میں قرآن سب سے آخری کتاب ہےلیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے اس کامقام سب سے آگے ہے۔ انسانوں نے جوکتابیں تصنیف کیں ان کاتوشمارہی نہیں کیاجاسکتا۔ان میں سے بعض کتابوں کااثربھی،اس میں شک نہیں،دنیا نے قبول کیالیکن قرآن سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے۔اس طرح کی ہرانسانی تصنیف نے ایک محدوددائرے میں اپنے اثرات چھوڑے، لیکن قرآن نے ایک عالم کوبدل کر رکھ دیا۔اس نے دنیاکونئے افراددیے،نیاسماج دیااورنیاطرزِحکومت عطاکیا۔کسی فردکوبدلنادنیاکا مشکل ترین کام ہے۔قرآن نے فردکوخطاب کیااوراس کے ذہن وفکراورسیرت وکردارہی کانہیں،اس کے جذبات واحساسات تک کا رخ موڑدیا۔اس نے طہارتِ فکرونظراوراخلاق وکردارکی اساس پرایک پاکیزہ معاشرہ کاتصوردیااوراس طرح کامعاشرہ قائم کرکے دکھادیا۔
اس نے کہاریاست کوحرّیتِ فکروعمل،عدل وانصاف اورمساوات کی اساس پرقائم ہوناچاہیے اورانسانی حقوق کااحترام اس کافرض ہے۔دنیاکواس کے ذریعہ اس ریاست کاتجربہ ہوگیا۔دنیاتغیرات کی آماج گاہ ہے۔یہاں چھوٹی بڑی تبدیلیاں ہوتی ہی رہتی ہیں،لیکن قرآن کے ذریعہ اس نے ایک ہمہ جہت تبدیلی کامشاہدہ کیا۔یہ تبدیلی ہمیشہ کیلئےنمونہ بن گئی۔جب بھی انسان خیروفلاح کاوسیع تصور کرے گایہ نمونہ اس کے سامنے ہوگا۔
یہ عظیم انقلاب کسی ایک خطۂ زمیں تک محدودنہیں رہابلکہ دنیاکے بڑے حصے نے اس کااستقبال کیااوربخوشی اس تبدیلی کو قبول کیا۔اس کی بہت سی توجیہات کی جاسکتی ہیں۔ایک توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ اس وقت کے عالمی اورخاص طورپرعرب کے ناگفتہ بہ حالات کاردِّعمل تھا۔ پوری دنیاایک طرح کے سیاسی انتشارمیں مبتلاتھی۔ایک طرف مذہب کے ماننے والوں کاغیر عقلی رویہ،ان کے باہمی نزاعات اوردوسری طرف بادشاہوں اورامیروں کی عیش کوشی،عوام کی معاشی بدحالی،طبقاتی کشمکش ، عدم مساوات،جنسی آوارگی اوراخلاقی بندشوں سے آزادی نے دنیا کونڈھال کررکھاتھا۔اس کاردِّعمل بھی کہیں کہیں ہوالیکن حالات اس سے بڑے ردِّعمل کاتقاضاکررہے تھے۔جہاں تک جزیرۃ العرب کاتعلق ہے، حالات اس سے کہیں زیادہ ابترتھے۔ وہاں کوئی مضبوط سیاسی نظام نہیں تھا۔مختلف قبائل اپنے دائرے میں آزادتھے۔وہ اصنام پرستی میں مبتلا تھے،لیکن ہرقبیلہ کابت الگ تھا۔ان کے درمیان تعصب اورعداوت کی دیواریں حائل تھیں۔خانہ جنگی،جہالت،معاشی بدحالی اوراخلاقی بگاڑنے انہیں اپنے نرغے میں لے رکھاتھا۔قرآن اسی کاردِّعمل تھااوریہ ردِّعمل کامیاب رہااورعرب سے نکل کرعالمی سطح پربھی اثراندازہوا۔زبوں حال دنیانے اس کاساتھ دیا،جیسے وہ اس کی منتظرتھی۔
ردِّعمل کے اس فلسفہ میں اس حقیقت کونظراندازکردیاجاتاہے کہ ردِّعمل انتقام کے جذبہ سے سرشاراورحدودوقیودسے آزادہوتاہے۔ اس کے نتیجہ میں کوئی مثبت اوربڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔قرآن کے ذریعہ جوانقلاب آیااس کاامتیازیہ ہے کہ وہ اخلاق وقانون کا پابنداورعدل وانصاف کاحامی اور محافظ تھا۔اسے ردِّعمل قراردیناناواقفیت کی دلیل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ جوانقلاب آیا اس کے اسباب خارج میں نہیں،بلکہ اس کے اندرموجود تھے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔دشمنوں کے دلوں میں وہ اپنی جگہ بنارہاتھااورمخالف صفوں میں پیش قدمی کررہاتھا۔ان ہی میں سے بعض اسباب کایہاں ذکرکیاجارہاہے۔
اللہ تعالیٰ کے وجودکاتصورانسان کی فطرت میں ہے۔دنیاکے تمام ہی مذاہب نے اس کی تائیداورتصویب کی ہے،لیکن یہ آلودۂ شرک بھی رہاہے۔اللہ کے رسولوں نے توحیدکی دعوت دی اوراسی پراپنی تعلیمات کی بنیادرکھی،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ چشمۂ صافی گدلاہوتاچلاگیا۔قرآن نے اسے نکھارکر رکھ دیااوراب وہ بے آمیزاورخالص شکل میں دنیاکے سامنے تھا۔قرآن نے پوری تفصیل سے عقیدۂ توحیدپیش کیاکہ اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے۔ پوری کائنات،جس کی وسعت کااندازہ نہیں کیا جا سکتا،تنہااس کی پیداکردہ ہے۔اس کی تخلیق میں کوئی دوسراشریک نہیں ہے۔ وہی اس کامالک اورفرماں رواہے،کسی اورکااس میں ذرہ برابردخل نہیں ہے۔
مذہب کی دنیا میں یہ خیال پایاجاتاتھاکہ اس کائنات کی تخلیق کے بعد اللہ اس سے بے تعلق ہوگیاہے۔قرآن نے اس کی تردیدکی اور بتایا کہ وہ عرشِ بریں کامالک ہے اورپورے کارخانۂ عالم کواپنی مرضی سے چلارہاہے:
بے شک تمہارارب وہ ہے جس نے آسمانوں اورزمین کوچھ دن میں پیدا کیا،پھرعرش پرمتمکن ہوا۔جورات کے ذریعہ دن کوڈھانک دیتاہے اوردن تیزی سے اس کے پیچھے چلاآتاہے۔اس نے سورج،چانداورستارے پیداکیے۔سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔سن لو! اسی کیلئےخاص ہے پیدا کرنابھی اورحکم دینابھی۔بابرکت ہے اللہ کی ذات جوربُّ العالمین ہے۔﴿الاعراف:54﴾
وہ حَیّ وقیّوم ہے۔سارے عالم کوتھامے ہوئے ہے۔ایک لمحہ کیلئےوہ اس سے غافل نہیں ہے:
اللہ تعالیٰ وہ ہے کہ اس کے سواکوئی معبودنہیں۔وہ زندہ ہے اورکائنات کوتھامے ہوئے ہے۔نہ اسے اونگھ لاحق ہوتی ہے اورنہ نیند آتی ہے۔آسمانوں اورزمین میں جوکچھ ہے سب اس کی ملکیت ہے۔﴿البقرۃ:255﴾
قرآن نے شرک کی جڑکاٹ دی اورسوائے ایک ذاتِ خداوندکے ہرچھوٹے بڑے اللہ کے تسلط اوراقتدارسے انکارکردیا۔اب انسان اس دنیا پرصرف اللہ ِ واحدکی حکمرانی دیکھ رہاتھا۔اللہ سے انسان کاتعلق غیرواضح،بلکہ ایک طرح سے منقطع رہاہے۔قرآن نے انسان کارشتہ اللہ سے جوڑدیا۔اس نے کہاکہ انسان اس دنیامیں
خودسے نہیں آتا۔اس کی پیدائش،اس کارزق،اس کی صلاحیتیں اورتوانائیاں،اس کامرض وصحت سے دوچارہونااوراس کی موت و حیات سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے،کسی دوسرے کے پاس کچھ نہیں ہے۔لہٰذاتمہاراتعلق اس سے اورصرف اس سے ہونا چاہیے۔سورۂ فاطر میں ہے:
اللہ نے تمہیں مٹی سے پیداکیااورپھرنطفہ سے۔اس نے تمہارے جوڑے بنائے،جوعورت حاملہ ہوتی ہے اوربچے کوجنم دیتی ہے سب اس کے علم میں ہے۔کسی کوزیادہ عمرملتی ہے اورکسی کی عمرمیں کمی ہوتی ہے تویہ سب﴿اللہ کے ہاں﴾ ایک کتاب میں لکھاہواہے۔ان میں سے کوئی کام اللہ کیلئےدشوارنہیں ہے۔دریاؤں میں انتہائی شیریں پانی ہوتا ہے جوپینے کے کام آتاہے اورانتہائی تلخ اورنمکین بھی۔دونوں ہی سے تازہ گوشت ملتاہے اور استعمال کیلئےزیورات بھی حاصل ہوتے ہیں۔تم دیکھتے ہوکہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں،تاکہ تم اس کافضل تلاش کرواور اس کاشکراداکرو۔اسی کی ذات ہے جورات اوردن کوایک دوسرے میں داخل کرتی رہتی ہے۔سورج اورچاندکو اس نے مسخرکررکھاہے،جو ایک مقررہ مدت تک گردش میں ہیں:﴿فاطر:11-13﴾
یہی اللہ تمہارارب ہے۔اسی کی بادشاہت ہے۔اس کے سواجن معبودوں کوتم پکارتے ہووہ کھجورکی گٹھلی کے چھلکے کے برابربھی کسی چیزکے مالک نہیں ہیں۔اگرتم ان کوپکاروتووہ تمہاری پکارنہیں سن سکتے اورسن بھی لیں توتمہاری بات کاجواب نہیں دے سکتے۔اورقیامت کے روز تمہارے شرک سے انکارکردیں گے۔اورتمہیں اس طرح کی صحیح بات ایک باخبرکے سواکوئی نہیں دے سکتا۔﴿فاطر:13-14﴾
اس طرح کی تصریحات پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں۔اللہ واحدکے عقیدے نے انسانوں کوہرجھوٹے معبودسے نجات دی۔انسان کی گردن میں خود
ساختہ خداؤں کاجوطوق غلامی پڑاہواتھا،اسے کاٹ دیا۔جب کسی کے ہاتھ میں کوئی اقتدارنہیں ہے توکیوں وہ اس سے توقع رکھے اور اسے اپنا مالک وکارساز سمجھے ۔اب کسی فرعون کواجازت نہ تھی کہ اپنی بادشاہت وحکومت کاڈنکاپیٹے اوردوسروں کوغلام بنائے۔اللہ تعالیٰ تک براہ راست رسائی ہوسکتی ہے۔ اللہ تک رسائی کیلئےانسان ذرائع اورواسطوں کوضروری خیال کرتاتھا۔ مشرکین کہتے تھے:
ہم ان معبودوں کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔﴿الزمر:3﴾
قرآن نے بتایاکہ اللہ تک پہنچنے اوراس کاتقرب حاصل کرنے کیلئےانسان کوکسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے۔اس سے وہ براہِ راست تعلق قائم کرسکتاہے ۔ وہ سب سے زیادہ اس سے قریب ہے اوراس کی دعائیں سنتااورجواب دیتاہے۔ان کا کام یہ ہے کہ وہ اس پرایمان رکھیں اوراس کی ہدایات پرعمل کریں:
جب میرے بندے میرے متعلق آپ سے سوال کریں توبتادیجیے کہ میں قریب ہی ہوں۔پکارنے والاجب پکارتاہے تومیں اس کی پکار سنتااورجواب دیتا ہوں۔لہٰذاانہیں بھی چاہیے کہ میری پکارکاجواب دیں اورمجھ پرایمان رکھیں۔امید ہے وہ ہدایت پائیں گے۔﴿البقرہ:186﴾
انسان گناہ سے مشکل ہی سے بچ پاتاہے۔بعض اوقات بڑے بڑے گناہ بھی اس سے سرزدہوجاتے ہیں،لیکن اس کاضمیرگناہ کی خلش محسوس کرتاہے، ارتکابِ گناہ اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتارہتاہے۔وہ چاہتاہے کہ اس کاگناہ دھل جائے اوروہ اس کی سزا سے بچ جائے۔اس کیلئےوہ ضروری سمجھتا تھا کہ دیوتاؤں اوردیویوں کوخوش کیاجائے۔ورنہ وہ ان کے غضب کاشکارہوگا۔اس مقصدسے طرح طرح کے رسوم اداکرتا۔یہ رسوم مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ انجام پاتے تھے۔شرک کی دنیامیں اب بھی یہی سب کچھ ہوتاہے۔گناہ کی زندگی گزارنے کے بعدانسان کبھی مایوس بھی ہوجاتاہے کہ اب اس کیلئےہدایت کی راہ بندہوچکی ہے۔قرآن نے معصیت پرورانسانوں اوربڑے بڑے مجرموں کواللہ کاپیغام سنایااورہمت دلائی کہ توبہ کے دروازے تاحیات کھلے ہوئے ہیں۔مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔اللہ انتہائی غفورورحیم ہے۔وہ بڑے سے بڑے مجرم کومعاف کرنے کیلئےتیارہے:
اے میرے بندو،جنہوں نے گناہوں کے ارتکاب سے اپنے اوپرزیادتی کی ہے،تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔اللہ سارے گناہ معاف کردے گا۔وہ توغفورورحیم ہے۔اپنے رب کی طرف رجوع کرواوراس کے مطیع وفرماں برداربن جاؤ،قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب آجائے اورکہیں سے تمہاری کوئی مددنہ ہو۔‘‘﴿الزمر:53-54﴾
قرآن نے جس طرح بگڑے ہوئے افرادکو،قاتلوں اورسیہ کاروں کو،اللہ سے براہ راست تعلق قائم کرنے اورگناہوں سے توبہ کی دعوت دی،اس سے اس راہ کی بندشیں اورواسطے ختم ہورہے ہیں اورانسان توبہ واستغفارکے ساتھ سیدھے اللہ کی طرف متوجہ ہوتاہے اوروہ اپنے گردوپیش کے مصائب سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔