قائد اعظم کاپاکستان دیکھ

:Share

اگر آپ کویادہوتوچندسال پہلے ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایسی مایہ نازاورمعززشخصیات کے نام اخبارات میں شائع ہوئے تھے جنہوں نے ملک کے بینکوں سے لئے گئے قرضوں کوشیرمادرسمجھ کرڈکارلیاتھااورآج بھی ماضی قریب میں ہمہ مقتدر شخصیات کے چندہونہار،نونہال آج نہ صرف ارب پتی ہیں بلکہ کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کابھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں ۔کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پرفائزسرکاری افسر،سیاستدان اور ٹیکنو کریٹ بیرونی ممالک میں دادِعیش دے رہے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی ایک کے خلاف بھاری رشوت اورسنگین بدعنوانی کے مقدمات زیرِالتواتھے جن کی این آراوکے تحت گلوخلاصی ہوئی۔چندایک مقدرکے سکندرایسے بھی ہیں جودوبارہ مملکتِ خدادا دکی قسمت کے مالک بن گئے ہیں۔

کچھ توایسے تھے جومملکتِ خدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھےاورپالیسی سازبھی،جب تک ہواکارخ موافق رہاوہ سیاہ وسفیدکے مالک بنے رہے۔ان کواپنااوران مہربانوں کامفاد،جن کے وہ ممنونِ احسان تھے،اس قدرعزیزتھاکہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کاخیال تک بھلابیٹھے،ملک توکیا،آنے والی نسلوں تک کوگروی رکھتے گئے۔اشرافیہ کوعیش وعشرت کی لت ڈال گئے۔ہمارے عظیم دوست چین کے عظیم ترین انقلابی قائد ماؤزے تنگ اورچواین لائی نے سادگی،کفائت شعاری اور خود کفالت کورواج دیا۔سنہرے مستقبل کیلئے وہ عارضی محرومیوں کو برداشت کرتے رہے،وہ اوران کے ساتھی سختیاں جھیلتے رہے،جن اصولوں پرقائدین خودکاربندہوں،عوام کیلئے ان کودل وجان سے قبول کرنااوران پربخوشی عمل کرنانہائت آسان ہوجاتاہے۔انقلاب کے بعدپہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اورچین اب دنیا کاعظیم ترین ملک بن گیاہے۔

چین ہمارے ساتھ ہی آزادہواتھااورآج دنیاکی سپرپاوربن چکاہے اور ہم ۔۔۔ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں ۔ امریکااورمغرب کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں کی بارگاہ میں سربسجودہیں،جس کے منشی اورکارندے حکم چلاتے ہیں اور ہم بلا چوں چراں حکم بجالاتے ہیں۔ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہماراہی کھاتے ہیں اورخوب کھاتے ہیں مانگ تانگ کے۔کئی دفعہ ناک سے لکیریں کھنچ کر،جو قرضہ ہم غیرممالک یامالیاتی اداروں سے لیتے ہیں اس میں سے یہ “فرشتے” مشاورت اورخدمات کے نام پربہت کچھ ہتھیالے جاتے ہیں۔”مالِ غنیمت”میں سے کچھ سکے وہ”مقامی ہم جولیوں”کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپارہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہار کے گیت اس وقت تک گاتے رہیں جب تک حکومت نہ بدل جائے۔

حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیرکیلئے اس طرح خاموش ہوجائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگر جلد ہی پھرنکل آئیں گے۔ راگ پھرشروع ہوگامگرسرتال پہلے سے مختلف۔اب خانہ بربادی کاذکرہوگا،ستیاناس اوربربادی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے ولا توبہ توبہ کاوردکرتے کانوں کوہاتھ لگائے اورسوچے کہ یہ حسین ملک کتنابد قسمت ہے کہ اس میں بھیڑیئے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایک اعلیٰ مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ طالع آزماایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ عوام کے اعتمادکی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص وہوس کا کچھ نہیں بگاڑسکتی،نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھل کھیلتے ہیں بلکہ اپنی”جرأت وبہادری”پرفخرکرتے ہیں ۔بعدمیں پکڑے جائیں توبھی اپنے کئے پرنادم ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کراپنادفاع کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو بھی یہ کہناپڑجاتاہے کہ “کرپٹ عناصرشرمندہ نہیں بلکہ وہ اکڑکربڑے فخر کے ساتھ چلتے ہیں……….ان سے کئی کئی ملین ڈالر عدالتوں کے حکم پر حکومت نے وصولبھی کئے،اس کے باوجودوہ گالف کھیل رہے ہیں،معاشرہ کوان سے الگ تھلگ رہناچاہئے اوران کابائیکاٹ کرناچاہئے”!

خطاتومعاشرہ کی بھی ہے۔اچھائی برائی میں تمیزکمزورپڑجائے،عجزوانکسارکمزوری کی علامت تصورہونے لگے،برائی سے بچنا بزدلی ٹھہرے اورچور ڈاکو رہزن کیلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے توکیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کا کردارادا کریں۔عموماًکہاجاتاہے کہ انسان کی سرشت میں مضمرہے کہ ہرانسان دل کی گہرائیوں میں نہ صرف نیکی اوربدی کا واضح احساس رکھتاہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہدکے جذبہ سے بھی عاری نہیں۔حالات کاجبرالبتہ اسے خاموش رہنے پرمجبور کردیتاہے۔روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتاہے کہ خواہ مخواہ”پنگا”لیناسراسرحماقت ہے ۔ جوسرپھرے پرائی آگ میں کودپڑتے ہیں ان کے نہ صرف پاؤں جھلس جاتے ہیں،بعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سےعدم کی منزل تک لے جاتی ہے۔

عقلمندی،انہیں ناانصافی،ظلم اوربے رحمی سے نبردآزماہونے کی بجائے خاموش رہنے اوربہت کچھ”پی جان”کی ترغیب دیتی ہے ،یوں ان کی قوتِ برداشت کادائرہ پھیلتاجاتاہے جس سے برخودغلط ظالموں کاحوصلہ بڑھتاہے۔وہ چنگیزخان کے لشکریوں کی طرح ہرمرغزارپرچڑھ دوڑتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اور بے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کاساتھ چھوڑدیتی ہے۔ آٹھوں پہرگردش کرنے والاآسمان پھرعجیب وغریب منظردیکھتا ہے۔ مفتوحہ شہرمیں ایک ممتاز شہری کسی غیرمسلح تاتاری کے ہتھے چڑھ جاتاہے، اسے وہی لیٹ جانے کاحکم ہوتاہے جس کی بلاچوں چراں تعمیل ہوتی ہے۔تاتاری یہ کہہ کر”یہیں لیٹے رہناجب تک میں کیمپ سے تلوارلاکر تمہارا گلہ نہ کاٹ دوں “چلا جاتاہے۔معززشہری بے حس وحرکت پڑارہتاہے،نہ اسے فرارکاخیال آتاہے،نہ جان بچانے کی سوجھتی ہے۔کافی دیرکے بعد تاتاری آتاہے،اس کاگلہ کاٹ دیتاہے۔اسی لئے توکہاگیاہےکہ”یقیناہم نے انسان کوبہترین شکل وصورت(احسن تقویم)میں پیدا کیا ہے اورپھراسے نیچوں سے نیچا(أَسْفَلَ سَافِلِينَ)کردیا۔،ماسوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اورنیک عمل کئے،ان کیلئے نہ ختم ہونے ولااجرہے۔

حدسے بڑھ جانے والی سفاکی غلامی کوجنم دیتی ہے۔کوئی بھی خواہ مخواہ گردن کٹوانانہیں چاہتا۔نہتے انسانوں کاجمِ غفیر توپ وتفنگ سے مسلح لشکرکے سامنے کیسے ٹھہرسکتاہے،خصوصاًجب قتل عام کااذن ہوچکاہویاہوسکتاہو۔ہلاکوخان نے اہلِ بغداد کوتہ تیغ کیاتودریاکاپانی گلرنگ ہوگیا،نادرشاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔گلیوں میں انسانی خون بارش کے پانی کی طرح بہنے لگا۔ 1857ءمیں بارباراجڑنے والی دلی کوپھرویساہی المیہ پیش آیا۔ شہزادگان کی لاشیں کئی دن درختوں سے لٹکتی رہیں،نازونعمت میں پلے بڑھے کتنے ہی اہلِ ثروت خون کی ہولی کی بھینٹ چڑھ گئے،جوبچ رہے وہ فاتحین کی قدم بوسی کو بڑھے۔اپنی وفادای کایقین دلانے کیلئے ایڑھی چوٹی کازورلگایا،تابعداری کوشرطِ استواری سے یوں سنواراکہ وہ اصل ایمان ٹھہری۔

عرب کے خیمے میں اونٹ گھسنے کی روایت بہت پرانی ہے۔سردی میں ٹھٹھرتا بیچارہ عرب کرہی کیاسکتاہے۔اونٹ کی ناک میں نکیل ہوتی اوررسی کو سوار نے مضبوطی سے تھاماہوتاتویہاں تک نوبت ہی نہ پہنچتی۔اترنے پراونٹ خیمے سے باہرزمین میں گاڑے کھونٹے سے باندھ دیاجاتا۔ایک دفعہ وہ خیمے میں گھس جائےتوبازی مالک کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، اب وہ بے بس اورلاچارہے۔انحصاراب اونٹ کی خصلت پرہے،اگرنیک طینت ہے تو مالک کیلئے بھی خیمے کے اندرگنجائش پیداکرے گا ،اگرکینہ پروری پرتل گیاتومالک کیااس کاباپ بھی آجائے پرنالہ وہی رہے گاجہاں تھا۔فاتح طبقے روایتی اونٹ کی طرح ہوتے ہیں،ان کی شرافت،رعایا پروری اوربندہ نوازی کے گن گاتے ہوئے التماس کی جاسکتی ہے کہ شرفِ انسانی کی لاج رکھیں اورغلاموں کوآزادی کی نعمت لوٹا دیں۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آزادی توکبھی بھی التجاؤں اوردرخواستوں سے نہیں ملی۔اقوام متحدہ کی فائلوں کی گردمیں کشمیرکا مسئلہ پچھلی سات دہائیوں سے پڑاسسک رہاہے لیکن ایسٹ تیمورکوجس سرعت سے حل کردیاگیا،وہ سب کے سامنے ہے ۔اقوام متحدہ جوامریکاومغرب کی لونڈی کاکردارادا کررہی ہے،اس کی منظورکردہ قراردادوں سفاک ہندونےبخیئے تک ادھیڑ کررکھ دیئے،عمران خان نے قوم کے سامنے برملاخودکوکشمیرکاوکیل قرار دیتے ہوئے ساری قوم کوجہادجیسے عظیم فریضہ سے بھی منع کردیا۔ہرجمعہ کوکشمیرسے یکجہتی کیلئے ایک گھنٹہ احتجاج کااعلان کیاگیالیکن ایک مرتبہ چندمنٹوں کیلئے فوٹو سیشن کاانعقادہوااوراس کے بعدآج تک اپنے ہی قول پرعمل کی توفیق نہ ہوئی۔5/اگست کومودی کے شرمناک عمل پریوم استحصال اس طرح منایاگیاکہ ایک دن قبل نئے پاکستان کانقشہ جاری کردیاگیاجس میں مقبوضہ کشمیرکے ساتھ جوناگڑھ بھی پاکستان کے نقشے میں شامل کرکے قوم کے ٹرک کوایک اورسرخ بتی کے پیچھے لگادیا۔اگرنئے پاکستان میں پاکستان کے نقشے میں بھارتی مقبوضہ علاقے دکھاکرفاتح بن سکتے ہیں توپھرہندوستان کے بیشترحصوں میں مسلمانوں کی راجدھانی قائم تھی، سراج الدولہ اورٹیپوسلطان توہمارے اسلاف میں تھے،ان کے علاقوں کوبھی شامل کرلیاجاتا۔

ہمارے وزیرخارجہ کی کامیاب خارجہ پالیسی کی تودھوم مچی ہوئی ہے۔وہ صرف سیاسی میدان کے شہسوارہی نہیں بلکہ ان کی توروحانی گدی اور ہزاروں مریدین کی طرف سے روزانہ کی مدمیں لاکھوں روپے کی آمدن کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ پچھلےدنوں کروناوباکے بچاؤکے سلسلے میں اپنی جوان مریدنیوں کے سرکے بال کاٹ کرانہیں شفاء کانسخہ تقسیم فرماتے ہوئے سارے پاکستان نے ان کایہ نیاروپ بھی ملاحظہ فرمایالیکن یہ الگ بات ہے کہ اس عمل کے صرف دودن کے بعدخود موصوف اپنے اہل خانہ سمیت کروناوباکی لپیٹ میں مبتلاہوگئے اورانہیں اپنے اس عمل کی سزاکے کے طورپرتمام مریدوں اورپاکستانی عوام سے دوہفتے کیلئے منہ چھپاناپڑا۔موصوف نے کشمیرکی آزادی کیلئے اپنی خارجہ پالیسیوں کوجلابخشنے کیلئے کشمیرہائی وے کانام بدل کرسرینگرہائی وے رکھ دیااورساتھ ہی انہوں نے قوم کوسرینگرمیں نوافل اداکرنے کی خوشخبری سنادی۔

مجھے آج جسٹس مرحوم محمدرستم کیانی بہت یادآرہے ہیں جنہوں نے 1959ءمیں دیئے گئے خطبہ یومِ اقبال میں ایک شوریدہ سرشاعرکے اس شعرکاحوالہ دیاتھا:
دیکھتاکیا ہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کاپاکستان دیکھ
جسٹس مرحوم محمدرستم کیانی اس وقت حکومت کے قانونی مشیرتھے۔ان سے رائے طلب کی گئی تھی کہ اس پرکون سی دفعہ لگتی ہے۔انہوں نے کہاتھاکہ”خداکے بندو!وہ توصرف یہ کہتاہے کہ میرے منہ کی طرف کیادیکھتے ہو،پاکستان کی طرف دیکھو،کیا یہ وہی ملک ہے جوقائداعظم نے تراشا تھا”……..اب توغالباًروح پاکستان بھی اپنے”جانثاروں”سے یہ سوال کرتی ہو گی۔کیاہم سے کوئی جواب بن پاتاہے؟ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی یہ سوچنے یامعلوم کرنے کی زحمت بھی گوارہ کی کہ مملکتِ خداداد پاکستان کیونکرصفحہ ہستی پرنمودارہوا؟ بانیانِ پاکستان کے خواب کیاتھے؟ آرزوئیں،تمنائیں اورآدرش کیاتھے؟بابائے قوم نے کیاسوچاتھا،کیاچاہاتھا،کون سی منزل متعین کی تھی؟کیسے وہاں تک پہنچنا تھا؟وہ منزل کن اندھیروں میں کھوگئی،نشانِ منزل بھی کوئی دکھائی پڑتاہے یانہیں؟

صحرائے سینامیں چالیس سال تک بھٹکنے کے بعدحضرت موسیٰ کی قوم کوبھی بالآخرمنزل مل گئی تھی۔احساسِ زیاں اگر دامن گیر ہوجائے توکیاخبر ہم بھی گم گشتہ راہوں کوازسرِنوپا لیں۔اپنی اپنی ذات کی قیدسے آزاد ہوجائیں۔ذاتی مفادکوہی زندگی کاواحدمقصدسمجھناترک کردیں۔ملک وقوم کی فلاح وبہبودکونہ صرف اپنافرض سمجھیں بلکہ اس کیلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کیلئے تیارہوجائیں۔کیاوہ ایک نئی صبح نہیں ہوگی جب ہم میں سے کئی ایک دیوانے سچ کوبرملاسچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔کتناہی خوشگواراجالاہوگاجب جماعتی وفاداریوں سےبالاترہوکر،یاری دوست اوربرادری کی زنجیروں سے آزاد ہوکرہمارے اربابِ اختیارحق وانصاف کے تقاضے پورے کریں گے،قائداعظم کےحسین چہرہ پرجمی گردجھڑنے لگے گی۔ حکمرانوں کیلئےایک کڑاامتحان ہے اورقوم بھی ہاتھوں میں پھندہ لئے منتظرہے۔دیکھیں کون کون جھولتا ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں