بھارت میں’’شہریت ترمیمی‘‘بل کے خلاف احتجاج میں نوجوان اورخاص طورپرلڑکیاں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی ہیں۔ان احتجاجی مظاہروں میں اب تک پولیس تشدد سے متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ بیس سالہ طالبہ پرییا بھی اِن مظاہروں میں حصہ لیتی ہیں لیکن انھیں پولیس تشدد سے زیادہ اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے والد کوان کی سرگرمیوں کا علم نہ ہوجائے اور وہ ان کی تعلیم بند نہ کروادیں۔ پرییااپنے والدکے بارے میں بتاتی ہیں کہ’’وہ مسلمانوں سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دارمسلمانوں کوسمجھتے ہیں۔میں نے کئی بار ان سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہربار وہ مجھے کالج سے نکالنے اورمیری شادی کردینے کی دھمکی دے کربات ختم کردیتے ہیں‘‘۔ پرییاکے والدانہیں واٹس ایپ پرفیک ویڈیواور تصاویر بھیجتے رہتے ہیں لیکن جب وہ انہیں ان ویڈیواورتصاویرکی تصدیق کیلئےویب سائٹس کے لنک بھیجتی ہیں توانہیں اُن ہی دھمکیوں کاسامناکرناپڑتا ہے ۔اس وجہ سے انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کواپنے والدین سے چھپایاہواہے۔پرییااپنے سیاسی نظریات کااظہارٹویٹرپرکرتی ہیں۔ان کاکہناہے کہ ان کے والدین کوان کے ٹویٹراکاؤنٹ کاعلم نہیں ہے۔
پرییااس صورت حال سے اکیلی دوچارنہیں ہیں۔ان کی کہانی بھارت بھرمیں کھانے کی میزوں،تقریبات اورسوشل میڈیاپرہونے والے مباحث کی عکاس ہے۔شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرنے والی طالبات کوان کے والدین کی جانب سے واٹس ایپ اوردیگر سوشل میڈیاپرایسے پیغامات کاسامناکرناپڑتاہے،جوغلط معلومات پرمبنی ہوتے ہیں۔
انشُل تیواری ایک خبری ویب سائٹ کے مدیرہیں،ان کاکہناہے کہ سوشل میڈیاپرہونے والی اس جنگ سے ذاتی تعلقات اوررشتوں میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔دنیابھرمیں موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں اورہانگ کانگ میں جاری احتجاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کی آوازسنی جائے۔دنیابھرکےنوجوانوں کے برعکس بھارتی نوجوانوں کوایک ایسے ثقافتی پس منظرمیں جہاں والدین کے اختیارات پرزوردیاجاتاہے، اظہار رائے کے ذرائع تلاش کرنا ہوتے ہیں۔اکثر اوقات بھارتی والدین خودکواس بات کااہل سمجھتے ہیں کہ وہی یہ فیصلہ کریں کہ ان کے بچے کیسے زندگی گزاریں ،کس سے محبت کریں حتیٰ کہ وہ کس بارے میں سوچیں۔
سویتا بگاریابھی بمبئی میں مقیم ایک ویڈیوایڈیٹرہیں۔پرییاکی طرح وہ بھی شہریت بل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتی ہیں۔ان کے نزدیک یہ قانون انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ان خیالات نے ان کے خاندان اوران کے درمیان خلیج کومزیدوسیع کردیاہے۔ان کے مطابق اُن کے خاندان کے افرادسخت مُتعصّب ہیں جونہ ہی مسلمانوں کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اورنہ انہیں کام پررکھناچاہتے ہیں۔
سویتا کہتی ہیں کہ ٹویٹرپراپنے جیسے دیگرافرادسے ملنے سے پہلے وہ یہ سمجھتی تھیں کہ اس صورت حال سے وہ اکیلی ہی دوچارہیں۔وہ اِن افرادکواپنامتبادل خاندان کہتی ہیں۔ان کاکہناہے کہ جن مشکلات کااِنہیں سامناہے وہ بھارت کے مسلمانوں کودرپیش مشکلات کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں شرکت ضروری ہوجاتی ہے۔
احتجاجی مظاہروں کے آغازسے ہی سویتاٹویٹرکے ذریعے پمفلٹ تقسیم کررہی ہیں،انہوں نے ایک ویڈیو بھی بنائی ہےجس میں انھوں نے لوگوں سے احتجاج میں شرکت کی درخواست کی ہے اوراس میں کامیاب بھی ہوئیں،تاہم اپنے خاندان کے حوالے سے انھیں کوئی امیدنہیں ہے۔ان کاکہناہے کہ’’میں نے برسوں کوشش کی لیکن ان کے خیالات تبدیل نہیں ہوئے‘‘۔
بھارت کی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ ایک ایکٹ کے ذریعہ 1955کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میں میں بنگلہ دیش، افغانستان اورپاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں(ہندو،بدھ،جین،پارسی،عیسائی اور سکھ)سے تعلق رکھنے والے افرادکوانڈین شہریت دینے کی تجویزہے،ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جومہاجر31دسمبر 2014سے پہلے بھارت آگئے تھے،انہیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11سال رہنے کی شرط کونرم کرتے ہوئے اسے5سال کردیاگیاہے۔اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کوشہریت نہیں دی جائے گی۔اس بل کے اسمبلی سے پاس ہونے کے بعدملک میں مظاہروں کاسلسلہ جاری ہے۔
10سال تک انڈیاکے وزیراعظم رہنے والے منموہن سنگھ نے اخبار”دی ہندو”میں لکھے گئے اپنے ایک کالم میں متنازعہ شہریت کے قانون کے تناظر میں گزشتہ چند دہائیوں میں پیش آنے والے سب سے پرتشددخوفناک فسادات میں 80سے زائد افرادکی ہلاکت پر مودی کی پالیسیوں پرگہری تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ”وہ انڈیاجسے ہم جانتے اورپسندکرتے ہیں اب وہ تیزی سے ہاتھ سے پھسل رہاہے۔ جانتے بوجھتے بڑھائی گئی فرقہ وارانہ کشیدگی نے مجموعی معاشی بدانتظامی نے انڈیا کی ترقی اور استحکام کوشدیدطورپر غیر مستحکم کردیاہے۔
آسام،میگھالیہ اورمنی پورکے علاوہ دوسری شمال مشرقی ریاستیں جوبنگلہ دیش کے ساتھ سرحدپرواقع ہیں اس بل کی مخالفت مقامی لوگوں کے اقلیت میں بدلے جانے کی وجہ سے کررہی ہیں۔مقامی لوگوں کاخیال ہے کہ اس قانون سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں اوربودھ باشندوں کویہاں آکربسنے کی ترغیب ملے گی اوراس طرح مقامی افرادنسلی طورپررفتہ رفتہ اقلیت میں بدل جائیں گے لیکن تمام سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ سوویت یونین کی طرح خودمودی کے ہاتھوں بھارت کے کئی حصوں میں تقسیم ہونے کی بنیادرکھ دی گئی ہے ۔