مصرکے جائزمنتخب مگرجبراً معزول صدرمحمدمرسی اپنے ملک کی صہیونیت واستعماریت نوازفوج کے جبرمسلسل سے دوچارہیں۔اب مصری حکومت نے ان کے خلاف جیل توڑنے کے الزام میں ایک اورمقدمہ قائم کردیاہے جس کے مطابق انہوں نے حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران غیرملکی قیدیوں کے فرار میں مددکی تھی۔ پراسیکیوٹرآفس کے مطابق مقدمے میں مرسی کے علاوہ اخوان المسلمون ،حماس اورحزب اللہ کے۱۳۲/ ارکان کونامزدکیاگیاہے جن میں بعض ملک میں موجودنہیں اور ان پرالزام کی عدم موجودگی میں عدالتی کاروائی کی جائے گی۔واضح رہے کہ معزول صدرمحمدمرسی کوگزشتہ سال جولائی میں فوج نے جبراًغیرقانونی طورپراقتدارسے علیحدہ کردیاتھااورانہیں اب اوردومقدمات کابھی سامنا ہے ۔ صدرمرسی کے حامیوں کاکہناہے کہ ان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اوران کامقدمہ سیاسی بنیادوں پرقائم کیا گیاہے۔حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے بھی مصری سیکورٹی فورسز پر بلااحتساب کاروائی کاالزام لگایاہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق محمدمرسی کے خلاف مقدمہ چلانے سے لوگ پریشان ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیاہوگااوریہ خدشہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ کشیدگی بڑھے گی اورمصرکاامن مزیدغارت ہوگا۔
جیل توڑنے کے الزام سے پہلے مصراوردیگرکئی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے مصرمیں قاتلوں کوہیرواوربے گناہ شہداء کودہشتگردقراردیا جارہاہے ۔تاریخ انسانی کے یہ عجیب وغریب دہشت گرد جومہینوں تک مسلسل ملک بھر کے میدانوں میں بیٹھے تلاوتِ قرآن کرتے ،تراویح اور تہجدپڑھتے رہے اورعین اس وقت جامِ شہادت نوش کرتے رہے جب وہ نمازکے دوران اپنے خالقِ حقیقی کے روبروسجدہ ریزہوتے تھے۔ان کی تعدادلاکھوں میں تھی ،وہ اگرچاہتے تواسلحہ اٹھاکرپورے ملک میں مخالفین کے خون کی ندیاں بہادیتے مگر ان کے ہاتھوں کسی کی نکسیرتک نہ پھوٹی کیونکہ انہیں ان کے خدا،ان کے رسول ۖاوراخوان کی قیادت نے ہرحال میں پرامن رہنے اورپیغامِ امن عام کرنے کی ہدایات دے رکھی تھیں۔ ان لاکھوں دہشت گردوں سے جابرحکمران ایک ہتھیاربھی برآمدنہ کرسکے۔ایک روزوزیرداخلہ نے ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کے دوران میں ایک ”دلیل”پیش کی کہ ہیومن رائٹس واچ کی ٹیم نے رابعہ بصری میدان میں بھاری اسلحہ ہونے کی گواہی دی ہے۔ اگلے ہی لمحے اس ٹیم کی طرف سے پرزورتردیدنے بھانڈہ پھوڑدیاکہ انہوں نے تو اشارتاً بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی مگراتنے بڑے عالمی ادارے کویہ توفیق نہ ہوئی کہ اتنابڑاسنگین الزام لگانے والے وزیرداخلہ کوکسی عالمی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑاکرتی۔
اخوان المسلمون کے ان انوکھے دہشت گردوں سے البتہ ایک ”خطرناک”اسلحہ بڑی تعدادمیںضروربرآمدہواکہ انہوں نے اپنے سینوں سے قرآن کریم کولگارکھاتھا۔ کتنے ہی ایسے شہدا ء کی میتیں ملیں کہ جان دے دی لیکن ان کے سینوں سے قرآن الگ نہیں ہوا۔انوکھے دہشتگردتھے کہ جن کے نوجوان بیٹے ہنستے مسکراتے اپنے بازوؤں پراپنے نام اور وارثوں کے فون نمبرلکھ رہے تھے تاکہ شہادت کے بعدمیت تلاش کرنے میں دشوری نہ ہو،کتنے ہی ایسے تھے جنہوں نے پورارمضان میدان میں گزارا۔ضروری سامان پرمشتمل ساتھ اٹھائے ہوئے اپنے تھیلے میں اپناکفن پراپنامکمل نام وپتے کے ساتھ موجود تھے۔یہی ان دہشت گردوں کی عیدکی تیاری تھی۔کتنی ہی مائیں ایسی ہیں کہ جیسے ہی اطلاع ملی کہ بیٹاشہادت کی مرادپاگیا، توفوراً سجدے میں گرگئیں کہ پروردگار!اپنی سب سے قیمتی متاع قبول فرمالے۔عجیب دہشت گردتھے کہ تحریک کے ساتھ وابستگی کے پہلے روز سے دہرانا شروع کردیتے کہ:”اللہ ہمارامقصود،رسول ۖہمارے رہنمائ،قرآن ہمارادستور،جہادہماراراستہ اور اللہ کی راہ ہماری شہادت،ہماری سب سے بلندپایہ آرزوہے”۔رابعہ بصری اورمصرکے دوسرے میدانوں میں ان دہشت گردوں نے ثابت کردکھایاکہ وہ خالی خولی نعرے نہیں لگاتے ،مخلصانہ عمل پریقین رکھتے ہیں۔ان کااوران پرالزام لگانے والوں کا معاملہ اللہ کے سپردکرتے ہوئے بعض دیگرحقائق کاجائزہ لیتے ہیں:
جب اخوان المسلمون کے ذمہ داررہنماڈاکٹرمحمدمرسی نے صدارت کاحلف(۳۰جون۲۰۱۲ء) اٹھایاتوان کی عظیم جماعت اورخودان پرآزمائشوں کانیاسلسلہ شروع ہوگیا ۔انہیں پہلا جھٹکاتوحلف کے وقت ہی دے دیاگیا۔منتخب صدرکومجبورکیاگیاکہ وہ دستورکے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھانے کی بجائے اسی دستوری عدالت کے سامنے جاکرحلف اٹھائیں جس نے چندہفتے قبل قومی اسمبلی توڑی تھی ۔ماہرین قانون چیختے رہے کہ قومی اسمبلی ناجائزطورپرتحلیل کردی گئی لیکن سینیٹ توموجودہے،اس کے سامنے حلف ہوجائے لیکن منتخب صدر کواس کی حیثیت کااحساس دلاناتھا۔ حلف اٹھانے کے بعدقاتل ججوں کے سامنے ہی لاکھڑاکیاگیا،صرف عدالت کے سربراہ نہیں تمام ۱۵ججوں کے سامنے پھرآئے روزنئے سے نیا بحران سنگین سے سنگین ترہوتاچلاگیا۔مصرجہاں لوڈشیڈنگ کانام ونشان نہیں تھا،اچانک دارلحکومت سمیت پورے ملک میں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ منتخب حکومت نوٹس لیتی توجواباًوہی حساب کتاب سنایاجاتاکہ ملک میں ۲۲۳۰۰میگاواٹ بجلی بن رہی ہے جبکہ کھپت۲۴۱۰۰ میگا واٹ ہے اوراس طرح ۱۸۰۰میگاواٹ کی کمی ہے۔لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی لیکن پھروہی انتظامیہ ا وراسٹیبلشمنٹ تھی کہ کہ جیسے ہی حکومت کاتختہ الٹا، تیسرے روزنہ صرف مکمل طورپرلوڈشیڈنگ ختم ہوگئی بلکہ کہاجانے لگاکہ ۲۱۰میگاواٹ بجلی فالتوہوگئی ہے۔یہی حال پٹرول اورگیس کاتھا۔منتخب حکومت کے آنے کے چندہفتوںبعد ہی پٹرول پمپوں پرطویل قطاریں لگنے لگیں اورپٹرول نہ ملتاتھا۔حکومت آئے روز چوری شدہ پٹرول پکڑتی۔لاکھوں گیلن پٹرول برآمدکرکے بازارمیں لاتی جوچندروزبعدہی غائب ہوجاتا اوراب یہ خبریں چل رہی ہیں کہ پٹرول پمپ والے گاہکوں کاانتظار کرتے ہیں۔ امن وامان ناپیدہوتاچلاگیا،وزیرداخلہ خودہی جرائم کیلئے تاویلیں ڈھونڈکرلاتا،وہی پولیس اورخفیہ ادارے جوآج ملک بھر کے کونے کونے سے مخالفین کوگرفتارکرکے لارہے تھے اس وقت کہیں ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ایک فٹ بال میچ کے دوران میں تماشائیوں کے درمیان جھگڑاہوگیا اورپھرحیرت انگیزطورپردونوں طرف سے ۸۴/افراد جاں بحق ہوگئے،پھراسی بنیاد پر پورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے۔بعدازاں انہی عدالتوں نے جن کے سامنے حسنی مبارک اوراس کے گماشتوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات سماعت کے منتظرہیں ، چندماہ میں میچ کے جھگڑے کافیصلہ سناتے ہوئے ایک فریق کوپھانسی کی سزاسنادی ۔کمرۂ عدالت سے براہِ راست نشرہونے والے فیصلے سے پہلے تیاری مکمل تھی جیسے ہی فیصلہ آیا،اس کے خلاف پہلے ایک شہراورپھرپورے ملک میں خونی مظاہرے شروع کرادیئے گئے۔ملک کے رگ وریشے پرگزشتہ ۶۴سال سے قابض مقتدر قوتیں خود ہی یہ سب بحران پیداکرتیں اورپھراپنے درجنوں ٹی وی چینلوں سے پروپیگنڈہ کرتیں کہ حکومت نااہل ہے، ملک نہیں چلاسکتی۔
تمام خودساختہ بحرانوں کے باوجودڈاکٹرمحمدمرسی نے پہلاآزادانہ دستوربنوایا،دستوراسمبلی میں خوداپنے ارکانِ اسمبلی کے ووٹوں سے اپنے مخالفین کومنتخب کروایاتاکہ متفق علیہ دستور بنے جس میں فردِ واحدکی بجائے ریاست کااقتدارمستحکم کیاجائے۔اس موقع پربھی اصل حکمرانوں اوربیرونی آقاؤں کی ہلاشیری سے کیاکیااعتراضات اور احتجاج نہیں کئے گئے۔ قصرِصدارت تک کونذرِ آتش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخرریفرنڈم ہوا اور۶۴فیصدعوام نے دستورکے حق میں ووٹ دیتے ہوئے ملک کا پہلاجمہوری دستورقراردے دیا۔دستور بن گیاتوامیدکی جارہی تھی کہ مشکلات کے باوجودسب سے بے مہارمقتدرطبقات کودستوری دائرے میں لاناممکن ہوجائے گا۔ منتخب حکومت نے اقتصادی بحران پرقابوپانے کیلئے بھی دوررس اقدامات کئے لیکن مرسی حکومت کے خلاف ماردھاڑاورایک کے بعددوسراخودساختہ بحران ہی نہیں درجنوں ٹی وی چینل اوراخبارات منتخب حکومت کے خلاف بے ہودہ اوربے سروپاپروپیگنڈہ اور الزام تراشیاں کرتے رہے مثلاً یہ کہ حکومت نے صحرائے سینا حماس کو دینے کاوعدہ کر لیا۔سوڈان سے متصل حلایب کی پوری پٹی سوڈان کودے دی۔ اہراماتِ مصر اورابوالہول کو مزاراوربت قراردے کرڈھانے کافیصلہ کرلیا۔ نہرسویز کو کرائے پردے دیا،خیریہ توایسے مضحکہ خیزالزامات تھے کہ ہر ذی شعور انہیں مستردکردیتالیکن کئی الزامات ایسے تھے کہ کئی دانابھی لاعلمی اور پروپیگنڈے کی قوت کے باعث ان سے متاثرہوجاتے۔
مرسی حکومت پریہ بھی نکتہ چینی سامنے آئی کہ اس نے حکمت کی بجائے ضرورت سے زیادہ عجلت برتی۔ہرجگہ اپنے لوگ لابٹھانے کی کوشش کی جبکہ صدرمرسی نے قومی یکجہتی کی خاطر نائب صدر،وزیراعظم اورصدارتی مشیروں سے لیکر وزیرداخلہ،وزیردفاع،وزیرتوانائی۲۷صوبوں میں سے ۲۳صوبوں کے گورنروں اورعدلیہ کے تمام ذمہ داران کے تمام افراد یا تووہی رہنے دیئے یاپھران معروف قومی شخصیات میں سے لئے جن کااخوان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔اب ذراموجودحکومت کی اب تک کارگزاری پربھی نظرڈالیں۔۲۷میں ۲۰گورنرتبدیل کردیئے گئے جن میں سے ۱۷حسنی مبارک کے دورکے فوجی جنرل ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ مصرمیں اپنے صوبے کے تمام امورگورنرکے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جنرل السیسی کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ صدرمحمدمرسی سینئرافسروں کونظراندازکرتے ہوئے انہیں نیچے سے اوپرلائے حالانکہ صدرنے صرف یہ کیاتھاکہ حسنی مبارک دورسے چلے آنے والے جرنیلوں کی توسیع ختم کرکے جس کی باری تھی،اسے فوج کی قیادت سونپی لیکن بدقسمتی سے سیسی نے ”ربِّ عظیم کی قسم کھاکراقرارکرتاہوں کہ میں دستور کاپابندرہوںگا”والے عہد سے خیانت کی آج پورامصر اسے خائن کے لقب سے یادکرتاہے۔
صدرمرسی پرالزام عائدکیاگیاکہ انہوں نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کی جب کہ ان کے اپنے ایک سالہ عہد میں صرف ایک ٹی وی چینل کوعارضی طورپربندکیاگیا اورتین صحافیوں پرمقدمات چلائے گئے جنہوں نے ٹی وی پرننگی گالیاں دی تھیں اورصدرکوقتل کرنے کااعلان کیاتھا۔یہ چینل بھی جلدبحال کردیاگیا،صحافی بھی رہاکر دیئے گئے لیکن جنرل سیسی نے آتے ہی ١٢ٹی وی چینل بندکردیئے جن کاقصوریہ بتایاگیاکہ وہ صدرمرسی کے حامی تھے۔تنقیدکرنے والے جگرتھام کریہ واقعہ بھی سن لیں کہ میدان رابعہ میں قتل عام کے بعد سرکاری اخبارات الاہرام اورالجمہوریہ کے دو سنیئرصحافی ایک راستے سے گزررہے تھے۔ایک چیک پوسٹ پرافسر نے دونوں کوگاڑی سے اتارا،شناختی کارڈ دیکھے اورحکم دیاکہ ”تم آگے نہیں جا سکتے،واپس جاؤ”دونوں صحافی ہزاروں افرادکاقتل عام دیکھ چکے تھے ،اس لئے وہ ایک لفظ بولے بغیر واپس چلے پڑے،ابھی چندقدم ہی گئے تھے کہ پیچھے سے فائرنگ کردی گئی ۔ایک صحافی شہیداوردوسراشدیدزخمی ہوگیا،بعدازاں زخمی کوہسپتال لے جایاگیا،اس نے ہوش آنے پریہ داستان سنائی جووہاں موجودایک دوسرے صحافی نے ریکارڈ کرکے ایک عرب ٹی وی پرنشرکرادی۔جیسے ہی اس کایہ بیان نشرہوااسے ہسپتال سے گرفتارکرکے غائب کردیاگیاتھاکہ اس نے حکومت پرغلط الزام لگایاہے۔اب کسی کو آزادیٔ اظہاریادنہیں آتی،یہ تودیگ کے چاول کاایک دانہ ہے۔
ایک طرف تویہ زخمی صحافی ہزروں قیدیوں کی طرح لاپتہ ہوگیالیکن دوسری طرف ۱۴/اگست کی قیامت صغریٰ کے دوہفتے کے اندراندرحسنی مبارک کوتمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیکر رہاکردیاگیا۔عدالت کے اس فیصلے کوکہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتاہے،فی الحال حفاظتی نقطہ نظرسے ایک محل نماپنج ستارہ اسپتال میں نظربند رکھاگیاہے ۔جنرل سیسی اورججوں نے حق نمک اداکیااورقدرت نے یہ حقیقت طشت ازبام کروادی کہ حسنی مبارک دوراپنی تمام ترسفاکیت کے ساتھ دوبارہ لوٹ آیا ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کے دوران اطلاع ملی ہے کہ مصرکے عبوری صدرعدی منصورنے اس ملک کے پہلے منتخب صدرمحمدمرسی کی برطرفی کے بعد
سے اب تک ملک میں ہونے والی قتل وغارت گری کے ذمہ داروں کاتعین کرنے کیلئے ٥رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔یہ کمیٹی جسٹس فوادریاض کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔کمیٹی ۳۰جون کے بعدکے واقعات کے بارے میںتحقیق کرے گی۔اس دوران میں ہلاکتوں کے سنگین اوربہیمانہ واقعات ۱۴/اگست ۲۰۱۳ء کوپیش آئے تھے جب سیکورٹی فورسز قاہرہ میں محمدمرسی کی بحالی کیلئے دھرنادینے والے ہزاروں مظاہرین پرچڑھ دوڑی تھیں اورایک ہزارسے زائد افرادہلاک ہوگئے تھے ،دوسری اطلاع یہ ہے کہ جیل میں اخوان کارکنوں اوران سے ہمدردی رکھنے والے قیدیوں نے جنہیں حال ہی میں گرفتارکیاگیاتھاجیل انتظامیہ کے سفاکانہ سلوک کے باعث بھوک ہڑتال کردی ہے۔یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ اخوان المسلمون کے ارکان کو ڈرانے اوردہمکانے کیلئے اب ان کی ذاتی جائیدادکوضبط کرنے کی
کاروائیاں بھی شروع کردی گئیں ہیں۔
اگر دہشت مٹانے ہم بھی دہشت پر اتر آئیں
سکوں کی سانس دنیا میں کبھی تم لے نہ پاؤ گے
ٹھہر جاؤ ہمارے ہاتھ بھی انصاف آئے گا
سنبھل جاؤ حساب خوں بہا پھر دے نہ پاؤگے
کلیمی ہے عصا بھی ہے ذرا سا وقت آنے دو
کسی فرعون کو پھر تخت پہ بیٹھے نہ پاؤگے