’’آکے بیٹھے نہ تھے،نکالے بھی گئے‘‘

:Share

افغانستان کوبجاطورپرعالمی قوتوں کاقبرستان کہاجاتاہے۔برطانیہ نے اپنے عروج کے دورمیں افغانستان پرکنٹرول کی بھرپورکوششیں کیں اورناکام رہا۔ افغان کسی بھی طورپران کے زیردام نہ آسکے۔ ان کی گھٹی میں صدیوں سے کسی کااسیراوربندہ بے دام ہوکررہنانہیں لکھاگیا۔برطانیہ کے انجام سے سبق سیکھنے کے بجائے سابق سوویت یونین نے بھی طبع آزمائی کی کوشش کی۔ اس کا خیال تھا کہ جدید ٹیکنالوجی سے افغانوں کو زیر کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ ریاستی مشینری کے بے دریغ استعمال کے باوجود افغانوں کو زیر کرنے میں سویت یونین کی افواج اور افغان کٹھ پتلی حکومت ناکام رہی اور دنیا نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ افغانستان سے بے نیل و مرام واپس جانے والی سوویت افواج ملک کے زوال اور یونین کے خاتمے کا باعث بھی بن گئیں۔ افغانستان سے ناکام ہوکرنکلناسوویت یونین کی مجموعی ساکھ کو لے ڈوبا اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔
سابق سوویت کی تحلیل سے امریکا نے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اور وہ بھی افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ نائن الیون کے تناظر میں افغانستان پر بین الاقوامی لشکر کشی کی قیادت امریکا نے کی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ طالبان کو جدید دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے دم لے گا۔یہ دعویٰ کس حدتک کامیاب رہا ہے، سبھی جانتے ہیں۔ اب امریکا بھی افغانستان سے جان چھڑانے کے فراق میں ہے۔ نائن الیون کی شکل میں امریکا کو افغانستان میں داخل ہونے کا بہانہ آسانی سے مل گیا تھا مگر نکلنے کا بہانہ مل رہا ہے نہ کوئی راستہ سجھائی دے رہا ہے۔ سابق سوویت یونین نے کسی نہ کسی طور افغانستان میں گیارہ سال گزارے تھے مگر امریکا کیلئےدس سال پورے کرنا بھی جاں گسل ثابت ہو رہا ہے۔
اب بھارت کی باری ہے۔ بھارت نے افغانستان کو تر نوالہ سمجھ لیا تھا۔ سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر طالبان کا راج رہا۔ اس دوران بھارت کے مفادات داؤ پر لگے رہے۔ بھارت کے مفادات کیا تھے؟ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئےافغان سرزمین کو استعمال کرنا۔ اس مقصد کے حصول کیلئےاسے شمالی اتحاد سے کام لینا تھا۔ تاجک اور ازبک کمیونٹی اس کیلئےخاصی معاون ثابت ہوتی رہی ہیں۔ جب تک طالبان تھے، بھارت کی دال گلنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ نائن الیون کے بعد بھارت نے اتحادیوں کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جن علاقوں سے بھارت کا براہ راست کوئی تجارتی یا سیاسی تعلق نہیں تھا ان میں بھی سفارتی مشن کھولے گئے۔ پاکستان سے ملحق جلال آباد کے علاوہ مزار شریف، قندھار اور ہرات میں قونصلیٹ قائم کیے گئے۔ قندھار کے بھارتی قونصلیٹ سےبلوچستان میں حالات خراب کرنے اورپاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کیلئے پاکستان ٹھوس شواہد اقوام متحدہ اوردیگرمغربی ممالک کوبھی فراہم کرچکاہے اوراسی سلسلے میں بھارتی نیوی کاحاضرسروس اور”را”کا اہلکارکلبھوشن کورنگے ہاتھوں پکڑاجاچکاہے جواپنے اقبالی بیانات میں پاکستان میں ہولناک دہشتگردی کے کئی واقعات کااعتراف بھی کرچکاہے جس کامقدمہ بھارت ان دنوں عالمی عدالت میں لے جاچکاہے۔
دراصل نائن الیون کے بعدامریکی حملے کے بعدطالبان کے زوال کے دور میں بھارت کو افغانستان میں بھرپور انداز سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اتحادیوں سے مل کر خوب ٹھیکے بٹورے گئے۔ کوشش کی گئی ہے کہ تمام اہم امور میں افغان حکومت کو بھارت سے مدد لینی پڑے۔ان دنوں کابل کے ایوان صدر میں بھارت نواز حامد کرزئی کی آمد نے بھارت کی تمام مشکلات دور کردیں۔ کرزئی نے بھارت کو اس طرح نوازا کہ بہت سے ترقیاتی ٹھیکوں میں بھارتیوں کے ساتھ درپردہ اپنے بھائی کی شمولیت کوبھی ناگزیر کردیاگیا۔ بھارت نے سڑکوں اور ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ تعلیم اور مواصلات میں بھی اہم کردار ادا کرنے کی بھرپور تیاری کی۔ یہ سب کچھ اس امید یا توقع پر کیا جارہا تھا کہ اتحادی طویل مدت تک افغانستان میں رہیں گے۔ جیو پولیٹکس میں امید، توقع یا خوش گمانی کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ سب کچھ حالات کی تبدیلی پر منحصر ہوتا ہے۔ طالبان اور ان کے ہم خیال عناصر کی بھرپور مزاحمت نے اتحادیوں کو وقت سے بہت پہلے ہی بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔ اوباما انتظامیہ نے جولائی 2011ء کی ڈیڈ لائن دیکر صورت حال کو مزید پریشان کن بنادیا جس پرابھی تک عملدرآمدنہیں ہوسکا۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک اب افغانستان کے معاملات درست کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ انہیں اس بات سے بھی کچھ غرض نہیں کہ ان کے جانے کے بعد افغانستان کی صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔
حالات کی اس بدلی ہوئی روش نے بھارت کو شدید پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ اس کے تمام مفادات داؤ پر لگتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اتحادیوں کی رخصتی کے بعد کا افغانستان اب بھارت کو اپنے لیے قبرستان میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی باشندوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں کابل میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں دو فوجی افسران سمیت 16بھارتی باشندے ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے نے قومی سلامتی کے امور میں بھارتی وزیر اعظم کے مشیر کو کابل کے دورے پر مجبور کردیا۔ اس دورے کے بعد انہوں نے حکومت کو جو بریفنگ دی اس کا لب لباب یہ تھا کہ افغانستان میں بھارتی باشندوں کوشدید خطرات لاحق ہیں اور بھارتی سفارت کاروں کے اغوا کابھی خدشہ ہے۔ ایسے میں سیکورٹی کے خصوصی انتظامات تو کرنے ہی پڑیں گے، ساتھ ہی ساتھ سرگرمیوں کی بساط بھی لپیٹنی پڑے گی۔ بھارت نے افغانستان میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جو اب مٹی میں ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت نے ایک طرف تو کابل میں اپنے سفارت کاروں کی سیکورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ہرات، قندھار، مزار شریف اور جلال آباد میں قونصلیٹ کومرحلہ وار بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارت نے کابل میں سفارت خانے کی سیکیورٹی کیلئے مزید40 سیکورٹی اہلکار بھیجنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ کابل میں انڈو تبیٹن بارڈر پولیس کے 160؍اہلکارتعینات ہیں۔
افغانستان میں چار ہزار بھارتی باشندے مختلف منصوبوں سے وابستہ ہیں۔ ہرات میں سلما ڈیم پر بھارت کے جوسیکڑوں باشندے کام کر رہے تھے ان کوکام ختم ہونے کے فوری بعدواپس بھارت آنے کاکہہ دیاگیاہے۔ سیکورٹی خدشات کے باعث بھارتی انجینئرز نے اس ڈیم پر دو ہفتوں سے کام بند کر رکھا ہے۔ان کی سیکیورٹی کیلئےسیکڑوں افغان فوجی روانہ کیے گئے ہیں لیکن بھارت کوہردم یہی خدشہ رہتاہے کہ کہیں یہ افغان فوجی کسی بھی وقت طالبان کے ساتھ نہ مل جائیں۔بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان کے جن منصوبوں میں بھارتی باشندے کام کر رہے ہیں انہیں تیزی سے مکمل کیا جائے گا اور کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہو رہا ہے کہ دنیا حیران ہے۔ بھارت نے افغانستان کو اپنے لیے ایک اچھا پلے گراؤنڈ سمجھ لیا تھا لیکن اب وہ پسپا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کا بہت کچھ داؤپر لگا ہوا ہے۔ اس کے پالیسی میکرز کو یہ سب تو بہت پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ اتحادیوں کی رخصتی کے بعد افغانستان میں حالات کی کیا صورت بنے گی اور طالبان کے دوبارہ ابھرنے کی صورت میں وہاں کام کرنا کس طور ممکن ہوسکے گا۔ افغانستان کبھی کسی بھی قوت کیلئےپلیٹ میں رکھا ہوا حلوہ ثابت نہیں ہوا اور بھارت تو حقیقی معنوں میں علاقائی قوت بھی نہیں۔ افغانستان کے پلیٹ فارم سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی پالیسی نے بھارت کو یہ دن دکھایا ہے۔ اگر چار ہزار بھارتی باشندوں کی سیکورٹی کیلئےفوری اور کافی انتظامات نہ کیے گئے تو طالبان کی جانب سے حملوں کا خطرہ بڑھتا ہی جائے گا۔
اتحادیوں کو اب بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ بھارت اور دیگر ممالک کے مفادات کا کیا بنتا ہے۔ ان کی ساری دلچسپی اس نکتے میں مضمر ہے کہ افغانستان سے جلد از جلد پنڈ چھڑا لیا جائے۔ یہ صورت حال تیزی سے بھارت مخالف ہوتی جارہی ہے۔ اگر طالبان نے حملے تیز کر دیے تو بھارتی باشندوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا اور یہ صورت حال بھارتی حکومت کیلئےخاصی پریشان کن ثابت ہوگی۔ جس پر حکومت جا بھی سکتی ہے۔ افغانستان کے بارے میں پالیسی اور حکمت عملی ترتیب دیتے وقت بھارتی حکمرانوں نے ’’مابعد‘‘ صورت حال پر زیادہ غور نہیں کیا تھا۔ افغانستان میں بھارت کے ہاتھ سے سب کچھ نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر طالبان نے اسے تیزی سے انخلاء پرمجبورکیاتوعلاقائی سطح پرنہ صرف اجارہ داری کے اس کے تمام خواب چکناچور ہوجائیں گے بلکہ اس کے اندرونی خلفشارکے باعث بھارت کے ٹکڑے ہونے کاامکان بڑھ جائے گا۔ بھارت کو لگام دینے کا سہرا بھی طالبان ہی کے سر بندھتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ صورت حال بھارت کیلئے’’آکے بیٹھے بھی نہ تھے، اور نکالے بھی گئے‘‘کے مصداق ہے۔ بلوچستان میں گڑبڑ کے ذریعے بھارت نے جو بویا تھا اب وہی اسے کاٹنا پڑ رہا ہے۔ اتحادیوں کے بعد کے افغانستان میں بھارت نواز حکومت کی تشکیل کا بھی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔یقیناً اشرف غنی اورشمالی اتحادکے عبداللہ عبداللہ امریکیوں کے رخصت ہونے کے بعد مکمل طورپرغیر مؤثرہو جائیں گے توبھارتی بنئے کاکیاہوگا؟ بھارت سمیت تمام طالبان مخالف قوتوں کیلئےتو یہ موت ہی کے مترادف ہوگا۔یہ صورت حال پاکستان کیلئےنعمت غیر مترقبہ کے مترادف ہے۔
ادھرطالبان کومذاکرات کی میز پرلانے کیلئےجاری سفارتی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے اچانک امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس ایک غیر اعلانیہ دورے پر ایک ایسے وقت میں افغانستان کے دارلحکومت کابل پہنچ گئے جہاں گزشتہ سال ہی امریکی صدرٹرمپ نے اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی کرتے ہوئے ہزاروں مزید امریکی فوجی غیر معینہ مدت کے لیے افغانستان بھیجے تھے ۔امریکی وزیر دفاع افغانستان کے اپنے چوتھے دورے کے دوران افغان صدر اشرف غنی سمیت امریکی اور نیٹو افواج کے نئے امریکی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر سے بھی اہم ملاقات کی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کے اس دورے کے وقت کوانتہائی حساس قراردیاجارہاہےجبکہ افغانستان اور بیرونی ممالک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کیلئےپہلے سےکوششیں کر رہے ہیں۔
اسی حوالے سے جون میں ایک غیر معمولی جنگ بندی دیکھنے میں آئی جس کے بعدامریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان جولائی میں قطر میں مذاکرات ہوئے۔ان مذاکرات کے بعد کہا جا رہا تھا کہ ممکن ہے کہ اب جنگ کااختتام ہو جائے،امریکی جانب سے بھی طالبان کے ساتھ جنگ بندی کاخیر مقدم کیاگیاتھا۔تاہم حال ہی میں طالبان اور دولت اسلامیہ کی جانب سے سلسلہ وار حملوں میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد اس جنگ بندی کو بھی یہ نقصان پہنچا ہے کہ طالبان نے اس جنگ بندی سے اس لئےعلیحدگی اختیارکرلی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ داعش کی پشت پناہی امریکا کررہاہے اوران حملوں کی سازش میں امریکاملوث ہے تاکہ طالبان کو کمزور کرکے اپنی شرائط پرمعاہدہ کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکاایک مرتبہ پھرپاکستان پردباؤ بڑھانےکیلئے سرتوڑکوششیں کررہاہے۔ابھی حال ہی میں پاکستان کی کولیشن سپورٹ کے تیس کروڑڈالربندکرکے یہی پیغام دیاگیاہے لیکن پاکستان نے آئندہ کسی بھی قسم کے دباؤکوقبول کرنے سے انکار کردیاہے گویااب صرف بھارت ہی نہیں بلکہ امریکاکے اس خطے میں برے دنوں کا آغازہوچکاہے اورجلدہی سرزمین افغانستان امریکاکے دائمی قبرستان کی شکل اختیارکرلے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں