گلوبل ویلج کی اصطلاح بے معنی ہے، دنیا اب بھی اتنی وسیع ہے کہ بوسنیا کے قتلِ عام کی خبر مسلمانوں کو ملتے ملتے دو برس لگ گئے۔ کشمیر کے حریت پسندوں سے واقفیت نصف صدی کے بعدہوتی ہے اوراگریہ کہاجائے کہ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں پربدترین مظالم ہورہے ہیں تولوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ اراکان کہاںہیں؟ روہنگیا کون ہیں؟؟؟؟
اراکان برماکاچودھواں اورایک مسلم اکثریتی صوبہ،اورمغربی ریاست ہے،جس کارقبہ۵۱ہزار۸۰۰مربع کلومیٹرہے۔اس کی آبادی (۲۰۰۰ء) میں۴۰لاکھ تھی۔ جس میں۸۰فیصد مسلمان ہیں،۲۰فیصد آبادی میں عیسائی، ہندو اور بدھ شامل ہیں۔ اراکان کا دارالحکومت ”اکیاب” ہے۔ یہ خطہ زراعت، قیمتی معدنیات، چاول اور مچھلی کی پیداوار کیلئے مشہور ہے۔ اراکان بندرگاہ بھی ہے لیکن اراکان کا برما سے براہ راست کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے۔ اراکان کے مشرق میں برما اور کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیاں اسے مکمل طور پر برما سے جدا کرتی ہیں البتہ بنگلادیش اس کے مغرب میں واقع ہے اور اس کے ساتھ اراکان کی۱۸۶میل طویل آبی اور زمینی سرحد ملتی ہے۔برما۱۹۴۸ء میں آزاد ہوا، اس سے قبل یہ ہندوستان کا حصہ تھا۔ اراکان کا قدیم نام ”روہنگ” تھااس لئے یہ روہنگیا کہلاتے ہیں۔۱۹۴۸ءکی جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا لیکن ان کی قسمت بھی کشمیریوں جیسی تھی۔ یہاں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے پہنچا، یہ آٹھویں صدی عیسوی کی بات ہے جب عرب تاجر پہلی مرتبہ یہاں پہنچے، اس کے بعد تیرھویں صدی عیسوی تک آتے آتے آسام سے ملایا تک جگہ جگہ مساجد بن چکی تھیں۔
۱۴۳۰ء میں اراکان میں ایک مسلم ریاست قائم ہوئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اراکان کا بدھ راجہ مسلمان ہو گیا، اس کا اسلامی نام سلیمان شاہ تھا، اس نے بنگال کے گورنر ناصر الدین شاہ کی مدد سے مسلم مملکت اراکان قائم کی۔ یہ مسلم حکومت ساڑھے تین سو سال تک قائم رہی اور۴۸ مسلمان حکمرانوں نے حکومت کی۔ اس وقت یہ برما(جس کا موجودہ نام میانمار ہے)سے الگ ایک خود مختار اور آزاد مسلم ریاست تھی۔ بعد ازاں مسلمان اور بدھ کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برما کے راجہ بودویمیہ نے ۱۷۸۴ء میں اراکان پر قبضہ کر لیا ۔ سو سال تک یہی صورتحال رہی۔ ۱۸۸۵ء میں برطانیہ نے برماپرقبضہ کرکے اسے ہندوستان کا حصہ بنا دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران برما پر جاپان قابض ہو گیا۔ اسی جنگ عظیم کے دوران۱۹۴۲ء میں بودھوں کی انتہا پسند تنظیم” تھاکن” نے منظم طریقے پرمسلم کش فسادات شروع کر دیے ۔ یہ ایک خوفناک المیہ تھا، جس کی طرف جنگ عظیم کی وجہ سے کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس قتل عام میں ایک لاکھ مسلمان موت کے گھاٹ اتاردیے گئے اورپانچ لاکھ ہجرت پرمجبور ہوئے، بیشتربنگال (موجودہ بنگلادیش)آگئے۔برما کے مسلمانوں میں اس کا شدید ردعمل ہوااور۱۰ مئی ۱۹۴۲ءمیں برتھی، ڈونگ اور مونگڈو کے علاقوں میں مزاحمت کرکے مسلمانوں نے اپنی حکومت کا اعلان کردیا، یہ اراکان کی آزادی کی ایک کوشش تھی، جو اس وقت ناکام ہو گئی جب برطانیہ دوبارہ برما پر قابض ہو گیا۔
جب برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی تو۱۹۴۸ءمیں پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے اور ۱۹۴۸ء میں برما آزاد ہو گیا۔ شمالی اراکان کے برطانوی ایڈمنسٹریٹر نے جنگ عظیم دوم میں کامیابی کے بعد اور برصغیر کی آزادی کے اعلان سے قبل شمالی اراکان کے بعض اہلِ علم اور سیاسی شخصیات کویہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ برطانوی حکومت کو شمالی اراکان کی علیحدگی کی درخواست کریں تو ان کی یہ درخواست قبول کر لی جائے گی، لیکن اراکان کے مسلمانوں نے ایسا کوئی باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ۱۹۴۸ءمیں برما کے حوالے سے ایک قومی کانفرنس منعقد کی گئی تھی ، جس میں یہ طے پایا تھا کہ برما کا آزاد وفاق قائم کیاجائے گااور۱۰سال گزرنے کے بعد برماوفاق میں شامل ریاستوں کو برماکے ساتھ رہنے یاعلیحدہ ہوجانے کااختیارہوگا۔
اراکان کے مسلمانوں نے سوچا ہوگا کہ دس سال کاعرصہ توکچھ نہیں ہوتا، ہم اس وقت علیحدگی کافیصلہ کرلیں گے۔جس طرح ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن نے پنجاب کی تقسیم میں بدمعاشی کی تھی اورکئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دیے تھے اور کشمیر کی ریاست کو ان کے عوام کی خواہش کے باوجود بھارت کو دیا گیا اورنہرو نے وہاں ریفرنڈم کاوعدہ کیا لیکن سترسال گزرگئے،کشمیری ابھی تک اپنی آزادی کیلئے کٹ مررہے ہیں۔ اسی طرح برماکے صوبے اراکان کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا خوفناک کھیل کھیلاگیا،جس کی تفصیلات رگوں میں خون جما دیتی ہیں۔
۱۹۴۸ءمیں برما آزاد ہو گیا۔ نئی حکومت کوکسی اورصوبے یاریاست سے خطرہ نہیں تھامگرانہیں اراکان سے اس بات کاخطرہ تھاکہ۱۰سال بعدکہیں یہ برماسے علیحدہ نہ ہوجائیں جیسا کہ قومی کانفرنس میں طے ہواتھا۔ لہذابرما کی حکومت نے منصوبہ بندی کے تحت اراکان میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنے کیلئے دو کام کیے۔
۱۔ برما کے دوسرے علاقوں سے امیراوربااثربودھوں کواراکان میں زمینیں دے کرانہیں آبادکرنا شروع کیا۔
۲۔ان تمام باشندوں کوجوبنگال اورہندوستان سے آکربرمامیں آبادہوگئے تھے،انہیں برماکی شہریت دینے سے انکارکردیاگیااورانہیں جبرا ًملک بدرکیاجانے لگالہذا آزادی کے ابتدائی چندسالوں میں ہی تیس ہزارمسلمان مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلادیش )میں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔
یہ بات یاد رہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے سے ہندوستان سے لوگ برماجاکرآبادہوناشروع ہوگئے تھے،ان میں مسلمان بھی تھے اورہندوبھی۔ پھربرطانوی دورمیں بھی بہت بڑی تعداد میں ہندوستان خصوصاًبنگال سے لوگ برمامیں آبادہوئے،یہ لوگ وہاں کی معیشت پرچھاگئے اوروہاں کے صاحب حیثیت لوگوں میں شمارہونے لگے۔۱۸۸۰ء کے بعدسے ہندوستانیوں کی برماکی طرف بڑے پیمانے پرنقل مکانی ہونے لگی،یہ ہندوستانی زیادہ تراراکان میں آبادہوئے۔
۱۹۳۱ءکی مردم شماری کے مطابق برما کی کل آبادی ڈیڑھ کروڑ تھی، جس میں سے مسلمانوں کی آبادی پونے چھ لاکھ کے قریب تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کو برطانوی عہد میں وہاں اچھے عہدے ملے،ان میں سے بیشترسرکاری ملازمتوں، بینکوں کی ملازمت اورتجارت میں نمایاں تھے۔ایسے لوگ جو برسوں سے وہاں آبادتھے انہیں یہ کہناکہ وہ برما کے شہری نہیں ہیں اوروہ ملک چھوڑکرچلے جائیں، بڑی ناانصافی کی بات تھی۔۱۹۵۳ء میں برسراقتدار آنے والے وزیراعظم اونو نے انہیں شہریت کے حق سے محروم کر دیا جس نے بہت بڑے بحران کو جنم دیا، لوگوں نے برما سے دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت شروع کردی، جو نہیں گئے انہیں جبرا ًنکالا گیا۔۱۹۵۶ءمیں۳۹ہزارمسلمانوں کوجبراًبرماسے نکال دیا گیا۔
ان حکومتی مظالم کے رد عمل میں مجاہدانہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کا بانی قاسم نامی ایک ماہی گیر تھا، شمالی اراکان میں شروع ہونے والی اس تحریک کا مقصد پاکستان سے الحاق تھا۔ اس تحریک نے شمالی اراکان کے٨٠ فیصد حصے پر قبضہ کر لیا، یہ سرگرمیاں آٹھ سال جاری رہیں لیکن قاسم کی مشرقی پاکستان میں گرفتاری اورتحریک سے پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آزادی کی یہ تحریک دم توڑ گئی۔پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ پاک چین تعلقات کا تحفظ تھا۔چین اور برما کے بہت اچھے تعلقات تھے اور پاکستان بھی خطے میں طاقت کے توازن کیلئے چین سے دوستی کو بہت اہمیت دیتا تھا۔
اراکان میں نسلی فسادات کی ایک لہر فروری۲۰۰۱ء میں پھوٹ پڑی۔ یہ فسادات اراکان کے صوبائی صدر مقام” اکیاب” میں ہوئے، بدھ مت کے پیرو کاروں نے برمی پولیس فورس اور فوج کی پشت پناہی میں تین بڑے مسلم اکثریتی علاقوں اوہ منگلہ،ناظرپاڑااورمولوی پاڑہ کوآگ لگادی،جس میں ایک طرف املاک اور اثاثوں کونقصان پہنچاتودوسری طرف ڈیڑھ ہزارمسلمان مارے گئے۔ ۱۵۰عورتیں اغواکر لی گئیں اورکالج کے تمام مسلمان طلبہ نامعلوم مقامات پرپہنچا دیے گئے۔ رائٹر نے۹فروری کی رپورٹ میں بتایا کہ اکیاب میں دس ہزارکے قریب مسلمان بے یارومددگارکھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، اسپتالوں کے سامنے۶۰۰سے زائد مریض تشویشناک حالت میں پڑے ہیں، اسپتالوں میں ان کیلئے جگہ نہیں، بیرونی امدادکومتاثرین تک پہنچانے کے تمام راستوں پرسرکاری رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں،اغوا شدہ عورتوں اورغائب کیے جانے والے مسلم طلبہ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
عالم اسلام تک اپنی بے بسی کی خبرپہنچانے کیلئے برمی مسلمانوں کاایک وفد پاکستان بھی آیا،انہوں نے بتایاکہ” اکیاب”میں۴سے۱۰فروری تک مسلمانوں کاقتل عام کیاگیا اور۳ہزارمسلمان شہید کردیے گئے،وفدنے درخواست کی کہ اس مسئلے کوعالمی سطح پراجاگرکیاجائے،اگران مسلمانوں کو فوری تحفظ فراہم نہیں کیاگیاتو اراکان (راکھائن)میں مسلمانوں کانام ونشان مٹ جائے گا۔ برما کی سوشلسٹ حکومت اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ یادرہے کہ اراکان(راکھائن)کے یہی روہنگیا مسلمان ہیں جنہوں نے جنرل راؤفرمان علی خان،جنرل غلام رسول اوررحیم خان کے مطابق۱۹۷۱ءکے سانحہ میں پاک فوج کیلئے شاندار خدمات انجام دی تھیں، پاک فوج کے جوان اور شہریوں نے جب دریائے ناف(یہ وہ دریا ہے جو اراکان اور چٹاگانگ کے درمیان بہتا ہے)پار کرکے ان کے علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کی تو ان مقامی مسلمانوں نے پاکستانیوں کی دل کھول کر مدد کی۔
۲۰۰۹ءمیں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زاراوران کی سمندری راستے سے ہجرت کوبڑے پیمانے پرمیڈیا کوریج ملی جس پردباؤمیں آکرآسیان تنظیم نے اس مسئلے کوپہلی باراٹھایا،آسیان ممالک کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے میانمار کے وزیرخارجہ نے کہا کہ ہجرت کرکے جانے والے روہنگیا مسلمانوں کو صرف اس شرط پرواپس بلایا جاسکتاہے کہ وہ اپنی شناخت بنگالی کے طورپرکریں۔ اس کے بعداس معاملے پرعدم دلچسپی دیکھنے میں آئی اورمعاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے نے ایک بار پھر ۲۰۱۲ءمیں شہ سرخیوں میں جگہ پائی۔ جب جون کے مہینے میں فسادات پھوٹ پڑے اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گئے۔مئی۲۰۱۵ءمیں اس مسئلہ کوایک بارپھرمیڈیا کوریج بڑے پیمانے پر ملی جب اراکان کے ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کو بنگلادیش نے داخلے کی اجازت نہیں دی اور خلیج بنگال میں ایک خوفناک انسانی المیے نے جنم لیا۔ذرائع ابلاغ کی جامع اوربھرپورکوریج(یہ کوریج امریکااورمغربی ممالک میں کی جارہی تھی)نے اس کثیر الجہتی اورپیچیدہ مسئلہ کو دنیا بھر میں نمایاں کردیاجس پربرما کی حکمران جماعت”یونین سالڈیرٹی ڈویلپمنٹ اینڈپارٹی اور حزب اختلاف کی جماعت “نیشنل لیگ فارڈیموکریسی” کواپنے اپنے ردِّعمل دینے پرمجبورکردیا۔ایسے وقت میں جب خطے کے تمام ممالک نے ان تارکین وطن کو پناہ دینے سے انکارکردیا تھاتوانڈونیشیا کے شہر آچے کے باشندوں نے سمندر میں پھنسے سیکڑوں تارکین وطن کو بحفاظت اپنے ساحل پر اتارا۔
بحران کے اسی سال آسیان تنظیم کے اجلاس کی میزبانی ملائشیا کو کرنی تھی، ملائشیا نے مرکزی اجلاس سے قبل اس مسئلے سے متاثرہ ممالک کی ایک میٹنگ بلائی جس میں میانمار نے شرکت سے انکار کر دیا۔جب حکومتیں اپنے مسائل کو درست طریقے سے حل نہیں کرتیں یا نہیں کر سکتیں تو پیدا ہونے والاخلاکوئی اورطاقت، کسی اورطرح سے پرکرتی ہے،جو مسائل کوکم کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ برما کے مسلمانوں کا مسئلہ شناخت کا مسئلہ تھااورہے۔ انہیں اس ملک کی شہریت نہیں دی جا رہی ہے جہاں وہ اوران کے آبا ؤاجداد صدیوں سے آبادچلے آرہے ہیں۔ یہ ایک سماجی،سیاسی مسئلہ تھا جسے پچاس سال سے مسلّط وہاں کی فوجی حکومتوں نے حل نہیں کیا۔ لہذا اب مسئلہ میں مذہب کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے اور معاشی عنصر بھی۔
یہ کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں کہ ایک نوجوان جومیانمار کے صوبےراکھائن (یعنی اراکان )میں پیدا ہوا، اس کے باپ، دادا، پردادا، بلکہ لکھڑ دادا بھی وہیں پیداہوئے ان سے کہاجائے کہ تم لوگ برمی یاروہنگیا نہیں بلکہ بنگالی مہاجر ہولہذاتمہیں مستقل شہریت کے بجائے عارضی رہائش کے کارڈجاری کیے جائیں گے اورساتھ ہی یہ تشریح بھی کردی جائے کہ عارضی کارڈوالوں کوسرکاری ملازمت،ورک پرمٹ بھی نہیں مل سکتا۔ میانمارحکومت نے اس مسئلے کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا (ویسے بھی فوجی حکومتوں کے گردنوں میں سریے ہوتے ہیں)بہرحال اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوق انسانی کا یہ معاملہ مذہبی رنگ اختیار کر گیا۔
بدھ مت،جو میانمار کا اکثریتی مذہب ہے(سرکاری نہیں)کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ اس مذہب کی تعلیمات میں عدم تشدد کا بنیادی اصول موجود ہے، مگر اس کے باوجودسری لنکامیں ان کی انتہاپسند کارروائیوں کی پوری تاریخ موجودہے، ۱۹۵۸ء میں ایک بدھ راہب ہی تھا جس نے سری لنکا کے وزیراعظم ایس۔ ڈبلیوآرڈی بندرانائیکے کوقتل کیاتھا،سری لنکامیں ان کی شدت پسند تنظیم بدھا بالا سینا”بی بی ایس”آج بھی طاقتور ہے ، اس تنظیم کا بانی گنانا ساراتھیروایک بدھ راہب ہی تھا۔ ہم سری لنکا کو چھوڑ کر میانمار میں آتے ہیں۔
راکھائن( اراکان)میں۹۶۹نامی بدھ تنظیم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں میں مصروف ہے۔ بوجوہ میانمارکی حکومت اورفوج اس تنظیم کی دہشتگرد کاروائیوں کی پشت پناہی کررہی ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کا وہاں رہناناممکن بنادیا گیاہے۔میانمار کی موجودہ حکمران آنگ سان سوچی وہاں کی مقبول سیاست دان ہیں،انہوں نے فوجی حکومتوں کے خلاف طویل جدوجہد کی،اس لیے انہیں امن کانوبل انعام دیاگیا،وہ طویل عرصے نظربند بھی رہیں ان کے برسراقتدار آنے پریہ امید کی جارہی تھی کہ وہ رجسٹریشن کے معاملے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن فوج کے دباؤاوربدھ انتہا پسندوں کے دباؤ کی وجہ سے کچھ بھی نہیں ہوا، سوچی کوخوف ہے کہ اگر انہوں نے رجسٹریشن قانون میں نرمی کی تو ان کے بدھ ووٹ بینک پر اثر پڑے گا۔اس سارے معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ میانمار حکومت ہونے والے ظلم وبربریت سے انکاری ہے۔ سوچی اوران کی پوری وزارت خارجہ یہ بیانیہ تشکیل دے رہی ہے کہ ہم روہنگیا مسلمانوں پرظلم نہیں کررہے بلکہ روہنگیا مجاہدین ہم پرظلم کررہے ہیں اورساتھ ہی وہ اگست میں مسلمان عسکریت پسندوں کے اس حملے کا ذکر کرتے ہیں جس میں برمی پولیس والے مارے گئے تھے۔
قارئین!اگر آپ برما کے سفارتخانے کو بذریعہ ای۔میل اپنی تشویش سے آگاہ کریں گے تو وہ اگلے ہی دن آپ کو اپنا ڈرافٹ کردہ خط بھیج دیں گے، جس میں وہ آپ کو سمجھائیں گے کہ ظالم وہ نہیں،روہنگیا ہیں۔یورپی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے وزیرخارجہ نے پوری ڈھٹائی سے کہاکہ میانمارحکومت کسی جنگی جرائم کی مرتکب نہیں ہوئی نہ ہی برمامیں نسل کشی جاری ہے۔ آدھے گھنٹے سے زائد کا یہ انٹرویو یو ٹیوب پرموجودہے۔یہ غالباً”ٹی این ٹی”نیوزکی پیشکش تھی۔ جولائی۲۰۱۳ء میں “ٹائم” میگزین نے سرورق پربودھوں کے انتہاپسند مذہبی لیڈردیراتو کی تصویرشائع کی تھی اوربدھ دہشتگردی کی کہانی بھی موجود ہے، لیکن میانمارحکومت کچھ ماننے کوتیار نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اس کاجواب انتہائی مشکل ہے کیونکہ ایک فریق (یعنی میانمارحکومت) یہ مان ہی نہیں رہی ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہی ہے۔
دوسرا فریق غریب ترین اور جاہل روہنگیا مسلمان ہیں، جو اس بری طرح سے تباہ کیے گئے ہیں کہ سمجھنے سمجھانے کی منزل سے گزر گئے ہیں۔تیسرا فریق پڑوسی ممالک یعنی بنگلادیش،تھائی لینڈ،انڈونیشیااورملائشیاہیں۔ انہیں انسانی بنیادوں پران روہنگیامہاجرین کوپناہ دینی چاہیے،جس کے اخراجات اقوام متحدہ برداشت کرے ۔چوتھا فریق عالمی برادری ہے وہ تینوں فریقوں پراخلاقی دباؤبڑھائے تاکہ کوئی مزید المیہ جنم نہ لینے پائے۔پاکستان یہ کر سکتا ہے کہ چین کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنا پراس سے یہ درخواست کرے کہ وہ اس حوالے سے اپنامثبت کرداراداکرے۔ اگرچین نے ایسانہیں کیاتوامریکااس معاملے میں براہ راست مداخلت کرسکتا ہے،جیسی مداخلت اس نے عراق یالیبیا میں کی تھی،اگرامریکااس خطے میں آگیا توبڑی خرابی ہوگی۔
Load/Hide Comments