زندگی کی متاعِ عزیز کیا ہے؟ روپیہ پیسہ زروجواہر زمینیں اور جائداد منصب جاہ وجلال ناموری واہ واہ داد و تحسین صلہ و ستائش بیوی بچے عزیز و اقرباء یار دوست…. کیا یہی ہے زندگی کی متاعِ عزیز!تو پھر نظریہ کیا ہے، اصول کیا ہے، حق و صداقت کیا ہے، دار ورسن کیا ہے، شہادت کیا ہے،عشق کیا ہے، محبت کیا ہے ،بے غرضی کیا ہے، جاں نثاری کیا ہے، مرمٹنا کیا ہے؟؟؟ بتایئے پھر یہ سب کیا ہیں؟کسے کہتے ہیں متاع عزیز؟ کیا انکار متاعِ عزیز نہیں ہے؟ جبر کے سامنے انکار، فرعونیت کا انکار ،صلہ کا انکار، سودے بازی سے انکار، دولت ِبے بہا کا انکار ،باطل کا انکار، سرجھکانے سے انکار، ظلم و جبر کا انکار، رب کی حاکمیت کے سوا سب کا انکار……..انکار متاعِ عزیز نہیں ہے تو پھر کیا ہے انکار؟ انکار اور یکسر انکار، پورے شعور کے ساتھ انکار۔ کوئی مصالحت نہیں بالکل بھی نہیں………مجسم انکار……..باطل کے سامنے، طاغوت کے سامنے، رب کے باغیوں کے سامنے، نفس پرستوں کے سامنے، دنیائے حرص و تحریص کے سامنے، دھوکے کے سامنے ،بے وفائی کے سامنے، خدائی لہجے میں بات کرنے والوں کے سامنے…….. انکار اور یکسر انکار………پورے شعور اور پورے وجود کے ساتھ انکار۔ بس انکار۔
دلیل چاہے کتنی بھی مضبوط ہو، رب کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے!بس انکار۔ لیکن انکار اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے نہیں، نفس کو خوش کرنے کے لیے انکار انکارِ ابلیس ہے۔ اپنے رب کے لیے انکار……..یہی ہے اصل اور کچھ نہیں۔ نہیں مانیں گے کسی کی بھی۔ کسی طاقت کی، کسی بھی نظام باطل کی……..نہیں مانیں گے چاہے لاکھ دلیلیں دو۔ بس مانیں گے تو صرف رب اعلیٰ کی، بس اسی کی اور کسی کی بھی نہیں۔ یہی توحید ہے اور ہے کیا توحید؟میرا دین تو شروع ہی انکار سے ہوتا ہے یعنی لا سے۔ پہلے انکار کی منزل ہے پھر تسلیم کی۔ میں انکار کیے بغیر تسلیم کیسے کرسکتا ہوں! اگر میں انکار نہ کروں اور تسلیم بھی کروں تو یہ منافقت ہے جو قابلِ قبول نہیں ہے۔ ملاوٹ نہیں خالص درکار ہے بالکل خالص……..چاہے ذرہ ہی ہو۔ ملاوٹ شدہ پہاڑ درکار نہیں ہے۔ یہی ہے اخلاص اور کیا ہے!
انکار روحِ اسلام ہے۔ انکار روحِ حسینیت ہے۔ انکار………جا ،نہیں مانیں گے۔ تمہارے دھوکے تمہیں مبارک ،ہمارا سچ ہمیں۔ انکار لکھنے میں بہت آسان ہے۔ پنج حرفی لفظ بہت آسان ہے لکھنا، کرنا بہت مشکل ہے۔ جان لیوا ہے ،بہت نقصان دہ ،بہت قربانی چاہتا ہے۔خود سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ اپنا انکار بھی،نہیں اپنی بھی نہیں مانوں گا۔ بہت مشکل ہے یہ بہت کٹھن منزل۔ معرکۂ خیر و شر کیا ہے؟ معرکہ حق و باطل کیا ہے؟ یہی تو ہے حق کا ساتھ دینا خیر، باطل کا ساتھ دینا شر۔ رب کے سامنے تسلیم خیر اور ابلیس کا پیروکار بننا شر۔ معرکۂ خیر و شر یہی ہے۔ بس یہی ہے۔ پورے عالم میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ ہوتا رہے گا۔ نہیں رکے گا یہ معرکہ۔ کربلا کا درس کیا ہے؟ جنگِ بدر کیا ہے؟ جہاد کیا ہے؟ یہی ہے بس۔ سب کا درس ایک ہے: بس انکار۔ انکار کرو تو جان سے گزرنا پڑتا ہے۔ خاندان نثار کرنا پڑتا ہے۔ سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ آگ وخون میں نہانا پڑتا ہے۔ خا ک آلود ہونا پڑتا ہے۔ اپنی خواہشات کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ تیز دھار پر سے گزرنا پڑتا ہے۔ لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔ جب شعور کے ساتھ انکار ہو تو ہر لاشہ اٹھاتے ہوئے یقین بڑھتا ہے۔ پختگی آتی ہے۔ رب اعلیٰ کیلئے سب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
متعصب مودی حکومت وحشت ناک ظلم وستم و بربریت کے باوجودمقبوضہ کشمیرمیں جاری حالیہ جدوجہدآزادی کودبانے میں نہ صرف بری طرح بے بس بلکہ ناکام دکھائی دے رہی ہے جس کے جواب میں اب نہتے کشمیریوں نے قابض فوجی درندوں کے کیمپوں پربراہِ راست حملے شروع کردیئے ہیں ۔بھارت کیلئے یہ امربھی بڑی پریشانی کاباعث بن چکاہے کہ بھارتی قابض فوج کے مظالم سے دلبرداشتہ کشمیری نوجوانوں نے شہروں قصبوں اوردیہات میں قائم فوجی کیمپوں کوبھی نشانہ بنانا شروع کردیاہے۔بھارتی فوجی کیمپوں پرحملوں کے حوالے سے بھارت کی اب بہت سبکی ہورہی تھی اورکشمیری عوام کی بھارتی ظلم وستم کے خلاف شدیدنفرت کاپیغام بھی پوری دنیاکوملناشروع ہوگیاہے،اسی لئے کشمیرکی موجودہ صوتحال اوربھارتی فوج کی بدنامی سے اقوام عالم کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارت نے سرحدوں پرکشیدگی پیداکرکے جنگی ماحول پیداکردیاہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کو بڑے ہی واضح پیغام میں ان تمام معاملات کی کسی بھی بین الاقوامی فورم سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کشمیرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کی تحقیقات کامطالبہ بھی کیاہے جس کیلئے خودبھارت اقوام متحدہ کی کسی بھی کمیٹی کوکشمیرکادورۂ کرنے کی جازت نہیں دے رہا۔
سرشاری اسے ہی کہتے ہیں۔ ہنستے کھیلتے لاشے اٹھانا اور پھر آوازِ بلند سے رب کی کبریائی بیان کرنا۔ یہی ہے دین اور ہے ہی کیا!اسے کہتے ہیں اپنی نذر پوری کرنا۔ اپنے دعوے کی صداقت کو مجسم کردینا۔ لیکن یہ ہے بہت مشکل،توفیق پر ہے یہ۔ جانوں کا نذرانہ پیش کرنا اور رب سے التجا کرنا کہ قبول کرلیجیے ہماری قربانی……..اور پھر یقین کی منزل پر پہنچ کر پکارنا: قُل اِنَّ صَلَاتیِ وَنُسُکیِ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتیِ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن،کہہ دو بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے”(سورة الانعام:١٦٢)۔ رب کے لیے خالص۔ باطل ہمیشہ سے گھمنڈی ہوتا ہے، دھوکے کا شکار۔ میں دیکھ رہا ہوں نیا معرکۂ کربلا کشمیراور غزہ میں برپا ہے۔ لاشہ اٹھتا ہے تو تکبیر بلند ہوتی ہے۔ انکار مجسم ہوتا ہے۔ ساری دنیا دنگ ہے ،یہ کیا ہیں، کیسے لوگ ہیں ؟پتھر سے ٹینک کا مقابلہ کرنے والے۔ کوئی تخصیص نہیں ہے ،نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ،معصوم بچے اور عورت مرد ،سب کے سب انکارِ مجسم ،نہیں مانتے۔برہمن فاسق طاقت کے بل بوتے پرایک بزرگ ،ضعیف العمرمگر مستقل مزاج سیدعلی گیلانی کے انکارکواقرارمیں تبدیل نہیں کرسکی،دختران ملت کی سیدہ آسیہ اندرابی باوجودتمام پابندیوں اورمظالم کے اپنے انکارپرڈٹی ہوئی ہیں کیونکہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ اسی انکارمیں نہ صرف کشمیری قوم کی نجات ہے بلکہ یہ انکارتوعقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ ہے۔
یارکھیں!انکار جتنی شدت اختیار کرتا چلا جائے انقلاب اسی شدت سے نمودار ہوتا ہے ،ایساانقلاب کوفرعونی اورنمرودی طاقتوں کے سامنے سینہ سپرہونے کاحوصلہ عنائت کرتا ہے ، جو خود داری کے نشے میں مبتلاکرتاہے، اور پھر ہمارا مسئلہ نتائج نہیں کارزارِ خیر و شر میں اپنا کام سرانجام دینا ہے۔ ایسے ویسے چونکہ چنانچہ لیکن ویکن نہیں……..یکسر انکار۔ رب پر کامل
یقین کے ساتھ باطل کا انکار……..طاغوت کا انکار۔ خون رنگ لاتا ہے، انقلاب آتا ہے۔ کب رکا تھا معرکہ حق و باطل؟نہیں رکے گا یہ معرکۂ خیر و شر۔ بس غالب وہی رہیں گے جو اپنے رب کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ پورے یقین کے ساتھ پوری سرشاری کے ساتھ۔ انکار روحِ دین ہے، انکار روحِ حسینیت ہے۔ عاشور کا درس یہی ہے اور کچھ نہیں۔ باطل کا انکار۔ طاغوت کی ہر شکل کا انکار……..یکسر انکار کوئی مصالحت نہیں، بالکل بھی نہیں۔ قربانی ہی قربانی، سرشاری ہی سرشاری۔ کوئی بھی تو نہیں رہے گا رب کی قسم کوئی بھی نہیں۔بس نام رہے گا اللہ کا۔
Load/Hide Comments