Life is short, learn to forgive.

زندگی مختصر ہے، معاف کرنا سیکھیں

:Share

وہ تھے ہی ایسے۔سمندرکوکوزے میں بندکردینے والے۔کیسی خوب صورت اوردل کش بات کی تھی انہوں نے۔اورکوئی ایک بات،بس سنتے جائیےاور ان میں سے چندایک پرعمل کی توفیق مل جائے توکیاکہنے واہ۔ میرارب ان سے راضی تھا۔اسی لئے تووہ ایسی باتیں کرتے تھے۔یہ خوش نصیبی ہے،توفیق ہے،عطاہے۔بس جسے چاہے نوازدے۔ہاں یہ تعلق ہے۔ہاں یہ ہے خوشی۔ہاں یہ ہے رب کااپنے بندے اوربندے کااپنے خالق سے رشتہ۔تصویراور مصور،مخلوق اور خالق۔جدھردیکھتاہوں میں،ادھرتوہی توہے۔ایک دن کہاکم ظرف انسان دوسروں کوخوش دیکھ کرہی غم زدہ ہوجاتاہے۔وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتاکہ لوگ خوش رہیں۔وہ ان کی خوشیوں کوبرباد کرنے پرتُل جاتاہے۔اس کی خوشی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہوجائیں۔وہ اپنے لئے جنت کو وقف سمجھتاہے اوردوسروں کو دوزخ سے ڈراتاہے۔

ایک بخیل انسان خوش رہ سکتاہے،نہ خوش کرسکتاہے۔سخی سدابہاررہتاہے۔سخی ضروری نہیں کہ امیرہی ہو۔ایک غریب آدمی بھی سخی ہوسکتا ہے، اگر وہ دوسروں کے مال کی تمناچھوڑ دے۔جن لوگوں کاایمان ہے کہ اللہ کارحم اس کے غضب سے وسیع ہے،وہ کبھی مغموم نہیں ہوتے۔وہ جانتے ہیں کہ غربت کدے میں پلنے والاغم اس کے فضل سے ایک دن چراغِ مسرت بن کردلوں کے اندھیرے دورکرسکتاہے۔وہ جانتے ہیں کہ پیغمبربھی تکالیف سے گزارے گئے لیکن پیغمبرکاغم امت کی فلاح کیلئےہے۔غم سزاہی نہیں غم انعام بھی ہے ۔یوسف کنویں میں گرائے گئے،ان پرالزام لگاانہیں قیدخانے سے گزرناپڑا لیکن ان کے تقرّب اورحُسن میں کمی نہیں آئی۔ان کابیان احسن القصص ہے۔

دراصل قریب کردینے والاغم دورکردینے والی خوشیوں سے بدرجہابہترہے۔منزل نصیب ہو جائے توسفرکی صعوبتیں کامیابی کاحصہ کہلائیں گی اوراگر انجام محرومی منزل ہے توراستے کے جشن ناعاقبت اندیشی کے سوا کیاہوسکتے ہیں۔ زندگی کاانجام اگرموت ہی ہے توغم کیااورخوشی کیا؟کچھ لوگ غصے کوغم سمجھتے ہیں،وہ زندگی بھرناراض رہتے ہیں۔کبھی دوسروں پرکبھی اپنے آپ پر، انہیں ماضی کاغم ہوتاہے۔حال کاغم ہوتاہے اورمستقبل کی تاریکیوں کاغم،ایسے غم آشنا لوگ دراصل کم آشناہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ گزرے ہوئے زمانے کاغم دل میں رکھنے والاکبھی آنے والی خوشی کااستقبال کرنے کیلئےتیارنہیں ہوسکتا۔ان کاغم امربیل کی طرح ان کی زندگی کوویران کردیتاہے۔یہ غم،غم نہیں یہ غصہ ہے۔یہ نفرت ہے۔

غم تودعوتِ مژگاں ساتھ لاتاہے اورچشمِ نم آلودہی چشمِ بینابنائی جاتی ہے۔غم کمزورفطرتوں کاراکب ہے اورطاقتورانسان کامرکب۔خوشی کاتعاقب کرنے والاخوشی نہیں پاسکتا۔یہ عطا ہے مالک کی، جواس کی یاداوراس کی مقررکی ہوئی تقدیرپرراضی رہنے سے ملتی ہے۔نہ حاصل نہ محرومی،نہ غم،نہ خوشی نہ آرزو نہ شکست،آرزویہ بڑی خوش نصیبی ہے۔ اپنے نصیب پرخوش رہناچاہئے۔اپنی کوششوں پرراضی رہناچاہئےاورکوششوں کے انجام پربھی راضی رہناچاہئے۔دوسرے انسانوں کے نصیب سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے۔جوذرہ جس جگہ وہیں آفتاب ہے”۔

ہے ناں کوزے میں دریا کوبندکرنا۔اس کے بعدرہ ہی کیاجاتاہے بات کرنے کو۔مگرہم انسان ہیں،کلام کئے بغیرکیسے رہ سکتے ہیں اورکرنابھی چاہئے۔دیکھئے آپ ماہ رمضان المبارک میں بھوک پیاس برداشت کررہے ہیں،آپ کی اپنی راتیں رب کاکلام سننے اور پڑھنے میں گزررہی ہیں۔ کس لئے؟اس لئے ناں کہ ہم سب کارب ہم سے راضی ہوجائے۔ ہم سب نے اپنی حیثیت کے مطابق خلقِ خدا کی خبرگیری کی،دادرسی کی۔سب کچھ دیابھی رب کاہے اورہم نے پھر اسے لوٹایابھی۔جب سب کچھ اس کاہے توپھرہم نے کیاکمال کیا۔ لیکن میرارب کتنا بلندوبالاعظمت وشان والاہے کہ آپ نے مخلوق کی خدمت کی اوروہ آپ کانگہبان بن گیا۔اورجس کاوہ نگہبان بن جائے پھراسے کسی اورکی ضرورت نہیں رہتی،قطعاًنہیں رہتی۔

نبی کریم ﷺکی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ روزے دارکواپنے اعمال،قول وفعل کی عام دنوں سے زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ جیسے چغلی،غیبت،جھوٹ،لڑائی جھگڑے،کسی کوبُرا بھلا کہنےسے اجتناب برتناچاہیے۔نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ اگرکوئی روزے کی حالت میں تم سے لڑائی کرے،توبس اتنا کہہ دوکہ’’ مَیں روزے سے ہوں۔‘‘ایک اورجگہ فرمایاکہ ’’اللہ کوتمہارے بھوکاپیاسارہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘احادیث کی رُوسے پتاچلتاہے کہ چاہے کوئی کتناہی بُرابرتاؤکیوں نہ کرے،مگرروزے دارکواپنے غصّے پرضبط رکھناچاہیے۔درحقیقت روزہ توباطنی بیماریوں جیسے غیبت،بداخلاقی،بدکلامی وغیرہ کاخاتمہ کرتا اور نفس کو پاک کرتاہے۔ نبی محترم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ’’بہت سے لوگ ہیں،جن کوروزے سے محض بھوک وپیاس ملتی ہے۔‘‘یعنی انہیں روزے کی اصل روح، صبروبرداشت،تحمّل،سکون اوراللہ کاقرب حاصل نہیں ہوتا۔

صدقِ دل سے بتائیے کہ ہمارے کسی عمل یازندگی کے کسی شعبے سے بھی یہ اندازہ ہوتاہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ماہِ رمضان کے احترام میں بُرے کاموں ،بدزبانی،غصّے،چیخ پُکاراورگالم گلوچ وغیرہ سے اجتناب کرتے ہیں؟فقط ایک لمحے کیلئے سوچیے کہ روزہ ہمیں کیاسبق دیتاہے؟وہ توہم پراللہ کااحسان ہے،جو ہمیں رمضان کے ذریعےضبط،صبروبرداشت،تحمّل،درگزر، خوش اخلاقی،صلۂ رحمی اورنیکی کی ترغیب دی گئی۔یہ ماہ ِمبارک صرف بھوکاپیاسارہنے کانام نہیں،بلکہ اس کامقصدانسانی کردارکاسنوارونکھارہے۔تاہم،روزے کی حالت میں اگرصبروبرداشت کاسبق نہیں سیکھا،جھوٹ بولنا،غیبت کرنا،ظلم کرنا، دوسروں کا حق مارنانہیں چھوڑا،تواللہ تعالیٰ کواس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم کھاناپیناچھوڑکربھوکے پیاسےرہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے’’فاقوں‘‘کی کوئی اہمیت یاقدرنہیں۔

اچھاچلیں،صرف کل کے روزے کامحاسبہ کرکے بتائیں کہ کیاآپ کاضمیرمطمئن ہے؟ آپ نے واقعی روزے کاحق اداکردیا؟اپنے والدین،بیوی،بچّوں، ماتحتوں،ساتھیوں،رشتے داروں، پڑوسیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے؟اپنے ماتحت کی معمولی غلطی پرچراغ پاتونہیں ہوئے،پکوڑوں میں نمک کی کمی زیادتی پربیوی کوکھری کھری تونہیں سنائیں؟ایک ذرا سی چپقلش پر خاوندپرلعن طعن تونہیں کی،صفائی میں کوتاہی پرکام والی کوتنخواہ کاٹنے کی دھمکی تونہیں دی؟صدقہ خیرات کے نام پرپھٹے پرانے،بوسیدہ کپڑے،جوتےہی تونہیں نکالے؟گرمی،بھوک پیاس کاغصّہ ٹریفک میں گالم گلوچ کے ذریعے تونہیں نکلا ؟ ’’میراروزہ نہ ہوتاتو…میراروزہ نہ ہوتاتو…‘‘کی گردان تونہیں کرتے رہے؟اگران تمام سوالوں کاجواب’’ہاں‘‘ہے،تویقین جانیے آپ روزہ نہیں،فاقہ کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ روزہ صرف بھوکاپیاسارہنے کانام نہیں،بلکہ یہ ایک روحانی ورزش ہے جس کے ذریعے انسان اپنے دل،زبان،اور اعضاءکوگناہوں سے بچاتاہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
“جوشخص جھوٹ بولنااوربرے کام کرنانہیں چھوڑتا،تواللہ کواس کے بھوکاپیاسارہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔”گویاروزے کامقصدصرف کھانے پینے سے پرہیزنہیں،بلکہ اخلاقی پاکیزگی اورتقویٰ ہے۔(صحیح بخاری:1903)

قرآن کریم میں تقویٰ کی تعریف یوں ہے۔”اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار(الحجرات:13)”۔ تقویٰ کی تعریف تویہ ہے کہ ہرحال میں اللہ کی ناراضگی سے ڈرنا،ہرحال میں اس کی رضاکو ترجیح دینا،ہرقسم کے گناہوں (چھوٹے یابڑے)سے بچنا،اورروزہ انسان کوبھوک، پیاس،اورجنسی خواہشات جیسی بنیادی ضرورتوں پرقابوپانا سکھاتا ہے۔یہی قابوتقویٰ کی پہلی سیڑھی ہے اورروزہ ان تمام پہلوؤں کومضبوط کرتاہے ۔

روزے میں کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کو ترک کیا جاتا ہے، جو اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے۔روزہ محض ایک رسمی عبادت نہیں بلکہ ایک تربیتی نظام ہے جوانسان میں تقویٰ پیدا کرتاہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتاہے کہ جوشخص روزے کواس کی روح کے مطابق رکھے،وہ حقیقی معنوں میں متقی بن جاتاہے،جوروزے کااصل مقصدہے۔روزہ انسان کواپنی خواہشات کوکنٹرول کرنے کی تربیت دیتاہے،جوکہ تقویٰ کی بنیادہے۔روزہ انسان میں صبراورشکرکی خوبیاں پیداکرتاہے،جوتقویٰ کا لازمی جزوہیں۔روزہ صرف بھوک پیاس کانام نہیں بلکہ ہرقسم کے گناہ سے بچنے کاذریعہ ہے،جوکہ متقی بننے کی راہ ہموارکرتا ہے۔

اُس ذاتِ باری تعالیٰ کی عبادت،حمدوثناء،تعظیم وتکریم کیلئے توفرشتے ہی کافی ہیں،لیکن یہ اُس کاہم گناہ گاروں پر احسان ہے کہ ہمیں کینہ وبغض ،جوشِ انتقام ونفرت میں ڈوبے،اپنے گناہوں میں لُتھڑے دل بدلنے کاموقع عطاکیا۔ارے!ہماری کیااوقات کہ کسی کی مدد کرسکیں، یہ تواللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ صدقہ،خیرات وزکوٰۃ کے ذریعے ہمارے مال کوپاک کرتاہے۔ہمارے دنیاکی چکاچونداوربے حسی سے متاثرہ سخت دل روزے کی وجہ سے نرم پڑنے لگتے ہیں کہ اس طرح ہمیں اُن لوگوں کی تکلیف کااحساس ہوتاہے،جنہیں عام دنوں میں توکیا،تہواروں پربھی دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔

رمضان کہنے کوتومہمان ہے،مگریہ ماہِ رحمت درحقیقت ہمیں یہ احساس دلانے آتاہے کہ پوراسال اللہ تبارک وتعالیٰ ہم پرجواپنی بے شمارنعمتوں کی بے حساب بارشیں کرتارہتاہے،ہمیں ان کی صحیح قدرنہیں ہوتی اورمحض ایک مہینہ صرف دن کے اوقات میں ان نعمتوں سے دُوری ہمیں ان کی اہمیت بتا دیتی ہے ،کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہراس چیزکی قدرکرتاہے،جواس کی پہنچ سے دُورہو۔پھریہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ کچھ افراد،بالخصوص نوجوان رمضان کا پورا مہینہ توباقاعدگی سے نمازوں اوردیگرعبادات کااہتمام کرتے ہیں،مگرعیدکاچاندنظرآتے ہی ایسے غافل ہوتے ہیں،جیسے شیطان ان ہی کےانتظارمیں تھا ۔یادرکھیے!رمضان رحمتیں،برکتیں،گناہوں کوبخشوانے،اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کاتومہینہ ہے ہی،لیکن یہ”ماہِ تربیت” بھی ہے،یعنی اس ماہ جتنے نیک اعمال اورعبادات کی جاتی ہیں،اگروہ سال کے گیارہ مہینے ہمارے معمولات میں شامل نہیں ہوتیں،تویہ افسوس کامقام ہے۔

اگررمضان المبارک میں اپنائے گئے اچھے اعمال کااثرہماری روزمرّہ زندگیوں پرنہیں پڑ رہا ،تویہ لمحۂ فکریہ ہے۔ہمیں رمضان کریم کی اصل روح کو پہچاننا ہوگا۔اپنامحاسبہ کرناہو گا کہ اس جیساپاکیزہ مہینہ بھی اگرہماری زندگیوں میں مستقل تبدیلی نہیں لاپارہا توکمی کیااورکہاں ہے۔ رمضان تواپنی بہاریں ویسےہی لیے ہوئے آتاہے،مسئلہ توہم میں، ہماری سمجھ اورہمارے کردارمیں ہے۔انسان چونکہ مادی اور جسمانی پہلوکے علاوہ معنوی اورروحانی پہلوکابھی حامل ہے توان پہلوؤں کے کمال تک پہنچنے کیلئےخاص طریقہ کارہیں،معنوی پہلوکی پرورش اورطاقت کاایک طریقہ تقویٰ اورپرہیزگاری ہے،یعنی اگرانسان اپنے آپ کو معنوی پہلوکے لحاظ سے ترقی دیناچاہے اورمطلوبہ طہارت وکمال تک پہنچناچاہے،تواسے اپنی نفسانی خواہشات پرغالب ہوناپڑے گااور کمال کے راستے میں موجودہ رکاوٹوں کویکے بعددیگرے ہٹاناہوگااورجسمانی لذتوں اور شہوتوں میں مصروفیت سے بچناپڑے گا۔

تقویٰ ہراس آدمی کی زندگی کالازمہ ہے جوعقل کے حکم کے تحت زندگی بسرکرتاہواسعادتمندانہ حیات تک پہنچناچاہتاہے۔دینی اور الہی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ان اصول پرعمل پیراہوجن کو دین نے زندگی کیلئے مقررکیاہے اورگناہ سے اپنے آپ کوبچائے۔انسان کو اپنی روح میں ایسی کیفیت اورطاقت پیدا کرنی پڑے گی جواسے گناہ سے سامناہوتے ہوئے،گناہ سے محفوظ کرلے یہاں تک کہ تقویٰ کی طاقت کے ذریعے اپنے نفس اورنفسانی خواہشات پرغلبہ پالے اور اپنے دامن کواللہ کی معصیت اورگناہ کرنے سے آلودہ نہ کرے قرآن مجیدکی نظرمیں ہرعبادت کی قبولیت کی شرط تقویٰ اورپرہیزگاری ہے، جہاں ارشادالہٰی ہے:إِنَّمَايَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ۔اللہ صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کوقبول کرتاہے۔

روزہ اورتقویٰ کاآپس میں گہراتعلق ہے،جس کی وضاحت قرآن وحدیث میں تفصیل سے کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول قرار دیا ہے۔تقویٰ کیلئےمؤثراورمفیدایک عمل،روزہ ہے جس کی مشق کرتے کرتے انسان اس بات کوسیکھ لیتاہے اورسمجھ جاتاہے کہ اپنی لگام کوہواوہوس کے ہاتھوں میں نہ تھمادے اوریہ بالکل عین تقویٰ ہے۔روزہ کامقصدتقویٰ کاحصول ہے،قرآن کریم میں پروردگارکاارشاد ہے: صاحبانِ ایمان تمہارے اوپرروزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پرلکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ”۔

(لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو)اس آیت میں روزے کی فرضیت کابنیادی مقصدتقویٰ پیداکرناہے۔تقویٰ کامطلب ہے اللہ کاخوف گناہوں سے بچنا،اورنیکیوں کی طرف رغبت اوراحکامات الٰہی کی پابندی ہے۔روزے کے ذریعے انسان اپنی نفسانی خواہشات،لالچ،اورغلط عادات کوکنٹرول کرتااورعملی تربیتی نظام فراہم کرتاہے اپنی روحانی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتاہے،جوکہ تقویٰ کی بنیادہے۔نبی اکرم ﷺنے بھی روزے کوتقویٰ کے حصول کاذریعہ قراردیاہے۔روزہ(گناہوں سے بچنے کیلئے)ایک ڈھال ہے۔(صحیح بخاری:1894،صحیح مسلم :1151) اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ روزہ انسان کوبرے اعمال،خواہشاتِ نفس اورشیطانی وسوسوں سے بچاتاہے،جوتقویٰ کی علامت ہے۔

چونکہ روزہ کامقصدتقویٰ حاصل کرناہے توانسان روزہ رکھنے سے کچھ چیزوں سے پرہیزکرنے اوربعض لذتوں سے محروم رہنے کی مشق کرتے ہوئے حرام سے پرہیزکرنے اوراللہ کے احکام کوبجا لانے پرتیارہوجاتاہے۔جب انسان کاگناہ سے سامناہوتاہے تووہاں تقویٰ اختیارکرناچاہیے اورتقویٰ اختیارکرنا پختہ ارادہ کے بغیرممکن نہیں،روزہ کاہدف چونکہ تقویٰ کاحصول ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ روزہ ایسی چیزہے جوانسان کوگناہ سے بچاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّار،روزہ(جہنم کی)آگ کے سامنے ڈھال ہے۔

روزہ تقویٰ کی عملی تربیت کابہترین ذریعہ ہے۔یہ انسان کواللہ کے قریب کرتاہے،نفس کوپاکیزہ بناتاہے،اورمعاشرے میں رحم دلی پھیلاتاہے۔قرآن وحدیث میں اس ربط کوباربارواضح کیاگیا ہے تاکہ مومن روزے کوصرف ایک رسم نہ سمجھے،بلکہ اسے اپنی زندگی میں تقویٰ کی روشنی پھیلانے کاذریعہ بنائے۔تقویٰ کی تعریف تویہ ہے کہ ہرحال میں اللہ کی ناراضگی سے ڈرنا، ہر حال میں اس کی رضا کو ترجیح دینا،ہر قسم کے گناہوں (چھوٹے ہوں یا بڑے) سے بچنا،اورروزہ انسان کوبھوک، پیاس،اورجنسی خواہشات جیسی بنیادی ضرورتوں پرقابوپاناسکھاتاہے۔یہی قابو تقویٰ کی پہلی سیڑھی ہے اورروزہ ان تمام پہلوؤں کومضبوط کرتاہے۔پھریہی نہیں روزہ روحانی پاکیزگی کابہترین زینہ ہے۔اسی لیے ارشادربانی ہے:اے لوگوں جوایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنے کاحق ہے،تم کوموت نہ آئے مگراس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

روزہ دارغریبوں کی تکلیف کومحسوس کرتاہے،جس سے اس میں ہمدردی اورصدقہ وخیرات کاجذبہ بیدارہوتاہے۔رسول اللہﷺنے فرمایا : جوشخص روزہ دارکوافطارکرواتاہے،اسے بھی روزہ دار کے برابراجرملتاہے۔سنن ترمذی:807)روزہ تقویٰ کی عملی تربیت کابہترین ذریعہ ہے۔یہ انسان کواللہ کے قریب کرتاہے،نفس کوپاکیزہ بناتاہے،اورمعاشرے میں رحم دلی پھیلاتاہے۔قرآن وحدیث میں اس ربط کوباربارواضح کیاگیاہے تاکہ مومن روزے کوصرف ایک رسم نہ سمجھے،بلکہ اسے اپنی زندگی میں تقویٰ کی روشنی پھیلانے کاذریعہ بنائے۔

تقویٰ اورروزے کاآپس میں اتناگہراتعلق ہے کہ تقویٰ کے معنی اپنے آپ کوبچانااورروکناہے،اورروزہ کامطلب بھی امساک اورایک طرح کااپنے آپ کوبچاناہے۔ان کاآپس میں فرق یہ ہے کہ تقویٰ،ہراس چیزسے نفس کوبچاناہے جوانسان کے نفس اورتقواکونقصان پہنچاتی ہے،لیکن روزہ خاص مقررکردہ چیزوں سے پرہیزہے جوروزہ کے باطل ہونے کاباعث ہیں اورروزہ دار کوتقویٰ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔اس تعریف کے مطابق تقویٰ اوراس کے مصادیق کی حد،روزہ کی حدسے زیادہ وسیع ہے۔لہذاان چیزوں سے بچناجوروزہ کوباطل کرتی ہیں،تقویٰ تک پہنچنے کاسبب ہے۔اس بات کے پیش نظرکہ روزہ کے ذریعے انسان کوتقویٰ حاصل کرناہے تواگرروزہ کی حالت میں ایک طرف سے انسان کوکھانے پینے اوردیگرکچھ کاموں سے منع کیاگیا ہے تو دوسری طرف سے ایسے اعمال بجالانے کاحکم بھی دیاگیاہے جوایمان وعمل کی مضبوطی کاباعث ہیں،جیسے واجب ومستحب نمازیں پڑھنا،قرآن کریم کی تلاوت، صلوات ،استغفار، دعاو مناجات،غریبوں کی مدد،صلہ رحمی،اخلاق کواچھاکرنااورکئی دیگراعمال۔

ہم انسان ہیں۔خطاکارہیں۔ہم لاکھ چاہیں کہ دل آزاری نہ کریں۔کسی کی عزت نفس پامال نہ کریں۔کسی کودکھ نہ دیں۔لیکن ہوجاتی ہے غلطی۔لیکن انسان وہ ہے جواپنی غلطی مانے اورجس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معذرت کرے۔ وہ انسان جوتائب ہو جائے وہی منزل پرپہنچتاہے۔رمضان المبارک کے پرمسرت موقع پرہم سب کوچاہئے کہ رنجشیں ختم کردیں ۔ ہوجاتا ہے ،انسان ہے،سومعاف کردیں انہیں گلے سے لگائیں۔جوروٹھ گئے ہیں،انہیں منائیں اس دکھ بھری زندگی میں دن ہی کتنے ہیں کہ ہم اسے جہنم بنادیں۔میراایک بہت پاگل سا دوست ہے بہت باکمال لیکن بالکل ان پڑھ۔،میرا رب اسے سلامت رکھے۔ ہروقت ایک ہی بات کرتاہے”دودناں دی زندگی تے فیرانھیری رات ”ایک دن ہم نے پوچھا رب سے معافی کیسے مانگیں توکہابہت آسان ہے۔اس کے بندوں کومعاف کرواورپھررب سے کہو،میں توتیرا بندہ ہوکرتیری مخلوق کومعاف کرتاہوں،تُوتوہم سب کارب ہے،ہمیں معاف کر دے ۔ سومعاف کردئیے جاؤگے جوکسی بندے بشرکو معاف نہ کرے۔خودکیسے معاف کردیاجائے گا۔

آپ سب بہت خوش رہیں۔میرارب آپ کی زندگی سکون وآرام سے بھردے۔آپ سدامسکرائیں،آپ کی زندگی میں کوئی غم نہ آئے۔بہار آپ کا مقدر بن جائے۔ہر شب شبِ برأت بن جائے۔
میں شیشہ گرنہیں،آئینہ سازی تونہیں آتی
جودل ٹوٹے توہمدردی سے اس کوجوڑدیتاہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں