میرے گزشتہ کالم میں”گریٹراسرائیل”کے تذکرہ کے بعدبے شمارپیغامات موصول ہوئے جس میں نوجوانوں کی اکثریت نے اس کی مزیدتفصیل کا مطالبہ کیااورکئی قارئین اس کواسرائیلی کی بے مہارطاقت اورپروپیگنڈہ کی برتری کیلئےایک افسانوی کہانی قراردیتے ہیں۔یادرکھیں کہ ایک لکھنے والے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مقدوربھرتحقیق کے بعداپنے قارئین کو معلومات بہم پہنچائے جس کیلئے یقیناًقارئین کی آراء بھی اپناایک مضبوط مقام رکھتی ہیں۔پہلی مرتبہ گریٹراسرائیل کاتذکرہ 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعدسامنے آیاتھالیکن اسرائیل کی طرف سے اس پرمکمل خاموشی اختیارکی گئی لیکن اس کی تردیدکبھی سامنے نہیں آئی لیکن گزشتہ دودہائیوں سے باقاعدہ یہودی اس مذموم منصوبے کی تائیدمیں لکھنے کے ساتھ الیکٹرانک میڈیاپر بھی گریٹر اسرائیل کاتذکرہ کھل کررہے ہیں جس کارواں برس جنوری میں اسرائیلی مصنف”ایوی لپکن” کاانٹرویوعالمی طورپر بڑا وائرل ہوا جس میں اس نےکھل کر”گریٹر اسرائیل”کے منصوبے پراپنے بیمارذہن کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا”’فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جوہمارے دوست ہیں۔ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اورہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کواسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اورمدینہ اورطورِسیناپربھی قبضہ کریں گے اوران جگہوں کوپاک کریں گے”۔”ایک دن آئے گاجب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کرسعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِفرات(عراق)تک پھیلی ہوں گی”۔
گریٹراسرائیل کے تصورکواس وقت زیادہ تقویت ملی جب غزہ میں زمینی کاروائی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے یونیفارم پر “گریٹراسرائیل”کے نقشہ کے بیج پہن رکھے تھے جبکہ انتہائی دائیں بازوسے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزاراءکی طرف سے”داپرومسڈلینڈ،جس کاوعدہ کیاگیاہے”کے نقشے میں اردن،فلسطین،لبنان،شام،عراق اورمصرکے کچھ حصوں پرقبضہ کرناشامل ہے۔اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو”ایرٹزاسرائیل،یالینڈ آف اسرائیل”کے نام سے جانتے ہیں اوریہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑاجغرافیائی علاقہ ہے۔یادرہے کہ گریٹراسرائیل کاتصورکوئی نیاخیال نہیں مگریہ تصورکہاں سے آیااور”دا پرومسڈلینڈ”میں کون کون سے علاقے شامل ہیں،یہ جاننے کیلئےہمیں کئی سوسال پیچھے جاناپڑے گا۔
گزشتہ برس اکتوبرمیں حماس اوراسرائیل کے درمیان کھلی جنگ ابھی ختم نہیں ہوپائی کہ اسرائیلی جارحیت کاشکارلبنان کے بعد اب یمن بھی ہوگیاہے جبکہ اسرائیل کے ٹارگٹ حملوں میں نئے منتخب ایرانی صدرکی تقریبِ حلفِ وفاداری میں شرکت کیلئے آنے والے حماس کے لیڈراسمعیل ہانیہ کی شہادت کے بعدخطے میں ایک نئی جنگ کاآغازہوگیاتھااوراب لبنان میں حزب اللہ کے مشہوررہنماءحسن نصراللہ کے ساتھ ایگرکئی اہم رہنماؤں کوشہیدکردیاگیا جس میں پاسدارانِ انقلاب کے ایک جنرل بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکاسمیت کئی مغربی ممالک نے دنیاکی اشک شوئی کیلئے جنگ بندی کاتذکرہ توضرورکیالیکن جواب میں اسرائیل کی کاروائیوں میں مزید شدت نظرآرہی ہے جس کے بعد “گریٹراسرائیل”کی گونج میں بھی اضافہ دکھائی دے رہاہے۔
صیہونیت کے بانی تھیوڈورہرزل کے مطابق”پرومسڈلینڈ”یاگریٹراسرائیل کے نقشے میں مصرمیں دریائے نیل سے لے کرعراق میں نہرِفرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان،اردن،عراق،ایران،شام،مصر،ترکی اورسعودی عرب بھی گریٹر اسرائیل کاحصہ ہوں گے۔1947میں اقوام متحدہ نے فلسطین کودوالگ الگ یہودی اورعرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اوربیت المقدس کوایک بین الاقوامی شہرقراردیاگیا۔اس کے بعداسرائیلی سیاستدان اورسابق وزیراعظم مینیچم بیگن نے کہاتھاکہ “فلسطین کی تقسیم غیرقانونی ہے۔یروشلم ہمارادارالحکومت تھااورہمیشہ رہے گااورایرٹزاسرائیل کی سرحدوں کوہمیشہ کیلئےبحال کیاجائے گا”۔
اخبارٹائمزآف اسرائیل میں”زایونزم 2.0:تھیمزاینڈپروپوزلزآف ریشیپنگ ورلڈسیویلائزیشن”کے مصنف ایڈرئن سٹائن لکھتے ہیں کہ گریٹراسرائیل کامطلب مختلف گروہوں کیلئےمختلف ہے۔اسرائیل میں اورملک سے باہررہنے والے یہودیوں کیلئےگریٹراسرائیل کی اصطلاح کامطلب مغربی کنارے(دریائے اردن)تک اسرائیل کی خودمختاری قائم کرناہے۔اس میں بائبل میں درج یہودیہ،سامرہ اور ممکنہ طورپروہ علاقے شامل ہیں جن پر1948کی جنگ کے بعدقبضہ کیاگیا۔اس کے علاوہ اس میں سینائی،شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔
اس حوالے سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پرگہری نظررکھنے والی اورواشنگٹن میں مقیم پالیسی تجزیہ کارتقیٰ نصيرات کے مطابق”گریٹراسرائیل کاتصوراسرائیلی معاشرے میں رچابساہے اور حکومت سے لے کرفوج تک اسرائیلی معاشرے کے بہت سے عناصراس کے علمبردارہیں۔اسرائیلوں کامانناہے کہ اسرائیل بائبل میں درج حوالوں اورتاریخی اعتبارسے ان زمینوں کا حقدارہے جونہ صرف”دریاسے سمندرتک”بلکہ”دریاسے دریا تک”پھیلی ہوئی ہیں۔ یعنی دریائے فرات سے دریائے نیل تک اوران کے درمیان تمام علاقے۔
تقیٰ نصيرات کے مطابق اگرچہ گریٹراسرائیل کے تصورکے پیچھے اصل خیال یہی ہوسکتاہے مگرآج کے اسرائیل میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ اس میں اسرائیل کی سرحدوں سے باہرکے وہ علاقے مغربی کنارے کے علاقے،غزہ اور گولان کی پہاڑیاں بھی شامل ہیں جن پراس نے طویل عرصے سے قبضہ کررکھاہے۔تاہم برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امورکے ماہراور”کنگ فیصل سینٹرفارریسرچ اینڈاسلامک سٹڈیز”کے ایسوسی ایٹ فیلوعمرکریم گریٹراسرائیل کو”محض ایک افسانوی تصور”مانتے ہیں۔یہودی مذہب کے مطابق گریٹراسرائیل سے مرادمشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جوسلطنتِ عثمانیہ کاحصہ تھے اورجہاں یہودی آبادتھے۔جب بنی اسرائیل مصرسے نکل کرآئے تھے تواس وقت ان کامرکزفلسطین تھاجہاں آ کروہ آبادہوئے،اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کاحصہ مانتی ہے اوراس کے علاوہ گریٹراسرائیل میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں جہاں یہودی آبادتھے۔
عمرکامانناہے کہ گریٹراسرائیل ایک ایسی فینٹیسی ہے جوپریکٹیکل نہیں،مگریہودیوں سے زیادہ صیہونی سیاست میں اس کابہت ذکرملتاہے۔”عملی طورپراسرائیلی،فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اورغزہ کواپناحصہ مانتے ہیں لیکن اگرصرف”فینٹیسی”کی بات کی جائے توگریٹراسرائیل میں جزیرہ نماعرب یعنی آج کے سعودی عرب،عراق،اردن، مصر کے کچھ علاقے اس میں شامل ہیں۔”داپرومسڈ لینڈ”کے متعلق عمرکریم بتاتے ہیں کہ جب حضرت یوسف کے دورمیں یہودی مصرمیں آبادہوئے تب ان کی حکمرانی فلسطین سے لے کربلادِشام(آج کاشام)اورفرات کے کچھ علاقوں تک تھی اورعرب ریاستیں نہ ہونے کے باعث ان کااثرورسوخ کئی علاقوں تک تھااورگریٹراسرائیل کاتصوریہیں سے آیاہے کہ”بنی اسرائیل کی اولادجہاں جہاں پلی بڑھی ہے وہ سب علاقے ہمارے ملک کاحصہ ہوں۔عملی طورپریہ ممکن نہیں ہے اوراب گریٹراسرائیل کامطلب صرف مقبوضہ علاقے ہیں جن میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اورغزہ شامل ہیں۔
2023میں دائیں بازوکے اسرائیلی وزیربیزلیل سموٹریچ کے پیش کردہ”گریٹراسرائیل”کے نقشے میں تواردن بھی شامل تھاجس کے باعث سفارتی تنازع کھڑاہوگیاتھا۔یادرہے کہ اسرائیلی وزیر نے پیرس میں ایک تقریرکے دوران گریٹر اسرائیل کاایک نقشہ پیش کیاتھاجس میں اردن اورمقبوضہ مغربی کنارے کواسرائیل کاحصہ دکھایاگیاتھا۔اردن نے بیزلیل پردونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی خلاف ورزی کاالزام لگاتے ہوئے شدیداحتجاج کیاتھا۔حقیقت یہ ہے کہ سموتریچ ہویابین گویر،جن حلقوں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ اسی تصورکواسرائیل کاجائز مستقبل سمجھتے ہیں۔
انہوں نے اسی تصورکااستعمال کرتے ہوئے نیتن یاہوکی موجودہ حکومت میں غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کومسلح کرنے،ان کی حمایت اورتحفظ فراہم کرکے اسے حقیقت میں بدل دیاہے۔یہ غیرقانونی اسرائیلی آبادکارزبردستی فلسطینیوں کے زیتون کے باغوں کوجلاکر،انہیں ان کے گھروں سے بے گھر کرکے اورڈرادھمکاکرانہیں اپنی حفاظت کیلئےبھاگنے پرمجبورکررہے ہیں اور مغربی کنارے میں نئی بستیاں قائم کر رہے ہیں۔حماس کے اسرائیل پرکیے گئے7/ اکتوبروالے حملوں کے بعدان عناصر(غیرقانونی مسلح اسرائیلی آبادکاروں) نے نمایاں اثرورسوخ اور طاقت حاصل کرلی ہے اوروہ اسرائیلی فوج(آئی ڈی ایف)اورنتن یاہوکے وزراکی حفاظت میں اس ایجنڈے پرکام کررہے ہیں۔اکثرانہیں”غیرریاستی عناصر”پکاراجاتاہے لیکن انھیں کچھ بھی پکارلیں،حقیقت یہی ہے کہ انہیں براہ راست وزیراعظم نتن یاہوکی حمایت حاصل ہے جس نے اس سال جولائی میں5300نئی بستیوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔
یادرکھیں!کسی بھی قوم میں انتہاپسندایسے ہی خواب دیکھتے ہیں جیسے اسرائیل میں انتہائی دائیں بازوکی صہیونی افرادکے ہیں”۔اسرائیل کی ریاست قائم ہونے کے بعدیہودیوں کوایک مذہبی ریاست کاتصوردوبارہ سے ملاہے کیونکہ پہلے یہودی جہاں بھی آبادتھےیاتووہ اقلیت میں تھے یاان ملکوں کے شہری تھے۔پہلی مرتبہ پاکستان کی طرح انہیں اسرائیل کی صورت میں ایک مذہبی ریاست کاتصورملاہے جہاں یہودی مذہب ہی ان کی قومیت کی بنیادبنااور”یہی سے اس بحث نے جنم لیاکہ چونکہ اب ہم نے اپنی مذہبی ریاست قائم کرلی ہے لہٰذااب ہم اسے روایتی حدوں تک لے کر جائیں گے”۔
آج کے اسرائیل میں بہت کم افراد “جوانتہائی اقلیت میں ہیں”وہ ایسی باتیں کرتے ہیں تاہم ان کامانناہے کہ عملی طورپر یہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ اسرائیل کے اردن جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں جن کامطلب ہے کہ وہ ان ممالک کی سرحدی حدودکوتسلیم کرتاہے”۔لیکن زمینی حقائق اسرائیلی ظالم وسفاک حکمرانوں پراس لئے یقین نہیں کرسکتے کہ سفارتی تعلقات تومصر،اردن کے ساتھ بھی ہیں لیکن اس کے باوجودآج تک ان کے علاقوں پراسرائیل کاناجائزقبضہ موجودہے۔عرب امارت اورگلف کے ساتھ بھی اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہیں اورسعودی عرب کے ساتھ بھی ان کے پہلے سے کہیں زیادہ خوشگوارتعلقات ہیں۔۔اورملک کی تیسری جانب شام کے ساتھ بھی اسرائیل کا صرف گولان ہائٹس کاتنازع ہے اوراس کےعلاوہ دونوں ممالک کے بیچ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔جویہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اورعملی طورپرگریٹراسرائیل کے قیام کی باتیں محض خیالی ہیں اور اسرائیل میں سنجیدہ سیاست دان اور تجزیہ کاراس بارے میں کبھی بات کرتے نظرنہیں آتے تاہم یہ فینٹسی ان طبقات میں ضرورموجودہے جوایک طرح سے پوری دنیامیں یہودیوں کی نشاطِ ثانیہ کاتصوررکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگراسرائیل”گریٹراسرائیل”کے منصوبے کوعملی جامہ پہناناچاہے تومغرب کااس پرکیاردِعمل ہوگا؟اس حوالے سے میں سمجھتاہوں اب تک مغرب،خاص طورپرامریکانے زمینی حقائق کی تبدیلی اوراسرائیلی بستیوں کی توسیع کے حوالے سے کمزورردعمل کامظاہرہ کیاہے جس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ اس سال کے شروع میں جب اسرائیل نے کچھ پرتشدد آباد کاروں کوبستیاں قائم کرنے کی منظوری دی تو”بائیڈن انتظامیہ نے بہت نپے تلے اندازمیں ان کی مذمت کی تھی”۔
مغرب میں اسرائیل کے حمایتی ممالک کی طرف سے ان اقدامات پرکوئی سنگین ردِعمل سامنے نہیں آیا،لہنداایک طرح سے مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو”گریٹراسرائیل”کے خواب کوپوراکرنے کیلئےگرین لائٹ مل گئی ہے اور بااثراسرائیلی لیڈروں کی ایک بڑی تعداداس خواب کی تعبیرمیں لگی ہے تاہم گریٹراسرائیل کاقیام نہ مغرب اورنہ مغرب میں رہنے والے یہودیوں کوقابلِ قبول ہوگا۔جب1947 میں یہودیوں کیلئےاس ریاست کاقیام عمل میں آیاتواس وقت یہی خیال تھاکہ پوری دنیامیں انہیں استحصال کاسامنارہا ہے لہٰذا انھیں ایک الگ ملک ملناچاہیے جہاں وہ اس طرح کے استحصال سے بچ کرزندگی گزارسکیں اورتمام مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے چارٹرمیں آج بھی مغربی کنارہ اور غزہ کومقبوضہ علاقے کہاجاتاہے اوراسے امریکااوربرطانیہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
گریٹراسرائیل کے منصوبے کے بارے میں جویہ خیال کرتے ہیں کہ اس خیالی منصوبے کی بات توایک طرف،ان مقبوضہ علاقوں کے علاوہ گولان ہائٹس جہاں اسرائیل1967سے قابض ہے،اسے بھی تمام مغربی ممالک اوربین الاقوامی ادارے مقبوضہ علاقہ مانتے ہیں۔اس لئے”گریٹراسرائیل”کی نہ توکوئی قانونی حیثیت ہے اورنہ اسرائیل کی پاس اتنی فوجی صلاحیت ہے کہ وہ ایسے منصوبے کومستقبل میں عملی جامہ پہنا سکے لیکن فرض کریں”اگراسرائیل ایسی کوئی کوشش کرتابھی ہے تومغرب کی سیاسی وفوجی اجازت اورمددکے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا”۔ایک طبقہ یہاں پاکستان کے ان فرادکے بارے میں اپنابغض کااظہارکرتے ہوئے اسرائیل کے اس مذموم ارادے کی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ”گریٹراسرائیل”محض ایک فینٹیسی ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کیلئے”سیاسی لائف لائن”کاکام کرتی ہے اوران کے نظریات کوزندہ رکھنے میں اوران کیلئےمعاشرے میں اپنی اہمیت دکھانے میں کارگر ہوتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں کچھ لوگ خلافت اوردنیابھرپرراج کرنے کاتصور رکھتے ہیں۔
ان کی اس غلط فہمی کودورکرنے کیئے زمینی حقائق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اتناہی عرض کروں گاکہ افغانستان میں روس کی شکست کے فوری بعد”ون ورلڈآرڈر”کے خالق امریکاکے سابقہ خارجہ سیکرٹری”ہنری کیسنجر”کے اس بیان کو ضرورذہن میں یادکرلیں جس میں اس نے واضح طورکہاتھاکہ روس کوامریکاکےمقابلے میں بطورعالمی طاقت کے شکست دینے کے بعد”مذہب اسلام،مسلمان”ہماراسب سے بڑادشمن ہے جس سے نمٹناانتہائی ضروری ہے”۔یہ وہی ہنری کیسنجرہے جس کوچین سے ملانے کیلئے ایک اہم کرداراداکیاتھالیکن1971ء میں ان کی ساری ہمدردیاں ہمارے دشمن بھارت کے ساتھ تھیں۔یہ وہی کیسنجرہیں جن پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کی پالیسیوں کے سبب کمپوچیااورلاؤس پربے تحاشابمباری کی گئی۔
انہوں نے چلی میں صدر آلندے کی منتخب مارکسسٹ حکومت کاتختہ الٹوانے میں بنیادی کرداراداکیا۔افریقااورلاطینی امریکامیں امریکانوازفوجی آمریتوں کی حمائیت کی۔مشرقی تیمورپرانڈونیشیاکے جبری قبضے کوتسلیم کیا۔بھٹو کوایٹمی ہتھیاروں کامنصوبہ ترک کرنے،ایٹمی پروگرام کویکسرختم نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دہمکی دی۔کہاجاتاہے کہ کیسنجرکاعملیت پسندسفاک سیاست کانظریہ اس دنیامیں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کاسبب بنااوربعدازاں کیسنجرکے سفارتی شاگردوں نے اس عمل کواورسیقل کیا۔انہوں نے1977ءمیں کہاکہ اسرائیل کاتحفظ تمام آزادانسانوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔وفات سے تین ماہ پہلے اسرائیلی اخبار ماریف کوانٹرویودیتے ہوئے کہا’’میں ایک یہودی ہوں۔اس حیثیت میں آلِ یہوداوراسرائیل کی بقامیراذاتی مسئلہ ہے‘‘۔2014ءمیں عالمی جیوش کانگریس نے ہنری کیسنجر کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں صیہونی نظریے کے بانی کے نام پرقائم تھیوڈورہرزل ایوارڈسے نوازا۔اس موقع پراسرائیلی صدرآئزک ہرزوگ نے اسرائیل کیلئے ہمدردی اورمحبت رکھنے کیلئے ہنری کیسنجرکوسراہا۔
صہیونیت کے بانی تھیوڈورہرزل کے مطابق یہودیوں کی ارضِ موعود میں لبنان،شام،عراق،سعودی عرب،مصراوراردن کے علاوہ ایران اورترکی کے علاقے بھی شامل ہوں گے۔اقوامِ متحدہ نے1947میں فلسطین کویہودی اورعرب ریاست میں تقسیم کرکے بیت المقدس کوبین الاقوامی شہرقراردیا تھا مگرسابق اسرائیلی وزیرِاعظم بیگن کاکہناتھاکہ فلسطین کی یہ تقسیم غیرقانونی ہے،بیت المقدس یہودیوں کاہے اوریہودیوں ہی کارہے گا۔اسرائیل میں ہردورمیں گریٹراسرائیل کے تصورکوپروان چڑھایاگیاہے۔اسرائیلی یہودیوں کوباورکرایاگیاہے کہ آسمانی کتب میں جن علاقوں کاذکرہے وہ سب کے سب اُن کے ہیں اورایک گریٹراسرائیل میں شامل ہوں گے۔ان تمام حقائق کے باوجوداگرمسلم حکمران اپنے اقتدارکوبچانے کیلئے آنکھیں بندکئے ہوئے ہیں توکبوترکی آنکھیں بندکرنے سے بلی کاشکارہونے سے بچ نہیں سکتا۔