Get ready for the finale

حتمی انجام کیلئے تیارہوجاؤ

:Share

14/اگست1947ءکوجب پاکستان دنیاکی سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست کی حیثیت سے نقشے پرابھراتھاتوقائدنے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کوپہلاگورنر جنرل بنانے سے اس لئےانکارنہیں کیاتھاکہ وہ خوداس عہدے کے خواہاں تھے بلکہ اس لئے کہ اپنی قوم اوراقوام عالم کویہ باورکروایاجائے کہ اب برطانوی راج ختم ہوگیااورسلطانی جمہورکازمانہ آگیاہےاورملک کے فیصلے ملک کے اندرہوں گے۔یہ سیا سی آزادی کی علامت تھی۔اس کے ایک سال بعدجب یہ مسئلہ درپیش ہواکہ آیاپاکستان کے طے شدہ تمام اثاثے پہلے کی طرح”ریزروبینک آف انڈیا”میں جمع رہیں یااس کااپنابینک ہو،قائداعظم نے فیصلہ کیاکہ آزادملک پا کستان کااپناآزادبینک ہوناچا ہئے،اس طرح انہوں نے اقتصادی آزادی کااعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کااعلان کیااورکراچی میں بولٹن مارکیٹ میں واقع تاریخی عمارت میں پاکستان کے پہلے اسٹیٹ بینک کاافتتاح کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایسامعاشی نظام نہیں چاہتاجس میں امیر، امیرتراورغریب،غریب ترہوجائے۔سودی نظام کواستحصالی نظام قراردیتے ہوئے ماہرین اقتصادیات اورعلمائے دین کوتلقین کی کہ وہ اسلام کے اصولوں پرمبنی بینکاری کے قیام کیلئے تحقیق اورغوروخوض کریں۔اسی طرح انہوں نے سا بقہ مشرقی پا کستان کی بندرگاہ چٹاگانگ میں اپنے خطاب میں ستحصال کے خاتمے اورفلاحی مملکت کے قیام پرزوردیا۔

انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں رہنمااصول متعین کیااورکہاکہ پاکستان دنیاکے ہرملک سے برابری کی بنیادپر دوستانہ تعلقات کاخواہاں ہےلیکن ساتھ ہی مظلوم قوموں کی حمائت بھی جاری رکھےگا۔یہ صرف سیاسی بیان نہیں تھاجیساکہ ہمارے سیاستدان کرتے ہیں،بلکہ قائدنے فلسطین، جنوبی افریقااورانڈونیشیاکے عوام کی جدوجہد آزادی کی کھل کربرملاحمائت کی ،نسلی امتیازاورنوآبادیات کے خاتمے کیلئے قرارواقعی اقدامات بھی کئے۔ اگر یہ کہاجائے کہ وہ صرف مسلم ممالک کی آزادی کے حامی تھےتوجنوبی افریقاکی اکثریت توغیرمسلم تھی توپھر انہوں نے اس کی حمائت کیوں کی؟

قائداعظم نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سلطنت برطانیہ کے زمانے سے تعینات فوج کوان کی چوکیوں سے واپس بلالیااور کہاکہ اب ہمارے قبائلی بھائی ہماری شمال مغربی سرحدکی حفاظت کریں گے لیکن انہیں کیامعلوم تھاکہ60سال بعدکوئی خودسا ختہ محافظ پاکستان امریکی قصرسفیدمیں بیٹھے فرعون کےحکم پران ویران چوکیوں پرجواب کھنڈربن گئیں تھیں،پھرفوج تعینا ت کردے گاجیسے برصغیرکے برطانوی آقاؤں نے حریت پسندوں کی بستیوں پرسامراج کی گرفت مضبوط کرنے کیلئےتعمیرکیاتھا۔ جہاں سیاسی ایجنٹ چیدہ چیدہ قبائلی سرداروں کورشوت دیکر ان کی وفاداریاں خریدلیتے تھے۔یہ کاروباراس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیاجب اسی آمرنےاپنے غاصبانہ اقتدارکوطول دینے کیلئے چندڈالروں کے عوض قبائلی عوام کوکچلنے کیلئےامریکی سی آئی اے کووہاں اڈے بنانے کی اجازت دی۔

یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس سے قبل خودساختہ یامغرب ساختہ دخترمشرق(مغرب)نے امریکی خفیہ پولیس ایف بی آئی کوپاکستان می سرزمین پرتھانے قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔کیایہ ستم ظریفی نہیں کہ قائداعظم توانگریزگورنرجنرل گوارہ کرنے کوتیارنہیں تھے اورایک ایک کرکے نوآبادیات کی باقیات کومٹانے کی مثال قائم کرکے رخصت ہوئےجبکہ ان کی وفات کے تقریباً نصف صدی کے بعدآنے والے حکمرانوں نے استعمار کے غیرملکی گماشتوں اورجاسوسوں کی میزبانی کی بلکہ نوبت بہ ایں جا رسیدکہ کٹھ پتلی حکمران اپنے عوام سے خاص کرغیور قبائلیوں سے اس قدرخائف تھےکہ اپنے غاصبانہ قبضے کوبچانے کی خاطرغیرملکیوں اورصہیونی وصلیبی عناصرکواپنے ہاں قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت بھی دی۔کیاکوئی تصورکرسکتاہے کہ کسی حکومت کوخوداپنے ہی عوم سے،اپنے دین سے،اپنے اعتقادات سے،اپنے نظریات سے خطرہ محسوس ہو،جس سے خودکومحفوظ رکھنے کیلئے انہیں غیرملکی ایجنٹ اورغیراسلا می نظریات درآمدکرناپڑے؟

قا ئداعظم کی 11/اگست کی تقریرکابعض لوگ اس طرح حوالہ دیتے ہیں کہ جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی باریہ تقریرکی ہے اوران کی باقی تقاریر منسوخ ہوگئیں۔یہ لوگ قائدکے متعددبیانات کونظراندزکردیتے ہیں جن میں انہوں نے واضح طورپرتواتراور تکرارکے ساتھ یہ واضح کردیاتھاکہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی،ساتھ ہی قوم کویہ بھی بتادیاتھاکہ اسلام میں پاپائیت یا برہمنیت جیساکوئی طبقہ نہیں ہے جسے ریاست کی اجارہ داری کاکوئی پیدائشی حق حاصل ہو۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ قائدایک سیکولرریاست چاہتے تھے توسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاانہوں نے پاکستان کامطالبہ محض اس لئے کیاتھاکہ برصغیرمیں دوسیکولر ریاستیں ہوں،ایک پاکستان اوردوسری اس کے پڑوس میں ہندوستان؟پھردوریاستوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟اگرپاکستان حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وجودمیں آیاتواس میں اوربھارت میں اسلام کاعنصرانہیں ایک دوسرے سے ممّیزکرتاہے۔

کون اس تاریخی حقیقت سے انکارکرسکتاہے کہ برصغیرکے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے جذبہ یگانگت کے تحت مطا لبہ پاکستان کی حمائت کی تھی۔لہندایہ کہناکہ مطا لبہ پاکستان کی عوامی حمائت کے محرکات معاشی تھے،قطعاًغلط ہےکیونکہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کوقیام پاکستان سے کون سے معاشی فوائدکی توقع تھی؟وہ توبیچارے ہندواکثریت کے یرغمال بن گئے،البتہ میں ان جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی نیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاجنہوں نے راتوں رات یونینسٹ پا رٹی چھوڑکرحکمران مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی تاکہ ان کی مراعات با قی رہیں۔میں بھا رت سے نقل مکانی کر نے والے ان مفادپرستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گاجوحصول جائیداد،مال ودولت اورجاہ وحشم کےلالچ میں پا کستان آئے۔

بلکہ پاکستان کی ایک لسانی جماعت کے اکژرہنماایسے بھی ہیں جوقیام پاکستان کے موقع پرتوہندوستان میں ہی مقیم اس بات کاجائزہ لیتے رہے کہ پاکستان کے معاشی اورسیاسی حالات کیارخ اختیارکرتے ہیں۔اپنے کاروباراوردوسری تمام املاک کواچھے داموں فروخت کرکے پاکستان میں بھی مفادات سے خوب ہاتھ رنگے۔پاکستان کی بیوروکریسی کے توسط سے پاکستان کی نوکر شاہی اوردوسرے ملکی اہم اداروں میں کالے انگریزوں کی طرح بطورحکمران قابض ہوگئے اورآج کھلےعام ملک کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ پاکستان کیلئے اپنے بزرگوں کی قربانی کاذکر بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کرتے ہیں۔ان مذکورہ طبقا ت کے محرکات یقینامعاشی تھے لیکن خودپاکستان میں بسنے والے کروڑہاعوام نے اسلا می جذبے سے سرشارہوکر جدوجہدپاکستان میں اپنا کرداراداکیاتھا۔ان میں کتنے کٹ مرے،کتنی عصمتیں لٹ گئیں ،لیکن ان کے پائےاستقلال میں ذرہ بھرلغزش نہ آئی۔

یہ جذبہ ایمانی نہیں تھاتواورکیاتھا؟اس کی پشت پرکربلاکی روایت تھی،اس کی آکسیجن تحریک خلا فت کانظریہ تھا۔کیامسلم عوام نے جس وطن کیلئے اتنی قربانیاں دیں،وہ اس لئےتھاکہ ان کے ملک پرامریکاکاتسلط قائم ہوجائے؟کیاقائداعظم نے پاکستان کے اثاثے”ریزروبینک آف انڈیا”سے نکال کر اس لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے تھےکہ سٹی بینک کاایک”کنٹری مینجر” درآمدکرکے اس کوملک کاوزیراعظم بنادیاجائے جوپاکستان کے قومی اثاثوں کواونے پونے داموں میں فروخت کرکے اپناکمیشن کھراکرکے رات کے اندھیرے میں گم ہوجائے؟ایک دخترِ مشرق کانقاب پہن کرملک کو ایک نئے ظالمانہ”آئی پی پیز”کے حوالے کرنے کی بنیادرکھ جائے جواب تک ملک کاکھربوں روپیہ ڈکارچکاہے اوراب اس کے بعدہر آنے والے حکم ران اس بہتی گنگامیں ہاتھ پاؤں دھورہے ہیں اورمعاملہ یہی ختم نہیں ہواتھاکہ ایک اورطالع آزمااپنی مرضی کاایک پلے بوائے ملک پرمسلط کرکے بادشاہ گرکاروپ اختیار کرلے اوروہ پلے بوائے نئے پاکستان بنانے اوراغیارکی غلامی سے نجات دلانے کے نام پرسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کر دے۔

کیاقائداعظم نے کشمیرمیں استصواب رائے عامہ کی حمایت اس لئے کی تھی کہ ہم اپنی ناکام خارجہ پالیسی کی بناءپرپاکستان کی شہ رگ کواس قدرآسانی سے انڈیاکے حوالے کردیں۔ملک کا آرمی چیف قصرسفیدکے فرعون کے قدموں میں بیٹھ کرکشمیرکاسودہ کرکے اپنے ہی ملک کے دردرجن سے زائد صحافیوں کوبلاکراپنی بزدلی کاروناروتے ہوئے اپنے ہتھیاروں کوناکارہ قرار دیکر ازلی دشمن انڈیاکے سامنے سرنڈرہوجائے اورآج بھی اسی ملک کے خزانے سے مراعات وصول کررہاہواورکوئی اس کے جرمِ عظیم پربازپرس کرنے والانہ ہو۔اس وقت کاوزیراعظم قصر سفیدکے فرعون کے احکام کی تعمیل میں امریکاسے واپسی پرائیر پورٹ پرہی اپنے حواریوں کوجلسے کی صورت میں بلاکریہ اعلان کرے کہ گویامیں ایک مرتبہ پھرورلڈکپ جیت کر واپس لوٹا ہوں۔کشمیریوں کویہ یقین دلائے کہ میں تمہاراوکیل ہوں،اس لئے کسی مظاہرے کی بھی ضرورت نہیں اورہرجمعہ کوسقوط کشمیرپرایک گھنٹے کی علامتی ہڑتال کااعلان کرکے پہلے ہفتے چند منٹوں کیلئے فوٹوسیشن کرکے واپس لوٹ جائے اورپھراپنے دورِ اقتدارمیں کبھی اسے کشمیریادنہ آہاہو۔اب انڈیاکشمیرکی آبادی کوایک سازش کے تحت کم کرکنے کیلئے لاکھوں ہندوؤں کو کشمیر میں بسارہاہے اوراسی متنازعہ کشمیرمیں ترقی یافتہ ممالک کی سرمایہ کاری کانفرنس کااہتمام کرکے اپنے ناجائزقبضے کومزیدمستحکم کررہاہے۔ کیابھارت سے تمام متنازعہ امورپرکوئی خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے جومسئلہ کشمیراب بھی ہماری ترجیحات سے غائب کردیاگیاہے۔

قائداعظم کی وفات کے چھ سال بعدہی نوکرشاہی نے اپنی سرزمین پرامریکاکوفوجی اڈے دے دئیے جہاں سے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی پروازیں جاری رہیں جس کے با عث روس پاکستان کواپنادشمن سمجھنےلگااورکشمیرمیں رائے شماری کی قرار دادکے خلاف حق تنسیخ استعمال کرکےاسے کالعدم بنادیا۔اسی طرح مشرقی پا کستان سے فوجوں کی واپسی کی قراردادکوبھی منسوخ کرکے بھارتی فوج کومشرقی پاکستان پرقبضہ کرنے کابھرپورموقع فراہم کردیا۔سات دہائیوں کے بعدروس کے ساتھ مراسم بحال کرنے کی کوششیں توشروع ہوئی ہیں لیکن روس کی اپنے پڑوس آذربائیجان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھادیا ہے،اورادھرپاکستان کی معاشی ھالت کومزیدبربادکرنے کیلئے سیاسی تناؤکوعروج پرپہنچاکرایک مرتبہ پھردباؤبڑھا دیا گیا ہے تاکہ اس کی آڑمیں ملک کومزیدانتشارمیں مبتلاکرکے اپنے مقاصدحاصل کئے جائیں۔

قائداعظم نے کہاتھاکہ ملک میں جمہوریت ہوگی اوراب 18ویں ترمیم کے بعدہرصوبے کواندرونی طورپرمالی خودمختاری حاصل ہوگئی ہے،جبکہ ان کے جانشینوں نے مشرقی پاکستان کوآبادی کے تناسب سے نمائندگی دینے سے انکارکردیاتھاجومشرقی بازو الگ ہونے کاسبب بنا۔اسی ملک میں کمانڈونے اپنے اقتدارکوطول دینے کیلئے امریکی کونڈالیزارائس کے احکام بجالاتے ہوئے اپنی فوجی وردی میں دبئی میں جنرل کیانی کی معیت میں بے نظیرسے این آراوکامعاہدہ کرتے ہوئے انہیں ملک سے لوٹی ہوئی ساری دولت کے مقدمات سے بری کرکے ملک میں آنے کی دعوت دی جس سے دیگرہزاروں قومی مجرموں نے بھی خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تمام جرائم سے یک قلم رہائی مل گئی لیکن ان تمام مراعات کے باوجودکمانڈو اپنا اقتدار نہ بچاسکااورقومی دولت لوٹنے والوں نے ایک مرتبہ پھرملکی دولت کوشیرمادرسمجھ کرڈکارناشروع کردیا۔اس طرح پاکستان کی بنیادوں کوکھوکھلاکردیا گیااوراستعمارکے گماشتے(خاکم بدہن)اس کے ٹوٹنے کانہ صرف تاریخوں کاذکرکرنے لگے اوراپنے شیطانی دماغوں سے اس کے نقشے بنانے لگے۔یہ خبیث پاکستان کی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ انہوں نے یہاں کھلم کھلامسلح دہشتگردوں کی قبائلی علاقوں کے علاوہ بلوچستان میں ہندوستان کی مددسے شورش پیدا کردی ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہماری افواج کوہرروزاپنی جانوں کی قربانی دینی پڑرہی ہے۔

ہماری بدقسمتی کاباب ابھی بھی بندنہیں ہوا۔قوم نےاپنے سیاسی حکمرانوں اورمقتدراشرافیہ سے جان چھڑانے کیلئے کبھی آزاد عدلیہ کیلئے سڑکوں پراپنے جان ومال کی قربانی دی اورکبھی عمران خان کواپنانجات دہندہ سمجھ کراپنی تمام توانائیاں اس کے گودمیں ڈال دیں لیکن پونے چارسال تک عمران خان نے قوم سے کئے گئے ہروعدے پریوٹرن لیتے ہوئے اسے اپنی سیاسی بالغ نظری قراردیتے ہوئے قوم کے ساتھ کھلادھوکہ کیا۔ان کوجب اپنی غلط پالیسیوں کی بناءپرملک کواپنے پیشروؤں کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کے کڑی شرائط کے ساتھ قرضوں کے بوجھ میں ڈبوکرملک کومہنگائی کے طوفان میں مبتلاکردیاتواپنے مخالفین کی عدم اعتمادکی تحریک کے دوران انہوں نے بالکل اسی طرح اپنے اقتدارکوڈوبنے سے بچانے کیلئے ذوالفقار بھٹوکی طرح امریکاکوموردالزام ٹھہراتے ہوئے تمام مخالفین کوامریکاکے ایجنٹ قراردیتے ہوئے قوم کواپنے دفاع کیلئے دہائیاں دینی شروع کر دیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے قوم کے اہم ادارے پربھی تابڑتوڑحملے شروع کردِئیے جوآج سے قبل کبھی بھی فوج کے خلاف ایسی ناپسندیدہ مہم نہیں دیکھی گئی اور سوشل میڈیاآئے دن اس بڑھتی ہوئی آگ پرڈھیروں پٹرول پھینک کراس میں اضافہ کررہاہے جس کودیکھنے کے بعدوہی دشمن جوایک عرصے سے ملک کی سلامتی کے خلاف منصوبے بنارہے ہیں،ان کاکام بہت آسان ہوگیاہے۔

وہی عدلیہ جس نے عمران خان کوامین وصادق کاسرٹفکیٹ عطاکیاتھا،اسی عدلیہ کے ھکم سے آج وہ پابندسلال ہے۔وہی عمران خان اپنے دورِ حکمت میں عوامی اجتماعات میں امریکی خط لہراکراس کوموردالزام ٹھہراتے رہے،لیکن دوسری طرف انہی کی جماعت کی سنئیررکن شیریں مزاری اپنے ٹویٹ میں امریکی سفیرکے ہیلی کاپٹرپرطورخم سرحدکے دورے کی تصاویرلگاتے ہوئے اپنے شدیدغصے کااظہارکررہی تھیں لیکن اس سے چندگھنٹوں کے بعدان کی خیبرپختونخواہ حکومت کے وزیراعلیِ اور دیگروزراء امریکی سفیرکے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے یوایس ایڈکی طرف سے اپنے صوبے میں20سے زائد پراجیکٹس پرامریکی مددکی تکمیل پرنہ صرف شکریہ اداکررہے تھے بلکہ امریکاکی طرف سے36گاڑیوں کاتحفہ بھی قبول کررہے تھے۔یہ دہرامعیار ساری قوم نے کھلی آنکھوں سے دیکھاہے۔

آج ایک مرتبہ پھرپاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کاایک طوفان جاری ہے جبکہ ملکی معاشی اورسیاسی ابتری نے قوم کویہ سوچنے پرمجبورکر دیا ہے کہ اب ضرورت اس امرکی ہے ان تمام آزمودہ سیاستدانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے نئے ایماندارافرادکے ساتھ اس ملک میں وہ نظام لایاجائے جواس ملک کی تقدیربدل دے۔دورنہ جائیں صرف پیچھے یہ مڑکردیکھ لیں کہ اس ملک میں “آئی پی پیز”جیسے خطرناک پراجیکٹ کوکن شرائط پرپاکستان لایاگیااورپھر ہرآنے والے حکمرانوں اورسیاستدانوں نے اس کی آڑمیں میں ملک کے کھربوں روپے لوٹ لئے اوراب بھی عوام کے جسم سے خون کاآخری قطرہ تک نچوڑاجارہاہے۔

ہمیں اس مقام پرلیجانے کی سازش ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس تنخواہ دینے کیلئے بھی رقم موجودنہ ہو جبکہ ملک کے تمام اثاثہ جات پہلے ہی غیرملکی مالیاتی اداروں کے پاس گروی پڑے ہیں اورشنیدیہ ہے کہ ملکی ائیرلائن”پی آئی اے”جس کوعملاًتباہ کرنے کیلئے عمران خان کے ایک وزیرسرورخان نے خود اسمبلی میں کھڑے ہوکرایسابیہودہ جھوٹااعلان کردیاجس کے بعدساری دنیا میں ہمارے جہازوں کی آمدورفت پرپابندی لگادی گئی جبکہ بعدازاں متعلقہ عالمی ادارے پاکستان کے تمام پائلٹ اس الزام سے بری بھی کرچکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پڑوسی ملک میں 346/ایسے پائلٹ کا لائسنس منسوخ کردیاگیالیکن اس کے باوجودان کی ائیرلائنزرواں دواں ہے۔

پاکستان کی شناخت پی آئی اے کوفروخت کرنے کاسلسلہ شروع ہوچکاہے ۔ شوریہ ڈوول،اجیت ڈوول کابیٹا(بی جے پی)سے وابستہ، پاکستانی تاجرسیدعلی عباس کے ساتھ ٹارچ انویسٹمنٹ کمپنی کاشریک مالک ہے۔یہ کمپنی پاکستان کے ای کامرس سیکٹر،جس میں جازکیش،ایزی پیسہ اورفنٹیک ایکو سسٹم، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیزاینڈایکسچینج کمیشن آف پاکستان، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن شامل ہیں،میں اپنے نمایاں شیئر ہولڈنگ کی وجہ سے تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ ٹارچ انویسٹمنٹ کمپنی جولکسن گروپ میں بھی حصہ رکھتی ہےاورمیک ڈونلڈزاس کی بنیادی تنظیموں میں سے ایک ہے،(پی آئی اے)کی ممکنہ نجکاری کی روشنی میں، بھارتی اداروں کی جانب سے سیدعلی عباس جیسے پاکستانی افرادکے ساتھ اشتراک کے ذریعے پی آئی اے میں شیئرہولڈنگ حاصل کرنے کے کوششوں میں مصروف ہے،جن میں ڈوول خاندان سے تعلق رکھنے والے افرادبھی شامل ہیں۔اس سے اس طرح کے لین دین کی شفافیت اوراحتساب کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قومی مفادات پرممکنہ اثرات کے بارے میں اہم سوالات بھی اٹھتے ہیں۔کیاہماری عدلیہ نے ملک کے اتنے بڑے نقصان پرکوئی سوموٹونوٹس لینے کی ہمت کی؟یاہمارے عسکری اداروں نے اس خطرے کاکوئی نوٹس لیاہے؟

اس وقت ملک میں تمام اشرافیہ خودملکی خزانے پرایک بوجھ بن چکی ہے اورمراعات کی آڑمیں آسائشوں سے لطف اندوزہوکر ملک کی بربادی پر آنکھیں موندکربیٹھی ہوئی ہے۔اس کیلئے ملک کوبچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پرخودعوام کواب باہرنکلناہوگااوراپنی تمام توانائیاں صرف کرکے ان تمام عہدشکنوں کوان کے بیرونی آقاؤں سمیت حتمی انجام تک نہ صرف پہنچانا ہوگابلکہ ان سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کیلئے جنگی بنیادوں پرقانون سازی کرنا ہوگی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں