سیلاب سے متاثرہ پاکستانی معیشت کوموجودہ بحران سے نکالنے کیلئےپاکستان کوعالمی برادری کی مدددرکارہے لیکن ماہرین کے مطابق 2010کے سیلاب کے برعکس اس مرتبہ زیادہ بڑے پیمانے پرہونے والی تباہی کے بعدپاکستان کوامریکااورچین دونوں سے ہی وہ امدادنہیں مل سکی جس کی اسے توقع یا ضرورت ہے۔ چین کے قرضوں کی واپسی پرنظرِثانی اوراس ضمن میں سہولت حاصل کرنے کے حوالے سے امریکاکی جانب سے ماضی میں بیانات دیے جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے نے جریدے فارن پالیسی کودیے گئے ایک انٹرویومیں ایک مرتبہ پھراس جانب توجہ مبذول کروادی ہے کہ پاکستان نے چین سے قرضوں کی واپسی کوری سٹرکچرکرنے،مؤخرکرنے یا سواپ کرنے کے بارے میں بات نہیں کی اوراگرایساہوگابھی تویہ پاکستان کی شرائط پرہو گا۔
امریکاکی جانب سے تواس ضمن میں یہ توجیہ پیش کی گئی ہے کہ2010میں اس کے پاس جووسائل موجودتھے وہ مختلف وجوہات کے باعث اس مرتبہ موجودنہیں ہیں لیکن ساتھ ہی پاکستان پرزوردیاگیاہے کہ وہ چین سے قرضوں کی چھوٹ اوران کی ری سٹرکچرنگ کرنے کی کوشش کرے۔اس کے ردِّعمل میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے ایک بیان میں کہاگیاتھاکہ امریکاکوسیلاب سے متاثرہ پاکستان کیلئےکچھ “حقیقی اورمفید”کام کرناچاہیے اورانہوں نے امریکاکی”پاکستان چین تعاون پرغیرضروری تنقیدکرنے پر”مذمت بھی کی ہے۔
پاکستان میں چینی سفیرکے بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستاں میں تباہ کن سیلاب آنے کے بعدچین نے تقریباً90ملین ڈالرامدادکااعلان کیاہے،جوپاکستان کیلئےسب سے بڑی امدادہے۔خیال رہے کہ امریکاکی جانب سے پاکستان کو13کروڑ20لاکھ ڈالرکے قرضے کی معطلی کی سہولت فراہم کی گئی ہے اورکہا گیاہے کہ ان کی ترجیح پاکستان میں وسائل کی فراہمی ہے۔اس سے قبل،قرضوں کے سواپ اورری سٹرکچرکرنے کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کی جانب سے دورہ پاکستان کے دوران تجویزدی گئی تھی۔
اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے شائع کیے گیے ایک پیپرمیں کہاگیاکہ پاکستان سے بیرونی قرضوں کی واپسی کے عمل کوفوری طورپرمعطل کرتے ہوئے قرض دینے والے ممالک اور ادارے انھیں ری سٹرکچر کریں۔توکیااس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کواس معاشی بحران اورسیلاب سے ہونے والے نقصانات کامداواکرنے کیلئےچین سے قرضوں کی چھوٹ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے؟اورکیاپاکستان ایساکرسکےگا؟بیرونی قرضوں پر نظر ڈالی جائے توآئی ایم ایف کے مطابق مجموعی طورپرپاکستان نے چین سے30ارب ڈالرکاقرض لے رکھاہے جواس کے کل بیرونی قرضوں کا ایک تہائی حصہ بنتاہے۔چین سے قرضے کے حوالے سے پاکستان کی مشکل سنگین یہ ہے کہ یہ کوئی ایک قرضہ نہیں جوپاکستان نے چین سے لیاہوبلکہ یہ مختلف اشکال میں ہے۔اس میں ریزروایکسٹینشن سہولت،ڈپازٹس ، کمرشل قرضےاورپراچیکٹ فنانس کےحوالے سے قرضے موجودہیں،اس لئے ری سٹرکچرنگ کی بات خاصی پیچیدہ ہے۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں میں پہلے پیرس کلب کے ممبران سے لیاگیاقرضہ اوراس کے بعدچین کاہے۔یہ تاثرغلط ہے کہ چین پاکستان کوسب سے زیادہ قرضہ دیتاہے اورچین کے قرضے طویل مدتی اوران کی فوری واپسی ضروری نہیں ہے۔یادرکھیں جب بھی کوئی ادارہ یاملک آپ کوقرضہ دیتاہے تووہ ایساکرنے سے قبل آپ کی جانب سے لیے گئے دیگرقرضوں کے بارے میں پوچھتاہے۔اس لئےپاکستان کیلئےقرض واپسی کے حوالے سے سہولت لیناآسان نہیں۔اس کی وجہ قرض دینے کی صلاحیت رکھنے والے ممالک کی تعدادمیں اضافہ ہے۔پاکستان نے ماضی میں بھی قرضوں کی مد میں ری سٹرکچرنگ کی ہے لیکن اس وقت آپ نے ایک سنگل ونڈوپرجاکربات کرنی ہوتی تھی یعنی پیرس کلب سے قرضے کیلئےبات کرنی ہوتی تھی کیونکہ جن سے آپ نے قرضہ لیناہوتا تھاان کی نمائندگی وہاں ہوتی تھی۔2002کے بعدپاکستان کوبہت بڑی قرضوں کی ری سٹرکچرنگ ملی تھی جوافغان جنگ کے حوالے سے دی گئی تھی اور پاکستان کو اس وقت10یا12ارب ڈالر ملے تھےتاہم اب صورتحال مختلف اورقرضہ دینے والے ممالک میں پیرس کلب کے علاوہ چین،سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔
جب آپ پیرس کلب کے پاس جاتے ہیں تووہ کہتے ہیں کہ پہلے چین سے بات کریں۔جب چین کے پاس جاتے ہیں تووہ کہتے ہیں کہ پہلے پیرس کلب سے ہمیں یہ یقین دہانی دلوا دیں۔جب آپ سعودی عرب کے پاس جاتے ہیں تووہ کہتے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف سے یہ یقین دہانی دلوادیں۔یوں یہ ری سٹرکچرنگ بہت مشکل ہوجاتی ہے توآپ شروع کہاں سے کریں؟پہلے کہاں جائیں؟جب آپ کوچارجگہوں پرجانا پڑے۔اس مشکل وقت میں کیاچین پاکستان کوقرضوں کی واپسی کے حوالے سے سہولت دے گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کاامکان توہے لیکن یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔
اس لئےآج بلاول کایہ کہناکہ ہم نے چین سے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی بات نہیں کی،انہیں معلوم ہے کہ جب یہ چین کے پاس جائیں گے تووہاں سے پاکستان کی حکومتوں کی نااہلی اورخراب کارکردگی پرچین برہمی کااظہارکرے گاکیونکہ چین پاکستان سے بہت پہلے سے نظام بہترکرنے کے بارے میں بات کرتا آیا ہے اس لیے اب ری سٹرکچرنگ کی بات کرنے پرپاکستان کوچین کی جانب سرزنش کاسامناکرناپڑسکتاہےلیکن پاکستان کواس مشکل مرحلے سے گزرناپڑے گا اور چین کے پاس جاناپڑے گا،وہ اپنی شرائط لگائیں گے لیکن شایدآخرکاراس حوالے سے چھوٹ مل جائے گی لیکن یہ ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔
قرضوں کی واپسی پاکستان کی لائف لائن بن گئی ہےاوران قرضوں کی واپسی سب ایک دوسرے سےمشروط کررہے ہیں تو (پاکستان)کوہردروازے پرجا کرذلت کاسامناکرناپڑے گا،اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔یہاں یہ سمجھناضروری ہے کہ قرضوں کی سہولت کس قسم کی ہوتی ہیں اورڈیٹ سواپ کیاہے؟ایک ہوتا ہے ڈیٹ ویور،یعنی قرضہ بالکل معاف کردیاجائے اوردوسراڈیٹ ڈیفرمینٹ،یعنی آپ قرضہ واپسی کے حوالے سے مہلت مانگ لیتے ہیں۔تیسراڈیٹ سواپ ہوتاہے جس میں قرضہ لینے والااوردینے والاایک فنڈبنالیتے ہیں اورجورقم واپس کرنی ہوتی ہے وہ اس فنڈمیں چلی جاتی ہےپھر جس مقصد کیلئےوہ فنڈبناہوتاہے صرف اس کیلئےوہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔خیال رہے کہ پاکستان کوتاحال ڈیٹ سواپ کی مد میں کسی ملک نے قرض واپس کرنے کی سہولت نہیں دی ہے اس لیےآنے والے دنوں میں اسحٰق ڈارکی معاشی پالیسیوں کاحشرنشر ہوجائے گا۔
رسوا ہوئے ذلیل ہوئے دربدرہوئے
حق بات لب پہ آئی توہم بے ہنرہوئے