Irrigation Of Useless Romance Or Nostalgia

بیکاررومانس یاناسٹلجیاکی آبیاری

:Share

الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں طویل عرصے سے ترکی کے1923ءمیں اتحادی ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ لوزان کے سوسال پوراہونے کے بعدمعاہدہ ختم ہونے اوراس کے نتیجے میں ترکی کومکمل طورپرآزادی حاصل ہونے کی خبریں اور تبصرے چل رہے ہیں۔تبصرے دیکھیں توآپ کو محسوس ہوگاکہ معاہدہ لوزان واقعی 2023ءمیں اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور ترکی مکمل طور پر آزاد ہوتے ہوئے اپنی عظمت ِرفتہ حاصل کرلے گا لیکن میں واضح کردوں کہ ایسی کوئی دستاویز ترکی،فرانس،امریکا، برطانیہ یا دنیاکے کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہےاور نہ ہی حقیقت میں ایسی کسی دستاویز کا سرے سے وجود ہی ہے ۔چندماہ قبل ایک پروگرام میں خودترکی کے قونصل جنرل نے ایک ملاقات میں اس بات کی تردید کی ہے کہ معاہدہ لوزان کی کوئی مدت نہیں اوریہ غیرمیعادی معاہدہ ہے،ہم صرف اس کی 100سالہ سالگرہ منارہے ہیں۔

ترکی وہ اسلامی ملک ہے جس نے 625سال تک تین براعظموں پرحکومت کی۔اُس وقت ترکی کانام’’اناطولیہ‘‘تھا۔قائی قبیلے کے ارتغرل غازی کی بہادری نے اسلامی دنیاکے سرفخر سے بلندکردیے تھے جس کے بعداُن کے بیٹے عثمان غازی نے سلطنت عثمانیہ کی بنیادرکھی جس نے ایک طویل عرصے آدھی سے زائددنیاپرحکمرانی کی مگرآج سے تقریباً 100سال پہلے اسلامی دنیاکایہ عظیم ملک انگریزوں کی سازشوں اوراپنوں کی غداریوں کی وجہ سے زوال پذیرہوگیااورشکست کے بعدعظیم سلطنت عثمانیہ کاحصہ درجن سے زائد اسلامی ممالک میں تقسیم ہوگیااورغیرترک ریاستوں کوآزادی دے دی گئی جس کے بعد24جولائی 1923کوترکی کے ساتھ سوئٹزرلینڈکے شہرلوزان میں برطانیہ، آئرلینڈ،فرانس،روس،اٹلی اورجاپان نے ایک معاہدہ کیاجسے “لوزان “معاہدہ”کانام دیاگیا۔

اس معاہدے کی روسے ترکی کی معیشت اوردیگرامورپرپابندیاں عائد کردی گئیں،ترکی میں خلافت ختم کرکے اسے سیکولرملک قراردے دیاگیا،سوال یہ ہے کہ کیاواقعی اس معاہدے میں تیل نکالنے کی اجازت سلب کر لی گئی تھی؟کیاواقعی جبری طورپرآبنائے باسفورس(بحیرہ مردار)کوبین الاقوامی راستہ بنادیا گیاجس کی روسے ترکی اپنے سمندری راستے سے گزرنے والے غیرملکی بحری جہازوں سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گا؟کیاواقعی ان استعماری طاقتوں کے اشارے پراِن شرائط پرعمل کروانے کیلئے خلافت عثمانیہ کوختم کرنے میں مصطفی کمال پاشاکواستعمال کیاگیاجس نے بعدازاں سیکولر حکومت کی بنیادرکھی اورترکی کونئے سرے سے منظم کرکے انقرہ کوجدیدترکی کادارالحکومت بنایا۔

ان افواہوں کے بعدچندایک ایسے بھی ہیں جن کادعویٰ ہے کہ2023ءمیں اس معاہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی ترکی اپنی جمہوری حیثیت ختم کرکے خلافتِ عثمانیہ کوبحال کرنے کااعلان کردے گا۔میراان سے بڑا سادہ ساسوال ہے جب کوئی ایسامعاہدہ ہی موجود نہیں توترکی بھلاکیسے وہ آزادی حاصل کرلے گا،کیسے خلافتِ عثمانیہ بحال کرےگا؟ترکی نے جب خودہی اس معاہدے پردستخط کرتے وقت خلافتِ عثمانیہ کی حدودمیں واقع تمام ممالک شام عراق،لبنان اورسعودی عرب کو الگ الگ آزادریاستوں کے طورپر تسلیم کرلیااور یہ تمام ممالک اب اقوام متحدہ کے رکن بھی ہیں تووہ بھلاکیسے انہیں دوبارہ اپنی خلافت میں شامل کر سکتاہے؟ دوسری اہم بات ترکی اب ایک جمہوری ملک ہے اوراس جمہوری ملک میں تمام اداروں کانظم ونسق جمہوریت کےاصولوں کے مطابق ہی چلایا جاتاہے۔پھرخوداردگان نے کبھی بھی یہ اعلان نہیں کیاکہ وہ2023ء میں صدرمنتخب ہونے کے بعدملک میں خلافت بحال کردیں گےکیونکہ انہیں اس بات کااچھی طرح احساس ہے کہ وہ خودبھی جمہوری طریقے سے منتخب ہوکرآئے ہیں اوراگرانہوں نے عوام سے خلافت قائم کرنے کاوعدہ کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں ووٹ لینے کی کوشش کی تووہ کسی بھی صورت اتنے ووٹ حاصل نہیں کرسکیں گےکہ ایک بارپھر صدر منتخب ہوجائیں۔پھریہ دعویٰ بھی بڑامضحکہ خیزہے کہ ترکی کواب تک معاہدہ لوزان کی رو سے ہی اپنی سرزمین سے پٹرول یامعدنیات نکالنے کی اجازت حاصل نہیں ہے جبکہ اس سے آزادی حاصل کرنے والے عرب ممالک عراق اورسعودی عرب توبڑے پیمانے پرپٹرول نکال رہے ہیں۔

میں یہاں عرض کردوں کہ معاہدہ لوزان143شقوں پرمشتمل ہے۔کیاکسی نےلوزان امن معاہدے کی تمام شقوں کاجائزہ لیاہے؟میں یقین سے کہہ سکتاہوں ہرگز نہیں کیونکہ ان شقوں میں ایسی کوئی شق موجودنہیں ہے اورماہرین صرف سنی سنائی باتوں پرہی یقین کرتے چلے آرہے ہیں۔ترکی اپنے قیام سے ہی اپنے قدرتی وسائل خاص طورپرتیل اورمعدنیات کے حوالے سے خودمختارہے بلکہ جہاں تک معدنیا ت کی تلاش کاتعلق ہے توترکی دنیاکاوہ واحد ملک ہے جوبڑے پیمانے پر”بورمعدنیات”(زیادہ ترتوانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئےاستعمال کی جاتی ہیں)کودنیاکے مختلف ممالک کوبرآمد کررہاہے اوربورمعدنیات میں ترکی اس وقت 74فیصد پیداوار کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور دنیا کی بور کی 39فیصد ضروریات کو اکیلا پورا کرتاہے،اس کے علاوہ ترکی میں بڑے پیمانے پرتانبہ،کوئلہ، سونا، کرومیم،میگنیشیم ، مرکری،لوہا، گندھک،نمک اور دیگرمعدنیات کوبھی نکالا جا رہاہے۔

10/اگست1920ء کوخلافت عثمانیہ نے”معاہدہ سیور”کی کڑی شرائط کوقبول کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے بڑے حصے جس میں شام،عراق،تیونس،الجزائر، لیبیا اور سعودی عرب جیسے ممالک کوتین مغربی ممالک برطانیہ،فرانس اوراٹلی کے حوالے کردیاتھا اب یہاں سے ایک اوراختلافی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ایک فریق کاکہناہے کہ ترک عوام نے خلافت عثمانیہ کی طرف سے کئے گئے معاہدہ کونہ صرف مستردکردیابلکہ سلطان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال پاشاکی قیادت میں’’قواع ملیہ‘‘یعنی عوامی فوج تشکیل دی اورملک میں جنگِ نجات یاجنگ آزادی کاآغازکردیا۔ ملک کی آزادی کے جذبے کے ساتھ لڑی جانے والی جنگِ نجات کے دوران اتحادی ممالک کوکئی ایک محاذوں جن میں معرکہ چناق قلعے(درہ دانیال) بھی شامل ہے،شدیدہزیمت اٹھانا پڑی۔

ان فتوحات ہی کے نتیجے میں اتحادی ممالک اتاترک کے ساتھ مذاکرات کرنے پرمجبورہوئے۔کمال پاشااپنے نطق میں لکھتے ہیں کہ معاہدہ موندروس کے بعد اتحادی ممالک نے ترکی کوچاربارامن مذاکرات کی پیشکش کی اورانہوں نے تین بارترک قوم کی خواہشات کا احترام نہ کرنے پراسے مستردکردیاتاہم چو تھی بارترک قوم کی خواہشات کااحترام کرنےپرسوئٹزرلینڈکے شہرلوزان میں امن مذاکرات میں شرکت کرنے کی ہامی بھری لیکن ابتدامیں ان مذاکرات میں ترکی کیلئے مشکلات کھڑی کیے جانے پران مذاکرات کابائیکاٹ کردیاجس پردوبارہ سے شروع ہونے والےکٹھن مذاکرات کے نتیجے میں جولائی 1923ءمیں لوزان کے رومین پیلس میں لوزان امن معاہدہ طے پایاجسے اس دورمیں ترکی زبان میں’’لوزان صلح معاہدہ‘‘سے یادکیاجانے لگا۔اس معاہدے پر ترکی،برطانیہ،اٹلی، فرانس،یونان،رومانیہ، بلغاریہ،پرتگال،بلجیم اوریوگوسلاویہ کے نمائندوں نے دستخط کیے اوراس وقت سے اس معاہدے پرعملدرآمدجاری ہے اوراسے ختم کرنے کے بارے میں کسی فریق نے آج تک رجوع نہیں کیا۔

آئیے اب صرف تین بنیادی حقائق پربات کرلیتے ہیں:
سلطنت عثمانیہ اورمغربی اتحادی طاقتوں میں مابین ہونے والامعاہدہ، معاہدہ سیورے کہلاتاہے جبکہ معاہدہ لوزان مصظفیٰ کمال پاشاکے جمہوریہ ترکی اور مغربی طاقتوں کے مابین ہوایعنی معاہدہ لوزان کا سرے سے سلطنت عثمانیہ سے کوئی لینادیناہی نہیں۔معاہدہ لوزان کی میعادسوسال ہرگزنہیں،یہ ایک غیرمیعادی عمومی معاہدہ ہے۔ترکی پرمعدنیات،پٹرول نکالنے پرکوئی پابندی نہیں اورترکی اس وقت اپنی پٹرولیم کی ضروریات کادس فیصداپنے ملک سے حاصل کرتاہے۔

اب ہم ان دو معاہدات کے ایک اجمالی خاکے پہ نظرڈالتے ہیں،اس موازنے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اتاترک نے جس معاہدہ پہ دستخط کیے وہ ایک متوازن حیثیت سے اور فاتحانہ انداز میں کیا گیا معاہدہ تھا،سلطنت عثمانیہ کی طرف سے دستخط کیا گیا معاہدہ سیورے درحقیقت ایک فوجی اور سیاسی شکست کی دستاویز تھی،جسے مصطفیٰ کمال نے میدان کارزارمیں یونان،فرانس،برطانیہ، روس اوراطالیہ کی افواج کوشکست دینے کہ بعدمستردکردیااورایک نیا متوازن معاہدہ، معاہدہ لوزان وجود میں آیا۔

معاہدہ سیورے(10اگست1920)کے اہم نکات:
معاہدے میں سلطنت عثمانیہ کی سرحدات کاتعین کیاگیا،جس میں سلطنت عثمانیہ کارقبہ موجودہ ترکی کے رقبے سے کم تھا۔متعدد جزائرجیسے جزیرہ امبروزوغیرہ یونان کے حوالے کردیے گئے،ترکی عسکری طورپہ اٹلی،فرانس اوربرطانیہ کے زیرقبضہ آگیا۔ سلطنت عثمانیہ کی سابقہ ولایت،عراق اورمصربرطانیہ کے قبضے میں،شام ، تیونس اورالجزائرفرانس کے قبضے میں اورلیبیااٹلی کے قبضے میں چلے گئے۔سعودی عرب شریف مکہ کے زیرتسلط سلطنت حجازقرارپائی۔

آبنائے باسفورس کیلئےایک طاقتور کمیشن قائم کیاگیا،جس میں تمام اختیارات مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں دے دیے گئے،اس کمیشن کوایک پولیس فورس بنانے کااختیاردیاگیاجس کے افسرمغربی ملکوں سے لئے جانے قرارپائے۔اسی کمیشن نے آبنائے باسفورس کا برائے نام محصول وصول کرناتھا۔

ترکی کے تمام مالی وسائل،تین مغربی ملکوں برطانیہ،فرانس اوراٹلی کے قبضے میں ہوں گے،ترکی کابجٹ انہیں طاقتوں کی طرف سے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کی منظوری سے عمل میں آئے گا،تمام ٹیکسزکانفاذبھی اسی سامراجی مالیاتی کمیشن کی منظوری سے ہوگا۔

عثمانی سلطان700سے زیادہ محافظ نہیں رکھ سکتے،ملک کی مجموعی عسکری طاقت کی تعداد50ہزارنفوس سے زیادہ نہ ہوگی، ان اہلکاروں کوصرف بندوقیں اوربعض کوہلکی مشین گنیں دی جائیں گی،اس کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں رکھاجاسکتا۔ان کی بنیادی ذمہ داریاں ملک کے اندرونی معاملات کی دیکھ بھال اورداخلی امن وامان کاقیام ہوگا۔

ترکی کی بحریہ کو صرف6تارپیڈوکشتیاں اور7سلوپ(فریگیٹ سے بھی چھوٹی بادبانی کشتی sloop) رکھنے کی اجازت ہوگی۔ عثمانی سلطنت کوجنگی بحری یافضائی جہازبنانے یاخریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔جوبحری یاہوائی جہازترکی کے پاس قابل استعمال یاقابل مرمت یازیرتعمیرحالت میں موجودہیں، تمام کے تمام 6ماہ کے اندراندراتحادیوں کی بندرگاہوں پراپنے خرچے پہ پہنچانے ہوں گے۔تمام اسلحہ بارودبھی اتحادیوں کے حوالے کرناہوگا،ترکی کوئی فضائیہ رکھنے کامجازنہیں ہوگا۔

ترک باشندے کسی دوسرے ملک کی فوج میں بھی نہ ملازمت کرسکیں گے نہ ہی تربیت حاصل کرسکیں گے۔جرمنی سے حاصل کیے گئے جہاز،ہتھیار اور اسلحہ اپنے خرچ پراتحادیوں کی بندرگاہوں تک پہنچاناہوگا۔

اب ہم معاہدہ لوزان کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ معاہدہ ترکی کی کامیاب جنگ آزادی اورخلافت کے خاتمےکے بعد اگست 1923 کونافذالعمل ہوا۔

معاہدہ لوزان(24اگست1923) کے اہم نکات:
یہ معاہدہ سیورے کے مقابلے میں مختصرتھا،اس میں صرف143دفعات شامل ہیں جب کہ موخرالذکر(معاہدہ سیورے) میں 443دفعات شامل تھیں۔معاہدہ لوزان میں کوئی عسکری دفعات شامل نہیں ہیں،معاہدے کے اقتصادی سیکشن میں تمام دفعات ایک دوسرے کے شہریوں کے انفرادی مفادات،جائیدادوں اورحقوق کے متعلق ہیں،معاہدے کی کوئی دفعات ترکی کی اندرونی تجارت، معدنی وسائل اوربین الاقوامی تجارتی تعلقات کے متعلق نہیں ہیں۔

معاہدہ لوزان میں ترکی کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کر لیا گیا۔اسی طرح ترکی نے سابقہ سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونے والے ممالک کی آزادی تسلیم کرلی۔ترک آبنائے (آبنائے باسفورس اورڈارڈنیلز)کوتمام ملکوں کے تجارتی اور فوجی جہازوں کیلئے آزاد قرار دے دیا گیا مگر یہ شق 1936 میں Montreux convention کے بعدختم ہوگئی،اس کنوینشن میں ترک آبنائے مکمل طورپرترکی کے عسکری اختیارمیں آ چکی ہیں۔ اتحادیوں کے مارے جانے والے فوجیوں کی قبروں اور یادگاروں کیلئےترکی نے جگہ مہیاکی،اسی طرح اتحادی ملکوں میں اپنے لیے یہی حق حاصل کیا۔اسی طرح باقی دفعات کا تعلق ایک دوسرے کی جغرافیائی سالمیت کے احترام،کمپنیوں کے تجارتی حقوق،سلطنت عثمانیہ کے واجب الاداقرضوں کی ادائیگی اورنئے آزاد ہونے والے ممالک کااس ادائیگی میں حصے،جرمنی،روس اور آسٹریاکے ساتھ برابری پہ مبنی تعلقات پہ ہے۔ اس مختصر موازنے سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے معاہدہ لوزان کا خلافت عثمانیہ سے کوئی تعلق نہیں، اور جو خواب بیچے جا رہے ہیں ان کی کوئی تعبیر نہیں۔

تاہم موجودہ زمینی حقائق تویہ ہیں کہ ترکی نے لوزان کے معاہدے تحت عائدپابندیوں کے باوجودترقی کاسفرجاری رکھاہواہے اور آج ترک صدراردگان کی حکومت نے آئی ایم ایف کاتمام قرضہ ختم کرکے ترکی کوآئی ایم ایف کے چنگل سے باہرنکال لیاہے۔ترکی یورپی یونین کسٹم کاممبرملک ہے جس کی وجہ سے ترکی کویورپی یونین ممالک میں ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی سہولت حاصل ہے ۔ترکی میں آبنائے باسفورس پرقائم باسفورس پل ایشیاءکویورپ سے ملاتاہے۔ ترکی جی20ممالک کارکن اوردنیاکی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ صدراردگان کے وژن کے مطابق ترکی 2023ء تک دنیا کی 10بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائےگا ترک فوج نیٹو کی دوسری بڑی آرمی ہے جبکہ ترکی دنیا بھرکے سیاحوں کی توجہ کا مرکزہ ے جہاں سالانہ7کروڑ سے زائد غیر ملکی سیاح آتے ہیں ۔ترکی نے سیاحت میں دنیا کے5بڑے ممالک میں شامل ہونے کا ہدف رکھاہے اور یورپی یونین کے سیاحتی مرکزک ے مطابق 2025 میں یہ ہدف پوراہونے کا امکان ہے۔ وژن2023 ء میں ترکی کی مجموعی قومی پیداوار”جی ڈی پی”6-2کھرب ڈالراورفی کس آمدنی25 ہزار ڈالر اور برآمدات600/ ارب تک پہنچ گئی ہیں۔ان تمام تفصیلات کے بعدیہ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ان حقائق کوسامنے رکھنے سے ایک بے مقصد اوربیکار رومانس یا ناسٹلجیا کی آبیاری کرنے والی افواہوں کے زور میں کسی حد تک کمی آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں