دریائے نیل دنیاکے ان چندبڑے دریاؤں میں آتاہے جس کے کنارے صدیوں سے انسانی تہذیب بنتی اوربگڑتی رہی ہے۔یہ دریا جہاں فرعون اور موسیٰ کی داستان کاامین ہے،وہیں آج کے استعمارکے تعیش،رنگارنگی اورتسلط کی کہانی بھی بیان کرتاہے۔ بجرہ اس کے ساحلوں سے روانہ ہواتومیں اس کے عرشے پربیٹھادونوں جانب بلندوبالاہوٹلوں کی عمارتوں میں جلتی بجھتی روشنیوں اورمرصع کمروں کی کھڑکیوں کے باریک پردوں سے جھانکتی زندگی میں کھوگیا۔نیل جس میں کناروں سے اچھلتا جھومتاگاتاپانی آج بھی اس کی ہیبت قائم رکھے ہوئے ہے۔اس دریاکے کنارے ساراسال ساحلوں سے باہرامڈتے پانی سے بھرے رہتے ہیں اوراس میں بڑے بڑے جہازروزانہ لاکھوں سیاحوں کولے کرکبھی موجوں کے ساتھ ساتھ اورکبھی موجوں کے مقابل رواں دواں ہوتے ہیں۔رات ہوتے ہی ان بجروں پردنیاکی ہرقوم سے آئے ہوئے لوگوں کاتانتابندھ جاتاہے۔فرعون اورقلوپطرہ کے دربارکی تصویروں والی پینٹنگزسے مرصع دیواریں،چاروں طرف نظارے کیلئےکھڑکیاں اورکسی بڑی پارٹی کی طرح میزیں سجی ہوتی ہیں۔کھاناچن دیاجاتاہے اورپھردرمیان میں سجے پنڈال پرعرب موسیقی کی تال پرنیم برہنہ بیلے رقص کاآغازہوتاہے۔
گاہکوں کی خدمت کیلئےدنیاکے غریب اورمفلوک الحال لیکن نسبتاًسفیدچمڑی اورخوبصورت نقش رکھنے والے ملکوں سے نوجوان لڑکیاں برآمدکی گئی ہیں جنہیں سیاحت کے نام پرمصرکے زرمبادلہ میں اضافہ کاسبب بتایاجاتاہے۔کھاناختم کرتے ہی عرشے پرچلاگیاکہ میرے لئے یہ غربت میں گندھا، دوردیس میں کسمپرسی کے عالم میں کیاگیارقص ناقابل برداشت تھالیکن عرشے پربیٹھنا بھی عذاب سے کم نہ تھا۔ساحلوں کے ساتھ ساتھ دونوں جانب دنیاکے بڑے بڑے ہوٹلوں،نائٹ کلبوں اورکیسینوں کی عمارتیں تھیں جن میں انہی عالمی طاقتوں کے شہری سیاحت کے نام پرعیش وعشرت کے چند یوم گزارنے آتے ہیں۔ ہرسال کروڑوں سیاح مصرکی اس سرزمین پراہرام اورابولہول کے مجسموں کے گردگھومنے،فرعون کی لاش کانظارہ کرنے،خان خل بلی کے بازارسے سووینئر خریدنے اوررات نیل کےساحلوں پررقص وسرودسے لطف اندوزہونے کیلئے آتے ہیں۔مجھے یہ بھی بتایا گیاکہ صرف پچھلے سال چارکروڑسے زائد سیاح آئے اوریوں اربوں ڈالرکازرمبادلہ مصرکے حصے میں آیا۔
یوں تویہ سب بہت خوبصورت لگتاہے،ایک رنگ رنگیلی دنیاہےجوآبادہے۔لیکن اس سارے رنگ اورروشنی کے سیلاب نے مصرکی غربت وافلاس کوکم نہیں کیا۔ایساکیوں ہے؟اپنے ملک میں ہم یہ قصے سناکرتے تھے کہ مصرکودیکھوجب اسرائیل سے سمجھوتاکرنے لگاتواپنے سارے قرضے معاف کروالئے، ایک ہم ہیں کہ مفت میں دوسروں کی جنگ میں دیوالیہ کے قریب پہنچ گئے۔ہمارے لیڈروں میں نہ غیرت ہے اورنہ ہی بکنے کاسلیقہ،لیکن حیران ہوجائیے کہ بکنے کاسلیقہ بھی مصرکامقدرنہیں بدل سکا۔56فیصدلوگ آج بھی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔بھیک مانگنے اور بخششیں طلب کرتے مصری آپ کوہرجگہ ملیں گے۔دکاندارچارمختلف زبانیں،انگریزی،فرانسیسی،ہسپانوی،جرمن تک بولناجانتے ہیں لیکن اس سب پرعبورکا مقصد صرف سیاحوں کومختلف طریقوں سے لوٹ کرروزی روٹی کماناہے۔
جس جگہ سیدناامام حسین کے سرمبارک دفن ہے،وہاں خوشبولگانے سے لیکرزیارت کروانے،وضوکی جگہ دکھانے اوردیگر طریقے سے بخششیں طلب کرنے والوں کاہجوم ہے۔اہرام کی طرف جانے والی سڑکیں جن پرلاکھوں سیاح آتے جاتے ہیں۔ہر لمحہ تعمیرکے مراحل میں رہتی ہیں کہ ٹھیکیداروں اورمحکمے والوں کایہ ذریعہ رزق ہے۔ناپائیدارسڑک بنائی جاتی ہے اورنہ کام کی طلب ختم ہوتی ہے۔ تیل اورگیس کی دولت سے مالامال اسوان ڈیم اور نیل کے پانیوں سے بہترین کپاس اورسبزیاں پیدا کرنے کے باوجوداسرائیل کوتسلیم کرنے اورامریکی امداد حاصل کرنے میں دنیاکے سب سے بڑے ملک ہونے کے باوصف اس ملک میں نہ غربت ختم ہوسکی نہ افلاس،نہ خوشحالی آسکی اورنہ ہی عام آدمی کے حالات بدل سکے۔
یہ سب سوچتامیں اچانک اس چبوترے پرآنکلاجہاں صدرسادات کوقتل کیاگیاتھا۔پریڈکایہ چبوترہ ایک یادگارہے جس کے سامنے سڑک کی دوسری جانب سادات کےساتھ کیمپ ڈیوڈ کاوہ معاہدہ بھی دفن ہے کیونکہ کوئی مصری یہ نہیں جانتاکہ اس معاہدے میں کیاتھاجس پردستخط کئے گئے لیکن عام مصری شہری سے بات کرکے دیکھیں وہ پھٹ پڑے گا۔تضحیک کے ساتھ ان لوگوں کے نام لے گاجنہوں نے اپنی قسمت بنانے کیلئےان کی غیرت و حمیت کوبیچ ڈالا اوراس خریدو فروخت میں مصریوں کے ہاتھ ذلت کے سواکچھ نہ آیا۔ایک مقامی مسجد میں نمازعصراداکرنے کیلئے گیاتووہاں ایک عجیب حیران کن سکینت کا ماحول نظرآیا جوباہرکے مصری ماحول سے بالکل مختلف تھا۔مسجدکے پہلومیں ایک خیراتی ڈسپنسری بھی موجودتھی جہاں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا لیکن سب بہت ہی منظم طریقے سے ایک قطارمیں کھڑے اندرداخل ہونے کے منتظرتھے۔
چندلمحوں میں تین خوبصورت باریش نوجوان،ان میں ایک تووہ تھاجس نے ابھی نمازعصر کی امامت کروائی تھی۔اس عمارت کے بغلی دروازے کی طرف جب بڑھے توسب افرادنے انتہائی احترام کے ساتھ ان کیلئے راستہ چھوڑدیا۔ڈسپنسری کے پاس کھڑے ہوئے ایک شخص سے میں نے سوال کیاکہ یہ کون لوگ ہیں؟اس نے ہاتھ کااشارہ کرکے پھراسے ہونٹوں سے بوسہ دیتے ہوئے کہا،،یہ وہ افرادہیں جوبلامعاوضہ دن رات مخلوق خداکی خدمت میں مصروف ہیں اورنہ صرف فری علاج معالجہ بلکہ کئی یتیم خانے اورتعلیمی ادارے بھی چلارہے ہیں۔ان سب کاتعلق اخوان المسلمین سے ہے۔ہروہ نوجوان جوان اداروں سے فارغ ہوتاہے،وہ اپنی زندگی کاخاصہ وقت مخلوقِ خداکی مفت خدمت اورانہی فلاحی کاموں میں صرف کرتاہے۔میں نے فوری طورپردوسراسوال کیاکہ مصر کے جمال عبدالناصر نے تواس جماعت کے بانی سید قطب اوران کے دیگرساتھیوں کوتومذہبی انتہاپسند،دہشتگرد قرار دیکرتوپھانسی پرچڑھادیاتھااوررہی سہی کسرالسیسی حکومت نے فرعونی ہتھکنڈوں کوبھی مات دیتے ہوئے پوری کردی؟
وہاں موجودتقریباًہرایک کی آنکھوں میں خون اترآیالیکن زبانیں گنگ دکھائی دیں۔ٹیکسی ڈرائیورنے جلدی سے میرابازو پکڑا اورگھسیٹے کے اندازمیں کارمیں بٹھاکرتیزی سے اس علاقے سے نکلنے میں عافیت جان رہاتھا۔اچانک وہ پھٹ پڑا،تم صحرائے سیناسے گزکرغزہ جاؤ،لیبیا،تیونس،شام پھرعراق سے ہوتے ہوئے افغانستان جاؤتمہیں پتہ چلے دہشتگردکون ہے۔ان کے سامنے ہماری عورتیں رقص کرتی رہیں توہم مہذب ہیں ورنہ دہشتگرد۔ اچانک اس نے سوال کیاتم کہاں سے آئے ہو۔میں نے کہاپاکستان سے۔ایک دم بول پڑا”ابواعلیٰ مودودی کاپاکستان”۔میں نے پوچھاتم جانتے ہو،کہنے لگاپورامصرجانتاہے۔ہم سیدقطب کوجانتے ہیں اورسیدقطب نہ ہوتااگرمودودی نہ ہوتا۔حیرت میں گم یہ سوال میں نے ہرکسی سے کیاتوایک ہی جواب تھا”مصراس وقت تک خوشحال نہیں ہوسکتاجب تک سیدقطب کی راہ پرچل کرغلامی کاطوق نہیں اتاردیتااوریک دن یہ ہوکررہے گا”۔
ابھی کل کی بات ہے کہ مصرکے عوام جب یہ رازجان گئے توانہوں نے موقع ملتے ہی اپنی پرامن تحریک سے مصرکی تقدیر بدلنے کیلئے جمہوری انداز محمد مرسی کاانتخاب کیالیکن استعمارکویہ ہرگزگوارہ نہ ہواکہ عالم عرب کے سینے میں جوانہوں نے اسرائیل جیساخونی خنجرپیوست کررکھاہے،کوئی بھی قوت اس سے رہائی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔مصرمیں ساٹھ سال کے آمرانہ دورحکومت کے بعدقائم ہونے والی ڈاکٹرمحمدمرسی کی منتخب جمہوری حکومت کاتحتہ الٹنے کیلئے مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے مخالفین کے مظاہروں اورملک کوعدم استحکام سے بچانے کوجوازبناکرمنتخب حکومت اور پارلیمنٹ کوبرطرف کردیااورعوام کی واضح اکژیت کی منظوری کے بعدنافذکردہ دستورکاخاتمہ کرتے ہوئے اقتدار پرقبضہ کر لیالیکن ساری دنیاکواس کاعلم ہے کہ صدر مرسی کی معزولی سے صرف دودن پہلے ایک امریکی اعلیٰ عہدیدارکی جنرل سیسی سے ملاقات اوراس سے اگلے دن فوج کامصری اقتدارپرقبضے نے سارا راز فاش کردیا۔
عالمی برادری کے احتجاج کے باوجودقصرسفید کے فرعون نے مصری فرعون کی حمائت میں یہ اعلان کردیاکہ امریکافوجی طاقت کے ذریعے تبدیلی اقتدار کوبغاوت نہیں مانتااورمصرکی فوجی امدادبھی بندنہیں ہوگی لیکن مصرامریکی فوجی اسلحہ اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کرسکتاپھریہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال ہوگا، اس کاجواب مصری عوام کے بے رحمانہ قتل سے مل گیاہے۔دراصل امریکامسلم ممالک میں بذریعہ جمہوریت اپنی مرضی کی ثقافت،تہذیب اورطرزحیات مسلط کرناچاہتاہے جبکہ مرسی حکومت کارخ توقادرِمطلق کی منشاءکے مطابق تھا۔محمدمرسی کاسب سے بڑاقصوریہ تھاکہ انہوں نے دنیاکی سب سے بڑی جیل “غزہ”جس کوقصرسفید اوراسرائیل کی خوشنودی کیلئے چاروں طرف سے محصورکردیاگیاتھا،اپنے بیکس مسلمان بھائیوں کیلئے مصرکی سرحدکوکھول دیاتھاجہاں سے ان کیلئے غذائی اجناس اورزندگی بچانے والی ادویات کی ترسیل شروع ہوگئی تھی۔دراصل اسی جرم کی پاداش میں مصرکے قانونی صدرمحمد مرسی کے خلاف حماس سے مل کرسازش کے الزام میں باقاعدہ فردِجرم عائد کئے جانے سے بلی تھیلے سے باہرآگئی اور معلوم ہوگیاکہ مصری فوج اورمصری اشرافیہ اصلاً اسرائیل کے محافظ ہیں۔
ادھر اب بھی حکومت اخوان کے خلاف بڑے پیمانے پرکاروائی کررہی ہے،اکوان کی اعلیِ قیادت کے ساتھ ساتھ ہزاروں مردو خواتین کارکن جیلوں میں بند شدید ترین تعذیب کاشکارہیں۔ان کے ذاتی اثاثے تک منجمد کیے جا چکے ہیں اوراس سے منسلک میڈیابندکردیاگیاہے،اس قسم کی پابندیوں سے السیسی حکومت کی تشفی توہوسکتی ہے جواخوان کوفاشٹ دہشتگردتنظیم سمجھتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ ہی بچے کھچے اخوانی حسبِ سابق زیرِزمین چلے گئے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کے فسطائی ہتھکنڈوں سے اخوان کی بیخ کنی نہیں کی جاسکتی۔ ماضی میں ایسی بہت سی کوششوں کوناکامی کامنہ دیکھناپڑاہے ۔ جمال عبدالناصرجنرل اسیسی سے کہیں زیادہ مقبول اورطاقتورتھالیکن وہ بھی اخوان کواسلامی نظریات اورمعاشرے کو اسلامی بنیادوں پرسدھارنے کی کوششوں سے نہیں ہٹاسکااورناصرکے مرنے کے بعداخوان دوبارہ ایک نئے تازہ اورجوان خون کے ساتھ ابھر کر سامنے آگئی تھی۔
اب بھی یہ نہیں ہوسکتاکہ اخوان خاموش ہوکرپیچھے ہٹ جائیں۔اخوان کے پرعزم حامیوں کامحرک دین ِحق کی خاطراپنی جان قربان کرناہے۔ایک مرتبہ پھران کی قربانیوں نےاس مادی زمانے میں بھی قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی لاج کونیاجوان خون مہیاکرکے استقامت کی تاریخ رقم کردی ہے۔ انہیں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ ان کی اپنی فوج کے ہاتھوں یہ ساراظلم وستم ڈھایا گیا ہے۔بہت سے لوگ جواخوان سے کوئی سروکارنہیں رکھتے تھے ،وہ بھی اب اپنے مشترکہ دشمن استعماری ایجنٹ مصری فوج کے خلاف ان کے حامی بن گئے ہیں۔اگرچہ اخوان کے بطن سے کئی شدت پسندتنظیموں نے جنم لیاہے لیکن خودوہ ہر قسم کے تشدد کی مخالف رہی ہے۔وہ کسی بھی دوسری امن پسندسیاسی جماعت کی طرح کام کرتی رہی ہے اوراس کے رہنمانظم و ضبط کی باکمال شہرت رکھتے ہیں۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اس بے رحمانہ قتل وغارت اورظلم کے بعدجماعت کی قیادت اگرشدت پسندوں کے ہاتھ میں چلی گئی تواس خطے میں بہت کچھ راکھ ہوجائے گا۔
تیزی سے خراب ہوتے ہوئے حالات سے لگ رہاہے کہ فوج نے اخوان کوکچلنے میں ناکامی کے بعدمصرکوخانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کافیصلہ کرلیا ہے اورعالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سادہ لباس میں بھی فوجی اورلبرل شرپسندنہتے مظاہرین کے سروں اورسینوں کونشانہ بناکراسرائیل کی مہیاکردہ گولیاں بارش کی طرح برسارہے ہیں۔ لیبیااورشام کی طرح مصرمیں خانہ جنگی کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں اوراس وقت عالم اسلام تونزع کے عالم میں گرفتارہے اورصد افسوس کہ اس کا یقینا ًفائدہ صہیونی طاقتیں کوپہنچاہے۔مجھے یقین ہوچلاہے کہ آج سے تین سال پہلے میرے سوال کے جواب میں جوہرمصری کی زبان پرتھاوہ تاریخ کاکتناسچاجواب تھاکہ”مصراس وقت تک خوشحال نہیں ہوسکتاجب تک سیدقطب کی راہ پرچل کرغلامی کاطوق نہیں اتاردیتا”یقیناً میراشک اب یقین میں تبدیل ہوگیاہے کہ استعمارنےایسےہی کھیل کی بساط پاکستان کے سیاسی میدان میں بچھادی ہے۔استعمارکی اس غلامی سے نکلنے کیلئے ہم ارضِ وطن کے جاری فرسودہ اورغلامانہ نظام کوتبدیل کرنے کیلئے ایسے افرادکوملک کی باگ ڈورسنبھالنے کی مددکریں جوبندوں کابندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں لانے کانطام نافذکرسکیں۔
کل کی بات ہے،برازیل ایسے ہی غلامی کاطوق پہنے120/ارب ڈالرکے قرضے لئے غربت میں جی رہاتھا۔ اچانک سب نے اسے کہاقرضے واپس کرو ورنہ دیوالیہ ہوجاؤگے۔اس نے کہامیں امیزون دریاکے جنگلات کاٹ کرقرضہ واپس کرتاہوں ۔ سب چیخ اٹھے یہ تودنیاکے پھیپھڑے ہیں۔برازیل نے کہا تو پھر مجھے اس آکسیجن کاکرایہ اداکروجوتم ان پھیپھڑوں سے حاصل کرتے ہو۔غلامی کاطوق اترچکاتھا،غیرت کے دن آگئے تھے۔آج خود امریکا برازیل کی حیثیت سے خوفزدہ ہے۔جنوبی امریکاکے جس ملک نے امریکی غلامی کاعالمی امدادکاقلاوہ گردن سے اتارااورترقی کرگیا اورجوقرضے معاف کرانے،عالمی طاقتوں کو خوش کرنے ،خوف کے عالم میں معاہدے کرتے رہے،وہ خواہ فلپائن ہو،تھائی لینڈہویامصرانہیں اپنی سرزمین پرعیش وعشرت ،رقص وسرودکی محفلیں اوران روشنیوں اور رنگوں میں چھپے غربت وافلاس کے آنسوؤں کے سواکچھ حاصل نہ ہوسکا۔