رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹرجم رش نے22سینیٹرز کے ہمراہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے جلدبازی میں انخلا کے فیصلے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینے کیلئے جس میں افغان طالبان اوران کی مدد کرنے والی حکومتوں،بالخصوص پاکستان پرپابندی کےمطالبہ کابل پیش کیاہے۔منگل کوافغانستان کاؤنٹرٹیررازم،اوورسائٹ اینڈاکاؤنٹیبلٹی ایکٹ نامی بل کےاس مسودے میں امریکی محکمۂ خارجہ سے افغانستان سے امریکی شہریوں،اورافغان سپیشل امیگرنٹ ویزارکھنے والے افرادکو ملک سے نکالنے کیلئے ٹاسک فورس قائم کرنے کیلئے بھی کہاگیاہے۔اس کے علاوہ بل میں طالبان کے خلاف مقابلے کیلئے اورطالبان کے پاس امریکی سازوسامان اوراسلحے کوواپس حاصل کرنے کابھی کہا گیاہے۔ امریکی لابی نے افغانستان میں شکست کاملبہ پاکستان پر ڈالنے کیلئے امریکی سینیٹ میں بل پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ 2001 سے 2021تک طالبان کوپناہ گاہوں،تربیت ،منصوبہ بندی، انٹیلی جنس معلومات ،رسدکی فراہمی وسہولت کاراورمدد کرنے والی ریاستوں اورافرادکی نشاندہی کرکے ان پرپابندیاں لگائی جائیں۔اشرف غنی کی حکومت گرانےمیں تعاون کرنے والے ریاستی اورغیر ریاستی عناصرکے خلاف بھی کارروائی کامطالبہ کیا گیا ہے۔حربی اور اسٹریٹیجک سمت کے تعين میں کس نے رہنمائی کی اور افغانستان پر طالبان کے قبضے میں شامل عناصرکاجائزہ لینے کی ضرورت پر بھی زوردیاگیاجبکہ بل میں اس بات کی بھی رپورٹ مانگی گئی ہے کہ گزشتہ ماہ پنج شیرپر حملے اور مزاحمت کے خلاف کس نے طالبان کوکمک فراہم کی۔اس بل میں افغانستان ميں انسداد دہشتگردی کیلئے مؤثراقدامات کا مطالبہ اورخصوصی ٹاسک فورس بنانے کی تجویزبھی پیش کی گئی۔بل میں سب سے اہم جزوان عناصرپرپابندی کے مطالبے کاہے جن پر طالبان کومددفراہم کرنے کاالزام ہے اوراس میں بیرونی حکومتیں بھی شامل ہیں اورپاکستان کااس میں بالخصوص نام لیاگیاہے۔
دوسری طرف امریکی فوجی قیادت کے شکست خوردہ بیانات اوروضاحتوں پرآرمڈسروسزکمیٹی کے ارکان سے اس قدرنالاں اورآگ بگولہ ہیں کہ اعلیِ فوجی قیادت کو انتہائی سخت ترین سوالات کے کٹہرے میں لاکھڑاکرتے ہوئے کانگرس رکن میٹ گیٹزنے فوجی قیادت جنرل مارک ملی جنرل کینتھ میکینزی اور لائیڈ آسٹن کومخاطب کرتے ہوئے براہِ راست پوچھا:کیاآپ یہ جنگ لڑنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے؟ افغان جنگ کیلئےفوج پرکروڑوں ڈالرکیوں خرچ کئے گئے اور آخرامریکی عوام آپ پرکیوں اعتماد کریں؟اسی طرح ریپبلکن سینیٹر میٹ گیٹزکاکہناتھاکہ شام میں اسدحکومت اب تک برقرارہے،افغانستان میں طالبان اقتدار میں آچکے ہیں ،آپ نے کیاکیا؟جس پرامریکی وزیر دفاع کاکہناتھا کہ شام میں ہماراہدف داعش تھی مگرافغانستان میں ہم نے اشرف غنی حکومت کی مالی،جسمانی اوراخلاقی مددکی مگروہ سراب تھی اورفوراًڈھے گئی۔سینیٹرزکاکہناتھاکہ ہم سے بہت بڑاجھوٹ بولاگیا،اگرہماراصدرناسمجھ نہ ہوتاتوآپ سب لوگوں کوبرطرف کیاجاچکا ہوتا۔
بحث کے دوران سیکرٹری دفاع لائیڈآسٹن نے افغان جنگ میں کرپشن سمیت متعددغلطیوں کابھی اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے افغان حکومت بنانے میں مدددی مگر ہم ایک قوم نہ بناسکے۔۔کمیٹی اراکین کاکہناتھاکہ جنگ کاخاتمہ شرمناک تھا تاریخ میں اسے بڑی ناکامیوں کےطورپریادرکھاجائے گا۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نےکہا کہ دوحہ معاہدے نے طالبان کومضبوط ترکیا،جنگ اُن شرائط پرختم نہیں ہوئی جیساہم چاہتے تھے، یقیناً امریکا افغانستان میں20برس کی جنگ ہارگیا۔طالبان نے امریکاپرحملہ نہ کرنے کی شرط توپوری کی لیکن باقی شرائط کااحترام نہیں کیالیکن یادرہے کہ افغان طالبان ایساہی سنگین الزام امریکاپر بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نےڈیڑھ ہزارسے زائدمرتبہ دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے لیکن اب امریکاایک بارپھراپنے اسی گھسے پٹے الزام کودہرارہاہے کہ ہماری قومی سلامتی کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ طالبان نے کبھی القاعدہ سے روابط ختم نہيں کيے اورنہ ان سے وابستگی ترک کی،اب ہمیں آنکھیں کھول کرطالبان کی نگرانی کرناہوگی۔
تاہم سینیٹ کے اس بل کے بعدگویاپاکستان کوایک بارپھرامریکاکی جنگ میں اتحادی بننے کی بھاری قیمت چکانی پڑرہی ہے۔ایک ایسی جنگ جوکبھی بھی پاکستان کی جنگ نہیں تھی،اس میں امریکاکی مددکرنے میں ہم نے87ہزارجانوں کی قربانی اور160 بلین ڈالرزکے خطیرنقصان کے باوجودپاکستان کوامریکی اتحادی ہونے کی سزاکے طورپرمورد الزام ٹھہراتے ہوئے اپنی تمام ناکامیوں کاملبہ پاکستان پرڈالاجارہاہے حالانکہ خودامریکانے20سال کاعرصہ گزارنے کے باوجود افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں کی۔ان کے مطابق جدیدتربیت یافتہ ساڑھے تین لاکھ افغان آرمی اتنی جلدی کیسے ختم ہوگئی،کیسے موم ہوگئی جبکہ ان کے پاس دنیابھرکے جدید اسلحے کے گودام بھرے ہوئے تھے؟افغان ائیرفورس کاکیابنا؟ان کے پاس جدیدترین جہاز،ہیلی کاپٹرزاوردیگرجدیداسلحہ موجودتھا اوران کے مقابلے میں طالبان کے پاس توکوئی ہیلی کاپٹریاجہازنام کی کوئی چیزہی نہیں تھی؟کیاافغان آرمی اورائیرفورس کے اس طرح ختم ہونے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ ہے؟پھرپاکستان سے طالبان کی قیادت کورہاکرنے کا مطالبہ بھی توامریکاکاتھا؟دوحا میں طالبان سے معاہدہ کس نے کیااوران کی واشنگٹن ڈی سی میں میزبانی کس نے کی؟اس معاہدے کیلئے پچھلے کئی سالوں سے امریکاپاکستان سے مددمانگ رہاتھا۔دونوں فریقوں کوآمنے سامنے بٹھانے کے کردارکےبعدپاکستان توالگ ہوگیاتھا۔اب بس بہت ہوچکاہےاوروہ طاقتیں جو افغانستان میں تھیں ان کوچاہیے کہ پاکستان پرالزامات لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
میری نظرمیں یہ بل امریکاکی اپنی مقامی سیاست کے پس منظرمیں پیش کیاگیاہے اوررپبلکن پارٹی اگلے ایک سال میں ہونے والے وسط مدتی الیکشن کا سوچ رہی ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ابھی اس بل کی حمایت میں صرف22ممبران ہیں اوریہ نہیں کہاجاسکتاکہ رپبلکن پارٹی کے اورکتنے ممبران اس کی حمایت کریں گے اورکیونکہ یہ بل کافی مبہم ہے اوریہ بھی نہیں کہاجاسکتاکہ آگے کیاہوگا اورکب کچھ ہوگا؟اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نائن الیون کے بعدسے امریکامیں خارجہ پالیسی پرکام کرنے والوں کے ذہنوں میں پاکستان کیلئے جارحانہ اورمنفی تاثرات ہیں لیکن اس وقت کے بعدسے آنے والی تمام امریکی حکومتیں پاکستان کی اہمیت کوسمجھتی ہیں ۔یقیناًامریکی حکومت پاکستان پرحددرجہ دباؤڈالے گی لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ وائٹ ہائوس اس بل کووجہ بناتے ہوئے پاکستان کواپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پرمجبورکرے اورپاکستان کی کمزوروکٹ کااستعمال کرے۔جوبائیڈن انتظامیہ یہ کہہ سکتی ہے کہ دیکھیں یہ بل رپبلکن پارٹی نے پیش کیاہے اور اس میں ہماراکوئی لینادینانہیں ہے لیکن آپ بتائیں کہ آپ کیادے سکتے ہیں تاکہ ہم اس کی مدد سے اس بل کوروک سکیں۔
اب عالمی تجزیہ نگاربھی یہ برملاکہہ رہے ہیں کہ پاکستان اورامریکانے جیسے تیسے ایک دوسرے کے ساتھ دودہائیاں گزارتولی ہیں لیکن اب کیونکہ امریکاچین کو اپنا حریف سمجھتاہے اورابھی حال ہی میں اس نے چین کے خلاف”کواڈ”کے بعدانتہائی راست اقدام کرتے ہوئے برطانیہ کی مددسے”آکس”کی تشکیل کرتے ہوئے آسٹریلیاکو ایٹمی جنگی آبدوزوں سے مسلح کرنے کااعلان کیاہے جس کوچین نے بڑی سنجیدگی سے لیتے ہوئے آسٹریلیاکوبڑے کھلے لفظوں میں تنبیہ کرتے ہوئے انڈوپیسفک خطے میں بڑادشمن قراردیاہے۔اس حوالےسے پاکستان کے ساتھ چین کے انتہائی گہرے رشتے ہیں اورسی پیک کی وجہ سے پاکستان اورچین کے مفادات یکساں ہیں۔ اوراسی سی پیک نے”ون روڈانیشیٹو”کادنیاکاسب سے بڑامنصوبہ منسلک ہے جس سے سارے یورپ کی منڈیوں کے ساتھ چین کے براہ راست رابطے شروع ہوجائیں گے اوراسی سی پیک کے ذریعے افغانستان کے راستے روس اورچھ دوسری ریاستوں کے ساتھ براہ راست تجارت شروع ہوجائے گی اوران ریاستوں کابے پناہ تیل اورمعدنیات کے ذخائر بھی اقوام عالم تک پہنچ سکیں گے بلکہ خود افغانستان میں ہزاروں بلین ڈالرکی معنیات جس میں دنیاکے سب سے بڑے لیتھئیم کے ذخائرسے نہ صرف نئے افغانستان کی معیشت اورتعمیروترقی کوفروغ ملے گابلکہ خطے کے ان تمام ممالک مغربی قرضوں کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرلیں گے بلکہ امریکی اورمغربی تسلط سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔پھرامریکاپاکستان سے کس منہ سے دوبارہ تعاون کیلئے دبائوڈالے گاجبکہ دوسری طرف اس نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جھولی میں سب کچھ ڈال رکھاہے اورتیسری بات یہ کہ ابھی تک امریکانے ہرموقع پر پاکستان کوخوب استعمال کرنے کے باوجودصحیح دوستی کاہاتھ نہیں بڑھایا،فائدہ اس نے پاکستان سے اٹھایااورنوازاہندوستان کوہے۔اس لئے مستقبل میں ان دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات غیر یقینی نظرآتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعدسے پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے مطالبہ سامنے آچکاہے کہ وہ طالبان کی حکومت کووقت دیناچاہیے۔ عمران خان نے حال ہی میں دوشنبے میں کہاتھاکہ انہوں نے تمام گروہوں کی نمائندہ حکومت کی خاطر تاجک،ہزارہ اورازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ابتداکردی ہے اورمیری اطلاع کے مطابق طالبان نے اس تجویزکی پذیرائی کرتے ہوئے جلداس پرمثبت عمل کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔اب ضرورت تواس امرکی ہے کہ عالمی برادری طالبان کووقت اوروسائل مہیاکرے توپھرطالبان سے اپنے وعدوں پرعملدرآمد کیلئے زورڈالیں۔تاہم پاکستان طالبان حکومت کومشورہ دے سکتاہے،کسی خاص فیصلے پرمجبورنہیں کرسکتا۔پاکستان پرطالبان کی مددکرنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگرپاکستان کی مدداورحمایت نہ ہوتی توطالبان اتنے طویل عرصے تک کامیابیاں حاصل نہ کرپاتے لیکن یہاں یہ بات یادرکھناضروری ہوگی کہ پاکستان نے طالبان کی مددکیوں کی؟ امریکانے افغانستان کوغیرضروری طورپرپاکستان کے خلاف دہشتگردی کرنے پرنہ صرف اپنی آنکھیں بندرکھیں بلکہ امریکی ناک کے نیچے یہ ظلم وستم کاتماشہ جاری رہا۔مضبوط شواہدکے ڈوزیئر مہیاکرنے کے باوجودامریکااوراس کے اتحادیوں نے انڈیاکوکھلی چھٹی دے رکھی تھی اس لئےپاکستان نے طالبان کوافغانستان کی سرزمین پرانڈیاکااثرورسوخ روکنے کیلئےاستعمال کیااوراس لیے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس خطے کے پشتون قوم پرستی کی جانب مائل نہ ہوں۔تاہم یہ طے ہے کہ امریکااس خطے کومکمل طورپرروس اورچین کوکھلی چھٹی نہیں دے گاجس کیلئے اب بھی پاکستان اس کی مجبوری ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کیلئے اپنے کارڈ کس حکمت سے کھیلتاہے۔
اس بل کے بارے میں یہ بھی واضح کردوں کہ امریکی سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور رپبلکن سینیٹرزکی تعدادبرابرہے(دونوں کے50،50ممبران ہیں ) اورکسی بل کوپیش کرنے اوراس کومنظور کرانے کیلئے اکثریت نہ ہونے کی صورت میں نائب صدرکملاہیرس کاحتمی ووٹ استعمال کیاجائے گا۔امریکی انتظامیہ سے ان معاملات کی تحقیقات کے بعد 180دن میں پہلی رپورٹ پیش کرنےکوکہا گیا ہے۔
ادھراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فاشسٹ مذہبی جنون کا پرچارک نریندر مودی نے دنیاکوسمجھارہاتھاکہ دور حاضر میں رجعت پسند خیالات فروغ پارہے ہیں۔گنجلک مسائل کامعروضی اندازمیں جائزہ نہیں لیاجارہا۔سائنس کے بھرپوراستعمال کے ذریعے ایسی ایجادات پرتوجہ نہیں دی جارہی جو انسانوں کووبا ؤ ں اورموسمی تغیرکی وجہ سے نمودارہوتی تباہیوں سے نبردآزماہونے کے قابل بناسکیں۔اس کاملک مگراس تناظرمیں خوش نصیب ہے۔وہ آبادی کے اعتبارسے دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔وہاں پرہر نوع کے نظریات کے سوپھولوں کواپنی مہکاردکھانے کے مواقع میسرہیں۔ تمام عالم کی خوش حالی اب بھارت میں ہوئی ترقی کی محتاج ہے۔ خودکوروشن خیالی اورجمہوریت کی مجسم علامت کے طورپرمجمع بازوں کی طرح پیش کرتے ہوئے مودی کویادہی نہیں رہاکہ گزشتہ 20برسوں سے وہ ایسی سیاست کاجنونی نمائندہ ہے جوبھارت کو فقط وہاں کی ہندواکثریت کاملک ٹھہراتی ہے۔مسلمانوں اورنچلی ذاتوں کواس نام نہاد جمہوریت میں برابرکاشہری تسلیم نہیں کیاجارہا۔ایسے قوانین متعارف ہوئے ہیں جہاں لاکھوں کی تعدادمیں غیرہندوشہریوں کودستاویزات کے پلندوں سے ثابت کرناضروری ہے کہ وہ واقعتاً بھارت کے قدیم اورپیدائشی شہری ہیں۔مقبوضہ کشمیرمیں محصور لاکھوں انسانوں کی داستان تواپنی جگہ خونچکاں ہے۔
کملاہیرس پاکستانی نہیں،اس کی ماں جنوبی بھارت سے تعلق رکھتی تھی۔باپ کاتعلق افریقہ سے تھا۔وہ ان دنوں امریکہ کی نائب صدر ہے ۔اپنے حالیہ دورہ امریکاکے دوران مودی کی اس سے ایک ملاقات بھی ہوئی۔مذکورہ ملاقات کے بعددونوں نے صحافیوں کے روبرو چند کلمات بھی ادا کئے۔کملاہیرس نے اس موقع پرنہایت ذہانت اورمہارت سے کیمروں کے روبرواعتراف کیاکہ دنیا کوجمہوریت کی برکتوں سے آگاہ کرنے سے قبل امریکااوربھارت کے حکمرانوں کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ پنجابی محاورے والی ڈانگ اپنی چارپائی کے نیچے گھمائیں اورسنجیدگی سے جائزہ لیں کہ ان کے اپنے معاشروں میں جمہوری اقدارکس حدتک مستحکم ہیں۔کملاہیرس کے ادا کردہ خیالات کئی اعتبارسے غیرسفارت کارانہ تھے۔پروٹوکول کے تقاضے امریکی نائب صدرکوایسے خیالات کیمروں کے روبرو بیان کرنے سے منع کرتے ہیں۔خاص طورپراس وقت جب بھارت سے آیاوزیراعظم اس کامہمان ہو۔وہ مگرمنہ آئی بات کہنے سے رکی نہیں۔
مجھے یہ کہنے دیجئے کہ بھارتی وزیراعظم کی موجودگی میں امریکی نائب صدرنے جن خیالات کابرسرعام اظہارکیاوہ نام نہاد’’ذاتی حیثیت ‘‘میں ادانہیں ہوئے۔ کملا ہیرس ہرحوالے سے بائیڈن انتظامیہ کی بھارت کے بارے میں اجتماعی سوچ کوبرسرعام لائی ہے۔اس کے ادا کردہ الفاظ کوکئی مشیروں نے بہت سوچ بچار کے بعدتیارکیا ہو گا۔مودی وزیراعظم ہوتے ہوئے اس کاہم منصب نہیں تھا۔ایسے کلمات صدر بائیڈن کی جانب سے اداہوناچاہیے تھے۔جوپیغام مگربائیڈ ن نے دنیاکے روبرولاناتھا، کملا ہیرس کے ذریعے برسرعام لایاگیا۔
پروٹوکول کے حوالے سے اپنی جونئیرکے منہ سے تلخ حقائق کابرملااظہارسنتے ہوئے مودی نے وہ موٹی چمڑی دکھائی جوانگریزی زبان میں سیاستدانوں کیلئے مختص تصورہوتی ہے۔بددیانتی کایہ عالم کہ کملا ہیرس کے ادا کردہ کلمات کابراہ راست ٹی وی نشریات کیلئے ترجمہ کرنے والی خاتون نے شدھ ہندی استعمال کی اورکملا ہیرس کے خیالات کی اہمیت وشدت ترجمے کی بھول بھلیوں کی نذر کرنے کی کوشش کی لیکن ایک بھارتی صحافی نے اس کلپ کواپنے ٹویٹراکائونٹ پرمنتقل کرکے سارا پول کھول دیا۔سچ بات یہ بھی ہے کہ کملاہیرس کی گفتگو سے قبل جوبائیڈن جیسے انتہائی تجربہ کارسیاستدان نے بھی مودی کی موجودگی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں آزادیٔ صحافت کی حقیقت بھی نہایت مہارت سے بیان کردی تھی۔بھارتی صحافیوں کے سوالات لیتے ہوئے اس نے تسلیم کیاکہ امریکی صحافیوں کے مقابلے میں بھارتی صحافی زیادہ مہذب وفرماں بردارہیں۔ٹرمپ نے بھی ایک باربھارتی صحافیوں کے سوالات لیتے ہوئے ان کی فرماں برداری کا امریکی صحافیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے حسدکااظہارکیاتھاتاہم اس بیانئے میں یہ بتانا مقصودہے کہ کہ کس طرح زرخریدبھارتی میڈیامودی کی جیب میں ہے۔
مودی کی جنرل اسمبلی میں کی تقریراورکملاہیرس کے ادا کردہ کلمات کوبراہ راست سننے کے بعدمیں نے بہت غورسے بھارتی میڈیا میں مودی کے دورہ امریکاکی کوریج کاجائزہ لینااس لئے بھی ضروری ہوگیاتھاکہ میری بڑی مہربان بہن عارفہ کی خوردبین نگاہیں یقیناًمیرے لئے ایسے سوالات کاراستہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں جن کامجھے ہرہفتہ ٹی وی چینل پرجواب دیناہوتاہے۔ان کے مطابق ہرچینل پر’’مودی چھاگیا‘‘کی دھوم مچائی جارہی تھی۔یوں گماں ہورہاتھاکہ کولمبس کے بعد نریندرمودی نے بھی ایک اورامریکادریافت کرنے کے بعداسے اپناگرویدہ بنالیاہے۔کملاہیرس نے بھارتی جمہوریت کی اصل اوقات دکھانے کیلئے جوکلمات برسرعام اداکئے تھے ان کا کہیں ذکرہی نہیں ہورہاتھا۔
بھارت کاایک مشہورصحافی شیکھرگپتامیری عجلت میں ہوئی تحقیق کے مطابق واحدبھارتی صحافی ثابت ہواجس نے کملاہیرس کے کلمات کا اپنے یوٹیوب چینل کے پروگرام”کٹ دا کلٹرز”میں نہایت سنجیدگی اورفکرمندی سے تجزیہ کیا۔یہ حقیقت ہے کہ امریکاکی حکمران اشرافیہ کا ایک مؤثرحصہ بھارت کوچین کے مقابلے کی قوت بناناچاہ رہاہے۔’’مودی-بائیڈن‘‘کو’’بھائی-بھائی‘‘تسلیم کرنے کیلئےامریکاکی ان دنوں حکمران جماعت مگرفی الوقت دل وجان سے تیارنہیں ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے روبروخودکودنیاکا حتمی ترقی پسند اورروشن خیال ثابت کرتے مودی کی مکارانہ تقریراس ضمن میں کسی کام نہیں آئی بلکہ ہندوتواکے جنون کی داستانوں نے سب کوخوفزدہ بنارکھاہے،اوراسی کالک کی سیاہی بالآخردنیاکے سامنے آشکارہوگئی ہے جس کاآغازخودکملاہیرس نے کیاہے۔
اسی تناظرمیں ایک اوراہم خبرجوخطے کی خطرناک صورتحال کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ایک مرتبہ پھرچین اوربھارت کے درمیان حالیہ بیان بازی کے دوران بھارتی میڈیا میں یہ خبربھی سرخیوں میں ہے کہ حال ہی میں چینی فوج بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں کافی اندرتک داخل ہوگئی تھی تاہم مودی حکومت نے اس پرکچھ کہنے کے بجائے خاموشی اختیارکی ہوئی ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق چینی فوج کے تقریبا100گھڑسوارارکان ”ایل اے سی ”سے ”باراہوتی ”کے علاقے میں داخل ہو گئے تھے مگرپھرچندہی گھنٹوں بعدوہ واپس بھی چلے گئے تھے۔
بھارتی میڈیانے بعض دفاعی ذرائع کے حوالے سے لکھاہے کہ وہ اس بات پرحیران ہیں کہ اتنی بڑی تعدادمیں چینی فوجی آخراتنااندر تک کیوں آگئے تھے۔اس علاقے میں بھی بھارت اورچین کے درمیان سرحدکے حوالے سے تنازعہ موجودہے اورماضی میں بھی اس طرح کی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ چینی فوج ان علاقوں میں داخل ہوگئی جہاں عموماًبھارتی فوجی دستے گشت کرتے ہیں۔ڈی ڈبلیوکی ایک رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیاپربہت سے بھارتی شہری تشویش میں مبتلاہیں کہ آخرمودی حکومت اس بارے میں خاموش کیوں ہے؟چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہواچونیئنگ کا”ایل اے سی” کے آرپارکشیدگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہناہے کہ اس کی وجہ بھارت کی موجودہ پالیسیاں ہیں اور جب تک بھارتی حکومت ایسی کارروائیوں سے بازنہیں آتی تب تک ایل اے سی پر تنا ؤ برقراررہے گا۔
بھارت نے سرحد پرکشیدگی سے متعلق چینی وزارت خارجہ کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ انڈیا اپنی فارورڈ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور غیر قانونی طور پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول عبور کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر کشیدگی کی اہم وجہ بڑی تعداد میں فورسز کی تعیناتی ہے اور اس تعداد میں کمی کے بغیر باہمی تنا کم نہیں ہو گا۔ بھارت اور چین کے ان بیانات سے یہ بات عیاں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر تنا ؤکم کرنے کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں ان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور یہ کشیدگی کافی حد تک تاحال برقرار ہے۔ کئی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کشیدگی میں کمی کے بجائے اضافے کا امکان زیادہ ہے۔مودی حکومت تواس محاذپرکشیدگی کا واویلاکرخطے میںامریکااورمغربی اتحادیوں سے اپنی اہمیت اورمفادات کی تکمیل کیلئے ہاتھ پاؤںمارنے کی بھرپورکوشش کرے گالیکن”کواڈ”اتحادمیں شامل کرنے کے باوجود امریکااورمغرب کی خواہشات کے مطابق چین کے سامنے اپنی کمزوری دکھانے پرمودی کی بددیانتی سب پرعیاں ہوگئی ہے۔
گزشتہ برس جب آسٹریلیانے اندوپیسفک میں اپنی نیوی کی پیش قدمی کے موقع پر”کواڈ”معاہدے کی بناء پرمودی کواپنی نیوی میدان میں لانے کی دعوت دی تومودی کوگویاسانپ سونگھ گیاتھاکیونکہ مودی کویہ واضح پیغام مل گیاتھاکہ اس کے نتیجے میں وہ چین کے ساتھ ملحقہ تین ریاستوں سے ہاتھ دھوبیٹھے گااوراس کاعملی نتیجہ وہ لداخ میں بھگت چکاہے جس کیلئے خودبھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں بتایا کہ مشرقی لداخ میں بھارت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ چین غیر قانونی طورپر لداخ کے 38 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اروناچل پردیش میں ہند چین سرحد کے مشرقی حصے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر دعویٰ کررہاہے۔ بھارتی اخبارات کا کہنا ہے کہ بھارت نے مشرقی لداخ میں عملاًچینی بالادستی تسلیم کر لی ہے۔چین نے بھی کمپنی شین جھیک انفوٹیک اورشنہواانفوٹیک کے ذریعے پورے بھارت پر نظر رکھی ہوئی ہے۔بھارتی وزارت داخلہ ، خارجہ اور دفاع کے حکام کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ بھی ہورہی ہے ۔